اسلامی خاندانی اقدار کی نظریاتی اور عملی تبلیغ

محمد عبد اللہ جاوید

 

انسانی حیات کی ترقی وبقاء کے لئے اسلام جس صحت مند تہذیب کو فروغ دیتا ہے اس میں اعلی وارفع اقدار سے مزین خاندانی نظام بھی شامل ہے۔خالق کا عطاکردہ یہ نظام‘ انسانی فطرت اور اس کی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کیلئے موزوں تر ہے۔دورِ حاضر میں مشرق و مغرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خاندانی نظام کا بکھرائو ایک جان لیواسماجی ہی نہیں قومی مسئلہ بن چکا ہے۔اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ کسی مضبوط نظریہ اور اصولوں کے بغیر خاندانی نظام کا چلنا ہے۔ سماج میں روز بروز رونما ہونے والی معاشی، سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کو انگیز کرتے ہوئے خاندانی شیرازے کو بکھرنے سے بچانا، اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کہ ایک ٹھوس نظریہ اور مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر خاندان کی بنیادیں استوارہوں یا کی جائیں۔اس تناظر میں ہم دنیا کے سامنے اسلامی خاندانی نظام کی پائیدار بنیادوں سے متعلق حیات آفریں نظریاتی اور عملی تعلیمات پیش کرسکتے ہیں۔
خاندان،سماج سے – سماج،خاندان سے
شروعات،خاندان کے مقصد وجود سے کرتے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج بنتا ہے۔جیسے فرد کے بغیر خاندان ممکن نہیں ویسے ہی، خاندان کے بغیر سماج ممکن نہیں۔لیکن جب بات ایک مثالی سماج کی ہو تو اس کی بنیاد میں ایک مثالی فرداورخاندان کا ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔یوںسمجھیں کہ فرد اور خاندان، سماج کی دو آنکھیں ہیں۔سماج کا اپنا حال دیکھنا، ماضی کا جائزہ لینا اور بہتر مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کرنا، اس کی صحت مند قوت بینائی پر منحصر ہوتا ہے۔جس قدر فرد اور خاندان کمزور ہوگا اسی قدر سماج کی قوت بینائی بھی متاثر ہوگی۔ سورۃ الفرقان کی آیت ۷۴ کی روشنی میں ایک مثالی خاندان کے خدوخال اور اس کے مشن سے متعلق تفصیلات جاننے سے پہلے آئیے ذیل میں درج چار اہم امور پر گفتگو کرلیں۔ مقاصد خاندان کے صحیح فہم وشعور اور اس کے نظریاتی اور عملی پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے موجود ہ صورت حال معلوم کرنا ضروری ہے ۔
(الف) دائرہ کا ر کا صحیح شعور
اسلام نے ایک مثالی خاندان سے مثالی معاشرہ کے سفر کے لیے، مثالی انسانی شخصیت کے خدوخال، اسی کے شایان شان بیان کئے ہیں۔یہی خاندان کی اصل بنیاد ہیں۔انسان چونکہ مکرم اور مشرف ہے،اس لئے اس کے دائرہ اثر میں رہنے والی ہر چیز اسی عزت وتکریم کا پرتو ہوگی، وہ خود بھی اور اس کا گھر اور خاندان بھی۔ ہر وہ عمل جس سے زمین میں فساد رونما ہوتا ہو اور ظلم ہوتا ہو، سخت ناپسندیدہ ہے۔ لہٰذابھلائی اسی میں ہے کہ انسان اپنے حقیقی مقام اور منصب سے خوب اچھی طرح واقف ہوجائے۔ وہ درحقیقت، زمین پر اپنے خالق کا نائب اور اسی کی مرضی کو نافذ کرنے والا۔ وہ زمین کو ہر طرح کے فتنہ وفساد سے پاک کرنے والا بھی ہے۔ اس لیے کہ اس کو علم کی بنیاد پر سیلم فطرت عطا کی گئی ہے۔اس فطرت کا عین تقاضہ ہے کہ وہ زمین پر صرف اپنے خالق ہی کا نائب بن کر رہے اور وہی کرے جو خالق کی مرضی ہو۔
انسان کی اس سلیم فطرت کو مرد اور عورت، دونوں میں بغیر کسی تفریق اور تقسیم کے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔اسلام کے عطا کردہ مرد اور عورت کے حقوق، گویا وہ آئینہ ہے جس کے ذریعہ ہر انسان اپنی حقیقی فطرت سے واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ آئینہ جیسے صاف وشفاف اور مبنی بر حقیقت ہوتا ہے بالکل و ہی معاملہ ان حقوق کا ہے جو مرد اور عورت کو ان کے اپنے اپنے میدان کار اور ذمہ داریوں سے واقف کراتے ہیں۔
مردکو نظام خاندان میں قوام کی حیثیت حاصل ہے۔(النساء:34)مرد کی قوامیت سے مراد، خاندانی پس منظر میں ذمہ داریوں کی ادائیگی لی جانی چاہیے۔ رہی بات دنیا کی، جہاں مرد وعورت اپنے خالق و مالک کی فرمانبرداری کررہے ہیں، دونوں ایک ہیں۔ اعمال کی انجام دہی میں مردکی قوامیت کا زیادہ عمل دخل نہیں رہتا۔جو بھی نیک عمل کرے گا، مرد ہوکہ عورت، اس کو اللہ تعالیٰ اپنے اجر وثواب سے نوازتا ہے۔(النحل:97)
دنیا میں نظام خاندان کے بکھرنے یا ٹوٹنے کا ایک اہم سبب مرد اور عورت کے مقام اور حقوق سے متعلق غیر معتدل رویہ ہے۔اس نظام خاندان میں عورت کی حیثیت دوسرے درجے کی متعین کر لی گئی ہے۔اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ اس کے حقوق کی بازیافت کے لیے کہیں اس کو بااختیار (empowered) بنانے کے لیے تو کہیںاس کو آزادی دلانے کے لیے الگ سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اب دنیا میں عورت کا وجود انہیں دو انتہائوں کے درمیان ڈول رہا ہے۔یعنی یا تو عورت دوسرے درجے ہی میںخوش رہے یا پھر مردوں کے شانہ بہ شانہ، آزادی نسواں کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، معاشرتی جدوجہد میں لگ جائے۔
ان دونو ں انتہائوں کے کڑوے کسیلے پھل ہی ہیں جو آج نئی نئی شکل وصورت میں سامنے آرہے ہیں۔ گھر میں عورت کی ثانوی حیثیت تسلیم کرنا ہی گھریلو تشدد(domestic violence) کی ایک اہم وجہ ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے تو گھریلو تشدد میں اچھی خاصی شدت رونما ہوئی جوپچھلے دہے کہ بالمقابل کہیںزیادہ مانی جاتی ہے۔(دی ہندی: 24؍جون 2020 کی رپورٹ)
دوسری جانب عورت کو با اختیار بنانے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کی وجہ سے گھر سے اس کا تعلق یا تو کمزور ہوگیایا پھر برائے نام رہ گیا۔ اس ضمن میں طلاق اور تنہا مائوں کی کثرت،کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کا استحصال، ملازم خواتین کو لے کرمردوں کی بے روزگاری پر تشویش جیسے اموراز خود واضح کرتے ہیں کہ عورت کی حیثیت کے غلط تعین سے سماج کو کس قدر بھاری نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ خواتین پر مظالم اور ان کی حق تلفی سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے ملکی تناظر میںحکومت ہند کے ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈس بیوریو (NCRB) اور عالمی تناظر کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی ویب سائٹس سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
اللہ کے رسولﷺنے عورت کا دائرہ کار متعین فرماکر(المرأۃ راعیۃ—- بخاری و مسلم) اس کو حقیقی معنوں میں بااختیار (empowered) کردیا ہے۔وہ خوب اچھی طرح جان سکتی ہے کہ اس کا مقام‘ مرتبہ اور ذمہ داریوں کا دائرہ کا ر کیا ہے۔پھر اس دائرہ کار کی وضاحت کے بعد یہ بات بھی اچھی طرح سمجھادی گئی کہ مرداور عورت ان معنوں میں ایک نہیں ہیںجن معنوں میں انہیں دنیا ایک سمجھتی ہے یا ان معنوں میں مختلف نہیں ہیں جن معنوں میں انہیں دنیا مختلف سمجھتی ہے۔بلکہ عورت کا صاف وشفاف تصوریہ ہے کہ اس کو مرد کی پسلی سے بنایا گیا ہے۔ عورت، مردکے لیے ہے اور مرد،عورت کے لیے۔ دونوںایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ یعنی مرداور عورت کا جوڑا،ایک دوسرے کے واسطے سکون واطمینا ن کے لئے ہے۔(الروم:21) سورہ النساء کی پہلی آیت… يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا…کی تفسیر میں امام النسفیؒ فرماتے ہیں:
یعنی اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم ؑ کی پسلی سے پیدا فرمایا اور اس کے بعد دیگر عورتوں کو مردوں کے صلب سے پیدا کیا۔(آیت میں) مِنْ،گویا ایک تمہید ہے (جس کا مطلب ہے کہ یہ عورت)تمہاری ہم جنس ہے کسی اور کی جنس سے نہیں۔اس لحاظ سے یہاں مِنْ بیانیہ بھی ہے اس لئے کہ مرداور عورت، دونوں ہم جنس ہوں تو ہی ان کے درمیان محبت اور سکون قائم رہ سکتاہے۔
عورت کو مرد کی پسلی سے تشبیہ دینے سے مراد یہ کہ وہ صنف نازک مرد کے لیے باعثِ سکون، اطمینان اور راحت ہے۔جس طرح پسلیاں سارے جسم کے اعتدال اور سکون میں رہنے کا باعث بنتی ہیں، جیسے وہ دل کی حفاظت کرتی ہیں، ایک عورت کا مرد کی زندگی میں بھی وہی رول ہوتا ہے۔اس سے مراد یہ بات بھی لی جاسکتی ہے کہ عور ت کا وجود، مرد سے مل کر ہی سراپا سکون اور رحمت بن سکتا ہے۔ عورت کی مرد کے لیے وہی حیثیت ہے جو بیج کی زمین سے ہوتی ہے۔عورت کے دائرہ کار اور اس کے حقوق واختیارات کے لیے پسلی سے تشبیہ دینے سے مراد یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ایک خوشگوار گھر اور مثالی خاندان کے لیے اس صنف نازک کا رول انتہائی اہم ہے۔ لہٰذا اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور نگرانی ہونی چاہیے۔کسی بھی قیمتی اور اہم شئے پر handle with careکا لیبل لگانا، اس کی اصل حیثیت ظاہر کرتا ہے۔ اس شئے کے ساتھ برتائو میں کن آداب اور رعایتوں کا لحاظ رکھنا چاہیے وہ بھی از خود واضح ہوجاتا ہے۔دنیا میں کوئی نادان شخص ایسا نہیں ہوگا جو اس لیبل کا مطلب یہ لیتا ہو کہ جو چیز اندر ہے وہ انتہائی کمزورہے یا اس میںنقائص پائے جاتے ہیں۔غرض پسلی سے تشبیہ سے مرادیہ بھی ہے کہ عورت سے کوئی امتیازی سلوک ہرگز روانہیں رکھا جاسکتا ہے کہ وہ ویسے ہی پیدا کی گئی ہے جیسے مردتخلیق کئے گئے ہیں۔ انما النساء شقائق الرجال۔ بلا شبہ عورتیں اور مرد ایک جیسے ہیں۔ (ابوداؤد، عن عائشہؓ)
رسول اللہ ﷺنے سورہ النساء کی پہلی آیت کے نزول کے وقت فرمایا کہ عورت کو مرد سے پیدا کیا گیا ہے۔لہٰذا عورت کا مقصد وجود مرد سے مل کر ہی مکمل ہوسکتا ہے۔اور مرد کو مٹی سے پیدا کیا گیا لہٰذا اس کی فکر مٹی (ہی سے متعلق)ہوتی ہے۔
لیکن آج کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ عورت کو با اختیار، مرد کے دجود کے بغیر بنانا چاہتی ہےلیکن یہ ہرگز ممکن نہیں۔بھلا فضا میں تھوڑے ہی بیج اگایا جاسکتاہے؟ہم دنیا کو یہی سمجھاناچاہتے ہیں کہ عورت کی حیثیت پسلی کی سی ہے مراد وہ ہرگز کمزور نہیں بلکہ وہ انتہائی اہم اور نازک رول ادا کرنے والی اور حساس ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک، گھر، خاندان اور سماج کے لیے بھلائی کا موجب ہوگا۔ یعنی عورت گھر کی رانی ہے۔اس کے ساتھ حسن سلوک ہی سے ایک مرد کی اخلاقی ساکھ کا تعین ہوسکتاہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے کسی مرد کے اچھے ہونے کا معیار، اس کی اپنی بیوی سے اچھے سلوک کو قرار دیا ہے۔ (خیر کم خیرکم لاہلہ)
مرد اور عورت کا رشتہ ازدواج میں بندھنا، پر سکون زندگی گزارنا، بدلتے ماہ وسال کے ساتھ ساتھ آپسی رحم و کرم محسوس کرنا، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ سورہ الروم کی آیت 27 اسی سے متعلق ہے۔اس آیت کا آغاز وَمِنْ آیَاتِہِ سے ہوتا ہے اور آگے بڑھتے بڑھتے آیت، آیات ہوجاتی ہیں اورکلام کی تکمیل إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ پر ہوتی ہے۔اگر مرد اور عورت کے رشتہ کا تقدس نگاہوں سے اوجھل ہو یا وہ ٹھوس اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا ہو تو بس ایک مذاق کا موضوع بن کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ دور میں شوہر اوربیوی سے متعلق لطائف اور مختلف میم (meme) وغیرہ کا عام ہونا،اسی وجہ سے ہے۔
(ب) خوشگوار خاندان کی اساس: والدین
مرد اور عورت کے ازدواجی رشتہ میں بندھنے کے بعداللہ تعالیٰ کی رحمت سے فیض یاب ہونے والی زندگی کے ماہ وسال انہیں،بچوں کے والدین بنادیتے ہیں۔کسی بھی گھر اور خاندان کی بنیاد رکھنے والے اور اس کو پھلتا پھولتا دیکھنے والے والدین ہی ہوتے ہیں۔ جن کی حیثیت سرپرست کی سی رہتی ہے۔جن کی زیر نگرانی اور زیر سایہ، نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ چنانچہ جن گھروں میں والدین میں سے کسی ایک کی بھی کمی رہ جائے تو بچوں کی تربیت و نشوونما اوررونما ہونے والے حالات ہی سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ خاندانی نظام میں والدین کا مقام اس قدر اہم اور فیصلہ کن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق، اپنے حقوق کے فوری بعد بیان کردیئے ہیں۔(بنی اسرائیل:23) یعنی بندہ، اللہ کا بندہ اس وقت تک ہی رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے والدین کے حقوق صحیح طور پر ادا کرتا رہے۔ اللہ کے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کی حکمت پر امام الرازیؒ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت 23کی تفسیر میں بڑی جامع بات نوٹ کی ہے: یعنی انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ اس لیے ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے پیدا کیا ۔اور اس کے(دنیا میں )ظاہر ہونے کا سبب، والدین بنے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔
ارشاد ربانی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ فی الواقعی کسی بھی گھر اور خاندان میں والدین کا کیا مقام ہونا چاہئے،ان کے ساتھ رہنے سہنے کے کیا آداب ہونے چاہئیں،ان کے ساتھ کس خلوص،اپنائیت اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیے،اسلام نہ صرف والدین کے حقوق ومقام مکمل طور پر بیان کرتاہے بلکہ ان حقوق کی پاسداری کے لیے عبادت کے ساتھ انہیں جوڑ کر ان کی اہمیت کئی گناہ بڑھا دیتا ہے۔گویا عبادات اور معاملات، ایک ہی سکے کے دوپہلو ہیں۔ آپ دیکھ لیں رب کی عبادت، اس کی نعمتوں بھری جنت میں جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو کہا کہ والدین کی خدمت کا بھی وہی مقام ہے۔ اس لیے جب حضرات صحابہ کرامؓ نے ان کے حقوق کے بارے میں دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین تمہارے لئے یا تو جنت ہیں یا جہنم اوریہ بھی کہ نہ صرف عبادت،سے رب راضی ہوتا ہے،بلکہ والد کے راضی رہنے سے بھی رب راضی ہوجاتا ہے۔
رب کی عبادت سے والدین کی خدمت کا جذبہ از خود پروان چڑھتا ہے۔جس خاندان کی بنیاد والدین کے اس مقا م ومرتبے پر ہو وہاں ایک خوشگوار خاندان پھلتا پھولتا رہتا ہے۔یہاںبوڑھے والدین کے حق میں اف تک بھی نہ کہنے کی ہدایت، ہر طرح کے ناروا سلوک کا خاتمہ کردیتی ہے۔یعنی والدین کے حق میں کسی بھی طرح کی ناپسندیدگی ، کراہت یا معمولی ناراضگی کا بھی اظہار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے احترام کا اس حد تک لحاظ فرمایا کہ حضرت حسن بن علی ؓ فرماتے ہیں کہ اگر اف سے ہلکا بھی کوئی( ناروا سلوک یا رویہ)نافرمانی کا انداز ہوتا تواللہ تعالیٰ اس کو بھی حرام قرارد یتا۔
جب کبھی آپ سماج میں والدین کے ساتھ ناروا سلوک اورانہیں یکا اور تنہا چھوڑے رہنے کے واقعات سنیں تو خوب اچھی طرح جان سکتے ہیںکہ اس ظلم کے حقیقی اسباب کیا ہیں۔ سماجی ماہرین نے دواور دوچار کی طرح واضح کردیا ہے کہ آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا، مسلمہ اصولوں اورپائیدار بنیادوں (intrinsic dynamics) سے بالکل عاری ہے اور یہی اس کے گھر اور خاندان کے بکھرائو اور ٹوٹنے کااصل سبب ہے۔مشہور سماجی سائنسدان ٹالکٹ پارسنس(Talcott Parsons) نے موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ صنعتی معاشرہ کو بگاڑ کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اسی کے باعث بڑی تعداد میں گھراور خاندان سکڑتے جارہے ہیں۔کیونکہ گھر کا ماحول اس قدرالگ تھلگ ہوگیا ہے کہ وہ بڑے خاندانی نظام سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر پارہا ہے۔ (Chaning family sturcture in India, Times of India, 24 June 2020)
(ج) خوشگوار خاندان کا پیش خیمہ:بچوں کی تربیت
آپ اپنے اطراف کے ماحول کو دیکھ کر بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ دورحاضر میں بچوں کی تعلیم، کھیل کود اور سیر وتفریح سے متعلق ہورہی سرگرمیاں مقصدیت سے یا تو بہت دور ہیںیا ہیں بھی توسطحی مقاصد لئے ہوئے۔ظاہربات ہے کہ اگر کسی سماج کی باگ ڈور خالق کے متعین کردہ اصولوں کے تحت سنبھالی نہ جائے بلکہ وہ مادہ پرستی یا خواہشات نفس کی بنیاد پر ہو تو توقعات کے مطابق نتائج ہرگز نہیں آسکتے۔بچوں میں جرائم کابڑھتا رجحان، والدین کی نافرمانیاں، بے مقصدیت، سماج کی تعمیر نوکے خواب اور تعاون کے جذبات سے عاری نئی نسل نے معاشرہ کو جھنجھوڑکررکھ دیا ہے۔ بلاشبہ آج دنیا بھر کے سامنے صحت مند خطوط پربچوں کی اصلاح وتربیت ایک انتہائی اہم ترجیح قرارپائی ہے۔
اسلام، خاندان کے چشم وچراغ اور مستقبل کے سپہ سالار کی حیثیت رکھنے والے نونہالوں کی خاص تربیت کی تاکید کرتا ہے۔قرآن مجید میں بیان کردہ حضرات انبیا ؑ کے اسوہ کو دیکھ لیںتو بخوبی معلوم کرسکتے ہیں کہ کن ترجیحات ،اصولوںاورمراحل کے تحت اولاد کی تربیت کا کام ہونا چاہئے۔ پیغمبروں ؑ کی یہ تڑپ اور چاہ کہ اولادکے دنیا میںقدم رکھنے سے پہلے ہی سے ان کے لئے خصوصی دعائوں کا التزام کیا جائے۔ (الصافات:100) دراصل تربیت ِاولادکے لیے درکار منصوبہ سازی کی وسعتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کے بڑے ہونے تک جن اصولوں کے تحت مستقل تربیت کا عمل جاری وساری رہنا چاہیے، وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) اولاد کی تمنا کرنا۔ لڑکا یا لڑکی میں کسی قسم کی تفریق کے بغیراللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت پر شکرادا کرنا۔
(۲) قرار حمل ہی سے اولاد کی تربیت پر توجہ دینا اورگھر اور اطراف میں ایک سازگارماحول فروغ دینا۔
(۳) اولاد کی تربیت پر مستقل توجہ دینا او راس اہم کام کو دیگر تمام کاموں پر ترجیح دینا۔
(۴) اللہ تعالیٰ کی بندگی کیلئے بچوں کی ایسی ذہن سازی کرنا کہ ان کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ کے خوف اورمحبت کا حسین امتزاج پروان چڑھ سکے۔
(۵) انہیں شرک سے بچنے اوردور رہنے کی تاکید کرنا۔
(۶) انہیں نمازوںکاپابند بنانااور ان کے قیام کیلئے ذہن سازی کرنا ۔
(۷) تمام رزائل اخلاق جیسے کبر ‘ غرور‘ بے رخی‘خودپسندی وغیرہ سے مکمل اجتناب کی انہیں تاکید کرنا۔
(۸) بچوںکونیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لئے تیار کرنااورانہیں صبر کی تلقین کرنا۔
(۹) ان پروالدین کی پسند اور ناپسند خوب اچھی طرح واضح کرنا ۔
ان نکات کے سلسلہ میں قرآن مجید میں مذکورحکیم لقمان ؑ کی نصیحتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔سورہ لقمان آیات ۱۲ تا ۱۹۔
(۱۰) بچوںکو مقصد زندگی کے لئے تیار وآمادہ کرنااور انہیں شریک مشورہ رکھنا ۔
اس ضمن میں قرآن مجید ہمارے سامنے سیدنا ابراہیم ؑ کا اسوہ پیش کرتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکوخواب میں دکھایا کہ وہ سیدنا اسماعیل ؑ کو ذبح فرما رہے ہیں، تو انہوں نے اپنے فرزند ارجمند سے گفتگو کی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مرضی بیان فرمارہے ہیںاور یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ ان کے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے اس خواب کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا جواب دیتے ہیں۔ جس انداز سے قرآن مجید نے سیدنا اسماعیل ؑ کا جواب پیش کیا ہے اس سے سیدنا ابراہیم ؑ کا یہی منشاء ظاہر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا اسماعیل ؑ نے اپنے والد محترم ؑ کے خواب کو خواب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ لیااورفرمایا:اے ابا جان آپ کو جو حکم دیا جارہا اسے کرڈالیے انشاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائو گے۔
والد محترم نے خواب کہا اور فرمانبردا ر بیٹے نے حکم مانا۔وہ کہتے ہیں ناکہ اولاد ایسی ہو جو اشاروں کو حکم سمجھے،وہ ایسے ہی براہیمی ؑاسوہ سے تیارہوتی ہے جس میں پس پردہ اماں ہاجرہ ؑ کا بھی بڑاغیر معمولی کردار نظرآتاہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا:
یہ فیضان نظر تھایاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب فرزندی
فیضان نظر، سیدنا ابراہیم ؑ کی محبت اور مشفقانہ تربیت ہے۔جبکہ مکتب کا اشارہ اماں ہاجرہ ؑ کی طرف ہے جنہوں نے اپنے گھر کو مدرسہ بنالیا تھا اور اپنے بیٹے سیدنااسماعیل ؑ کی بے مثالی تربیت فرمائی تھی۔
(۱۱)یہ حقیقت واضح کرنا کہ اولادچاہے کتنی ہی بڑی ہوجائے اور کیسے ہی وسائل اور شہرت کی وہ مالک بن جائے، اس کا سراپا وجود اور اس کے تمام تروسائل والدین کے ہیں۔
اس سے متعلق میں قرآنی تربیت کا انداز انتہائی دلنشین ہے۔وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ… (سورہ بنی اسرائیل:24)۔ یعنی تم اپنے رحمت کے پروں کو دونوں(والدین) پر ڈھانک دو۔ آپ جانتے ہیں پرندہ کی خوبصورتی اور اس کا وجود پروں سے ہوتا ہے اوراسی سے وہ جانا پہچانا جاتا ہے۔انسان بھی اپنی تعلیم، صلاحیتوں، قابلیتوں، وسائل، ترقی اور شہرت وغیرہ کی وجہ سے جانا پہچاناجاتاہے۔قرآنی استعارہ پروں سے متعلق ہے یعنی یہ والدین پر بچھ جانے چاہئیں۔ مطلب انسان اپنے پروں کی حیثیت رکھنے والے تمام تر وسائل اور اسباب والدین پر نچھاور کردے۔جو جتنا بڑا ہو اس کی خدمت کا انداز بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔کسی کا بڑا ہونا یا مال اور وسائل والا ہونا اسے اپنے والدین کی خدمت سے ہرگز مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔ بلکہ جو کچھ ہے سب والدین کا ہی ہے، وہ بھی اور اس کا سارا مال بھی۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایک صحابی ؓ سے یہی بات ارشاد فرمائی: انت و مالک لابیک۔ (تو اور تیرا مال، تیرے باپ کا ہے) ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ والدین کے تنہا رہنے یا انہیں بے یارومددگار چھوڑدینے یا ان کے حقوق تلف کرنے کے پیچھے اولاد کی اپنی مصروفیات اور لاپرواہی کا بڑا دخل ہے۔
(۱۲) حقیقی اولاد صرف اس اولاد کو ماننا جو خالق کی بندگی کرنے والی اور اپنے والدین کی فرماں بردار ہو۔
یعنی اولاد کی تربیت اس انداز سے ہو کہ وہ ایک اللہ کی بندگی کو زندگی بنالیں اور اپنے والدین کے لیے دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے اجر کا ذریعہ بنیں۔اگر اولاد ایسی نیک بخت نہ ہو تو پھروہ والدین حقیقت میں بے اولاد ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے:
’’تم اپنے میں سے کس کو بے اولاد سمجھتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ وہ شخص جس کی کوئی اولاد نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا : نہیں۔ درحقیقت وہ شخص بے اولاد ہے جو اپنی اولاد کو (اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعہ انہیں توشہ آخرت کے طور پر) آگے نہیں بھیجتا۔‘‘ (مسلم)
(د) خاندان اور معاشرہ کی حقیقی زندگی کا محرک- صلہ رحمی
افرادخاندان کے تعلقات مستحکم رکھنا،ان کی خبر گیری کرنا اور ہر حال میں انہیں یہ احساس دلانا کہ وہ ایک کنبے کا حصہ ہیں، صلہ رحمی سے ممکن ہے۔صلہ رحمی دراصل، گھر اور اس میں رہنے والے مکینوں کے لیے متعین کردہ اخلاقی اقدار کی وسعت ہے۔یعنی ایک خوشگوار گھر کے لیے اسلام کے مقررکردہ اصولوں کو مزید وسعت دیتے ہوئے ان تمام افراد خاندان سے بھی حسن سلوک کیاجاتا ہے جو خونی رشتہ دار ہیں۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ تمام افراد خاندان کے ساتھ تعلقات مستحکم رکھے جائیں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر بھرپور توجہ دی جائے، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا رویہ کیا اور کس طرح کا ہے؟اس ضمن میں قرآن مجید ارحام اور ذوی القربی جیسے الفاظ کے ذریعہ متعددمقامات پر مختلف پیرائوں سے ہمیں توجہ دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا تاکیدی حکم صادر فرمایاہے ان میں صلہ رحمی سے متعلق یہ تمام تعلیمات شامل ہیں۔صلہ رحمی ہی کے ذریعہ کسی بھی فرد کے ایمان کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ حضر ت عمر بن عبد العزیزؒ نے جمعہ کے خطبہ میں سورہ النحل کی آیت90 کی تلاوت تجویز فرمائی جس میں نہ صرف صلہ رحمی سے متعلق ضروری ہدایات ہیں ایک مثالی معاشرہ کے خدوخال بڑے نمایاں طور پر پیش کئے گئے ہیں۔
صلہ رحمی سے متعلق تاکیدی احکامات کی روح حسب ذیل امور کے تحت بیان کی جاسکتی ہے:
(۱) ایمان کا اصل تقاضہ، اہل ایمان کی حقیقی پہچان،رشتوں کو جوڑے رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ (الرعد:21)
(۲) اللہ تعالیٰ کی محبت کی پہچان اہل ایمان کے وہ اعمال بھی ہیں جنہیں وہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر اپنا روپیہ پیسہ خرچ کرکے ظاہر کرتے ہیں۔ (الدھر:8)
(۳) اہل ایمان کی دولت میں، ان اعزہ واقرباء کا متعین حصہ شامل ہے جو دولت سے محروم ہیں۔(المعارج: 24-25)
(۴) مستحق رشتہ داروں کو ان کا متعینہ حق نہ دینا، ایسا گناہ ہے جو تباہی کے لئے کافی ہے۔
(۵) بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ روزہ، نماز اور صدقہ وخیرات سے بھی ممکن نہیں، اگر کفارہ ممکن ہے تو صرف رشتہ داروں کی خدمت سے۔
غیر اسلامی سماجوں میں صلہ رحمی ایک اجنبی تصور ہے اس کا اہتمام اگر ہے بھی توصرف اس حد تک کہ کبھی مروت میں تو کبھی وقتی محبت میں افراد خاندان کے ساتھ کچھ حسن سلوک کرلیا جاتا ہے۔ جہاں گھر اور خاندان ہی کا بکھرائو ہو وہاں، افراد خاندان کے حقوق کی ادائیگی پر کیوںکر توجہ ممکن ہوسکتی ہے۔اس تناظر میں ہمیں صلہ رحمی کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے اور مختلف نفسیاتی، معاشرتی اور معاشی پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے سماج میں ان اقدار کے نفاذ کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کی عملی تبلیغ کی احسن شکل انفرادی واجتماعی کوششیں ہوسکتی ہیں جن کے توسط سے غریب اور مستحق افراد کی امدادکے لیے، اہل خاندان کا تعاون اور اشتراک یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
خاندانی مشن
اسلامی خاندانی اقدار کی گفتگوکا اختتام ایسے پہلو سے کرتے ہیں جو خاندان کے نصب العین اور اس کے مشن سے متعلق ہے۔ اس میں کسی نہ کسی صورت میں تعاون دینے والے وہ تمام امور ہیں جن کااوپر ذکر کیا گیا ہے۔آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ خاندانی مشن کے تعین سے مرد وعورت کے صحیح تصور اور ان کی مفوضہ ذمہ داریوں کا اداہونا ممکن ہے،پھر ایک مثالی ازدواجی زندگی کے خدوخال، بچوں کی تربیت، اور صلہ رحمی جیسے امور پرتوجہ اور عمل درآمد بھی بڑے فطری انداز سے ہونے لگتا ہے۔یا یوں کہئے کہ مندرجہ بالا چاروں امور کا اتحاد (convergence) منطقی اور فطری لحاظ سے اسی نکتہ پر ہوتا ہے جس کو ہم خاندانی نصب العین اور خاندانی مشن سے تعبیر کررہے ہیں۔
خاندانی مشن، مع اہل وعیال اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی بندگی کی طرف لوگوں کو بلانے کا ایک انتہائی بامعنی اورحیات آفریں پیغام ہے۔جو ایک التجا کی حیثیت سے ہمیشہ لبوں پر جاری و ساری رہتا ہے ۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۝۷۴
(الفرقان:74)
’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروںکا امام بنا۔‘‘
اس پیغام رسانی میں فرد اپنے اہل وعیال کے ہمراہ شامل ہے۔اس مشن کا لازمی تقاضہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے فرد اور اس کے اہل وعیال، اس پیغام کا عملی نمونہ بنیں اور بندگی رب میں مکمل طور پر ڈھل جائیں۔ان کی زندگیاں علم وعمل کا حسین امتزاج بنیں۔غرض انہیں تقوی کا ایسامقام حاصل ہو جو ان کے لیے باعث سکون وراحت بن جائے۔ایک مومن کی آنکھیں اسی وقت ٹھنڈی ہوسکتی ہیں اور اسی وقت ان کو قرار آسکتا ہے جب وہ خود اور اس کے اہل و عیال بھی اللہ کے مطیع وفرمانبردار بنے رہیں۔اور اس کے ساتھ جنت میں شاداں وفرحاں قیام کا ذریعہ بنیں۔ سورہ الفرقان کی آیت اسی جانب توجہ دلاتی ہے۔
آنکھوںکی ٹھنڈک اور دل کا سرور، اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی میں ہے۔ ایسی آسودہ اور مسرور آنکھیں، مومن کے دل میں یہ چاہت اور امنگ جگا دیتی ہے کہ لوگ صحیح طرز زندگی اپنانے کے لیے اس کی اور اس کے اہل وعیال کی اقتدا کریں۔مندرجہ بالا آیت میں اماما سے مراد گھر کے سبھی افراد شامل ہیںیعنی دعا یہ ہے کہ اے پروردگار ہم میں سے ہر ایک کو امام بنا۔ لوگوں کا امام بننا اور یہ تمنا رکھنا کہ وہ اقتدا کریں، مطلوب ہے۔
بات واضح ہے کہ اسلام کا نظام خاندان، مکمل معاشرتی پہلو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ بات شروع ہوئی تھی مرد اور عورت کی حیثیت سے، پھر ان کے درمیان ازدوجی تعلقات، اولاد کی پیدائش اور ان کی تربیت اور آخر میں صلہ رحمی۔ ان تمام خاندانی امور سے متعلق دین اسلام کی تعلیمات اپنے انجام خیر کے لحاظ سے ایک مثالی معاشرہ کی جانب محسوس طریقے سے پیش قدمی کرتی ہیں۔ جس قدر نظام خاندان سے متعلق نظریاتی اور عملی امور پیش نظر رکھتے ہوئے، انفرادی اور اجتماعی معاملات انجام دیئے جائیں گے اسی قدر ایک بہتر سماج کی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔
اسلامی خاندانی اقدار کی خوبی یہ ہے کہ وہ فرد کی ذاتی حیثیت سے لے کر اس کے اجتماعی وجود کو ایسا دائرہ کارفراہم کرتے ہیں کہ اس کی ذاتی اورازدواجی زندگی سے لے کر گھر اور خاندانی زندگی پر سکون ماحول میں بسر ہونے لگتی ہے۔وہ اپنے اہل وعیال اور دیگر اعزہ واقربا کے حقوق کی ادائیگی پربھی بھرپور متوجہ رہتاہے۔یوں ایک خوشگوار گھر سے مثالی خاندان کا سفر، اسلامی اقدار کی ٹھنڈی اور حیات بخش چھائوں میں ہوتا ہے۔
آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک مثالی ریاست کی تشکیل انہیں اقدار کو اپنانے سے ممکن ہے۔یوں تو یہ اقدارہیں ایک فرد اور اسکے خاندان کے لیے لیکن ان پر عمل درآمد سے پیدا ہونے والے اثرات اس قدر وسعت اختیار کرجاتے ہیں کہ ایک مثالی ریاست کا فطری اور منطقی طریقے سے تشکیل پانا ممکن ہوجاتا ہے۔ سمندر میں پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے،ایک دوسرے سے مربوط تعلق اور اپنی مستقل حرکت کی بنا پر چٹان جیسی طاقت کو ہلادیتے ہیں اور ان کی لہروں کا وجودسمندر میں زبردست تغیر کا ذریعہ بنتا ہے۔ افراد کی حیثیت اسلامی خاندان میں بھی ایسی ہی ہے۔ خاندانی اقدار پر عمل سے ہر فرد، اپنے گھر اور خاندان کے ہمراہ حرکت و عمل کا ایسا سلسلہ قائم کرلیتا ہے کہ بالآخر اس سے معاشرہ میں مطلوب تغیر برپا ہوجاتا ہے۔اور نتیجتاً ایسی ریاست وجود میں آتی ہے جس کو انسانوں کی فلاح و بہبود کی حقیقی ضامن قرار دیا جاسکتاہے۔lll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021