کیرالا جنوبی ہند کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جو مذہبی رواداری کے کلچر اور فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے معروف ہیں۔ اس ریاست میں خواندگی کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ 96.2 فیصد ہے۔ دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی ہندتوا طاقتوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ صف بندی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جو بے اثر ثابت ہوئیں۔ لیکن پچھلے دنوں مقامی ادارہ جات کے انتخابات کے موقع پر اور اس کے بعد یہاں ایک نئے طرز پر تقسیم کی سیاست کا ماحول گرم ہونے لگا ہے اور اس مرتبہ حیرت انگیز طور پر کمان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ) کے ہاتھوں میں ہے۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر جماعتیں ملک میں قدیم اشتراکی نظریہ کی سیاست کرتی آئی ہیں۔ ان کا سیاسی بیانیہ بڑی حد تک غربت افلاس، محنت کشوں کے حقوق، ذات پات کی تفریق اور استعماریت کے خلاف رہا ہے تاہم، بدلتے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ نہ کرنے اور عوامی توقعات پر کھرے ثابت نہ ہوئے کے باعث ان کا دائرہ سمٹتا چلا گیا۔ پہلے تین ریاستوں میں ان کی حکومت تھی اور اب صرف کیرالا کا قلعہ باقی رہ گیا تھا۔ اس طرح پارلیمنٹ میں ان کے ارکان کی تعداد جو کبھی چالیس ہوا کرتی تھی اور اب محض ۵ ہے۔ ایک وقت تھا جب کمیونسٹ پارٹیوں کا ملک کی سیاست میں ایک دبدبہ تھا اور ان کا اثر بنگال، اتر پردیش، بہار، دلی، پنجاب، آندھر اپردیش اور مہاراشٹرا تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ ملک کی سیاست پر ہی نہیں معاشرے کی سوچ اور تہذیب و ثقافت پر بھی اثر انداز ہوتے تھے لیکن عوامی امنگوں، زمینی حقیقتوں اور عصری تقاضوں سے کٹ جانے کی وجہ سے وہ اپنی معنویت وافادیت کھو چکی ہیں۔ چنانچہ پارٹی کے مشاورتی حلقوں میں ان دنوں بائیں بازو میں از سرِ نو جان ڈالنے کی حکمت عملی پر بحث زوروں پر ہے۔ ایسے میں چیف منسٹر کیرالا پنارائی وجین پارٹی کے روایتی موقف اور اپنے فکری نقطہ نظر کے برعکس ایک ’’سنگھی ماڈل‘‘ کا تجربہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ کیرالا کی دو ذی اثر اقلیتوں، مسلمان اور عسیائیوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ ریاست میں مسلمان اور عیسائی جملہ آبادی کا پینتالیس فیصد ہیں اور یہ دونوں طبقات کانگریس زیر قیادت متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) کے روایتی حامی رہے ہیں۔ انڈین یعنی مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) گزشتہ چار دہوں سے یو ڈی ایف کا حصہ ہے اور حالیہ مقامی انتخابات میں یو ڈی ایف نے ویلفیر پارٹی آف انڈیا سے بائیں محاذ کے خلاف حکمت عملی پر مبنی اتحاد کیا تھا۔ ان تبدیلیوں سے وجین کو ریاست میں اپنی پارٹی کے کمزور ہونے کا اندیشہ ہونے لگا کہ اور یہ تاثر ابھرا کہ ریاست میں مسلمان مضبوط ہو رہے ہیں حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا استعمال برادریوں کے درمیان تشویش اور خلیج پیدا کرنے کے لیے کیا جائے کیونکہ کسی جمہوری ملک کی انتخابی سیاست میں اس طرح کی تبدیلیاں ایک عام بات ہوتی ہیں لیکن پنا رائی وجین ایک کمیونسٹ لیڈر ہونے کے باوجود کٹر فرقہ پرست پارٹیوں کی نہج پر چلتے ہوئے کیرالا کے باشندوں بالخصوص عیسائی طبقہ کے اندر مسلمانوں کے متعلق الجھن پیدا کر رہے ہیں۔ وہ بار بار اس الزام کو دہراتے رہے کہ کانگریس پارٹی انڈین یونین مسلم لیگ کی کٹھ پتلی ہے نیز ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے ساتھ تال میل پر بھی وہ کانگریس کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ 2015 کے میونسپل الیکشن میں ڈبلیو پی آئی کے ساتھ اسی طرح کا تال میل خود ایل ڈی ایف نے بھی کیا تھا- جس طرح وجین نے حالیہ الیکشن میں عیسائی طبقے کی حمایت والی کیرالا کانگریس (مانی) سے اتحاد کیا، کانگریس۔ڈبلیو پی آئی اتحاد کی نوعیت بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ اگر وجین محض مسلم فیکٹر کے مد نظر کانگریس زیر قیادت یو ڈی ایف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو عیسائی حامی پارٹی کے ساتھ خود اس کا اتحاد فرقہ واریت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی کی فرقہ واریت ہے جو مرکز میں حکمراں بی جے پی کی فرقہ پرستی کی سخت ترین ناقد ہے۔
سی پی آئی ایم کو شبری ملا مندر میں خواتین کے داخلہ کی اجازت دینے والا موقف اختیار کرنے کی وجہ سے ہندوؤں کے ایک بڑے حصہ بالخصوص دلتوں کی ناراضگی کا سامنا ہے اور وہ اس نقصان کی پابجائی عیسائیوں اور مسلمانوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسلم سیاسی پارٹیوں پر فرقہ پرستی اور شدت پسندی کا لیبل لگا کر بیک وقت لبرل مسلم ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کا تاثر دے کر عیسائی برادری کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں ان کا زیادہ جھکاؤ عیسائی طبقہ کی طرف ہے۔ حالیہ دنوں انہوں نے عیسائی مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کر کے تیقن دیا کہ حکومت چرچ ایکٹ پر عمل آوری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے عیسائی برادری کو یقین دلایا کہ گرجا گھروں کو ریاستی حکومت کی آڈٹ کے دائرہ سے باہر رکھا جائے گا۔ قبل ازیں اس تعلق سے سپریم کورٹ کے سابق جج و صدر نشین اسٹیٹ لا ریفارمس کمیشن کی جانب سے سرکاری ویب سائٹ پر ایک ڈرافٹ پوسٹ کیا گیا تھا جو عیسائی طبقہ میں بے اطمینانی پیدا کرنے کا سبب بنا تھا۔
اپنی بقا کے لیے کوشاں مارکسی کمیونسٹ پارٹی عجیب و غریب تضادات کا شکار ہے۔ ایک طرف مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس پارٹی سے مقابلہ کے لیے کانگریس کے ساتھ اس کا اتحاد ہے تو دوسری طرف کیرالا میں وہی کانگریس کی بدترین ناقد ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی تیار کرنے والے بھی مخمصے میں ہیں کہ ان تضادات کے ساتھ کس طرح آگے بڑھا جائے۔ غرض یوں لگتا ہے کہ مارکسی کمیونسٹ پارٹی سیاسی بقا کی لڑائی میں اپنی سیکولر ساکھ کو داؤ پر لگاچکی ہے۔ ممکن ہے اس پالیسی سے وقتی طور پر کچھ فائدہ ہوجائے لیکن آگے چل کر یہ پالیسی معاشرتی یکجہتی کے تار و پود بکھیر دے گی اور ان عناصر کو اپنی سیاست چمکانے کا خوب موقع ملے گا جنہوں نے تقسیم کے ایجنڈے پر ہی اقتدارکے زینے طے کیے ہیں۔ اور آج بھی اسی ایجنڈے کی بنیاد پر اپنی حکمرانی کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔ اس وقت ملک اس بات کا زیادہ ضرورت مند ہے کہ یہاں نفرت اور دشمنی کی سیاست کا کے خلاف چومکھی لڑائی لڑی جائے نہ کہ نفرت کی سیاست کو مزید طاقت پہنچائی جائے۔ سی پی ایم کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نظریات اور اصولوں سے انحراف کا نتیجہ ہمیشہ نقصان کی شکل میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ سی پی ایم کی پہچان ہی فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں صف اول کی پارٹی کے طور پر رہی ہے اسے اپنی اس پہچان اور بنیادی نظریے کو سیاسی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ تنظیموں اور تحریکات کی اصل کامیابی اسی امر پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ اپنے اصل نظریہ اور موقف سے انحراف کیے بغیر حریفوں کے مقابلے میں کس طرح اپنی حیثیت کو منواتے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021