محب اللہ قاسمی،دلی
افراد سے بننے والا اچھا اور مثالی معاشرہ با اثر شخصیات اور متاثر کن رہ نما پر منحصر ہے۔ معاشرے کے افراد ایسی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں، پھر اسے اپنے لیے رول ماڈل بناتے ہیں۔ اگر معاشرے میں مثالی اور متاثر کن شخصیات نہ ہوں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے اور ان کی باتوں سے لوگ متاثر ہو کر اپنے اعمال و کردار پر توجہ دینے لگیں اور ان کے رویے سے متاثر ہو کر اپنے احوال و معاملات درست کرنے کی طرف راغب ہوں تو معاشرہ پُر امن اور خوش حال نہیں رہتا، وہ اخلاق کے اس معیار کو حاصل نہیں کر پاتا جو ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص کہاں سے آئے گا یا ایسے افراد کہاں ملیں گے؟ تو یاد رکھیں کہ ایسے افراد کسی دوسری دنیا سے نہیں آتے بلکہ وہ سماج کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہی برپا کی گئی ہے چوں کہ مومنین مخلصین و مصلحین کے سامنے زندگی کا ایک نصب العین ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے مقصد حیات کو سمجھتے ہیں، انہیں اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہوتا بلکہ وہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ انسانی زندگی اور اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور انہیں اپنی کمی و کوتاہیوں کا خیال بھی ہوتا ہے۔ وہ صرف فلسفیانہ گفتگو کے قائل نہیں ہوتے بلکہ انہیں علم و عمل کے امتزاج کا پورا ادراک ہوتا ہے، انہیں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ علم، عمل کے لیے ہی ہے۔ محض معلومات اکٹھا کرنا کسی عالم کا مقصد نہیں ہوتا۔ ان خوبیوں کو نکات کی شکل دی جائے جو متاثر کن شخصیت کے لیے ضروری ہیں تو انہیں چند حصوں میں تقسیم جا سکتا ہے۔
خلوص و للّٰہیت
پہلی چیز خلوص ہے۔ کوئی بھی انسان اس وقت تک متاثر کن شخصیت نہیں بن سکتا یا وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنے عمل میں مخلص نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر رکھا گیا ہے، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنی نیت درست کرے تاکہ اس کا جو بھی عمل ہو وہ خالص ہو اور اللہ کے لیے ہو۔ اس میں کسی طرح کی ریا و نمود کی آمیزش نہ ہو۔ مثلاً دوستی ایک فطری اور جذباتی عمل ہے لوگ خوب دوستی کرتے ہیں، مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیر خواہ ہے؟ اس کا راز دار ہے یا یہ دوستی صرف ایک دکھاوا ہے جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟ اسی طرح پڑوسی سے دعا سلام ہے، میل جول ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے؟ یا محض رسماً ادا کیے جانے والے بول ہیں۔ اگر سلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگا اور وہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوں گے۔ کیوں کہ سلام باہمی محبت کی بنیاد ہے۔
اسی طرح ایمانی اخوت اور باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد ایمان اور للّٰہیت پر ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل ایمان باہم اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے مخلص و خیر خواہ ہوں گے۔ ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں متاثر کن ہوتے ہیں بلکہ روز قیامت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ جب کہ الفت و محبت کا دکھاوا کرنے والا شخص جو دل میں بغض و نفرت پالے ہوئے ہو وہ متاثر کن نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ذرا سا بھی ریا کا کوئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پروا کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیتیں متاثر کن رہیں اور وہ دین و دنیا دونوں میں کام یاب ہوئے۔
انکساری و خیر خواہی
انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اسے متاثر کن بنانے میں تواضع و انکساری اور خیر کا اہم کردار ہے۔ انسان جب سامنے والے کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے، اس کے ساتھ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے تواضع کے ساتھ ملتا ہے۔ اسے اپنے علم و عمل اور تقویٰ کا غرور نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے دعوت دے وہ انکار نہیں کرتا، مصیبت و پریشانی میں آواز دے وہ لبیک کہتا ہے۔ کوئی کچھ معلوم کرنا چاہے تو وہ اسے بڑے پیار سے سمجھاتا ہے۔ پڑوس میں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جاتا ہے، کسی کے گھر میں کوئی خوشی کا ماحول ہو تو اسے مبارک باد پیش کرتا ہے، حتی الامکان ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے لوگ اس کے قریب آتے ہیں۔ ایسے تواضع اختیار کرنے والے شخص کی معاشرے میں نہ صرف عزت ہوتی ہے بلکہ وہ ایک متاثر کن شخصیت بن جاتا ہے۔ پھر وہ اصلاح و تربیت کا کام انجام دے تو اس کی باتیں با وزن ہوتی ہیں، جن پر لوگ نہ صرف کان دھرتے ہیں بلکہ اپنے لیے قول فیصل سمجھتے ہیں۔
اس طرح اللہ تعالی معاشرے میں اسے ایک بلند مقام عطا کر تا ہے،جو درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے: وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ للہِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللہ (مسلم) جس نے اللہ کے لیے تواضع و انکساری کی روش اختیار ی ہے اللہ تعالی نے اسے بلندی عطا کی ہے۔
قول و عمل میں یکسانیت
ہر دور میں اس بات کی بڑی اہمیت رہی ہے کہ بندہ جو کہتا ہے، خود بھی اس کا خیال رکھتا ہے یا بڑی حد تک اس کی پابندی کرتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ صرف لوگوں کو نصیحتیں کرتا ہے، اصلاح و تربیت پر زور دیتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے مگر عملی طور پر اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ بلکہ وہ ان باتوں کی پروا ہی نہیں کرتا یا جس کسی معاملے میں وہ خود زد میں آتا ہے وہاں وہ اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی باتوں کا وہ اثر نہیں ہوتا جس سے لوگوں کے دل عمل کی طرف مائل ہو اور وہ بھی ان باتوں سے اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مصلحین و مربیین کی بڑی تعداد میں یہ کوتاہیاں آ گئی ہیں۔نتیجہ معاشرہ میں اس کی اصلاح و تربیت کا وہ اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اسی لیے قرآن پاک میں ایسے شخص کی بڑی سخت سرزنش کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ (البقرۃ:٤٤)
اس حوالے سے ایک دوسری آیت جو بہت مشہور ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ (الصف:2)
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنی عملی کوتاہیوں کے سبب اصلاح کی کوششوں کو چھوڑ دیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عملی میدان میں بھی وہ نمونہ بن کر ابھریں تاکہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ بندے کی باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ انہوں نے جو کہا ہے اور معرفت خدا وندی کی بات کی ہے اس میں خیر ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کی جانب راغب ہونا چاہیے۔ یہی حال علم و عمل کا ہے۔ عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل بھی کرے ورنہ اس کے علم کا نہ تو خود اسے فائدہ ہوگا نہ لوگوں میں وہ عملی نمونہ بن کر ان کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے گا۔ پھر وہ مخرّب الاخلاق (اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے والی چیزوں) برائیوں سے دور رہے گا۔ اس لیے قول و عمل میں یکسانیت ایسے ہی ضروری ہے جیسے علم و عمل میں تبھی انسان متاثر کن شخصیت بن کر ابھرے گا جس کا سماج پر اچھا اثر مرتب ہوگا۔
حکمت و دانائی
حکمت و دانائی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ اللہ نے اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۭ
اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ (البقرۃ:٢٦٩)
حکمت کو مومن کی گم شدہ چیز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مومن کو نادانی اور بے وقوفی کا عمل زیب نہیں دیتا اسی لیے اس کے ہر عمل میں حکمت جھلکتی ہے۔ عام گفتگو سے لے کر بڑے سے بڑے معاملات تک کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تمام چیزوں میں حکمت و دانائی تلاش کرتا ہے، اس کے ذریعہ معاملہ فہمی پر زور دیتا ہے۔ اس لیے وہ صرف ظاہری چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تہہ تک جاتا ہے۔اس میں چھپی حکمت و دانائی کی چیزیں نکال لیتا ہے۔ جس سے معاملہ فہمی صلح و صفائی اور فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی۔ پھر اس کا ہر عمل بے موقع محل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنا ہر کام بر محل اور احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے۔ کئی بار دعوت و تربیت کا عمل بھی بے حکمتی کی نذر ہو کر فتنہ و فساد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے لوگ اس سے قریب ہوتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے معاملات پیش کر کے اس کا حل معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمت سے کوئی کام انجام دیا جائے تو وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، جس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انبیا علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ
( البقرہ ١٥١)
جس طرح ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔حکمت و دانائی ایسا عمل ہے جو انسان کو بہت سی جگہوں پر شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے بے حکمتی کے اقدام کی رسوائی سے بچاتا ہے۔ حکمت کے ذریعہ صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے، عجلت پسندی کے بجائے تحمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور انسان میں اپنے جوہری ہتھیار یعنی قلب و دماغ کے مناسب استعمال کی قوت پیدا ہوتی ہے۔یہ وہ اوصاف ہیں جن سے انسان معاشرے میں نمایاں اور بااثر شخصیت بن کر نہ صرف لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ اصلاح و تربیت کا بہترین عمل بہ حسن و خوبی انجام دینے میں بھی کام یاب ہوتا ہے۔
***
حکمت و دانائی ایسا عمل ہے جو انسان کو بہت سی جگہوں پر شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے بے حکمتی کے اقدام کی رسوائی سے بچاتا ہے۔ حکمت کے ذریعہ صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے، عجلت پسندی کے بجائے تحمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور انسان میں اپنے جوہری ہتھیار یعنی قلب و دماغ کے مناسب استعمال کی قوت پیدا ہوتی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020