ابراھیم علیہ ا لسلام : ا یک امّت ایک تحریک

عقل کو اپیل کرنے والا طریق ِدعوت۔رب کے ہی ہو رہنے کا پیغام

ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآباد

 

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر متعدد خصوصیات کے ساتھ فرمایا۔قانت(فرمانبردار) ،حنیف (یکسو) ،خلیل(دوست) ،حلیم(بردبار)، اوّاہ (نرم دل )منیب(رجوع کرنے والا) اور امام المتقین ۔ اس کے ساتھ آپؑ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح بھی فرمایا کہ ابراہیمؑ اپنی ذات میں ایک پوری امّت تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری اُمّت تھا،اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسُو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔(سورۃ النحل ۱۲۰)
ابراہیمؑ کو ایک امّت اس لیے کہا گیا کہ جو کام ایک امّت اور ایک تحریک کے کرنے کا تھا اس کوانہوں نے تن تنہا انجام دیا۔جب ساری دنیا کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اس وقت آپؑ نے توحید کے پرچم کو بلند کیا اور تنہا دنیا کے مختلف حصوں (حجاز،فلسطین ،اردن )میں توحید کے مراکز قائم کئے۔آپؑ کی سیرت دعوت، عزیمت ، ابتلاء اور عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔تمام آزمائشوں اور عظیم قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپؑ کواپنا خلیل بنایااور امامِ انسانیت کے لقب سے سرفراز فرمایا۔آ ج بھی دنیا کےبیشتر انسانوں( یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں ) کے نزدیک متفقہ طورپر آپؑ امام و پیشوا کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔آپؑ کی نسل سے بنی اسرائیل کے تمام انبیاء اور آخری رسول خاتم النبیین محمدصلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے۔اسی لیے آپؑ کو ابو الانبیاء سے بھی جانا جاتا ہے۔
اسی حقیقت کا اس آیت میں ذکر فرمایاکہ:
یاد کرو کہ جب ابرہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا : ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (سورۃ البقرۃ ۱۲۴۔)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کا جو مقام ہے اس کا اندازہ اس آیت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنا دوست بنایا۔
’’اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘۔( سورۃ النساء۱۲۵)
آئیے ہم حضرت ابرھیم علیہ السلام کی دعوت و عزیمت سے عبارت زندگی پر نظر ڈالتے ہیں ۔
ہر پیغمبر کی زندگی دعوت الی اللہ سے شروع ہوتی ہے۔جیسے جیسے دعوت اگلے مراحل میں داخل ہوتی ہے وہاں باطل طاقتوں سے نبرد آزماہونے کے مواقع پیش آتے ہیں اور دعوت ، عزیمت کے دور میں داخل ہوتی ہے جس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بالآخر صبر و استقامت کے ذریعے دعوت تکمیلی مراحل میں داخل ہوتی ہے اور فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے۔
دعوتی زندگی: ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش چار ہزار سال قبل عراق میں ایک بت پرست گھرانے میں ہوئی جہاں ان کا باپ آزر پروہت تھا اور بتوں کو تراشتاتھا۔ ابراہیمؑ جب شعور کی عمر کو پہونچے تو شرک سے بیزاری کا اظہار کرتے رہےاور سب سے پہلے دعوت حق کا آغاز گھر سے کیا۔انہوں نے اپنے باپ کو بڑے احترام کے ساتھ بتوں کی بے بسی بتلاکر بتوں کی پرستش سے روکتے رہے۔
ابراہیمؑ کاواقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا ’’کیا آپ بتوں کو خدا بناتے ہو ؟ میں تو آپ کو اور آپکی قوم کو کُھلی گمراہی میں پاتا ہوں‘‘۔(سورۃ الانعام ۷۴۔)
باپ نے حضرت ابراہیمؑ کو بہت سمجھایا کہ وہ اس دعوت سے باز آجائیں ۔اس نے آپؑ کی شادی اپنے گھرانے کی سب سے حسین لڑکی (سارہ) سےکرادی تاکہ آپ ؑ کو ’افاقہ‘ ہو اور توحید کی دعوت سے بازآجائیں۔ لیکن جب باپ نے محسوس کیا کہ ابراہیمؑ اپنی دعوت سے باز آنے والے نہیں ہیں تو اس نے آپؑ کو گھر سے نکال دیا ۔ گھر سے نکلنے کےبعد ابراھیمؑ اپنے شہر کے لوگوں میں توحیدِ خالص کو پیش کیا۔شرک کی نفی کی۔بتوں کی بے بسی کو ان کے سامنے پیش کیا۔ شرک کی حقیقت کوایسے ڈرامائی انداز میں پیش کیا کہ ایک رات لوگوں سے کہا کہ تارا میرا خدا ہے۔ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہا میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔پھر جب چاند نمودار ہوا تو کہا یہ میرا خدا ہے۔پھر جب چاند بھی غائب ہوا تو کہا کہ اگرمیرا رب میری رہنمائی نہ کرتا تو میں بھی گمراہ ہوجاتا۔پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے۔یہ سب سے بڑا ہے۔مگر جب سورج غروب ہونے لگا تو حضرت ابراھیم نے فرمایا میرا رب وہ ہے جس نے ان سب کو پیداکیا۔پھر فرمایا:
’’میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔(سورۃ الانعام ۷۹)۔
اس واقعہ میں تبلیغ کا ایک انوکھا انداز ہمارے سامنے آتا ہے۔ عقلمند داعی نت نئے طریقوں سےدعوت کو پیش کرتا ہے تاکہ بات ذہن نشین ہو۔اس طریقے سے ابراھیمؑ نے اپنی قوم کے سامنے خالق و مخلوق اور معبود و عبد کے فرق کو واضح کیا۔ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت آپ کو عراق سے ہجرت کرنی تھی اس لیے آپ نے اتمامِ حجّت کرنے کافیصلہ کرلیا اور دعوت کا ایسا طریقہ اختیار کیا جس سے وقت کے بادشاہ تک آپؑ کی دعوت پہنچ جائے۔اس لیے ایک مندر میں گھس کر بت شکنی کا جراتمندانہ اقدام کیا۔ اس جرم کی پاداش میں بادشاہ کے دربار میں حاضری ہوئی اور وہاں پر حق گوئی کاوہ تاریخی مکالمہ ہوا جس کو قرآن میں نقل کیا گیا۔
جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے ،جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہےتو اس نے جواب دیا: زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے ۔ ابراہیم نے کہا : اچھا ، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا ۔ یہ سن کر وہ منکر حق ششدرہ رہ گیا ۔(سورۃ البقرۃ ۲۵۸)
ابراھیمؑ نے خوبصورت اندازمیں اس ظالم حکمراں کو اسکی حیثیت بتلادی اور یہ واضح کردیا کہ ِجو حاکمِ تکوین ہے اسی کو معبودِ حقیقی ہونا چاہیے نہ کہ وقت کے عارضی حکمران کو۔ ہر ظالم و جابر حکمران کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ دلیل کی دنیا میں ناکامی کے بعد سخت سزاؤوں کے ذریعے حق پرستوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپؑ کو حق گوئی کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا جو اللہ کے حکم سے بارِد و سلامتی بن گئی۔ یہ زندگی کا پہلا اور عظیم الشان امتحان تھا۔ یہ حق گوئی کا امتحان تھا جس میں آپ نے کامیابی حاصل کی۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ہجرت: اس کے بعد آپ کی دعوتی زندگی ایک بین الاقوامی مرحلہ میں داخل ہوتی ہے۔ اپنی بیوی اور بھتیجے کےساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ اپنے بھتیجے کو اردن میں متعین کردیتے ہیں۔ اولاد کی تمنا و دعا کو شرف قبولیت عطا ہوتی ہے۔ بی بی ھاجرہ جو آپؑ کی دوسری بیوی تھیں ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی بیوی اور شیرخوار بچے کو حکم الہی سے وادئ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر جانے کا حکم ہوتا ہے۔ یہ آپ کی عزیمت کا دوسرا امتحان ہوتا ہے جس سے آپ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہ اللہ پر توکل کا امتحان تھا۔حضرت ہاجرہؑ بھی اس توکل کے امتحان میں پوری اترتی ہیں اور نتیجہ میں اللہ کی مدد سے اسی مقام پر زمزم کا چشمہ ابلتا ہے جو آج تک ساری انسانیت کے لیے ایک نشانی ہے۔یہی وہ مقام ہے جسے حجاز کہا جاتا ہےاور اسی مقام پر کعبۃ اللہ کی تعمیر کی جاتی ہے۔
ایک عرصہ کے بعد جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو اس وقت آپؑ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کی عمر کو پہونچتےہیں ۔اب اللہ تعالیٰ کوآخری امتحان لینامقصود ہوتا ہے۔ یہ محبت کا امتحان تھا۔ ایک طرف بیٹے کی محبت تھی جو آپ کی زندگی کا کل سرمایہ تھا اور دوسری طرف اللہ کا حکم تھا۔خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنے چہیتے بیٹے کو ذبح کریں۔ باپ نے بیٹے سے استفسار کیاکہ بیٹے تمہارا کیا خیال ہے۔
’’بیٹا ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا، ’’ ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے ، آپ اِنْشاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ‘‘(سورۃ الصافات ۱۰۲۔)
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
یہ حضرت ہاجرہ کی تربیت کا کارنامہ تھا کہ بیٹا اپنے باپ کی توقعات پر پورا اترا۔اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کا اللہ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا اور قربانی کی ایسی نظیر پیش کرنا اتنا پسند آیا کہ اللہ نے اہل ایمان کے لیے قربانی کی عبادت کو قیامت کے لیے جاری و ساری کردیا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کو کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم دیتا ہے۔اس طرح حجاز میں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دعوتِ توحید کے مشن پر متعن کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت سارہؑ کے بطن سے حضرت اسحٰق پیدا ہوتے ہیں جنکو فلسطین میں آباد کردیا جاتا ہےجن سے بنی اسرائیل کی نسل چلتی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوتی زندگی کے آغاز ہی میں بت شکنی کے ذریعے اتمام حجت کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و عزیمت کے آخری مرحلے میں بتوں سے خانہ کعبہ کو پاک کیا۔یہ اس لیے کہ ابراھیم علیہ السلام کو دعوت کے آغاز میں ہجرت کرنی تھی۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکے ہی میں ۱۳ سال تک دعوت و تبلیغ کرنی تھی ۔ہجرت کے بعد ۸ سال ہی کے عرصے میں قلوب کو فتح کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عسکری طاقت کے ذریعے کفار و مشرکین کو انہی کی سرزمین میں سرنگوں کرکے کعبۃ اللہ کو بتوں سے پاک کیا۔
ہمارے لیےسیرتِ ابراھیمی میں پیغام یہ ہے کہ توحید کی دعوت سے ایک داعی کا سفرشروع ہوتا ہے۔دعوت جب اپنے اتمام تک پہنچتی ہے تو عزیمت کے مراحل آتے ہیں ۔اور اس دوران قربانیاں ،صبر ،توکل اور استقامت کے اوصاف داعیان حق کو منزل سے ہمکنار کرتے ہیں۔ یہ منزل فتح قریب کی شکل میں ہویافتح بعید کی صورت میں بہرحال ایک داعی حق کے حصے میں آخرت کی کامیابی تو ضرور آتی ہے۔
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
***

ہر پیغمبر کی زندگی دعوت الی اللہ سے شروع ہوتی ہے۔جیسے جیسے دعوت اگلے مراحل میں داخل ہوتی ہے وہاں باطل طاقتوں سے نبرد آزماہونے کے مواقع پیش آتے ہیں اور دعوت ، عزیمت کے دور میں داخل ہوتی ہے جس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بالآخر صبر و استقامت کے ذریعے دعوت تکمیلی مراحل میں داخل ہوتی ہے اور فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021