افغان قوم کو یوں ہی غیّور اور خود دار نہیں کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی بہادری اور حمیّت کے بل بوتے پر پچھلی دو صدیوں میں تین تین عالمی طاقتوں کو دھول چٹائی ہے۔ ۹ جنوری ۱۸۴۲ کو اس زمانے کی عالمی قوت برطانیہ کو بے سروسامان افغانیوں نے روایتی سامانِ جنگ کے ساتھ انتہائی شرمناک شکست دی تھی جس میں برطانیہ کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے کابل کے حکم راں کی حفاظت کے لیے اگست ۱۸۳۹ میں برطانیہ اور بھارت کی مشترکہ افواج نے ڈیرہ جمایا تھا، لیکن جنوبی ایشیا کی سب سے شرمناک شکست کے نام سے معروف برطانیہ کی اس افغان مہم میں ایک برطانوی معاون سرجن ولیَم برائڈن ہی اکیلا زندہ بچ کر جلال آباد پہنچ سکا تھا۔ اس کے بعد جدید ٹینکوں اور کلاشنکوفوں سے لیس روسی فوج کو منھ کی کھانی پڑی اور اب بیس برسوں تک ڈیرہ جمانے والا امریکہ بغیر کچھ حاصل کیے اپنا سا منھ لے کر افغانستان سے نکل جانے پر مجبور ہوا ہے۔ فروری ۲۰۲۰ میں امریکی حکومت نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دے گا۔ چنانچہ امریکہ نے باضابطہ طور پر بگرام ہوائی اڈے کو خالی کر دیا ہے۔ بھارت نے اب تک امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو مستحسن مانا بلکہ حمایت کی اور اب جب کہ امریکہ بہادر بگرام ہوائی اڈے کو مقامی فوج کے حوالے کر کے واپس لوٹ چکا ہے تو بھارت کے مفادات اور مستقبل کے رول کا انحصار بالخصوص چار تا پانچ ممالک کی سوچ اور خاکے پر ہوگا۔
چین اور پاکستان ممکنہ طور پر افغانستان کا استعمال بھارت کے خلاف کرسکتے ہیں۔ ایران اور روس کے علاوہ اب ترکی کا بھی کردار عالمی سطح پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ ۱۵ جون کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات میں کابل حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت پر ترکی افواج کو مقرر کرنے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا رد عمل معنیٰ خیز ہے کہ ان کے ملک میں ہوائی اڈے یا کسی اور مقام کی سلامتی کی ذمہ داری افغانیوں کی ہے۔ سفارتی روابط اور برادرانہ تعلقات ترکی سے بنائے رکھنے پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ترکی نے بارہ ہزار افغان فوجیوں اور پولیس کو ٹریننگ دی ہے اور وہ یہاں تعمیراتی منصوبوں میں بھی شامل ہونے لگا ہے۔ سیریا کے بعد سب سے زیادہ پناہ گزین افغانستان سے ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔ ترکی امن کی بحالی اور باہم تعاون واشتراک کے لیے پاکستان اور وسطی یورپ کے ملک ہَنگری کو بھی ساتھ رکھنے کا خواہاں ہے۔ افغانستان کے بعض گروپ اور موجودہ افغان حکومت پاکستان کو پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ لیکن پڑوسی اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان، افغان معاملات میں اپنا سرگرم رول برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ حالانکہ طالبان پاکستان کو اپنے اوپر بہت حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے اور ان کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے اسی لیے دیگر ملکوں خاص کر بھارت کے ساتھ دفاعی شراکت داری کرنے کی ضرورت کے باوجود علانیہ طور پر اس سمت میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ باوجودیکہ بھارت طالبان کو تسلیم نہیں کرتا، بھارت سے بھی افغانستان کے تاریخی، ثقافتی اور تجارتی روابط رہے ہیں۔ ان عوامل کے علاوہ موجودہ حکمراں بی جے پی کی نظریاتی بنیادوں میں ’’آریہ وَرت‘‘ اور ’’اَکھنڈ بھارت‘‘ کے تصورات شامل رہے ہیں جس کے تحت جنوبی ایشیا میں بھارت اپنا قائدانہ کردار دیکھ رہا ہے۔ اگرچہ کہ بھارت نے اب تک امریکہ کی موجودگی کی حمایت کی ہے اور موجودہ حکومت کی پشت پناہی کی ہے لیکن مستقبل قریب میں طالبان کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کھلے نہیں تو دیگر غیر رسمی راستوں سے طالبان سے پینگیں بڑھائی گئی ہیں۔ قطر کے ایک وزیر نے انکشاف کیا کہ بھارت نے طالبان کے ساتھ دوحہ میں خفیہ مذاکرات کیے ہیں۔
’اچھے طالبان اور برے طالبان‘ کی اصطلاح کی آڑ میں امریکہ بھی طالبان سے بات چیت کا جواز پیدا کر چکا ہے۔ تب ہم نے طالبان کے خلاف بیان دے کر بات چیت کی مذمت کی تھی۔ اب بھارتی حکومت کے موقف میں یہ ایک بڑی تبدیلی آئی ہے تاکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کی امکانی صورت میں بھارت تنہا نہ پڑ جائے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے سابق فارن سروس افسروں پر مشتمل غیر رسمی وفد مشاہد کے طور پر مذاکرات کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ایک طالبانی افسر کے حوالے سے ایک صحافی نے بھی اس بات کی خبر ٹویٹ کی ہے۔ حالانکہ بھارتی حکومت نے اس بات کو بے بنیاد اور شر انگیز خبروں سے تعبیر کرتے ہوئے اس سے انکار کیا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے معمول کی ہفت روزہ بریفنگ کے دوران ۲ جولائی کو ان خبروں کی واضح طور پر تردید کی کہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے دوحہ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ یوں بھی عالمی سفارت کاری میں غیر معلنہ اور غیر رسمی گفتگوؤں کا چلن رہا ہے تو اس کے امکانات موجود ہیں کہ بھارت ابھی سے طالبان کے ساتھ روابط کے لیے ایک ’کھڑکی‘ کھلی رکھنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ افغانستان کے امن اور استحکام کے معاملے میں بھارت کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور اس نے ملک میں امداد اور تعمیر نو کی سرگرمیوں میں تقریباً دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے یقیناً مستقبل میں اہمیت حاصل کرنے والے تمام فریقوں کے ساتھ روابط پیدا کرنے کا حقدار ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ بیرونی طاقتوں کے انخلا کے بعد انتہاپسند افغانستان کے بعد کشمیر کا رخ کر سکتے ہیں لیکن بھارتی حکومت اتنی ناسمجھ نہیں کہ وہ ملک میں کسی بھی عنصر کو کسی تخریبی کارروائی کے لیے چھوٹ دیدے۔ البتہ بھارت کے دایاں بازو کے شدت پسند عناصر اس کی آڑ میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کر کے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
کچھ لوگ طالبان کے مختلف الخیال گروہوں کے تسلط کے لیے سرگرم ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں، ساتھ ہی بھارت اور امریکہ وغیرہ کو وہاں انتہاپسندی اور تشدد کے ابھر آنے کے اندیشے ستا رہے ہیں۔ خواتین کے حقوق اور شخصی آزادی کے مغربی تصور سے دنیا میں طالبان ہی کیا چین سمیت متعدد معاشروں کو اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے امور کو مقامی حالات اور حکومتوں پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح کے کچھ معاملات اور اندیشوں کا ازالہ اگر بالکلیہ ممکن نہ بھی تو دنیا کو اعتماد میں لینا نئی افغانی حکومت کے لیے چیلینج بن سکتا ہے۔ دوسری جانب سابقہ طالبان حکومت کے دور میں کئی پہلوؤں سے طالبان نے اچھی مثالیں بھی قائم کی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے شہر چمن کی سرحد پر ’رنگین منڈی‘ کے بڑے بازار میں اربوں روپیوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ اس پورے بازار کی حفاظت پر صرف سات طالبان تعینات ہوتے تھے اور نمازیں مسجد میں ادا کرنے کے لیے لوگ اپنی دکانیں کھلی چھوڑ کر جاتے تھے۔ ملا محمد عمر کے حکم پر منشیات کی کاشت مکمل طور رک گئی تھی جو کہ امریکہ کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی دوبارہ شروع ہو گئی۔
امریکہ وہاں انتہا پسندی کو ختم کرنے کی نیت سے داخل ہوا تھا، آج وہ خود وہاں سے نامراد جا رہا ہے جو بزبان عمل اس کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اب صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے کہ نیا افغانستان امریکہ اور چین کے لیے میدانِ جنگ نہ بنے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے سخت آزمائشی حالات سے گزرنے والے افغانستان کو اب بقائے باہم، امن، ترقی کے ساتھ اپنے وطن اور باشندوں کی عزت نفس اور خودداری کو ملحوظ رکھنے کے موقع کا انتظار ہے۔ افغانوں کو ان کی اپنی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کی آزادی حاصل ہے اور اب ان کو اپنے وطن کی تعمیر کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ عالمی طاقتیں ان کی دعوت اور ضرورت پر ان کا اس طرح خیرخواہانہ تعاون کریں کہ غیّور افغان اس امداد یا خیر خواہی کو بھی ’بیرونی مداخلت‘ نہ سمجھ لیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021