اسلام کی دعوت: فریضہ، آزادی اور احتیاط

عزیمت اور حکمت دعوتی میدان کے اہم تقاضے

محی الدین غازی

 

دین اسلام کی دعوت مسلمانوں کا قومی مشن نہیں بلکہ ان پر اللہ کی طرف سے عائد کیا ہوا فریضہ ہے۔ اس فریضے کی ادائی ہر حال میں لازم ہے، خواہ حالات سازگار ہوں یا ناسازگار۔ اس فریضے کی ادائی میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے خیر مضمر ہے۔ اسلام کا داعی انسانوں کے لیے خیر خواہی سے سرشار ہوتا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ دور حاضر میں مذہب کی دعوت اور اس کی قبولیت کی آزادی کو انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ حق ہے جو انسانوں کو ان کے رب کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ انسانی حکومتیں کبھی اس حق کو چھین لیتی ہیں اور کبھی بحال کر دیتی ہیں۔ جب وہ یہ حق چھینتی ہیں تو ظلم کرتی ہیں اور جب بحال کرتی ہیں تو عدل کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ بہرحال یہ انسانوں کا فطری اور بنیادی حق ہے جسے سلب کرنے کا اختیار نہ کسی حکومت کو ہے اور نہ ہی عوام کی کسی اکثریت کو ہے۔
دین اسلام کی دعوت کا فریضہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ ہے اور مذہبی آزادی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں دعوت دین کی آزادی کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں سے ایک چیلنج یہ پروپیگنڈا ہے کہ یہ لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے غیر اخلاقی حربے اور طریقے اختیار کرتے ہیں۔ دعوت کی آزادی پر قدغن لگانے کے لیے اس الزام کا استعمال کیا جاتا ہے کہ اس دعوت کے ہمراہ خوف اور لالچ کے عنصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا عام لوگوں کے ذہنوں کو بگاڑنے میں بڑا رول کرتا ہے کیوں کہ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ اگر دین کی دعوت انسان کا حق ہے تو خوف اور لالچ کے ذریعہ دین بدلنا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
موجودہ حالات میں یہ بات اچھی طرح سمجھنے اور سب کے سامنے واضح کرنے کی ہے کہ خوف اور لالچ کے ذریعے یا کوئی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرکے دین کی دعوت دینا خود اسلام میں بھی منع ہے اور داعیان دین اس ضابطے کی پابندی از خود کرتے ہیں خواہ کسی ملک کا قانون انہیں پابند کرے یا نہ کرے۔ قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے بھی صاف صاف بتایا کہ ہجرت وہی قابل قبول ہے جو اللہ کے لیے کی جائے۔ جو ہجرت دنیا کی خاطر اور کسی عورت سے شادی کے لیے کی جائے وہ قابل قبول نہیں ہے۔
دراصل دین ایسی چیز ہی نہیں ہے جس میں زبردستی کی جائے، خاص طور سے دین اسلام تو اپنے آپ کو پورے طور پر اللہ کے حوالے کردینے اور آخرت کے لیے یکسو ہوجانے کا نام ہے اس لیے اس میں کسی دنیوی محرک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
اسلام کی اس خصوصیت کی وجہ سے اسلام کی دعوت دینے والے کبھی زور زبردستی یا خوف اور لالچ کا استعمال نہیں کرتے۔ اسلام کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے اور زمانہ حاضر میں ہونے والے دعوت دین کے ذریعے قبولیت اسلام کے تمام واقعات اس پر شاہد ہیں۔
بہرحال اگر دین کی دعوت پر روک لگانے کے لیے اس طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں یا مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کی پروپیگنڈا مہم چھیڑی جاتی ہے تو دین کی دعوت دینے والوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ احتیاط بڑھائیں۔ اللہ کے دین کی طرف اللہ کے بندوں کو بلانا تو اللہ کی طرف سے فرض ہے، اس سے نہ کوئی روکنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی کسی کے روکنے سے رکنا جائز ہے۔ تاہم ایسی تمام تر احتیاط اختیار کرنا ضروری ہے جس سے اس طرح کا الزام لگانے کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
یاد رہے کہ دین کی دعوت اس طرح کی سازشوں سے کبھی محفوظ نہیں رہی ہے لیکن داعی حق کی حکمت ودانائی اور دعوت کی پاکیزگی اور بلندی ان سازشوں کو ناکام کرتی رہی ہے
احتیاط کا مطلب بعض لوگ رک جانا یا سست ہوجانا سمجھتے ہیں، احتیاط کا مطلب رک جانا یا رفتار کم کردینا نہیں ہے، احتیاط کا مطلب اپنی مناسب رفتار کار کو برقرار رکھتے ہوئے سنجیدگی اور بیدار مغزی کو بڑھا لینا ہے، جس کی سب سے زیادہ ضرورت دعوت کے میدان میں پیش آتی ہے۔
موجودہ حالات دعوتی میدان میں عزیمت اور حکمت دونوں کا شدید مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض واقعات سے متاثر ہوکر دعوت کے میدان کو چھوڑ دینا کسی طرح درست نہیں ہے، ایک مومن کے دل میں تو اس طرح کی فرار کا خیال بھی نہیں آنا چاہیے۔ البتہ ان واقعات سے تحریک پاکر اپنی احتیاط کو بڑھا دینا یہ حکمت ودانائی کا تقاضا ہے۔
( مدیر زندگئی نو، نئی دہلی)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021