دہلی کے روہنگیا پناہ گزیں کیمپ میں آگ لگنے سے تمام جھگیاں جل کر راکھ، کوئی جانی نقصان نہیں
نئی دہلی، جون 13: دہلی میں گزشتہ رات اوکھلا کے کنچن کنج میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں آگ لگنے سے سبھی جھگیاں جل کر راکھ ہوگئیں۔ اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ تاہم متاثرین نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ آگ سے بچنے میں بہت سے لوگوں کو معمولی چوٹیں آئیں۔
کیمپ میں آگ رات کے تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر لگی۔ متاثرین کے مطابق انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوا کہ آگ کیسے لگی اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محفوظ مقام پر فرار ہو گئے۔ آگ اتنی خوفناک تھی کہ اس کے شعلے طویل فاصلے سے بھی نظر آرہے تھے۔
روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں تقریباً 57 خاندان آباد ہیں جن میں کل 270 ارکان شامل ہیں۔ 2012 سے یہ کیمپ روہنگیا پناہ گزینوں کے سر چھپانے کی جگہ ہے۔
آگ لگنے کی اطلاع ملنے کے بعد موقع پر پہنچنے والی فائر بریگیڈ آگ، بجھانے کے مشن میں دو گھنٹے تک لگی رہی تاہم آگ بہت شدید تھی اور تمام جھگیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔
معلوم ہو کہ اس سے قبل روہنگیا پناہ گزینوں کو ہٹانے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں جو ٢٠١٢ سے کالندی کنج سے پہلے کنچن کنج میں ایک خالی میدان میں رہ رہے ہیں۔ متاثرین کا الزام ہے کہ اکثر انھیں زمین خالی کرنے کے لیے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ تاہم لوگوں نے واضح طور پر کچھ نہیں کہا۔
آگ لگنے کی اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا لیکن الگ الگ دعوے کیے جارہے ہیں۔
اوکھلا کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خان نے انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے روہنگیا کیمپ میں لگنے والی آگ کو سازش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اترپردیش کی زمین ہے اور فرقہ پرست طاقتیں یہاں سے روہنگیا پناہ گزینوں کو ہٹانا چاہتی ہیں جب کہ یو این ایچ آر سی نے ان سب کو اس ملک میں رہنے کے لیے عارضی شناختی کارڈ دیے ہیں۔
ان پناہ گزینوں میں 30 سالہ جعفر بھی شامل ہے جو ای رکشہ چلاتا ہے۔ ظفر کے 3 بچے ہیں۔ وہ ٢٠١٢ سے اس کیمپ میں رہ رہا ہے۔ جعفر نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ شام کو کچھ لوگ آئے اور انھیں وہاں سے جانے کی دھمکی دی۔ انھیں جگہ خالی کرنے کے لیے پہلے بھی کئی بار دھمکیاں دی جا چکی ہیں۔
اس واقعے میں 80 سالہ امام خورشید نے بمشکل اپنے آپ کو آگ کے شعلوں سے بچایا ہے۔ انھوں نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ جب شور مچا تو ہم باہر بھاگے لیکن دروازے پر آگ لگی تھی اس لیے میں نے گھر کے پیچھے سے دیوار کود کر اپنی جان بچائی۔
امام کے کپڑے جل گئے، انھیں کچھ چوٹ بھی آئی۔ امام کا تعلق برما کے صوبہ اراکان سے ہے اور وہ 2012 سے یہاں مقیم ہیں۔
انڈیا ٹومورو سے بات کرتے ہوئے ایک اور متاثرہ پناہ گزین غفران نے کہا کہ ’’ہمارا سارا سامان، یہاں تک کہ شناختی کارڈ بھی جل گئے ہیں، ہم بہت پریشان ہیں۔‘‘
دریں اثنا مقامی لوگ پناہ گزینوں کو فوری امداد فراہم کر رہے تھے۔ اس میں بنیادی طور پر سابق ایم ایل اے آصف محمد خان کی ٹیم اور ایس آئی او دہلی کے کارکن پیش پیش تھے۔
رپورٹ لکھنے تک آگ لگنے کی اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا۔