تین نئے متنازعہ زرعی قوانین کی منسوخی کے مطالبے کے ساتھ ملک کے کسان پچھلے کم و بیش ستر دنوں سے دارالحکومت دلی کے اطراف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران احتجاجی کسانوں کے ساتھ حکومت کی کئی مرحلوں کی بات چیت بھی ہوئی اور انہیں بدنام کرنے کی بھی سر توڑ کوشش ہوئی۔ انہیں خالصتان کے حامی، دہشت گرد اور نجانے کیا کیا کہا گیا لیکن کسانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر ہوئے پرتشدد واقعات کی آڑ لے کر ایک بار پھر اس تحریک کو بدنام اور ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک مرحلے پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ تحریک اس سازش کا شکار ہو کر دم توڑ دے گی لیکن دوسرے ہی دن پھر یہ تحریک تازہ دم ہو گئی۔
کسانوں کی اس تحریک سے حکومت اس قدر پریشان کیوں ہے؟ کسانوں کی جانب سے اتنی شدید مخالفت کے باوجود بھی حکومت ان زرعی قوانین کے معاملے میں کیوں اس قدر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ کیا اس کی وجہ محض حکومت کا گھمنڈ ہے یا وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے بین الاقوامی مہاجنوں کے ہاتھوں مجبور ہو گئی ہے؟ کیوں کہ خود حکومت ہند کی وزارت فائنانس کے مطابق مارچ 2020 تک ہمارا ملک 558.5 بلین ڈالرس (تقریباً 41 لاکھ کروڑ روپے) کے بیرونی قرضوں کا مقروض ہے۔ گزشتہ سال بھی بھارت نے آئی ایم ایف سے 16 بلین ڈالر کا قرض حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ 5 بلین ڈالر کا قرض کووڈ کی وبا سے نمٹنے کے لیے بھی جاری کیا گیا۔
واضح رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے جب کسی ملک کو (مالی امداد کے نام سے) قرض دیتے ہیں تو اس ملک میں اصلاحات کے نام پر ایسی پالیسیوں کو نافذ کرواتے ہیں جو عالمی سرمایہ داروں کے لیے نفع بخش ثابت ہوں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے کسان اصلاحات کے نام پر بنائے جانے والے ان زرعی قوانین کی اصلیت سے واقف ہو گئے ہیں کہ یہ دراصل انہی عالمی و ملکی سرمایہ دارں کو منافع پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان کے عملاً نفاذ کے بعد وہ ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں اپنی زمین اور کھیتی سے محروم ہو جائیں گے۔ شاید اسی لیے وہ ان قوانین کی منسوخی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہو رہے ہیں۔ ان شبہات کو گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ترجمان گیری رائس کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ہند کی جانب سے منظور کیے گئے قوانین دراصل بھارت میں زرعی اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوں گے۔ انہوں نے از راہِ ہمدردی یہ بھی کہا کہ اس عبوری دور میں جن لوگوں پر اس کے منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے ان کے سماجی تحفظ کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ملک میں کھلے بازار کی معیشت کے بعد جتنی بھی معاشی اصلاحات کی گئیں ان کا اصل فائدہ انہی سرمایہ داروں کو ہوتا رہا ہے۔ مزدور، کسان اور عام بے روزگار آدمی تو ہمیشہ اصلاحات کے ان فوائد سے محروم ہی رہا ہے، وہ آج بھی انہی مشکل بلکہ اس سے بھی خراب حالات میں جی رہا ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
ملک کے زرعی شعبے سے سرمایہ داروں کی دلچسپی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ملک میں جہاں کووڈ کے سبب دوسرے تمام شعبے کمزور اور خستہ حالی کا شکار ہوئے ہیں وہیں زرعی شعبے کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ ملک کے اسی ایک شعبے میں معاشی نمو درج کی گئی اور اس نے گزشتہ سال کے مقابلے میں ریکارڈ پیداوار کی۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ایک لمبے عرصے کے بعد ملک میں زراعت کے شعبے کو اس قدر معاشی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی وہ صورت حال ہے جس کا بھرپور فائدہ عالمی و دیسی سرمایہ دار اور بازار کے بڑے بیوپاری اٹھانا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت کے کسان یہ سمجھ گئے ہیں کہ ان زرعی قوانین کے ذریعے ملک کے اس سب سے نفع بخش معاشی سیکٹر کو چند بڑے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان قوانین کے نفاذ بالخصوص کنٹریکٹ فارمنگ جیسے طریقوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ محض چند بڑے سرمایہ دار ان کی زمینوں کے مالک ہو جائیں گے اور وہ اپنی ہی زمینوں پر مزدور بن کر رہ جائیں گے۔ اس کے بعد یہ بڑے سرمایہ دار اپنے عالمی آقاوں کی مرضی کے مطابق وہی فصل اگانے کو کہیں گے جن کا زیادہ منافع انہیں مل سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا پورا زرعی شعبہ ان دیسی و عالمی سرمایہ داروں کی مٹھی میں چلا جائے گا اور یہاں کا کسان پھر ایک بار دیہاڑی کا مزدور بن کر رہ جائے گا اور ملک کی غذائی اجناس کی پیداوار، ان کی فروخت انہی سرمایہ دارں کے رحم و کرم پر رہے گی جس کے بعد ملک بھی ان کارپوریٹس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔ اس سال کے بجٹ کو صدی کا تاریخ ساز بتایا جا رہا تھا، جو کچھ امیدیں کسانوں کو اس سے تھیں اس میں بھی ‘جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا’ کے مصداق مایوسی ہی ہاتھ لگی بلکہ وزیر مالیات نے محض زرعی انفراسٹرکچر کے سیس (Cess) کے ذریعہ یہ بات واضح کر دی کہ حکومت کو کسانوں اور پیداوار کی قیمتوں کی نہیں بلکہ کارپوریٹس کے مفادات ہی سے دل چسپی ہے۔ اسی وجہ سے کسان بضد ہیں کہ ان قوانین کو واپس لیا جائے۔ دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بھی اپنے عالمی آقاوں کے سامنے مجبور ہے کہ وہ ان اصلاحات کو کسی نہ کسی طرح نافذ کر کے رہے۔ لیکن ہندوستان کی عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں ہے، ملک کے سارے شہریوں کا مسئلہ ہے کہ کسانوں کی طرح ان کے مقدر کو بھی بیرونی آقاوں کے دامن سے باندھا جا رہا ہے۔ اس لیے ملک کے تمام ہی لوگوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ تحریک ہر حال میں کامیابی سے ہم کنار ہو۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021