پولرائزیشن اور امریکی الیکشن۔ وسیع تناظر میں ایک تجزیہ

غزہ: انتخابی نتائج میں ایک غیر متوقع موڑ ثابت ہوا

عبدالستارفہیم
استنبول، ترکیہ

محنت کش طبقے کی بیگانگی: ڈیموکریٹک پارٹی کی بدترین شکست کا سبب
اشرافیہ کی حکم رانی کے خلاف امریکی عوام کا بڑھتا ہوا احتجاج
جب امریکی الیکشن 2024 کے نتائج سامنے آئے تو یہ بنیادی سوال ظاہر ہوا کہ دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے اس ملک میں درپیش جمہوریت کے مسائل اس الیکشن میں کیسے ظاہر ہوئے؟ اس ضمن میں تین بڑے مظاہر سامنے آئے:
پہلا یہ کہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں یہ کہنے کا کوئی معنی خیز موقع نہیں دیا جاتا کہ ان پر کس طرح حکومت کی جا رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر خود حکم رانی کا بحران ہے۔ لوگ بڑے پیمانے پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں۔
دوسرا مظہر یہ ہے کہ کمیونٹی کے اخلاقی ڈھانچے ٹوٹ رہے ہیں۔ خاندان سے لے کر کمیونٹی اور قوم تک لوگوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ لوگ احساسِ وابستگی، فخر اور یکجہتی کے احساس کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن اس احساس کو طمانیت بخشنے والے وسائل اور مواقع سے محرومی کا شکار بتاتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ غزہ (اسرائیل) اس انتخابی مہم میں عمومی طور پر ایک بنیادی مسئلہ نہیں بن سکا لیکن انتخابی نتائج کے اعتبار سے اس نے ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کے طور پر کام کیا۔
یہ تین گہرے مسائل ہیں جو اس الیکشن سے کلیدی تعلق رکھتے تھے، جنہیں ڈونالڈ ٹرمپ نے سمجھ لیا اور ان سے جڑنے میں کامیاب ہو گئے، خاص طور پر ان لوگوں کی شکایات کے ساتھ جو کم پڑھے لکھے ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں کہ اشرافیہ انہیں کمتر سمجھتی ہے۔
عوام کی ان شکایتوں کا جواز کئی دہائیوں سے کامیاب اور ناکام لوگوں کے درمیان خلیج کے گہرے ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نے امریکی سیاست کو زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ سب 2016 میں عروج پر پہنچا تھا جب ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلی بار ان شکایات کو بڑھاوا دے کر اپنے حق میں انتخابات جیتنے کے لیے استعمال کیا۔
عوام میں یہ ناراضگیاں پیدا ہونے کی اصل وجہ یہ نظر آتی ہے کہ کئی دہائیوں تک ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں نے ایک قسم کا "نیو لبرل، مبنی بر مارکیٹ گلوبلائزیشن” کا منصوبہ چلایا، جس نے اوپر کے لوگوں کو بے حد فائدے پہنچائے، لیکن سوسائٹی کے نیچے والے نصف حصے کو بنیادی طور پر منجمد آمدنیوں اور آؤٹ سورس ملازمتوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔
لہٰذا، آمدنی اور دولت کی عدم مساوات بڑھتی رہی لیکن صرف یہی نہیں اشرافیہ نے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں نے ورکنگ لوگوں سے کہا کہ اگر آپ عالمی معیشت میں مقابلہ کرنا اور جیتنا چاہتے ہیں تو تعلیمی مسابقت پیدا کریں۔ آپ کی کمائی اس پر منحصر ہوگی کہ آپ کیا سیکھتے ہیں، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ آیا وہ ضروری وسائل اور اہلیت ان نچلے طبقے کی عوام کو حاصل ہیں یا نہیں۔
انہوں نے یہ نظر انداز کر دیا کہ اس نصیحت میں ایک قسم کی توہین مضمر ہے کہ اگر آپ نئی معیشت میں جدوجہد کر رہے ہیں اور آپ اعلیٰ تعلیم نہیں رکھتے تو آپ کی ناکامی آپ کی اپنی غلطی ہے۔ یہی پیغام تھا جس کی وجہ سے بہت سے محنت کش لوگوں نے نہ صرف اپنے آپ کو معیشت کے لحاظ سے کمزور محسوس کیا بلکہ یہ بھی محسوس کیا کہ اشرافیہ ان کو کم تر سمجھتی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی ماضی میں ہمیشہ عوام کے حق میں نظر آتی تھی، لیکن اب اسے "اعلیٰ قابلیت والی اشرافیہ” کے طور پر جانا جانے لگا ہے، جو دوسروں کو کمتر سمجھتی ہے۔ روایتی طور پر، ڈیموکریٹک پارٹی عوام کے حق میں اور طاقت کے خلاف ایک پارٹی رہی ہے جو محنت کشوں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت امیر لوگ عموماً ریپبلکنز کو ووٹ دیتے تھے لیکن 2016 تک یہ تصویر بدل چکی تھی۔
گلوبلائزیشن کے دور میں ڈیموکریٹک پارٹی اس طریقے سے ترقی پذیر ہوئی کہ ایک قسم کی "مارکیٹ تسخیریت” کے ساتھ ساتھ "لیاقتی استحقاق کی حکم رانی” بھی ابھر کر آئی۔ یعنی یہ سوچ کہ کالج کی ڈگری یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا کامیابی کا واحد راستہ ہے اور یہ باوقار زندگی کی ضمانت بھی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ان ووٹروں کے درمیان بہت کامیابی حاصل کی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ الیکشن میں ایک اور بنیادی سوال ابھر کر آیا کہ کون سا امیدوار خود کو تبدیلی کا نمائندہ ظاہر کر سکتا ہے، کیونکہ لوگ تبدیلی چاہتے تھے۔ وہ موجودہ صورتحال سے خوش نہیں تھے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ دلیل جیت لی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر، کملا ہیرس خود کو کامیابی سے تبدیلی کی نمائندہ کے طور پر پیش نہ کر سکیں۔
لیکن اس سے آگے ایک اور بات غور طلب ہے۔ کیا یہ اقتصادی شکایت تھی یا ثقافتی بےچینی یا اشرافیہ کی طرف سے تحقیر کا مسئلہ تھا؟ در اصل یہ ان سب کا مجموعہ تھا۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ اقتصادی مسائل (جیسے مہنگائی، ملازمتیں، اقتصادی ترقی، آمدنی کی تقسیم) اور ثقافتی شکایات کے درمیان بہت زیادہ فرق کرنا واقعی صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں دراصل آپس میں قریبی تعلق رکھتے ہیں کیونکہ معیشت، ظاہر ہے اہمیت رکھتی ہے کہ وہ ملازمتیں پیدا کرنے اور قیمتوں کو کم رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ معیشت سماجی عزت اور فرد کے وقار کو کیسے تقسیم کرتی ہے۔ اور یہ ثقافتی سطح سے جڑا ہوا اہم مسئلہ ہے۔
حالیہ برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف محنت کش طبقے کے لوگوں کے رجحان کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ نہ صرف وہ اقتصادی طور پر پیچھے رہ گئے ہیں، بلکہ ڈیموکریٹس نے مالیاتی صنعت کو ڈی ریگولیٹ کرنے اور مارکیٹ پر مبنی گلوبلائزیشن کو فروغ دینے میں حصہ لیا۔ یہ سب اہم تھا، لیکن ڈیموکریٹس نے محنت کشوں کی وقعت یا توقیر پر توجہ نہیں دی۔ انہوں نے عزت، وقار، سماجی احترام اور شناخت پر خاطر خواہ زور نہیں دیا۔
اس کے علاوہ لوگوں کو یہ بتانا کہ ان کے مسائل کا حل کالج کی ڈگری حاصل کرنا ہے، ایک طرح کے “سرٹیفکیٹ پر مبنی تحقیر” کی چنگاری پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے نہ صرف اقتصادی طور پر پیچھے رہ جانے کا احساس کیا، بلکہ انہیں لگا کہ ان پر حقارت بھری نظریں بھی ڈالی جا رہی ہیں۔ یہ اقتصادی محرومی اور ثقافتی ناراضگی کا ایک خطرناک مرکب تھا جسے ڈونالڈ ٹرمپ نے بہت شاطرانہ طریقے سے کامیابی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا جسے ڈیموکریٹس پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔
امریکہ میں گزشتہ چند دہائیوں میں جو سب سے زیادہ خطرناک اثر وسیع ہوتی عدم مساوات کا ہوا ہے، وہ سماجی زندگی کے ٹوٹنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور یہ وہی چیز ہے جو لوگوں کی بےچینی کی جڑ ہے۔ امیر اور غریب الگ الگ زندگیاں گزار رہے ہیں، الگ اسکول، الگ محلے، الگ خریداری اور تفریحی مقامات۔ یہ وہ حقیقت ہے جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ جمہوریت صرف الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ ایک مشترکہ زندگی گزارنے کا نام ہے جو یہ احساس دلاتی ہو کہ سب انسان ایک ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔
ڈیموکریٹس اور ترقی پسند افراد اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اقتصادی بحالی کو کمیونٹی کے احساس کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے؟ ترقی پسندوں نے ان لوگوں کی عزت نفس اور وقار پر توجہ دینے کے بجائے انہیں کالج کی ڈگری حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اس سے لوگوں کو نہ صرف یہ لگا کہ انہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ یہ بھی کہ ان کے ساتھ حقارت والا رویہ برتا جا رہا ہے۔
اقتصادی محاذ پر گلوبلائزیشن نے یہ عوامی احساس پیدا کیا کہ قومی سرحدوں اور شناخت کی کوئی اہمیت نہیں ۔ عوام چاہتی ہے کہ مقامی پیداوار اور عوامی سرمایہ کاری پر زور دے کر صنعتوں کو دوبارہ ترقی دی جائے اور اس اقتصادی بحران کو کم کیا جائے۔ یہ صرف معیشت کو مضبوط نہیں کرے گا بلکہ قومی فخر اور کمیونٹی کے احساس کو بھی بحال کرے گا۔
غزہ کا انتخاب میں کردار:
ڈیموکریٹک پارٹی جس کی نمائندگی کملا ہیرس نے کی تھی اس کی غزہ پر پالیسی نے ایک بڑے طبقے کو شدید ناراض کیا جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ غزہ کے بارے میں ڈیموکریٹس کی پالیسی پر ووٹر کی ناراضگی وسیع تر شکایات سے جڑی ہوئی ہے، جن میں مسلمانوں اور ترقی پسند غیر مسلموں کے درمیان احساسِ دھوکہ دہی شامل ہے۔
اس ناراضگی کا نتیجہ کملا ہیرس کے لیے ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی کی صورت میں نکلا، جہاں کئی ووٹر یا تو گھر پر رہے یا ہیرس کے خلاف ووٹ دیا۔ کملا ہیرس دس ملین حامیوں سے محروم ہو گئی جنہوں نے 2020 میں بائیڈن کی حمایت کی تھی۔ بائیڈن کی اسرائیل کو مالی امداد جیسے اقدامات نے امریکی عوام میں غصہ پیدا کیا، کیونکہ یہ رقوم امریکی مقامی ضروریات کو پورا کرنے کی بجائے غیر ملکی پالیسی پر خرچ کی گئی۔ وہ ووٹر جو اقتصادی مسائل سے پریشان تھے، ان کا خیال تھا کہ غزہ کے بارے میں پالیسی نے ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔
سوئنگ اسٹیٹس میں فرق: سوئنگ ریاستیں جیسے وسکونسن، پنسلوانیا اور مشیگن میں مسلمان ووٹروں اور فلسطینیوں کے حامی ووٹروں کی حمایت ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر، نیو جرسی میں، کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان فرق اسی ہزار ووٹروں کا تھا جبکہ وہاں ڈھائی لاکھ مسلمان موجود تھے۔ پنسلوانیا میں فرق ایک لاکھ انتالیس ووٹروں کا تھا اور وہاں ایک لاکھ انچاس مسلمان موجود تھے۔ مشیگن میں، ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان فرق تیس ہزار ووٹروں کا تھا۔ وہاں ستر ہزار مسلمان ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ووٹروں کا ایک بڑا حصہ اس مسئلے پر فیصلہ کن تھا، جس کا اثر پولرائزیشن پر ہوا ۔
• پروگریسیو تحریکوں اور اندرونی ڈیموکریٹک اختلافات: ترقی پسند ڈیموکریٹس جیسے برنی سینڈرز اور دیگر نے غزہ کے بارے میں پارٹی کی پالیسی کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ووٹرز نے صدارتی امیدواروں اور دیگر ڈیموکریٹ نمائندوں کے درمیان فرق کیا، ان امیدواروں کی حمایت کی جنہوں نے غزہ کے حق میں موقف اپنایا، جبکہ ہیرس کو سزا دی۔ امریکی خارجہ پالیسی اور عالمی تاثرات: امریکہ کی اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب کرتی ہے۔ انتخابی نتائج دوسرے ممالک اور گروپوں کے لیے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں اسرائیل کی حمایت کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت ہے۔
• عالمی رجحانات سے ہم آہنگی: یہ نتیجہ ایک وسیع عالمی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بہت سے ممالک میں اسرائیل-فلسطین تنازعے کے بارے میں عوامی رائے تیزی سے ناقدانہ ہو رہی ہے۔ یہ رجحان یورپ اور عالمی جنوب میں ہونے والی تحریکوں سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں فلسطینیوں کے حق میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔
• اقتصادی ترجیحات بمقابلہ خارجہ پالیسی: یعنی غیر ملکی امداد کو ملکی ضروریات پر ترجیح دینے کے نتیجے میں عوامی ناراضگی، عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر رہی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں اقتصادی چیلنجز ہیں۔ امریکی انتخاب کی بھارت کے لیے معنوعیت : امریکی انتخابات کی بازگشت عالمی سطح پر گونجتی ہے اور ہندوستان جیسے ممالک کے لیے خصوصی معنوعیت اور اہمیت رکھتی ہے، جہاں متنوع معاشرہ، جمہوری ڈھانچہ اور اقتصادی جدیدیت و روایتی شناخت کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ معاشی عدم مساوات، ثقافتی مسائل، اور مشترکہ جگہوں کی کمی جیسے مسائل کا حل تلاش کرنا جمہوری نظام کو مضبوط کرنے اور بہتر مستقبل کی ضمانت کے لیے ضروری ہے۔
• دنیا بھر میں سیاسی منظر نامہ ان رہنماؤں کے عروج کا مشاہدہ کر رہا ہے جو عوامی ناراضگی اور موجودہ نظام سے بے زاری کو استعمال کر کے مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ عوامی رہنما جیسے ڈونالڈ ٹرمپ (امریکہ) جائر بولسونارو (برازیل) اور وکٹر اوربان (ہنگری) نے اقتصادی عدم مساوات اور ثقافتی تفریق کو کامیابی سے اپنی حمایت میں تبدیل کیا۔ “اشرافیہ” اور “عام لوگوں” کے درمیان تقسیم ایک عام موضوع ہے، جہاں عوامی رہنما خود کو پسماندہ طبقے کے چیمپئن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی اپیل، خاص طور پر درمیانے اور نچلے طبقے کے لیے، ٹرمپ کے بیانیے سے ملتی جلتی ہے، جہاں وہ خود کو “بیرونی” کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہیں۔
• عالمی سطح پر، گلوبلائزیشن، آٹومیشن، اور نیو لبرل پالیسیوں نے عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔ آزاد تجارت اور گلوبل مارکیٹ پر مبنی معیشت نے کم آمدنی والے طبقات کو متاثر کیا، جس سے انہیں معاشی طور پر مزید پسماندگی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے سماجی و ثقافتی جڑوں میں انتشار پیدا ہوا۔ اس سے ان طبقات میں عدم اطمینان بڑھا، کیونکہ ان کے لیے نہ صرف روزگار کے مواقع کم ہوئے بلکہ ان کی شناخت اور ثقافت بھی خطرے میں پڑ گئی۔ یہ بے چینی سماجی تفریق اور طبقاتی فرق کو مزید گہرا کرتی ہے، جس نے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔
***

 

***

 ڈیموکریٹک پارٹی نے عوام کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اقتصادی حل پر زور دیا، جس کے نتیجے میں عوام میں ناراضگی پیدا ہوئی ۔اسی طرح غزہ پر پارٹی کی پالیسی نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے حامیوں کو ناراض کیا ہے۔ اقتصادی عدم مساوات اور گلوبلائزیشن نے معاشرتی تفریق میں اضافہ کیا، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی دیکھنے کو ملے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024