اداریہ

خاندان: اسلام کی دعوت کا اہم ذریعہ

فہیم الدین احمد

 

خاندان انسانی تہذیب و تمدن کی سب سے بنیادی اکائی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان کی جبلت میں موجود صنفی کشش اور جنسی میلان کو اعتدال و توازن میں رکھ کر ایک صالح اور مفید تہذیب و تمدن کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ خاندان کے بغیر انسان کا یہ جذبہ بےلگام ہوجاتا ہے اور پھرجنسی بے اعتدالی کی ایسی صورتیں جنم لیتی ہیں کہ انسانی معاشرہ کسی کے لیے بھی امن و سکون فراہم کرنے کے قابل نہیں رہتاکیوں کہ اگر خاندان کا نظام موجود نہ ہو تو انسان نرا حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔چنانچہ اس فطری خواہش کی مناسب انداز میں تکمیل کےلیے انسانوں کے پیدا کرنے والے نے جو طریقہ بتایا ہے وہ یہی ہے کہ عورت اور مرد مل کر شادی کے ذریعے ایک خاندان کی بنیا دڈالیں اور اس کے ذریعے ایک مفید اور نفع بخش تمدن کو فروغ دیں۔خاندان انسانی معاشرہ کا وہ بنیادی اور اہم ترین ادارہ ہے جہاں مستقبل کی نسلیں تیار ہوتی ہیں، خاندان کے دائرے ہی میں بچوں کو وہ محبت، نگہداشت، تحفظ اور تعلیم و تربیت کا ماحول فراہم ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ معاشرے کا ایک نفع بخش اور مفید رکن بن سکے۔
خاندان کی اس اہمیت کے متعلق مولانامودوی لکھتے ہیں:
’’درحقیقت خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں، بلکہ جواپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبہ پر پیدا ہواہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔ دنیا میں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے خود اپنے سے بہتر حالت میں اور خود اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں۔ اس طرح وہ بلاارادہ ، غیر شعوری طور پر آئندہ نسل کو موجودہ نسل سے بہتر بنانے اور انسانی ترقی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ بس اپنے بچے کی فلاح چاہتے ہیں اور اس کے کامیاب اور عمدہ انسان بن کر اٹھنے ہی کو اپنی محنت کا بھرپور صلہ سمجھتے ہیں۔ایسے مخلص کارکن اور ایسے بے غرض خادم خاندان کی اس کارگاہ کے باہر کہاں ملیں گے جو نوع انسانی کی بہتری کے لیے نہ صرف بلامعاوضہ محنت صرف کریں بلکہ اپنا وقت، اپنی آسائش، اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کا سب کچھ اس خدمت میں صرف کردیں۔ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی شے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہوں؟ جو اپنی محنتوں کا صلہ بس اس کو سمجھیں کہ دوسرے کے لیے انہوں نے بہتر کارکن اور خادم فراہم کردیے۔ کیا خاندان سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرابھی ہے۔‘‘ (پردہ )
خاندان نامی یہ معاشرتی ادارہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کاسب سے کلیدی مقام ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ ایک مضبوط و مستحکم خاندان میں پرورش پانے والا بچّہ خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ والدین کی محبت و شفقت اور اقدار پر مبنی تعلیم تربیت اس کی شخصیت کو نفع بخش بناتی ہے۔ وہ ایک ذمّہ دار اور سماج کی ترقی میں حصہ لینے والا فرد بن کر اٹھتا ہے۔ بچّوں کی نفسیات کے معروف ماہرین اَنّا فرائد اور ڈوروتھی برلِنگھم ’’بنا خاندان کے بچّوں‘‘ کے موضوع پر لکھتے ہیں: ’’وہ بچّے، جو اپنی شیر خواری کے ایام(ماں باپ سے دور) بچّوں کی نگہداشت کے اداروں میں گزارتے ہیں وہ بالکل الگ شخصیت کے حامل ہوتے ہیں اور اُن بچّوں سےکئی معاملات میں مختلف ہوتے ہیں جو خاندان میںپرورش پاتے ہیں۔‘‘ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ غیر سماجی عناصر کا تعلق بالعموم یا تو ٹوٹ پھوٹ کے شکار خاندانوں سے ہوتا ہے یا ان خاندانوں سے ہوتا ہے جہاں خاندان کے بنیادی ڈھانچے اور اعلیٰ خاندانی اقدار کا فقدان ہو۔
اسی لیےاسلام نے خاندان اور خاندانی نظام کے قیام اور استحکام پر خاص زور دیا ہے۔ مختلف معاشرتی احکام وہدایات اور عملی روایات کے ذریعے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ یہ ادارہ نہ صرف باقی رہے بلکہ مضبوط و مستحکم بھی رہے۔اس غرض سے ہی نکاح کو لازم قراردیا گیا،نکاح کے لیے دین داری اور اخلاق کو ترجیح دینے کی نصیحت کی، نکاح کے باہر ہر قسم کی جنسی تسکین پر پابندی عائد کردی، شوہر بیوی، اولاد، ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق تفصیل سے بیان کیے، اولاد کی تعلیم و تربیت کو ماں باپ کا فرض قراردیا۔غرض وہ سارے انتظامات کیے جن سے خاندان کا یہ ادارہ مضبوط و مستحکم رہے اور اپنا بنیادی فرض انجام دیتا رہے۔ چنانچہ اسلام کی انہی تعلیمات اور ہدایات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت بھی جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک اور اقوام خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں، مسلمان قوم اس معاملے میں آج بھی سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہے۔
خاندانی نظام اور خوشگوار زندگی کے متعلق کیے گئے مختلف مطالعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی خاندانی نظام اپنی نسبتاً بہتر صورت میں موجود ہے۔ اولادپر توجہ ، بزرگوں کی حیثیت و مقام ، عصمت و عفت کی حفاظت اورخواتین کے ساتھ بہتر سلوک وغیرہ کے معاملے میں مسلمان قوم کی صورت حال دیگر اقوام کے مقابلے میں کافی اچھی ہے۔گرچہ مغربی تہذیب اور برصغیر ہندوستان میں دیگر تہذیب و ثقافت کے اثرات کے سبب مسلمانوں میں بھی خاندانی نظام کی بنیادیں کچھ کچھ کمزور ہونے لگی ہیں جس کا بروقت تدارک اور خاندان کےا س نظام کو مستحکم رکھنےکی کوشش مختلف حیثیتوں سے بہت ضروری ہے۔
اولاً یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی ملک میں مسلمانوں کی اسلامی شناخت اور تشخص کی حفاظت و بقا اسی وقت ممکن ہے جب خاندان کا یہ ادارہ واقعی نئی نسل کی تربیت کا کلیدی فریضہ انجام دیتا رہے۔ ہمارے گھراسلامی تعلیم و تربیت کے مراکز ہوں، والدین اورخاندان کے دیگر بزرگوں کے ذریعے اسلام کی بنیادی تعلیمات اوراسلام کی خاندانی اقدار نئی نسل میں منتقل ہوں۔ نئی نسل کو اسلام کی نمائندگی اور اس کی دعوت لیے تیار کیا جاتا رہے۔
ثانیا ً یہ کہ اس وقت بشمول ہمارے ملک کے پوری دنیا میں خاندان اور خاندانی نظام کا جو انتشار اور ٹوٹ پھوٹ جاری ہے اس نے فکر مند لوگوں بالخصوص خواتین کو اسلام کے خاندانی نظام کی جانب دیکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ سطح سے ہٹ کر اگر گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں خاندان کے اس انتشار سے کافی فکر مند ہیں ،لیکن ان کی جدید تہذیب جس الحاد اور مادہ پرستانہ نظریے کی بنیاد پر قائم ہے، اس میں اس پریشانی کا کوئی علاج نہیں ہےاور ان کے لیے اسلام کے خاندانی نظام میں بڑی کشش موجود ہے۔ اسلام کا خاندانی نظام اس وقت اسلام کی دعوت کا ایک موثر ترین عنصر بن چکا ہے۔ یورپ اور خود ہمارے ملک میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اس گئے گزرے دور میں بھی بے شمار لوگ محض اسلام کے خاندانی نظام کی تاثیر سے متاثر ہو کر دامن اسلام میں داخل ہوئے۔ ہندوستان میں دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے مسلمانوں کا خاندانی نظام اور اس کی کامیابی بھی دعوت کا ایک اہم موضوع بن سکتا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں حیثیتوں سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاندانی نظام کو نہ صرف باقی رکھیں بلکہ اسے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مزید مستحکم کریں ۔ ایک جانب خود اپنی نسل کو اس کے ذریعے سے اسلام کا علم بردار بنائیں اور دوسری جانب خود اسلامی خاندان کے ذریعے ملک کی آبادی کو اسلام کے معاشرتی نظام کا نمونہ بن کر اپنے عملی کردار سے اسلام کی دعوت دیں۔ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021