اتر پردیش: ڈی جی پی کو این ایچ آر سی کا نوٹس
نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں پولیس کارروائی میں انسانی حقوق کی پامالی ہونے کی شکایتیں ملنے پر ریاست کے ڈی جی پی کو ایک نوٹس جاری کیا ہے۔ این ایچ آر سی کو حال ہی میں ایک شکایت ملی تھی، جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہونےکے(ریاستی پولیس کے ذریعے) واقعات میں اس سے مداخلت کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ’’اس معاملے سے متعلق دیگر شکایتیں بھی ملی ہیں، جن کو نوٹس میں لیا گیا ہے۔ این ایچ آر سی نے اتر پردیش کے ڈی جی پی کو ایک نوٹس جاری کر چار ہفتوں میں رپورٹ مانگی ہے۔‘‘ شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے پاس ہونے کے بعد اتر پردیش میں ریاستی اتھارٹی کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔
کمیشن کو سونپی گئی شکایت کے مطابق، نوجوان مارے جا رہے ہیں، انٹرنیٹ بند کر دیے گئے ہیں اور پولیس خود عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پر امن طریقے سے جمع ہونے کے حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکار کہہ رہے ہیں کہ پولیس افسروں نے گولی نہیں چلائی، جب کہ خبروں سے ظاہر ہے کہ پولیس اہلکار لوگوں پر گولی چلا رہے ہیں، جو پولیس کے دعوے کے ٹھیک الٹ ہے۔ اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس افسر کئی لوگوں کی جائیداد کو تباہ کر رہے ہیں اور انہوں نے مسلم لوگوں کی دکانیں سیل کرکے مسلم آبادی کو نشانہ بنایا۔
بتا دیں کہ اترپردیش کے ڈی جی پی او پی سنگھ سمیت تمام اعلیٰ افسروں نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرہ کر رہے کسی بھی شخص کی موت پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ محمد سلیمان کے معاملے میں بجنور کے سینئر پولیس افسروں نے قبول کیا ہے کہ اس کی موت پولیس کے ذریعے سیلف ڈیفنس میں چلائی گئی گولی سے ہوئی۔
واضح ہو کہ مظفرنگر سمیت ریاست کے 12 ضلعوں میں پچھلے جمعہ (20 دسمبر) کو شہریت ترمیم قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے کئی ویڈیوز میں پولیس کو تشدد کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ان ویڈیوز میں پولیس مبینہ طور پر سی سی ٹی وی اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچاتی نظر آ رہی ہے۔
(ایجنسیاں)