مسعود ابدالی
ٹرمپ نے جاتے جاتے امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ آشکار کردیا
شیطان کی آنت کی طرح طویل اور پیچ دیر پیچ امریکہ کے صدارتی انتخابات آخر کار 7جنوری کو صبح چار بجے اختتام کو پہنچے۔ قارئین یقیناً حیران ہوں گے کہ پچاس ریاستوں اور امریکی دارالحکومت سے آنے والے انتخابی ووٹوں کے 51لفافوں کی جانچ پڑتال میں 17گھنٹے کیوں لگے؟ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ تاخیر کا باعث بننے والا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اس ناٹک پر گفتگو سے پہلے حتمی نتائج کی تفصیل ملاحظہ کریں۔سرکاری اور حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن 316 انتخابی ووٹ لے کر امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے۔ ان کے حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 232انتخابی ووٹ حاصل کئے۔ اسی کے ساتھ کملا دیوی ہیرس امریکہ کی 49 ویں نائب صدر چن لی گئیں۔ 78سالہ جو بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین نو منتخب صدر ہیں تو ہیرس صاحبہ کو امریکہ کی پہلی سیاہ فام ہند نژاد خاتون نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔
عام یا پاپولر ووٹوں کو گنا جائے تو صدر ٹرمپ کے 7 کروڑ 42لاکھ (47فیصد) ووٹوں کے مقابلے میں آٹھ کروڑ 13 لاکھ (51فیصد) امریکیوں نے جو بائیڈن کے حق میں رائے دی۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 66.7 فیصد رہا جو گزشتہ ایک سو سال کے دوران ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے 1996 کے انتخابات انتہائی مایوس کن تھے جب صرف 49 فیصد ووٹروں نے پولنگ بوتھ تک جانے کی زحمت گوارا کی تھی۔ ان انتخابات میں بل کلنٹن نے دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی تھی۔
تین نومبر 2020کو صدارت کے ساتھ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور ایوان بالا یعنی سینٹ کی ایک تہائی نشستوں کے انتخابات بھی منعقد ہوئے۔ قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی کنجیاں کھو دینے کے باوجود ایوان نمائندگان (لوک سبھا) کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہی اور 2018 کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کی پارٹی نے اپنے پارلیمانی حجم کو 197 سے بڑھا کر 212 کر لیا۔ اب 435 رکنی ایوان نمائندگان کی 222نشستیں جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹس نے 232 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ واضح اکثریت کے لیے 218 نشستیں درکار ہیں یعنی برسر اقتدار جماعت کو صرف 4 سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔
سینیٹ (راجیہ سبھا) کی 50نشستیں ریپبلکن پارٹی کے پاس ہیں تو بقیہ 50پر ڈیموکریٹس اور ان کے دو آزاد اتحادی تشریف فرما ہیں۔ تاہم بربنائے عہدہ سینیٹ کی صدارت امریکی نائب صدر کے پاس ہے چنانچہ کملا ہیرس صاحبہ پچاس پچاس سے مقابلہ برابر ہوجانے کی صورت میں ’فیصلہ کن‘ (Tie-Breaker) ووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّا پار لگا سکتی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں حکمراں جماعت کو ’تکنیکی‘ برتری حاصل ہوگئی ہے۔ حتمی نتائج کے بعد آتے ہیں 6جنوری کو پیش آنے والے واقعے کی طرف جس نے امریکہ کے سیاسی کلچر بلکہ اس کے بنیادی جمہوری اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔
امریکی دارالحکومت اس سے پہلے بھی حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ واشنگٹن 1814میں بڑی تباہی کا ہدف بنا تھا جب میجر جنرل رابرٹ راس (Robert Ross) کی قیادت میں حملہ آور برطانوی فوج نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ امریکی صدر جیمز میڈیسن اپنے رفقا کے ہمراہ وہاں سے پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔ فرنگی افواج نے امریکی ایوان صدر اور دوسری سرکاری عمارات کے ساتھ امریکی کانگریس (پارلیمان) المعروف Capitol کو بھی نذرآتش کر دیا تھا جو صرف چند سال پہلے ہی مکمل ہوا تھا۔
گیارہ ستمبر 2001المعروف نائن الیون کو بھی امریکی دارالحکومت حملے کا ہدف تھا، جب امریکن ایئر لائنز کی پرواز 77 واشنگٹن کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے ہی اغوا کرلی گئی۔ اغواکاروں نے اس جہاز کو امریکی وزارت دفاع (Pentagon) پر گرا دیا جس سے جہاز پر سوار مسافروں اور عملے کے 64افراد ہلاک ہوئے جبکہ زمین پر فوجی افسروں سمیت امریکی وزارت دفاع کے 125اہلکار مارے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن اغوا ہونے والی یونائیٹیڈ ایئر لائنز کی پرواز UA-93کا ہدف Capitol تھا لیکن مسافروں کی مبینہ مزاحمت کے باعث یہ جہاز پنسلوانیہ میں گر کر تباہ ہو گیا۔ دروغ بر گردن راوی، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بد نصیب طیارے کو امریکی فضائیہ کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے گرایا گیا۔
برطانوی حملے کے تقریباً 206سال بعد بدھ 6 جنوری کو ایک بار پھر Capitol یرغمال بن گیا۔ اس بار غیر ملکی فوج نہیں بلکہ خود امریکی صدر کے اکسانے پر ہزاروں قدامت پسند و قوم پرست مظاہرین کانگریس کی عمارت میں گھس گئے۔ اس وقت 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کی توثیق و تصدیق کے لیے دونوں ایوانوں یعنی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا۔ امریکی نائب صدر بھی وہاں موجود تھے۔ یہ واقعہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کانگریس کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کئی دنوں سے کر رکھا تھے اور مظاہرے میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے ہزاروں لوگ دو دن پہلے سے واشنگٹن پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ اس سے ایک دن قبل ریاست جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں پر ضمنی انتخاب تھا اور کشیدگی کا آغاز پیر 4 جنوری سے ہوا جب صدر ٹرمپ اور نو منتخب صدر جو بائیڈن دونوں اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے کرنے وہاں پہنچے۔ صدر ٹرمپ نے جارجیا کے دیہی علاقے کے طوفانی دورے میں کئی مقامات پر عوام کے بڑے بڑے ہجوم سے خطاب کیا۔ ہر جگہ انہوں نے اپنے حامیوں کو ’سوشلسٹوں‘ کے قبضے سے ڈرایا۔ اپنی تقریروں میں صدرنے عوامی مینڈیٹ کے تحفظ اور غداروں سے ملک بچانے کے لیے جارجیا کے ہر شخص کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر کھڑے رہیں، اس لیے کہ ’غدار گورنر‘ اور جارجیا کے نااہل سکریٹری آف اسٹیٹ عوامی منیڈیٹ کی چوری روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جارجیا کے گورنر اور سکریٹری آف اسٹیٹ دونوں کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے اور گورنر برائن کیمپ نے بھرپور انداز میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔ لیکن صدر ان دونوں پر سخت برہم ہیں۔ سکریٹری آف اسٹیٹ نے نتائج میں کسی بھی قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لیے ووٹوں کی تین بار گنتی کروائی لیکن نتیجہ تبدیل نہ ہوا۔ صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ سکریٹری آف اسٹیٹ انتخابی نتائج کی تصدیق نہ کریں۔ صدر کی گورنر سے ہونے والی ایک بات چیت بھی منظر عام پر آئی جس میں جناب ٹرمپ سخت غصے سے کہہ رہے تھے کہ ’’میرے لاکھوں ووٹ چوری ہوئے ہیں، مجھے بس 11780 ووٹ دلوادو‘‘۔ جارجیا میں جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے 11789 ووٹ زیادہ لیے ہیں۔
جارجیا کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے دونوں نشستوں پر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو ہرا دیا، جس پر موصوف مزید اشتعال میں آگئے اور اپنے کارکنوں کے نام پیغام میں کہا کہ کمزوروں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور اگر ان دھاندلیوں کو خاموشی سے برداشت کرلیا گیا تو پھر ’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
مزے کی بات کہ مبینہ بد عنوانیوں اور انتخابی بے قاعدگیوں کے خلاف صدر ٹرمپ نے امریکی عدالتوں میں 50سے زیادہ درخواستیں دائر کیں لیکن بلا استثنا ان کی تمام انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت میں خارج کر دی گئیں۔ ان کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دینے والوں میں سپریم کورٹ کے وہ تین جج بھی شامل ہیں جن کی تقرری خود صدر ٹرمپ نے کی تھی۔
اس سے پہلے ایک مضمون میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب ایک انتخابی کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج کے ارکان یا الیکٹرز Electors کا چناو عام انتخابات کے نتائج کے مطابق کیا جاتا ہے۔ دسمبر کی 14 تاریخ کو امریکی دارالحکومت اور تمام کی تمام 50ریاستوں میں الیکٹرل کالج کے انتخابات ہوئے تھے جن کی تصدیق کے لیے 6 جنوری کو نائب صدر کی سربراہی میں کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوا۔صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ نائب صدر مائک پینس ’عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے ‘کو ناکام بنانے کے لیے پنسلوانیہ، مشیگن، وسکونسن اور ایریزونا سے آنے والے انتخابی کالج کے نتائج کو مسترد کر دیں۔
نائب صدر نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کا دباو مسترد کر دیا کہ وہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس قواعد و ضوابط کے مطابق چلائیں گے۔ لیکن قدامت پسندوں کے زبردست دباؤ کی بنا پر صدر کے حامی ارکانِ کانگریس نے توثیقی مرحلے کو روکنے کے لیے بھرپور مزاحمت کا عزم ظاہر کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے تیرہ سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کے 140 سے زیادہ ارکان نے مختلف ریاستوں کے انتخابی نتائج کو کالعدم کرنے کی قرارداد سینیٹ سکریٹریٹ کے پاس جمع کرادی۔ اس مہم میں پیش پیش ٹیکساس کے سینٹر ٹیڈ کروز اور مزوری (Missouri) کے سینٹر جاش ہالی تھے۔ یہ دونوں حضرات 2024کے صدارتی انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔
انتخابی ووٹوں کی تصدیق کے لیے کانگریس کا اجلاس ایک بجے دوپہر کو ہونا تھا۔ صدر ٹرمپ کی اپیل پر سخت سردی کے باجود ہزاروں افراد کیپیٹل کے سامنے جمع ہو گئے جہاں فرزند اول ڈونلڈ ٹرمپ جونیر نے ارکان کانگریس کو متنبہ کیا کہ وہ قومی امنگوں کا خون کرنے کی سازش میں شریک ہو کر عوام کے غیض و غضب کا نشانہ نہ بنیں کہ امریکی قوم دھاندلی کے مجرموں کے ساتھ جرم میں شریک ہر فرد کو نشان عبرت بنا دے گی۔ ساڑھے گیارہ بجے جب صدر ٹرمپ جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو عوامی اشتعال عروج پر تھا۔ STOP THE STEAL یعنی چوری روکو کے فلگ شگاف نعروں سے سارا دارالحکومت گونج اٹھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل آتشیں خطاب میں امریکی صدر نے انتخابی دھاندلی کو ملک پر سوشلسٹوں کے قبضے کا نقطہ آغاز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مینڈیٹ کی چوری کو اس بار ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا گیا تو ریپبلکن پارٹی قیامت تک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ جلسے کے بعد ہم کانگریس کی طرف مارچ کریں گے تاکہ ارکان کو عوامی جذبات سے آگاہ کیاجا سکے۔ مزید جوش دلانے کے لیے انہوں نے کہا کہ میں بھی آپ کے شانہ بشانہ رہوں گا۔ تاہم جلسے کے بعد امریکی صدر وہائٹ ہاؤس واپس چلے گئے۔جلسہ ختم ہوتے ہی 30 ہزار سے زیادہ کا مجمع USA, USA کے نعرے مارتا CAPITOL کی طرف رونہ ہوا۔ عمارت کی سیڑھیوں سے سینٹر جاش ہالی نے مُکّہ بنا کر ہجوم کو مزید اشتعال دلایا۔ جاش ہالی صاحب ایک تجربہ کار وکیل اور اپنی ریاست کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔ عمارت کے دروازوں پر مامور پولیس دھکم پیل میں پیچھے ہٹ گئی اور مشتعل ہجوم کئی دروازوں سے اندر داخل ہو گیا۔ بہت سے جیالے دیوار کے ذریعے چھت پر چڑھ گئے۔ اس وقت ایوان کا ماحول کشیدہ تھا اور ایریزونا کے انتخاب کو کالعدم کرنے کے لیے دھواں دھار بحث ہورہی تھی۔ سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ارکان کانگریس کی حفاظت پہلی ترجیح تھی چنانچہ دروازے پر تعینات نفری بھی اندر بلالی گئی جنہوں نے قانون سازوں کو حفاظتی حصار میں لے کر تہہ خانے میں پہنچا دیا۔ داخلی راستہ صاٖف ہونے پر مزید مظاہرین اندر گھس آئے اور دفاتر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ بے قابو ہجوم کے ساتھ مغربی ورجنیا کی ریاستی اسمبلی کے رکن ڈیرک ایونز (Derrick Evans) بھی عمارت میں داخل ہوئے اور فاضل قانون ساز یہ تمام مناظر سوشل میڈیا پر براہ راست دکھاتے رہے۔ حساس مقامات پر بلا اجازت داخلے، ہجوم کو تشدد پر اکسانے اور کارِ سرکار میں مداخلت پر موصوف کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ایک وفاقی جج نے انہیں ذاتی ضمانت پر رہا کرتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا کہ جناب ایون کے خلاف جلد از جلد فرد جرم ترتیب دی جائے۔
اس دوران پولیس کے ایک افسر کو مظاہرین نے دروازے کے دو پٹوں کے درمیان پھنسا دیا، ویڈیو پر اس افسر کی دردناک چیخیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ دوسرے پولیس افسر کو زمین پر گرا کر بری طرح پیٹا گیا۔ پولیس نے بلوے کے دوران ایک پولیس افسر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ معلوم نہیں یہ وہ بدنصیب تھا جسے دروازے میں پھنسایا گیا یا لاٹھی، مکوں اور لاتوں کا نشانہ بننے والا افسر۔ پولیس کی فائرنگ، چھت سے گر کر، دل کے دورے اور بھگڈر میں کچل جانے سے دو خواتین سمیت چار مظاہرین اپنی جان سے گئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر نیم فوجی دستے طلب کر لیے گئے۔ دوسری طرف دارالحکومت کی رئیسہ شہر نے 24 گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ مظاہرین کے منتشر ہونے کے بعد جب صورتحال قابو میں آئی تو تصدیق کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی اور صبح چار بجے تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹوں کی جانچ پڑتال کے بعد انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جس کے فوراً صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں دھاندلی اور بے ایمانی کے شکوہ شکایت کے بعد پرامن انتقالِ اقتدار کی یاد دہانی کرادی۔ امریکی تاریخ کی کامیاب ترین پہلی صدارتی مدت کی تکمیل پر بیس جنوری کو اقتدار نئی انتظامیہ کو منتقل کر دیا جائے گا۔ انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ اقتدار سے سبکدوشی کے بعد بھی امریکہ کو عظیم ترین بنانے کی تحریک المعروف MAGA جاری رہے گی۔یہ تو اس واقعے کی روداد ہے لیکن اس پوری کارروائی کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے کے رویے نے امریکہ کے نظام انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دئے ہیں۔ گزشتہ برس مئی کے مہینے ایک نہتے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے خلاف واشنگٹن میں ہفتوں مظاہرے ہوئے لیکن عمارت کے اندر جانا تو دور کی بات مظاہرین کو بیرونی جالیوں سے بھی دو سو گز کے فاصلے پر رکھا گیا۔ جب صدر ٹرمپ نے قریب واقع گرجا جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو پولیس نے پرامن مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کرکے ان کے لیے راستہ بنایا۔ ان عمارات کے معاملے میں پولیس کتنی حساس ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اکتوبر 2013 میں ایک 34 سالہ سیاہ فام Dental Hygienist مریم کیسی قریبی ریاست کنیٹیکٹ سے گھومنے کے لیے واشنگٹن آئی، گاڑی کی پچھلی نشست پر اس کی 13 ماہ کی بچی اپنے گہوارے میں تھی۔ غلطی سے مریم اس لین میں چلی گئی جو وائٹ ہاؤس کو جاتی ہے۔ داخلے کا گیٹ سامنے آ جانے پر مریم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس وقت تک اس کے لیے لین بدلنا ممکن نہ تھا چنانچہ اس نے اپنی گاڑی کو واپس موڑا جسے ٹریفک کی اصطلاح میں تھری پوائنٹ یو ٹرن کہتے ہیں۔ اسے رکنے کا حکم دیا گیا جو وہ غالباً نہ سن سکی اور موڑ کاٹ کر مرکزی شاہراہ کی طرف رونہ ہوئی۔ اس کا پیچھا کرنے والی مسلح پولیس نے بلا تنبیہ اس پر فائرنگ کی۔ مریم کو سر کے پچھلے حصے اور گردن پر آٹھ گولیاں لگیں۔ کیپٹل کے پاس اس کی گاڑی بے قابو ہو کر پولیس ناکے پر کھڑی رکاوٹ سے ٹکرا گئی۔ جواں سال خاتون موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تاہم بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ مریم کی گاڑی پر بچے کی موجودگی کا نشان بھی لگا تھا۔ انتطامیہ نے واقعے کی ذمہ داری مریم پر عائد کرتے ہوئے فائرنگ کرنے والے تمام افسران کو بےقصور قرار دے دیا۔
کیپیٹل کے اندر جانے والے ہر فرد کو جسم و اسباب کی تلاشی دینی ہوتی ہے اور اس عمل سے ارکان کانگریس بھی مستثنیٰ نہیں لیکن تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین اپنی پشت پر بیگ (back pack) اٹھائے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بہت سے مظاہرین مسلح تھے۔ پلاسٹک کی سینکڑوں ہتھکڑیاں بھی ان کے پاس تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے وہ ’باغی‘ ارکان کانگریس کو یرغمال بنانے کی نیت سے آئے تھے۔ عمارت کے دروازے پر کھڑی گاڑیوں میں پٹرول اور پائپ بموں کا ذخیرہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی دارالحکومت میں جہاں ہر آنے والے پر جدید ترین آلات اور اسکینرز کی مدد سے نظر رکھی جاتی ہے، بموں سے لدی گاڑیاں کیپیٹل تک کیسے پہنچیں؟ امریکی کانگریس نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کئی دنوں سے اپنے حامیوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے رہے تھے اور اس مقصد کے لیے مخلتف شہروں سے خصوصی بسیں چلائی گئیں۔ دارالحکومت واشنگٹں ڈی سی کی رئیسہ شہر (Mayor) محترمہ میوریل باوزر Muriel Bowser نے بتایا کیا کہ انہوں نے دھرنے کے پیش نظر وفاقی حکومت سے نیم فوجی دستے تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ قریبی ریاست میری لینڈ کے گورنر نے انکشاف کیا کہ جیسے ہی صدر ٹرمپ کا جلسہ شروع ہوا رئیسہ شہر نے ان سے صوبائی پولیس اور نیشنل گارڈ (نیم فوجی دستہ) بھیجنے کی درخواست کی جس پر انہوں نے فوری طور پر اپنی ریاست کے گارڈز کو دارالحکومت جانے کا حکم دیا لیکن کمانڈر نے بتایا کہ انہیں امریکی فوج کی طرف سے کوچ کی اجازت نہیں ملی۔ دس جنوری کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے محترمہ موریل نے دارالحکومت کو ریاست کا درجہ دینے اور وفاقی نیشنل گارڈ کی کمان فوری طور پر شہری قیادت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کو 6 جنوری کے ہنگامے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔ پولیس کی نا اہلی پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے موریل صاحبہ نے واشنگٹن کے پولیس سربراہ اسٹیون سنڈ (Steven Sund) سے استعفی بھی لے لیا۔
امریکہ کی سیاسی قیادت مئیر صاحبہ کے تجزیے سے متفق ہے اور سینیٹ کے نئے قائد ایوان چک شومر نے صدر ٹرمپ کے رویے کو دماغی خلل قرار دیتے ہوئے ان کی معزولی کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے نائب صدر سے کہا ہے کہ وہ 25ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں اختیارات سنبھال کر صدر ٹرمپ کو گھر بھیج دیں۔ سینیٹر شومرانے دھمکی دی ہے کہ اگر وفاقی کابینہ اور نائب صدر نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو وہ معزولی کی قرارداد سینیٹ میں پیش کریں گے، اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ کے ساتھی بھی ان سے لا تعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وزیر مواصلات (Transportation) محترمہ ایلین چاو مستعفی ہو گئیں۔ ایلین چاو صاحبہ سینیٹ کے قائد ایوان مچ مک کانل کی اہلیہ ہیں۔ اس کے دوسرے دن وفاقی وزیر تعلیم بیٹس ڈیوس نے استعفی دے دیا۔ محترمہ ڈیوس بدنام زمانہ بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کی ہمشیرہ اور صدر ٹرمپ کی نظریاتی حلیف ہیں۔
امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی سے بات کر کے جنرل کو بتا دیا کہ صدر ٹرمپ کا دماغی توازن درست نہیں اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں فوج کے کماندار اعلیٰ کی حیثیت سے وہ غیر ذمہ دارانہ عسکری مہم جوئی نہ کر بیٹھیں۔ اسپیکر صاحبہ کا کہنا تھا کہ انہیں جوہری ہتھیار کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ابلاغ عامہ نے صدر ٹرمپ کے دھرنے کا بائیکاٹ کیا اور فاکس نیوز کے علاوہ کسی چینل نے صدر کی تقریر براہ راست نہیں دکھائی۔ ٹویٹر اور فیس بک نے صدر کے کھاتے (اکاونٹ) معطل کر دئے ہیں۔
واشنگٹن کے ہنگامے پر رد عمل یقیناً فطری ہے لیکن ہمارے خیال میں بعد از خرابی بسیار یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی نفرت کی شاہراہ سے کیا تھا۔ وہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے رہے اور صاٖف صاٖف کہا کہ برسر اقتدار آتے ہی وہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دیں گے۔ وعدے کی تکمیل میں انہوں نے 6 مسلم ممالک کے ویزوں پر پابندی لگا دی۔ اس متعصبانہ قدم کو سپریم کورٹ نے توثیق سے سرفراز کیا۔ صدر ٹرمپ ہسپانوی تارکین وطن کو rapist، غنڈے، جرائم پیشہ، قاتل اور منشیات فروش قرار دیتے رہے لیکن نہ تو ٹویٹر نے کوئی کارروائی کی نہ فیس بک نے انہیں کوئی تنبیہ جاری کی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا مرے کو سو درے لگا رہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ جناب ٹرمپ کا باب اب بند ہو چکا ہے اور وہ صدارتی فرمان کے ذریعے ان اداروں کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کر سکتے تو اب فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ یوٹیوب کے ’ضمیر کی خلش‘ بھی اب نا قابل برداشت ہو گئی ہے۔
بلیک لائیوز میٹر (BLACK LIVES MATTER) کے رہنماؤں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر چھ جنوری کو قوم پرست گوروں کے بجائے سیاہ فاموں کا ہجوم کانگریس کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کرتا تو انہیں روکنے کے لیے گولیاں نہیں ان کے خلاف بم اور میزائل استعمال ہوتے اور پینٹاگون جو نیشنل گارڈ بھیجنے سے ہچکچا رہا تھا، ٹینک، بکتر بند اور توپخانہ طلب کرلیتا۔
نسلی تعصب کے ذمہ دار صرف صدر ٹرمپ نہیں۔ رنگداروں، مسلمانوں اور دوسری لسانی و سماجی اقلیتوں سے امتیازی سلوک امریکی معاشرے کے رگ وپے میں سمایا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ ہر خرابی کا منبع صرف سیاہ فاموں کو سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی کہ ہند وپاک سے آئے ہوئے پلاسٹک امریکیوں کی بڑی تعداد بھی اسی خیال کی حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی حفاظت پر تعینات پولیس نے سفید فام ہجوم کی راہ میں کوئی خاص مزاحمت نہیں کی کہ انہیں ’مہذب‘ گوروں سے کسی شرپسندی کی توقع نہ تھی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بس ’خود کردہ را علاج نیست‘ والی بات ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]
***
25 ویں ترمیم کیا ہے؟
امریکہ میں پچیسیویں ترمیم کے استعمال کا مسئلہ گزشتہ سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ کو کورونا وائرس لاحق ہونے کے بعد زیر بحث آیا تھا اور کیپٹل ہل پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس پر بحث جاری ہے۔ پچیسویں ترمیم کو منظوری 1967 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے چار سال بعد دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صدر کے ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو جانے پر صدارتی جانشین کا تعین کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کے باعث صدر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہو تو نائب صدر قائم مقام صدر بن سکتا ہے۔ ترمیم کا جو حصہ زیرِ بحث ہے وہ اس کی شق چار ہے جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت مل کر صدر ٹرمپ کے بارے میں اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہے۔ اگر صدر ٹرمپ کے اختیارات سلب کر لیے جاتے ہیں تو مائیک پینس قائم مقام صدر بن جائیں گے۔ انہیں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے اسپیکرز کو ایک دستخط شدہ خط بھیجنا ہوگا جس میں صدر کو حکومت کے لیے نا اہل یا پھر ’اپنے عہدے کی ذمہ داریاں اور اختیارات کے استعمال‘ سے معذور قرار دیا جائے گا۔ اس طرح نائب صدر مائیک پینس خود بخود اختیارات حاصل کر لیں گے۔ صدر کو ایک تحریری ردِ عمل دینے کی پیشکش کی جاتی ہے اور اگر وہ اپنے خلاف اس الزام کو چیلنج کریں تو فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کانگریس پر آ جاتی ہے۔ صدر کو ہٹانے کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی کسی بھی ووٹنگ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، تب تک نائب صدر ہی بطور صدر کام کریں گے۔ سنہ 2002 اور 2007 میں صدر جارج بش اپنے نائب صدر کو اختیارات تفویض کر دیا کرتے جب انہیں اپنی بڑی آنت کے معمول کے معائنوں کے لیے بے ہوش کیا جاتا۔ صدر رونلڈ ریگن نے بھی 1985 میں یہی کیا تھا جب انہیں کینسر کی سرجری کے لیے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ مگر آج تک کسی صدر کو پچیسویں ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے مستقل طور پر نہیں ہٹایا گیا ہے۔
نسلی تعصب کے ذمہ دار صرف صدر ٹرمپ نہیں۔ رنگداروں، مسلمانوں اور دوسری لسانی و سماجی اقلیتوں سے امتیازی سلوک امریکی معاشرے کے رگ وپے میں سمایا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ ہر خرابی کا منبع صرف سیاہ فاموں کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی حفاظت پر تعینات پولیس نے سفید فام ہجوم کی راہ میں کوئی خاص مزاحمت نہیں کی کہ انہیں ’مہذب‘ گوروں سے کسی شرپسندی کی توقع نہ تھی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021