اسرائیلی پروپیگنڈہ مہمات: عالمی رائے عامہ پر قبضہ کی منظم کوششیں

اطلاعاتی جنگ کے اثرات کو ملکی و بین الاقوامی پیمانے پر سمجھنے کی ضرورت

شہاب فضل، لکھنؤ

اسرائیل نے اپنی پروپیگنڈہ اور اطلاعاتی جنگ کو نئی سطح پر لے جانے کے لیے دو ماہ قبل 149 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کیا ہے۔ بیرون ملک پبلک ڈپلومیسی کے نام پر حسب سابق اس رقم کا استعمال مختلف ملکوں، خاص طور پر امریکہ میں منتخب عوامی نمائندوں، پالیسی سازوں، بااثر رہنماؤں اور وزرائے خارجہ کو اپنا ہمنوا بنانے، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے اور بیرون ملک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے متعلق اقدامات میں کیا جائے گا۔ سادہ لفظوں میں اگر کہیں تو اسرائیل، امریکہ اور دیگر ملکوں میں اپنی شبیہ کو بہتر بنانے، ہمدردیاں بٹورنے اور اپنے ‘مفادات’ کے تحفظ کے لیے یہ خطیر رقم خرچ کرے گا۔ میڈیا اور دیگر وسائل کا حتی الامکان بھرپور استعمال کرکے یہ رائے عامہ پر قبضہ کی ایک کوشش ہے۔
صہیونی ملک اپنے پبلک ڈپلومیسی اقدامات کے لیے حسبرہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے جو عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: وضاحت کرنا، مائل کرنا یعنی اسرائیل کے حق میں ماحول سازی کرنا اور میڈیا پلیٹ فارموں پر تنقید کو روکنا یا اس کا جواب دینا۔ اسی پالیسی کے تحت حسبرہ فیلوشپ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم ہے جو نوجوانوں کو حسبرہ فیلو بناکر اسرائیل کے حق میں وکالت کرنے اور پبلک ڈپلومیسی میں شمولیت کی انہیں تربیت فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل نے اپنی پروپیگنڈہ جنگ کو منظم انداز میں چلانے کے لیے امریکہ میں ایک لابنگ گروپ ‘‘امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی’’ (اے آئی پی اے سی یا ایپیک) کے نام سے قائم کر رکھا ہے جو امریکی سیاسی رہنماؤوں (ریپبلیکنس اور ڈیموکریٹس دونوں) اور حکومتی اہلکاروں پر کافی محنت کرتا ہے اور اسرائیل کے لیے دفاعی اور مالی امداد کے ساتھ ہی ہر قسم کا تعاون حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے۔ یہ تنظیم اسرائیل کی حمایت اور امریکہ اسرائیل تعلقات کو مستحکم کرنے والی پالیسیوں کی وکالت کرتی ہے۔ یہ امریکہ کی خاص طور سے مشرق وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کے لیے امریکی کانگریس کے ممبران اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ گفت و شنید کرتی ہے۔ اس پورے عمل میں اسرائیلی حکومت در پردہ اور بالواسطہ شامل ہوتی ہے اور اس کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جن میں اب سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بھی شامل کرلیا گیا ہے تاکہ امریکیوں کے دل و دماغ پر قبضہ جاری رکھا جاسکے۔ اسی لابنگ کی بدولت اسرائیل، امریکہ سے گزشتہ ایک سال میں کم سے کم 23 بلین ڈالر کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو دراصل امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں امریکہ سے حاصل ہونے والی امدادی رقومات کا اگر حساب لگایا جائے تو یہ کئی ملکوں کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوگا۔ عالم یہ ہے کہ امریکی حکومت اپنی کئی ریاستوں کو اتنا بجٹ نہیں دیتی جتنا وہ اسرائیل کو بطور امداد دیتی ہے۔ دراصل یہ اسرائیل کے مفاد میں ہے کہ وہ امریکی حکومت اور پالیسی ساز اداروں پر اپنی گرفت مضبوط رکھے اور امریکہ سے مالی امداد حاصل کرتا رہے۔ یہ ایک شاطرانہ چال ہے۔
2002 میں امریکی ایوان نمائندگان کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنی بات پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم اسرائیل نیتن یاہو امریکیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے تھے کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہیں جنہیں تباہ کرنا ضروری ہے۔ اسی کے بعد امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ اب 23 سال بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہونے یا نیوکلیائی ہتھیار کے حصول کی کوشش کی بات جھوٹی تھی۔
پر فریب پروپیگنڈہ کے اثرات اور امریکیوں میں بڑھتی ہوئی بیداری
امریکی میڈیا اداروں میں اسرائیلی اثرات کے باعث خبروں کی اشاعت زیادہ تر ایسے پہلو سے کی جاتی ہے جس میں اسرائیل کو مظلوم اور یہودیوں کو ہٹلر کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہونے کے باعث ہمددری کے مستحق فریق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ فلسطینیوں اور دیگر عرب ممالک کو قرون وسطیٰ کی فرسودہ ذہنیت کا حامل، شاہی حکم رانی نظام پر عمل پیرا اور جمہوری اصولوں سے کوسوں دور قرار دیتے ہوئے یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد جمہوری ملک ہے۔ اسی غالب بیانیہ کی وجہ سے امریکیوں میں اسرائیل فلسطین تنازعہ کے سلسلہ میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ 2017 میں مشرق وسطیٰ کے امور پر مبنی واشنگٹن رپورٹ نے دنیا کے کئی ملکوں میں ایک سروے کرایا۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق امریکہ واحد ملک تھا جہاں سے حاصل ہونے والے جوابات چونکانے والے تھے۔ سروے میں یہ پایا گیا کہ 49 فیصد امریکی یہ مانتے ہیں کہ فلسطینیوں نے اسرائیل کی زمینوں پر قبضہ کررکھا ہے، جب کہ محض 40 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلیوں کا فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ ہے۔ امریکی عوام کے ذہنوں پر حاوی غلط تاثر اور یہ فاش غلط فہمی امریکہ میں اسرائیل کی کئی دہائیوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
یہ یاد دلانا بے جا نہ ہوگا کہ ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کی اپنی مہم کے دوران اپنے ‘‘آخری حل’’ کی تفصیلات کو عام لوگوں سے حتی الامکان چھپا کر رکھا تھا اور میڈیا پر اس کے کنٹرول کی وجہ سے اس کی خبریں اخباروں میں شائع ہی نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ یہودیوں کے سلسلہ میں ہٹلر کے حوالہ سے بعض دفعہ مثبت اقدامات کی خبریں شائع ہوتی تھیں، جو پُر فریب پروپیگنڈہ کا حصہ ہوتی تھیں۔ اسی طرح کے پُرفریب پروپیگنڈے کو اسرائیل نے بھی اپنا ہتھیار بنا رکھا ہے، چنانچہ امریکی میڈیا کی کوریج اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے بالکل جدا سی ہوتی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی قبضہ کے میڈیا کوریج سے متعلق ایک جائزہ میں پایا گیا کہ ایک اسرائیلی بچے کی موت کی خبر کو فلسطینی بچے کی موت کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ کوریج ملتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی پایا گیا کہ اسرائیل کو مظلوم بتانے والی 71 فیصد اسٹوریوں اور خبروں کو صفحہ اول پر جگہ دی جاتی ہے، جب کہ فلسطینی متاثرین کی ایسی صرف چار فیصد خبروں کو ہی صفحہ اول پر جگہ مل پاتی ہے۔ اس قسم کی میڈیا کوریج ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ حقیقت کو مسخ شدہ شکل میں میڈیا میں پیش کیا جائے اور امریکی ذہنوں کو یرغمال بنایا جائے۔
اسرائیلی لابی ہمیشہ خود کے ‘مظلوم’ ہونے کا نعرہ بھی دیتی رہتی ہے تاکہ لوگوں کے دل و دماغ پر ہمدردی کا جذبہ حاوی رہے اور اس کے لیے ہر محاذ پر آسانیاں ہوں۔
اس تمام حرکتوں کے درمیان غزہ پر اسرائیلی تسلط اور لگاتار حملوں کے دل دوز ویڈیوز اور مناظر متبادل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچنے لگے ہیں اور دنیا پہلی بار اس وسیع پیمانے پر اسرائیل کا حقیقی چہرہ دیکھ پا رہی ہے۔ سی این این جیسے مین اسٹریم میڈیا چینلوں نے بھی اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے والی اور فلسطینیوں کی بے بسی کو بیان کرنے والی خبریں نشر کرنی شروع کردی ہیں جس سے اسرائیل کی پروپیگنڈہ مہم اوندھے منھ گرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کی تصاویر اور ویڈیوز نے حساس اور باشعور افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ میں نوجوانوں کی اکثریت اسرائیل کو غاصب اور ظالم قرار دے رہی ہے اور فوکس نیوز، سی این این، این بی سی اور اے بی سی وغیرہ بھی اس کا توڑ کرنے میں ناکام ہیں کیوں کہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیل جو مجرمانہ حرکتیں کر رہا ہے اس کی رپورٹیں سوشل میڈیا اور متبادل میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسرائیل نے اپنی حرکتوں سے ‘ہولوکاسٹ’ کی یاد تازہ کردی ہے جس کا نشانہ مظلوم فلسطینی شہری بن رہے ہیں، جن میں کثیر تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔
امریکہ میں رجسٹرڈ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (ایپیک) کی قانونی حیثیت
ایسا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی چاہتے تھے کہ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (ایپیک) امریکہ میں ایک غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہو۔ انہوں نے اکتوبر 1962 میں اس سلسلہ میں عملی کارروائی بھی کی تھی مگر ان کا قتل ہوگیا پھر کوئی دوسرا امریکی صدر اسرائیل کے اثر سے باہر نہیں نکل سکا۔ قابل ذکر ہے کہ ایپیک امریکہ میں ایک لابنگ گروپ کے طور پر رجسٹرڈ ہے، جو نجی عطیات سے چلنے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ کہ وہ اسرائیل یا کسی دیگر غیرملکی گروپ سے مالی امداد نہیں لیتا۔ غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ (فارا) کے تحت رجسٹریشن، ایپیک کی سرگرمیوں کو محدود کردے گا جس کی اسرائیلی لابی ہمیشہ مخالفت کرتی ہے۔ فارا کے دائرے میں نہ آنے کے بات ایپیک نے اپنی ویب سائٹ پر بھی لکھ رکھی ہے تاکہ اسے ایک امریکی لابی گروپ کے طور پر ملک میں آزادی کے ساتھ کام کرنے میں سہولت ہو۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے پیش نظر امریکی کانگریس کے کچھ ممبروں نے اس مطالبہ کو دہرانا شروع کر دیا ہے کہ ایپیک کو ملک میں ایک غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر رجسٹر کیا جائے۔ وہ ایپیک کی بے لگامی اور امریکہ کے تمام اداروں پر اس کی گرفت اور اثر پذیری کے خطرات کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ امریکی نوجوانوں اور باشعور و حساس دانش وروں نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا جارہا ہے اور نازی ہولوکاسٹ اور غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں مماثلت پر گفتگو ہونے لگی ہے جو امریکہ میں اینٹی سیمٹیزم (یہودیوں کے خلاف نفرت انگیزی) قانون کے بے جا استعمال کے باعث پہلے ممکن نہیں تھا۔
مین اسٹریم میڈیا کے بیانیہ کو چیلنج کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور چینلز ان تمام حقائق کو سامنے لا رہے ہیں۔ بریزی پولیٹکس کے نام سے ایک امریکی یوٹیوب چینل نے اس پر متعدد اسٹوریاں نشرکی ہیں۔ ایکس اور فیس بک کے ذریعہ بھی پردے کے پیچھے کی کہانیاں دنیا کے سامنے بیان کی جارہی ہیں۔
اسرائیل کے بعض دوست ممالک اس کی نقالی میں مصروف
جہاں تک پروپیگنڈے کا معاملہ ہے تو اسرائیل کے بعض دوست ممالک اس کی نقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ جو کامیابی اسرائیل نے پروپیگنڈے کے سہارے اپنے من چاہے ایجنڈے کی تکمیل میں حاصل کی ہے اسے بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ہر محاذ اور ہر تدبیر کو ڈپلومیسی کے ساتھ استعمال کرنا درست ہے۔ بعض ممالک میں سیاسی پارٹیوں کو پروان چڑھانے والی دائیں بازو کی تنظیموں نے اس تدبیر کو اپنی پالیسی کا خاص حصہ بنایا ہے، حالانکہ دنیا کے مختلف ممالک میں ایسی تنظیموں کی حرکتوں پر نظر رکھنے والے بھی موجود ہیں جو ان کی مخصوص مخفی سرگرمیوں سے وقتاً فوقتاً پردہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
دائیں بازو کی یہ تنظیمیں بہرکیف اسرائیلی لابی گروپ ایپیک کی طرح ہی مقامی قوانین میں جھول کا فائدہ اٹھا کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس سرمایہ اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے چنانچہ مقامی سیاسی رہنماؤں اور پالیسی سازوں کو اپنے حق میں ہموار کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ خاص کر ٹکراؤ، حملے اور تنازعات کے حالات میں ایسی مہمات چلائی جانے لگی ہیں اور بیرون ملک یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ‘‘ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے اور سماج کے سبھی طبقات امن و امان کے ساتھ باہم شیر و شکر ہوکر رہ رہے ہیں۔ ان کی ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جا رہی ہے، وغیرہ’’۔ اس میں مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ہی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بھی استعمال کیا جارہا ہے اور اس رخ پر ڈپلومیسی سرگرمیوں کا دائرہ لگا تار وسیع ہو رہا ہے۔
حیرت و افسوس کی بات ہے کہ نازی جرمنی کا پروپیگنڈہ وزیر اور سیاست داں جوزف گوبلز، دنیا بھر کی انتہائی دائیں بازو کی طاقتوں اور تنظیموں کا رول ماڈل بنا ہوا ہے۔ گوبلز جھوٹوں کے سردار کے طور پر پوری دنیا میں بد نام ہے۔ حالانکہ وہ زبان و ادبیات اور تحریری ریکارڈوں کے مطالعہ میں مہارت رکھنے والا شخص تھا مگر اس نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال ہٹلر کے زیر اثر رہ کر جھوٹ کی ترویج و اشاعت کے لیے کیا۔ وہ ایک ماہر خطیب بھی تھا، چنانچہ پینترے بدلنا، جھوٹ کو سچائی بتا کر پیش کرنا اور حکمت عملی کے ساتھ منظم انداز میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل اس کے لیے آسان ثابت ہوا۔ چنانچہ نازی جرمنی کی پروپیگنڈہ وزارت نے اس کی سربراہی میں نیوز میڈیا، آرٹ اور اطلاعات کی دنیا پر بہت تیزی کے ساتھ کنٹرول حاصل کرلیا۔ اطلاعات کے نئے ابھرتے ہوئے میڈیم ریڈیو اور فلم کو اس نے اپنے مقصد کے لیے بخوبی استعمال کیا۔
آج بھی دنیا میں اسی طرز پر دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمیں اپنی حرکات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف شکلوں اور محاذوں پر ان کی حرکات کی گہرائی اور اثر انگیزی کو سمجھا جاسکے اور اس کی سد باب کی تدبیر کی جاسکے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025