اسلام کا مثالی خاندان اور اس کی عملی اقدار

ڈاکٹرتمنا مبین اعظمی

 

خاندان سماج کی ایک اہم اور بنیادی اکائی ہے ، یہ جتنی مضبوط ہوگی سماج اور معاشرہ اتنا ہی مضبوط اور خوش حال ہوگا۔ جب اور جس قدر خاندان میں بکھراؤ اور انتشار ہوگا اتنا ہی اثر سماج اور اس کے تمام اداروں پر پڑے گا اور پھردھیرے دھیرے اسے کھوکھلا کرتا چلا جائے گا۔ آج کے زمانے کا سب سے اہم سماجی مسئلہ خاندان کا انتشار ہے۔ موجودہ دور کے مد نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہترین کام جو ایک آدمی اپنے سماج اور ملک کے لئے کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مضبوط خاندان کی تعمیر و تشکیل کےعمل کی کوشش کو پروان چڑھائے اور نئی نسل کو ملک کی فلاح و بہبود کے لئے تیار کرے۔ اگر کسی سماج کے باشعور لوگ اس کام پر لگ جائیں تا یقینا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
خاندان کی تشکیل میں اخلاقیات کی اہمیت
خاندان کے اندر، اس کے خاص ماحول میں انسان کی تربیت ہوتی ہے۔ اپنی اقدار و روایات اور فکری امتیازات کو آنے والی نسل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ خاندان کاہر فرد مستقل بڑوں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہیں بچوں کی تربیت ہوتی ہے، نوجوانوں کی ترغیب و تنبیہ ہوتی ہے۔ ان کی تعریف بھی ہوتی ہے اوران پر تنقید و گرفت بھی، حوصلہ بھی بڑھایا جاتا اور تجاویز و مشورے بھی دیے جاتے ہیں، صحیح و غلط میں تمیز بھی سکھائی جاتی، آدابِ زندگی بھی، بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ اور چھوٹوں کے بڑوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔ یہ ساری باتیں بالواسطہ اور بلا واسطہ حاصل ہوتی ہیں۔
خاندان میں بلند اخلاقی قدروں کا وجود اور استحکام نہایت ضروری ہے کیونکہ خاندان انسانی زندگی، اس کے رویوں اور اس کی فکر کا تشکیلی سانچہ ہے۔ ایک فرد کی بہتر سماجی ومعاشرتی کارکردگی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے؟ اگر وہ گھر پر سکون ہے اور انسان وہاں اطمینان اور فرحت و الفت پاتا ہے تو وہ باہری دنیا میں بھی اسی کا پیغام بر اور یہی کچھ بانٹنے والا بھی رہے گا اور اپنی سماجی و معاشی زندگی میں بہتر طور پر کام بھی کر سکے گا۔ لیکن اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو تو وہ گھر نہ تو سماج میں خوشیاں بانٹنے والا بن سکے گا اور نہ ہی ذاتی زندگی میں اپنے فرائض کی انجام دہی بہتر طور پر کرسکے گا۔ اس لئے گھر میں اچھا ماحول بنا کر رکھنا اور اعلیٰ اخلاقی اور اسلامی قدروں کو عملی زندگی میں نافذ کرنا اور فیملی کے لوگوں کا باہم دیگر مضبوط تعلق نہایت ضروری ہے۔
اچھے اخلاق کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔اچھے اخلاق کے سلسلے میں نبی کریم کی حدیث ہے کہ ’’ ایمان والوں میں کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سے وہ لوگ سب سے بہتر ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ سب سے اچھے ہوں۔‘‘
دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا: ’’کامل ترین ایمان والوں میں سے وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور جس کا برتاؤ اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے نرم ہو۔‘‘
یہ دونوں حدیث قریب ترین رشتے داروں کے ساتھ اچھے برتاؤکرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جو رشتے میں جتنا قریب ہو گا وہ ہمارے حسن سلوک کا اتنا ہی زیادہ حق دار ہو گا۔
خاندان کو مضبوط کرنے والی چیزیں:
(۱) الفت و محبت: محبت ایک فطری جذبہ ہے جو فطرت نے خونی رشتوں میں ودیعت کر رکھا ہے ۔ عموما گھروں میں والدین، بھائی بہن اور ان کے بچے رہتے ہیں۔اگر گھر کا ہر فرد دوسرے سے محبت کرے تو یقینا بہت سی پریشانیاں اور خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
(۲) ایک دوسرے کا خیال رکھنا: ایک گھر میں رہنے والوں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ تکالیف اور پریشانیوں میں ساتھ دیں۔ کوئی مریض ہو تو دوا علاج کا مناسب بندوبست ہو ، ساتھ ہی کاموں سے فرصت دیں، زیادہ سے زیادہ آرام دینے کی کوشش کریں۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں لیکن رشتوں کو جوڑ کر رکھنے میں نہایت ہی معاون ہوتی ہیں۔
(۳) مال خرچ کرنا: ہمارے مال پر اپنوں کا حق ہوتا ہے ۔اگر فیملی میں کوئی محتاج ہو تو اس کی حاجت کو بنا جتائے پورا کرنا مالدار کی ذمہ داری ہے اور رشتوں کا تقاضا بھی۔
(۴) حسن سلوک کرنا: خاندان میںایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنا معاشرتی اخلاقیات کا بھی حصہ ہے اور اسلام اسی تعلیم کو جو آخرت کی زندگی میں بڑی نیکی بن کر سامنےآئے گی۔ بہ صورت دیگر یہ حقوق العباد میں کوتاہی کا سبب بن کر ہماری آخرت کو تباہی کا بھی سبب ہوسکتا ہے۔ حسن سلوک میں احسن طریقے سے دیکھ بھال، در گزر،ایثار اور تمام معاملات میں بھلائی کا برتاؤ شامل ہے چاہے آپ کے ساتھ ویسا سلوک نہ ہو رہا ہو۔
(۵) عدل و انصاف کرنا: اگر کوئی ایسے حالات آتے ہیں کہ فیصلہ لینے کی ضرورت ہو تو عدل سے کام لینا اور قریبی رشتے داراور دور کے رشتے دار میں تفریق نہ کرنا۔خاندان کے معاملات میں عدل و انصاف کا قیام خاندان کے استحکام کی ضمانت بھی ہے اور استحکام کا ذریعہ بھی۔
(۶) اختلاف کی صورت میں صلح: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فیملی میں اختلافات جنم لے لیتے ہیں جو بہت فطری اور عام سے بات ہے۔ ایسے میں جھگڑے کو طول دینے کے بجائے معاملہ کی تہ میں جاکر غلط فہمیوں کا ازالہ اور افراد کے درمیان صلح صفائی کرا دینا دلوں کو جوڑتا ہے۔اس کے برخلاف اس معاملہ میں کوتاہی دھیرے دھیرے خاندان کی مستحکم بنیادوں کو بھی جلا دیتی ہے۔
آپس کے جھگڑے خواہ وہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ نظر آتے ہوں خاندان کو توڑنے اور ایک دوسرے سے دور کرنے میں ان کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ کیونکہ نزاع میں آدمی عام طور پر اپنی غلطی محسوس نہیں کر پاتا اور وہ دوسروں پر زیادتی اور نا انصافی کر بیٹھتا ہے اور اسے اپنی فتح سمجھتاہے۔جھگڑے کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خاندان میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور دشمن کو غالب ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔رعب و دبدبہ، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خاندان کے افراد میں ایک دوسرے کے لیے خدمت کا جذبہ اور اپنے حق کے حصول کے بجائے دوسروں کے لیے ایثار و قربانی، خواہ وہ اپنے ذاتی جذبات کو کچل کر ہی کیوں نہ ہو، انجام دی جائے۔ وہ خاندان جہاں یہ جذبہ وافر مقدار میں موجود ہو باہمی تنازعات سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح نیکی کے معاملات میں ایک دوسرے کا تعاون اور مدد کرنا ایسی خوبی ہے جس کے مظاہر ہم عملی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ نیکی میں تعاون اور برائی کے معاملہ میں تنبیہ اور باز رہنے کی تلقین وہ چیز ہے جو دنیا میں بھی نیکی سے ہم کنار کرتی ہے اور آخرت میں بھی اجر کا باعث ہوگی۔
خاندان کو کمزور کرنے والی چیزیں
خاندان کو مضبوط کرنے والی باتوں کے ذکر کے ساتھ ہی ان باتوں کا ذکر بھی مناسب ہے، جو جانے ان جانے میں ہمارے خاندانی نظام کی کمزوری کا سبب بن سکتی ہیں اور بن ہی جاتی ہیں۔
(۱) سنی سنائی بات پر اعتبار کر لینا:عام طور پر کچھ لوگ کان کے کچے ہوتے ہیں سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرکے فوری فیصلہ لے لیتے ہیں جس سے لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد پیدا ہو جاتا ہے ۔اس سے دلوں میں دراڑیںپڑ جاتی ہیں اور فیملی میں اختلاف و نفاق جنم لے لیتا ہے۔
(۲) مذاق اڑانا: یہ ایک عمومی بیماری ہے جس کا پایا جانا یا پیدا ہوجانا ہر فیملی میں ممکن ہے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، طنز و تشنیع کرنا،برے القاب دینا وغیرہ۔ایسی برائیاں ہیںجو کبھی تو ہم گہرے تعلق اور محبت کی بنیاد پر کرتے ہیں اور احساس نہیں کرپاتےاور بعض ناپسندیدگی کے سبب ایسا کربیٹھتے ہیں۔ اس منفی بات سے اجتناب ہر دو صورت میں یقینی اور ضروری ہونا چاہیے۔ عام طور پر اسے معمولی سمجھا جاتا ہے حالانکہ دلوں کو توڑنے اور رشتوں میں دوری پیدا کرنے میں ان خامیوں کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔
(۳) عیب لگانا: بعض اوقات خاندان کے افراد ایک دوسرے پر عیب لگایابیٹھتے ہیںیا عیبوں کی تشہیر کی جاتی ہے جو نہایت بری بات ہے۔ اس سے باہمی تعلقات تو خراب ہوتے ہی ہیں آخرت کے انجام کے اعتبار سے بھی یہ چیز بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں اس سے سختی سے روکا گیا ہے۔
(۴) بد گمانی اور تجسس: جس فیملی میں لوگ ایک دوسرے سے متعلق اچھا گمان نہیں رکھتے اور رویوں اور باتوں کی حسن توجیہ نہیں کرپاتے وہاں شکوے شکایات اور بعد میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ بدگمانی تعلق اور محبت کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو اس لیے اس سے بچنا اور افرادِ خاندان کو بچانا لازمی ہے۔
اس طرح تجسس کا معاملہ ہے۔کسی کی ٹوہ میں لگے رہا جائے۔یہ ایسی برائی ہے جس سے قرآن پاک میں منع کیا گیا ہے۔ اس سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اورساتھ ساتھ بہت سی بد گمانیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ۔
اسی طرح پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرناہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جس میں انسان بڑی آسانی سے گرفتار ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس بات سے اہلِ ایمان کو آگاہ کیا ہے۔اس برائی کو مردار کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی۔ یعنی یہ کام اتنا گھناؤنا اور ناپسندیدہ ہے ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲ (الحجرات:12)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے ۔‘‘
اہلِ خاندان کو یہ بات بتانے اور سمجھانے کی ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کی دلجوئی اور باہمی محبت و الفت کو اپنائیں گے تو ہمیں خود بھی سکون حاصل رہے گا اور اللہ بھی خوش ہوگا۔ اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ہمیں حرص، بخل اور تنگ دلی سے بچنے اور اہلِ قربت پر مال خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہماری سخاوت اور مالی تعاون کے سب سے زیادہ حق دار ہمارے قریبی رشتہ دار اور اہلِ خاندان ہیں جب ایسا ہے تو ہمارے اہلِ خاندان پر ترجیحی بنیادوں پر ہمارا مال خرچ ہونا چاہیے اور ان کے درمیان یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بخیل اور تنگ دل واقع ہوئے ہیں۔
اسلام کے مطابق اگرچہ ہر انسان اس دنیا میں آزاد پیدا کیا گیا ہے لیکن وہ حقوق و ذمہ داریوں سے باندھ دیا گیا ہے اور ان ذمہ داریوں سے کوتاہی کی صورت میں اسے اللہ کے حضور جواب دینا ہو گیا۔لہٰذا حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اور افرادِ خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات کے بارے میں نہایت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر فیملی میں مثبت اور تعمیری سوچ کو اپنایا جائے اور منفی رویوں سے دور رہا جائے تو یقینا تعلقات نہایت ہی خوش گوار اور لوگوں کے دل باہم جڑے رہیں گے جس سے ایک بہترین اسلامی خاندان وجود میں آ سکے گا اور اس کو دیکھ کر لوگ مثال پیش کریں گے۔ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021