’’اذان اسلام کا لازمی جز‘‘: الہ آباد ہائی کورٹ نے بغیر مائک کے لاک ڈاؤن کے دوران اذان کی اجازت دی

لکھنؤ، مئی 15: الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز مساجد سے اذان کی اجازت دی اور اسے ’’اسلام کا لازمی جز‘‘ قرار دیا ہے اور غازی پور، فرخ آباد اور دیگر اضلاع میں اذان پر عائد انتظامی پابندیوں کو مسترد کردیا۔ تاہم ہائی کورٹ نے اذان کے لیے مائکروفون کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔

جسٹس ششی کانت گپتا اور اجیت کمار پر مشتمل ڈویژن بنچ نے غازی پور سے ممبر پارلیمنٹ افضل انصاری اور سابق رکن پارلیمنٹ اور فرخ آباد سے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے ذریعہ علاحدہ علاحدہ دائر مفاد عامہ کی درخوست پر یہ حکم منظور کیا۔

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر خورشید نے استدعا کی تھی کہ ’’اتر پردیش کے فرخ آباد اور دیگر اضلاع جیسے ہاتراس اور غازی پور میں مسلمانوں کو اذان دینے کی اجازت دی جائے۔ جو ان کے بقول اسلام کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی بھی طرح سے وبائی امراض کے بارے میں معاشرے کے اجتماعی ردعمل کو مجروح نہیں کرتا ہے۔‘‘

سماعت کے دوران ریاستی حکومت نے اذان پر اپنی انتظامی پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اذان جماعت سے مسجد میں نماز پڑھنے کا مطالبہ ہے اور اس وجہ سے وبائی امراض کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

اذان اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے، لاؤڈ اسپیکر نہیں ہے: ہائی کورٹ

انسانی آواز کے ذریعے اذان کی اجازت دیتے ہوئے ہائی کورٹ بنچ نے کہا کہ "اذان یقیناً اسلام کا ایک لازمی اور اٹوٹ حصہ ہے…‘‘۔ لیکن عدالت نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا کہ اذان کے لیے مائکروفون کا استعمال ایک مذہبی ضروری حصہ ہے۔

عدالت نے فیصلہ سنایا ’’لہذا یہ حکم دیا گیا ہے کہ آواز کے ذریعے اذان دینے کا حق آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔ تاہم اذان پڑھنے کا حق آواز بڑھانے والے آلات کے ساتھ آرٹیکل 25 کے تحت محفوظ نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس معاملے کے کسی بھی نظریہ میں آواز کو بڑھانے والے آلات کے استعمال پر پابندی، صوتی آلودگی کے قواعد کے تحت ہے جو مناسب اور جائز ہے۔‘‘