مولانا سید جلال الدین عمری
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس طرح بنائی ہے کہ اس میں انسان کی آسائش وآرام کابڑا سامان موجود ہے۔ اس سے استفادے کے لیے اسے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازاگیاہے اور اسے اس زمین پر جو بے پناہ وسائل اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے، اختیار اور اقتدار عطاکیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ(الاعراف:۱۰)
ہم نے تمہیں زمین پر (بسایا اور) اقتدار دیا اور اس میں ہم نے تمہاری معیشت کا سامان فراہم کیا ،(لہٰذا تمہیں ہمارا شکر گزارہونا چاہیے)مگر تم کم ہی شکر اداکرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر جو نعمتیں رکھی ہیں اور جو وسائل مہیا کیے ہیں،انسان جب سے اس زمین پر آباد ہے،ان سے فائدہ اٹھارہاہے۔ زمین مسلسل اپنے خزانے کھول رہی ہے اور انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گیاہے کہ اگر سو سال قبل کا انسان آج اس دنیا میں آجائے تو حیرت سے کہے گا کہ یہ دنیا کچھ دوسری ہی دنیا ہے، وہ دنیا نہیں ہے جو میں نے چھوڑی تھی۔ اس طرح ہوسکتاہے کہ آئندہ پچاس ساٹھ سال بعد یہ دنیا بھی نہ رہے۔ جس تیزی سے دنیا بدل رہی ہے اس میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔
دنیا کی بے مثال ترقی
پوری دنیا ترقی کررہی ہے، ہماراملک بھی ترقی کررہاہے اور بڑی تیزی سے ترقی کررہاہے۔ تعلیم،صنعت وحرفت اور مختلف شعبوں میں اس نے اپنا مقام پیدا کرلیا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی اور بڑھتی ہوئی طاقت کا انکار نہیں کرسکتی۔قرآن کہتاہے کہ اللہ کی نعمتوں کو پانے کے بعد انسان کو اللہ کاشکر گزارہونا چاہیے، اس کے احکام کی بجاآوری کرنی چاہیے، اس کی اطاعت وعبادت اور اس کی فرماں برداری اختیارکرنی چاہیے،اگر اس کے بجائے آدمی یہ سوچنے لگے کہ یہ چیزیں مجھے خود بخود مل گئی ہیں، میرے کسب ومحنت اور میرے زور ِبازو کا نتیجہ ہیں تویہ اللہ تعالیٰ کی ناسپاسی ہے اور ناسپاسی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔آج ساری دنیا کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول کر ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے۔ ساری دنیا میں انسان کو اس وقت جو نعمتیں، آسائشیں اور ترقی کے جو مواقع حاصل ہیں، ماضی کا انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ اس کی راتیں بھی بجلی سے روشن ہوں گی۔ آدمی بولے گا اور مائک کے ذریعہ ہزاروں انسانوں تک بات پہنچ جائے گی۔ آدمی ڈھائی گھنٹے میں دہلی سے چنئی اور بنگلور پہنچ جائے گا۔ تین چارگھنٹوں میں کسی بھی عرب ملک تک اس کی رسائی ہوجائے گی، سات آٹھ گھنٹوں کے اندر یورپ کے ممالک تک پہنچ جائے گا۔معلومات کے تبادلہ اور ذرائع ابلاغ کا یہ حال ہے کہ آج دنیا کے کسی گوشہ میں کوئی واقعہ ہو اس کی خبر آپ کو منٹوں میں مل جاتی ہے۔
انسان ناشکرا ہے
ایک طرف انسانی ترقی کا یہ حال ہے اور دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان ہی نہیں، ساری دنیا کو زبردست بگاڑنے اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی روش اختیار کی ہے اور اس کا باغی ہوگیاہے۔ یہ عظیم کائنات اللہ نے انسان کے لیے مسخر کردی ہے۔ سورج، چاند، ستارے،دریا،پہاڑ، جنگل سب اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھاتاہے، مگر بھول کر بھی اللہ کا شکر ادانہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا غلط رخ پر چلی جارہی ہے اور حرص وہوس نے انسانی ذہن کو اپنے شکنجہ میں لے رکھاہے۔ آج ہرشخص چاہتاہے کہ دنیا کی ساری دولت اس کے ہاتھ آجائے۔ہرکسی کی خواہش ہے کہ بادشاہِ وقت بن جائے،جب کہ یہ ممکن نہیں ہے، اس کے باوجود ہرشخص کی یہی خواہش ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کے غلط طریقے اور ناروا تدابیر استعمال کرتاہے۔
کرپشن
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہرطرف کرپشن ہے توآخر یہ کرپشن ہے کیا؟یہی کہ ساری دنیا کی دولت میرے پاس آجائے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی غلط راستہ اختیار کرنا پڑے۔ایسا نہیں ہے کہ جو غریب اور مجبور ہیں وہ کرپٹ ہیں۔ شاید ہزاروں لاکھوں انسانوں میں کوئی ایک ہو جو مجبوری کی وجہ سے کرپشن میں مبتلا ہو۔زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو آسودہ اور خوش حال ہیں، کروڑوں اور اربوں روپے ان کے پاس جمع ہیں، لیکن یہ جذبہ کہ سب کچھ میرے پاس آجائے، ان کو کرپٹ بنارہاہے۔
آج ہندوستان کے بگاڑ میں اس کرپشن کا بڑادخل ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی، چاہے وہ حزب اقتدار ہو یا حزب مخالف،ایسی نہیں ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ یہی لوگ ہندوستان کا سیاسی نظام چلارہے ہیں۔ یہی لوگ ملک پر فرماں روائی کررہے ہیں۔آئندہ بھی بہ ظاہر ہندوستان مجبورہوگا کہ انہی کرپٹ لوگوں اور کرپٹ پارٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ کرپشن ہمارے سماج اور ہمارے ملک کے نظام میں کچھ اس طرح رچ بس گیاہے کہ اب لوگ کہنےلگے ہیں کہ موجودہ حالات میں کرپشن کے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی، اس کے لیے رشوت لینی اور دینی ہی پڑتی ہے۔ اس سے آپ بچنا چاہیں گے تو آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی،آپ کی ترقی کا راستہ رک جائے گا۔اس لیے جو جتنا ہوشیار اور چالاک ہے وہ اتناہی زیادہ کرپٹ ہے۔ کہاجاتاہے کہ تعلیم سے انسان کی زندگی سنورتی ہے اور وہ پاکیزہ عادات واطوار کا حامل شہری بنتاہے، مگر آج جولوگ کرپٹ ہیں وہ جاہل اور گنوار نہیں ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل ترین (Qualified)لوگ ہیں، ایڈمنسٹریشن اور حکم رانی میں دخل رکھتے ہیں اور ملک کے دروبست پر قابض ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سوچنا کہ ملک کرپشن سے پاک ہوجائے گا، بہت دور کی بات ہے، تاوقتے کہ باشندگانِ ملک کے نظریات اور ملک کے نظام میں بنیادی تبدیلی کی کوئی تحریک نہ چلے۔
استحصال
کرپشن کا سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب ترہوتاجاتاہے۔ جس کے پاس وسائل ہیں وہ زیادہ سمیٹتا ہے اور جس کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ پیچھے رہ جاتاہے۔ چناں چہ ہمارے ملک میں امیر وغریب کا اتنا بڑافرق ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وزارت مالیات کے ڈپٹی چیئرمین نے کچھ دن پہلے کہاتھا کہ اگر کسی کی روزانہ آمدنی ۳۲ روپے کی ہے تواسے ہم غریب نہیں کہہ سکتے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ۳۲ روپے آپ کی جیب میں ہوں توچائے پینے کے لیے کسی اوسط درجہ کے ہوٹل میں جانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ پھر آپ خود سوچیے کہ آپ اپنا پیٹ کیسے بھریں گے؟اور کیسے اپنے خاندان کے لیے وسائل زندگی فراہم کریں گے؟ یہ باتیں وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کی آمدنی ۳۲ لاکھ اور ۳۲ کروڑ روپے ہے۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایک غریب شخص دووقت کی روٹی بھی اطمینان سے نہیں کھاسکتا اور کچھ دوسرے لوگ عیش وعشرت کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں۔ان کے منصوبے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں روپے کے ہوتے ہیں۔ پوری انڈسٹری پر ان کا قبضہ ہے اور یہ قبضہ دن بہ دن اتناوسیع اور مضبوط ہوتاجارہاہے کہ عام لوگوں کے لیے معاش کے ذرائع اور مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جارہے ہیں۔لوگ مجبور ہیں کہ اپنے صنعتی آقائوں کے اشاروں پر رات دن اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں۔ یہ ہے آج کی جدید مادی دنیا کا استحصالی نظام۔ اس میں آدمی اپنی دولت اور اپنی طاقت کے ذریعہ دوسروں کو خریدتا ہے، اس کی جسمانی طاقت، اس کی عملی صلاحیت، اس کی جوانی اور اس کے قیمتی اوقات کو خریدتاہے، تب وہ ترقی کرتا اور اپنی دولت میں اضافہ کرتارہتاہے۔
یہی استحصال(exploitation)ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور فنی صلاحیت سے مالا مال شخص بہت ترقی کرسکتاہے، مگر اس کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ کمپنی اس کو پچاس ساٹھ ہزار یا ایک لاکھ روپے ماہانہ اس وقت دیتی ہے جب وہ شخص کمپنی کو ایک کروڑ روپے ماہانہ فراہم کرے۔بہت پہلے کی بات ہے ایک صنعت کار سے میری بات ہورہی تھی۔ انہوں نے کہا: مولانا صاحب! ہمیں یہ دیکھنا پڑتاہے کہ کمپنی میں جو آدمی کام کرے وہ خوش حال اور خوش وضع ہو، وہ بیگ لے کر پیدل چلے گاتوکوئی اس سے بات بھی نہیں کرے گا، موٹرسائیکل پر چلے توہوسکتاہے کوئی اس سے بات کرلے، اس لیے ہم اسے کارفراہم کرتے ہیں، تاکہ اس کی طرف مخاطب کا attraction بڑھے،اسے اچھافلیٹ فراہم کرتے ہیں اور ہروہ چیز فراہم کرتے ہیں جو ہمارے business کو بڑھانے میں معاون بنے، لیکن ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا پڑتاہے کہ اس کا بینک بیلنس نہ بڑھے، اس کے پاس سرمایہ جمع ہوگا تووہ ہمارا حریف بن جائے گا، کیوں کہ اس کے پاس تعلیمی صلاحیت،ہنر اور فیلڈکا تجربہ ہم سے زیادہ ہے۔پھر وہ ہم سے زیادہ ترقی کرجائے گا اور ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ دراصل یہی exploitationہے کہ ایک شخص کی جوانی اور اس کی تمام تر توانائیوں اور عمدہ صلاحیتوں کو خرید کر اس طرح استعمال کیاجائے کہ وہ فرد تو آگے نہ بڑھنے پائے اور سرمایہ دار اس کے زورپر اپنی تجوری بھرتارہے۔
بنیادی حقوق کی پامالی
دوستو!ہر انسان کے کچھ بنیادی حقوق(Fundamental Rights)ہیں۔ یہاں جو انسان پیداہوتاہے اس کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے غذاملے، دوا ملے، اس کی جان ،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہو،اس کی رہائش کا نظم ہو، اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، اس کے لیے روزگار کے مواقع ہوں، انسان اس دنیا میں پیداہی اس طرح ہوتاہے کہ اگر ان حقوق کو تسلیم نہ کیاجائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی لیے دنیا کے تمام جمہوری ممالک ان حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری طرف عملی صورت حال یہ ہے کہ آج جو شخص غریب اور وسائل سے محروم ہے اس کی جان اورمال محفوظ ہے نہ عزت وآبرو۔اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتاہے۔ اس کے لیے امن وامان کا تصور بھی دشوار ہورہاہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ مغربی ممالک اور امریکہ کس طرح بمباری کرکے مسلم ممالک کے ہزاروں لاکھوں انسانوں کوہلاک کررہے ہیں۔ دنیا میں انسان آتاہے زندہ رہنے کے لیے، مگر آپ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ہوسکتاہے، آپ کو اس سے اختلاف ہو، مگر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ اسے زندہ نہ رہنے دیں۔ آپ نے طے کرلیا کہ فلاں ملک ہمارادشمن ہے اور بمباری کرکے اسے ختم کردیا۔آپ کہتے ہیں کہ فوجی اور سیاسی لحاظ سے کسی ملک کو مضبوط نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں کی ترقی کی راہ میں آپ رکاوٹ بن رہے ہیں اور جن وسائل کا خود کو حق دار سمجھتے ہیں، دوسری قوم کو اس کا مستحق نہیں مانتے۔ اسی طرح جس سوسائٹی کے اندر فرد کے حقوق محفوظ نہ ہوں وہ ترقی نہیں کرسکتی، بلکہ اپناوجود باقی نہیں رکھ سکتی۔ ایسی سوسائٹی میں ہرشخص اس خوف اور خطرے کے ساتھ زندگی گزارے گا کہ معلوم نہیں، کل اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آجائے۔ دلی میں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں جوڑے کو ختم کردیاگیا، فلاں قریبی رشتہ دار کی جان لے لی گئی، فلاں کی عزت لوٹ لی گئی۔ کہاجارہاہے کہ آج دلی سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر ہوگیاہے۔
انسانوں کی طبقاتی تقسیم
یہ صورت حال لازماً تبدیل ہونی چاہیے لیکن تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ اس وقت سارا اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے اور سیاست ہورہی ہے انسانوں کو تقسیم کرکے۔ یہ اونچی ذات کا ہے، اسے اوپر آنا چاہیے۔یہ نیچی ذات کاہے، اسے نیچے ہی رہنا چاہیے۔ یادو کا ووٹ یادو کو ملنا چاہیے یا یہ کہ اوبی سی کے ووٹ کے ہم حق دار ہیں۔ سیاست اس وقت نام ہے اس کا کہ انسانوں کو گروہوں میں بانٹاجائے اور اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جائے۔ کسی کو ان کے حقیقی مسائل سے دل چسپی نہیں ہے۔اگر یہاں کی سیاست کا رخ صحیح ہوتا تو ظلم وزیادتی کہیں بھی ہوتی، کسی انسان کے ساتھ بھی ہوتی ، اس کے خلاف آواز اٹھتی۔ لیکن یہ صورت حال نہیں ہے۔بلکہ ہر شخص یہ دیکھتاہے کہ زیادتی کس گروپ کے ساتھ ہوئی ہے؟ یہاں کم زور اور پس ماندہ طبقات کی ساتھ نہ جانے کتنی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کی عورتوں، بچوں اور مردوں پر کتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں، مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں۔ ظلم چاہے کسی کے ساتھ ہو، مسلمان کے ساتھ ہو، غیر مسلم کے ساتھ ہو، معاشرے کے ادنیٰ طبقات کے ساتھ ہو یا اعلیٰ طبقات کے ساتھ، اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ روز بروز انسانوں کے مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ آخر اس کا علاج کیاہے؟
دنیا کے ہر بگاڑ کا علاج اسلام کے پاس ہے
میں اسلام کا ایک طالب علم ہوں، اس کی روشنی میں کچھ عرض کرناچاہوں گا۔ اسلام کہتاہے کہ اس کے پاس اس کا علاج ہے، دنیا کے ہربگاڑ کا علاج ہے۔ اسلام سب سے پہلے اس بات پر زور دیتاہے کہ انسان جو اللہ تعالیٰ کو بھول گیاہے وہ اس کی طرف پلٹ آئے۔یہ وسیع وعریض کائنات، جس میں بے شمار ستارے، سیارے اور کہکشائیں ہیں، ان کا خالق ومالک اللہ واحد ہے اور اسی کی اس کائنات پر حکومت ہے۔اس کا انکار ایک بہت بڑی حقیقت کا انکار ہے اور کسی حقیقت کے انکار کے بعد آدمی جو بھی رویہ اختیار کرے گا وہ غلط ہوگا۔اس لیے اس کی پہلی ہدایت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو مانے اور یہ قبول کرے کہ دنیا پر اسی کی حکومت وفرماں روائی ہے۔ وہی اس کا حقیقی فرماں رواہے۔ میں اس کا بندہ ہوں،مجھے اپنا تعلق اس سے جوڑناچاہیے،اپنی زندگی کے ہرشعبہ میں اسی کے احکام کی اطاعت اور فرماں برداری کرنی چاہیے۔اللہ کے رسول اسی کے لیے دنیا میں آتے ہیں اور اپنے زمانے اور ماحول کی اصلاح کا فرض انجام دیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اسلام یہ بھی بتاتاہے کہ اللہ کا بندہ بننے کے بعد انسان کو کیسی زندگی گزارنی چاہیے؟ اس کا عقیدہ کیاہو؟اللہ کا شکر وہ کیسے اداکرے؟اس کی عبادت کیسے کرے؟ کس طرح اخلاق کا پابندہو؟گھر کے اندر اس کا طرز حیات کیاہو اورگھر کے باہر اس کاکیا رویہ ہو؟ اس کے معاملات کیسے ہوں؟اس کے لیے حکومت وسیاست کے اصول کیاہیں؟یہ ساری باتیں اسلام بڑی تفصیل سے بتاتاہے۔ تیسری بات یہ کہ وہ آخرت کا عقیدہ پیش کرتاہے اور بتاتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ہرایک کی نگرانی کررہاہے اور دیکھ رہاہے کہ وہ کیاکررہاہے؟ اس کے اعمال کیسے ہیں؟اور وہ کس طرح کی زندگی گزاررہاہے؟ موت کے بعد ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا حساب لے گا اور ان کے اعمال کی جزااور سزادے گا۔ میں کبھی کبھی مثال دیتاہوں کہ آپ ایک ہزارروپے کا ملازم رکھتے ہیں، گھر کا سوداسلف لانے کے لیے۔آپ اس کی نگرانی کرتے ہیں کہ واقعی وہ ٹھیک سے خدمت بجالارہاہے یا نہیں؟اور جب تک اعتماد بحال نہیں ہوتا، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پیسے میں خوردبرد تونہیں کرتا اور وقت پہ آتاہے کہ نہیں؟کوئی کام ادھورا تو نہیں رہ جاتا۔ آپ سوچیے کہ پوری کائنات جس نے آپ کے حوالے کی ہے، کیا وہ آپ کا حساب نہیں لے گا؟اتنی بڑی کائنات اس نے آپ کے حوالے کی ہے،اس طرح حوالے کی ہے کہ ہرشخص یہ کہہ سکتاہے کہ یہ دنیا میری ہے۔ جس خدا نے اتنی بڑی دنیا آپ کے حوالے کی ہے، کیا وہ آپ سے یہ نہ پوچھے گاکہ یہاں کیسے زندگی گزاری؟اسلام آخرت کے اس عقیدے کو ماننے پر زوردیتاہے اور اس کی بنیاد پر اپنے احکام کا پابند بناتاہے۔اسلام کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس زمین میں فساد نہ ہونے دو۔اللہ تعالیٰ نے جو کائنات پیداکی ہے اس میں کہیں کوئی فساد اور بگاڑ نہیں ہے، البتہ تمہاری زندگی میں فساد برپا ہے، اسے ختم کرو۔ ہر انسان اللہ کو یادکرکے بیٹھ نہ جائے، بلکہ زمین میں جو فساد پھیلاہواہے اسے ختم کرنے اور مٹانے کی کوشش کرے۔ یہ اللہ کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو ادانہیں کریں گے توروز حشر ان سے باز پرس ہوگی۔
اسلام کا تصور مساوات
اسلام دنیا کی اصلاح کے لیے ضروری قرار دیتاہے کہ انسانوں کے درمیان کوئی فرق وامتیاز نہ ہو۔ سب اللہ کے بندے ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد اور ایک عورت سے انسانوں کو پیداکیا اور ان کے قبیلے اور خاندان بنادیے۔ان کی زبانیں مختلف ہیں۔ ان کے رنگ روپ مختلف ہیں۔ وہ زمین کے مختلف خطوں اور ملکوں میں آبادہیں۔ لیکن سب انسان ہیں۔ اللہ کے نزدیک بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر تقویٰ ہو۔ جو خداسے ڈرے وہی برتر اورافضل ہے۔سماج میں عزت اور برتری کے کسی دوسرے معیار کا ہونا درست نہیں ہے۔ مشرق کے لوگو، مغرب کے لوگو، شمال کے لوگو، جنوب کے لوگو، اس وقت سے لے کر قیامت تک پیداہونے والے لوگو،سنو!تم سب ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہو۔ تمہارے خاندان بھی ہیں، قبیلے بھی ہیں، قومیں بھی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔یہ کالا ہے، یہ افریقہ کا رہنے والا ہے، یہ گورا ہے ، یہ یورپ کا رہنے والا ہے۔ یہ سانولے رنگ کا ہے، یہ ایشیا کا رہنے والا ہے۔ یہ تمہاری شناخت کا ذریعہ ہے۔ اگر سب کے رنگ ایک ہوتے، سب کے قدوقامت ایک ہوتے، شکل وصورت ایک ہوتی توشناخت مشکل ہوجاتی۔ یہ پہچان کے لیے ہے، یہ انسانوں کے درمیان فرق وامتیاز کی بنیاد نہیں ہے۔ جو شخص اللہ سے ڈرکے زندگی گزارتا ہے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہے۔اسلام کو اگر دنیا میں اقتدارملے گا تویہی تصور عام کرے گا کہ انسانوں کے درمیان فرق نہیں ہوناچاہیے۔جب مکہ فتح ہواتو رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پراعلان فرمایا: لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی۔(مسند احمد) کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کوکسی عربی پر فضیلت نہیں ہے، کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے ، کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ہے، البتہ جو خداترس ہے وہ سب سے افضل اوربرتر ہے۔
میں ایسے موقع پر ایک واقعہ سناتاہوں،آپ بھی سن لیجیے۔ حضرت بلالؓ کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ وہ حبشہ کے رہنے والے تھے، ان کا رنگ سیاہ تھا، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے، اس کے دین کے لیے بڑی تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ ان کے بھائی نے کہا کہ میری شادی کہیں کرادیجیے۔ بلالؓ نے مدینہ میں کہا کہ میرابھائی شادی کرنا چاہتاہے، تم مجھے بھی جانتے ہو اور اسے بھی۔ میں غلام تھا، مجھے آزادکردیاگیا۔ میرارنگ بھی تم دیکھ رہے ہو۔ میرابھائی شادی کرنا چاہتاہے، کوئی تیار ہوتو بتائے۔ ہرطرف سے آواز آنے لگی:بلال تم رشتہ چاہتے ہوتو ہم تیار ہیں، تم جس قبیلہ کی جس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہو، رشتہ ہوسکتاہے۔ یہ ہے اسلام کامزاج اور یہ ہیں تقویٰ اور خداترسی کے پاکیزہ اثرات! قرآن کہتاہے کہ تقویٰ کی بنیاد پر انسان قدرومنزلت کا مستحق ہوتا ہے۔ سوسائٹی اس معیار کو اپنالے توتمام دوسرے معیارات فضا میں تحلیل ہوکر رہ جائیں گے۔
اسلام عدل وانصاف کے قیام کا حامی
اسلام سماج میں قیام عدل کا حکم دیتاہے۔ عدل وانصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، بلکہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ملک کے دستور(Constitution)کی ایک اہم بنیاد سب کے لیے انصاف ہے۔قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیاکہ وہ عدل وانصاف کے علم بردار بن جائیں۔ دنیا کو عدل کی راہ دکھائیں، دشمن کے ساتھ بھی عدل وانصاف کا معاملہ کریں: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَآء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۔المائدہ:۸۔(اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خوشنودی کے لیے کھڑے ہوجائو۔ انصاف کے گواہ بن کر۔کسی قوم کی دشمنی تمہیں برانگیختہ نہ کرے کہ تم عدل وانصاف کا راستہ چھوڑدو۔ ہر حال میں انصاف کرو، یہی تقویٰ سے قریب تربات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔)اس امت کو حکم دیاگیا کہ وہ انصاف کو قائم کرنے کے لیے کھڑی ہوجائے۔ اگر یہ امت طے کرلے کہ دنیا میں انصاف ہوتو قسم خداکی، روئے زمین پر کہیں ظلم نہیں ہوسکتا۔ آپ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک میں بیس کروڑ ہیں،اللہ تعالیٰ ہماری آبادی کو مزید بڑھائے۔ اگریہ بیس کروڑ کی آبادی طے کرلے کہ ہمارے ملک میں انصاف ہونا چاہیے توناممکن ہے کہ ناانصافی ہو۔ آپ بیٹھ گئے اس لیے دنیا میں ظلم ہورہاہے۔ ہم نے اس کی یہ ہدایت فراموش کردی کہ انصاف کی زدمیںاگر تمہاری ذات آتی ہے یاتمہارے عزیز واقارب آتے ہیں تب بھی انصاف کرو، انصاف ہر ایک کے ساتھ ہوناچاہیے، امیر ہو یا غریب، چھوٹاہویا بڑا،اقتدار والا ہو یا اقتدار سے محروم، اللہ کے قانون کا ہر ایک پر یکساں نفاذ ہو۔
اللہ کا دین سب کے لیے ہے
اسلام اس حیثیت سے ہمارے سامنے آتاہے کہ وہ اللہ کا دین ہے اور سب کے لیے ہے۔ افسوس ہے کہ اسے ہم اس طرح پیش نہیں کرتے جس طرح پیش کرنا چاہیے۔ قرآن جہاں اپنے ماننے والوں کو عبادت واطاعت کا حکم دیتا ہے ، وہیں اس نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ یہ دین صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، تمام انسانوں کے لیے ہے۔ یہ بات دنیا کے سامنے کھل کر آنی چاہیے ۔ اسی سے اسلام کی صحیح تصویر ابھرے گی۔ جب اسلام کا ذکر ہوتاہے تودنیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ مسلمانوں کا مذہب ہے، حالاں کہ اسلام کے معنیٰ ہیں اللہ کے سامنے سر جھکانا۔ جو اللہ کے سامنے سرجھکادے وہ مسلم ہے، جو اللہ کے احکام کا پابند ہوجائے وہ مسلم ہے۔قرآن کا خطاب ساری دنیا سے ہے وہ ہر فرد بشر سے کہتاہے کہ وہ اللہ کا بندہ اور فرماں بردار بن جائے۔ اسی میں اس کی فلاح اور کام رانی ہے۔
دنیا اور آخرت دونوں کی کام یابی اسلام سے وابستہ ہے
آخری بات میں یہ کہوں گا کہ اسلام ہی میں دنیا کی فلاح بھی ہے اور آخرت کی فلاح بھی۔یہ ہمارے تمام مسائل حل کرتاہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا اس کتاب ہدایت میںحل نہ ہو۔ جو کوئی اس کو تھام لے وہ یہاں بھی کام یاب ہوگا اور آخرت میں بھی فلاح پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جولوگ آخرت کی کھیتی چاہتے ہیں ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جولوگ صرف دنیا کی کھیتی چاہتے ہیں انہیں اسی میں سے تھوڑا سا دے دیتے ہیں، لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔(الشوریٰ:۲۰)
قرآن کہتاہے کہ یہ نہ سمجھو کہ ہم اللہ کے دین پر عمل کریں گے تومصیبت میں پڑجائیں گے۔ نہیں، بلکہ اس پر عمل کروگے تو تمہارے مسائل حل ہوں گے۔ غربت ہے تو غربت ختم ہوجائے گی، پریشانیاں ہیں تووہ دور ہوجائیں گی۔پس ماندہ ہوتو عروج وترقی سے ہم کنار ہوگے۔
دنیا اس وقت عجیب اضطراب کی کیفیت میں ہے۔ پوری دنیا میں ایک طرح کا بھونچال ہے، چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر یا پس ماندہ، سب پریشان ہیں اور دنیا ایک طرح کی کش مکش میں گرفتار ہے۔ طاقت ور ممالک ترقی پذیر اور کم زور ممالک پر اپنا تسلظ قائم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ ان کے ہم سر اور مدمقابل نہ ہوں۔ہر شخص گھبرایاہوا ہے اور دنیا امن وسکون سے محروم ہے۔ دنیا میں اس وقت بہت سے نظریات کی کارفرمائی ہے۔ ان نظریات نے امن وسکون کی جگہ دنیا کو اضطراب میں مبتلا کررکھاہے۔ اس کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ دنیا جن مسائل میں گھری ہوئی ہے، انہیں اسلام بہتر طریقہ سے حل کرتاہے۔ اس کے ذریعہ یہاںاعلیٰ اخلاق پیداہوں گے، مساوات کا برتائو ہوگا، عدل و انصاف قائم ہوگا، زمین فساد سے پاک ہوگی۔ انسان کی دنیا بھی سنورے گی اور آخرت میں بھی وہ فلاح و کام رانی سے سرفراز ہوگا۔
اسلام کی دعوت پر غور کیجیے
ہم پوری دنیا سے اور اس ملک کے ہرفرد اور ہرطبقہ سے کہتے ہیں کہ اسلام تمہارے سامنے ہے، اس پر غور کرو۔ یہ نہ کہو کہ یہ مذہب کی بات ہے، اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔اگر کوئی مذہب تمہارے دکھ درد کا علاج بن سکتاہے تو عقل کہتی ہے کہ تمہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ یہ نادانی ہوگی کہ تم یہ کہو کہ چاہے اس میں ہمارے دکھ درد کا علاج ہو، مگر ہم نہیں مانیں گے۔ آج کے علمی اور عقلی دور میں ایسی بات کوئی عقل مندآدمی نہیں کہہ سکتا۔ ہم اسلام کے مخالفین سے بھی اور غیر جانب دار لوگوں سے بھی کہتے ہیں:آپ کے مسائل اور دکھ درد کا ایک نسخہ اسلام بھی پیش کرتاہے، اس پر غور کیجیے۔ قرآن کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں زبردستی اپنی بات منوائوں گا۔ قرآن تواپنے پیغمبر سے بھی کہتاہے کہ آپ جسے چاہیں سیدھا راستہ نہیں دکھاسکتے، اللہ جسے چاہتاہے راستہ دکھاتاہے۔ آپؐ داروغہ بناکر نہیں بھیجے گئے، آپ توبس یاددہانی کرانے والے ہیں۔ اس لیے ہم دنیا سے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو، یہ اللہ کی کتاب ہے، تمہارے اور ہمارے رب کی کتاب ہے۔ اسے دیکھو، اس نے جو راہِ حیات دکھائی ہے اور تمہارے مسائل کا جو حل پیش کیاہے اس پر غور کرو۔ اسے مذہبی کتاب سمجھ کر رد نہ کرو،اسے ناقابل التفات قرار دے کر بند نہ کردو۔ آج کی دنیا کا یہ رویہ کس قدر حیرت ناک ہے کہ وہ ہر بات سننے کے لیے تیار ہے، لیکن اسلام کے نام پر کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔آپ کو اور ہمیں اور ہر اس شخص کو جو اسلام کو اللہ کا نازل کردہ دین مانتاہے، کھڑاہونا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ رویہ غلط اور غیر فطری ہے، عقل اور ہوش مندی کے خلاف ہے۔ یہ Democracy کے بھی خلاف ہے، اگر آپ کے سامنے ایک شخص سنجیدگی اور دلائل کے ساتھ کوئی بات کہہ رہاہے تواسے سنئے اور غور کیجیے، سمجھ میں نہ آئے تورد کردیجیے۔ لیکن اگر وہ سمجھ میں آرہی ہے تو آپ کو مزید اس پر غور کرنا چاہیے۔کسی سے نفرت اور عداوت میں حق وصداقت ہی سے دشمنی کا رویہ اختیار کرنے میں اپنا ہی خسارہ ہے۔ یہ نہ ہوناچاہیے۔
آج کی دنیا کا یہ رویہ کس قدر حیرت ناک ہے کہ وہ ہر بات سننے کے لیے تیار ہے، لیکن اسلام کے نام پر کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔آپ کو اور ہمیں اور ہر اس شخص کو جو اسلام کو اللہ کا نازل کردہ دین مانتاہے، کھڑاہونا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ یہ رویہ غلط اور غیر فطری ہے، عقل اور ہوش مندی کے خلاف ہے۔
یہ Democracy کے بھی خلاف ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020