‘ون نیشنل ون الیکشن ‘ کا تصو ر  جمہوریت کے لیے نقصان دہ

 ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر سید قاسم رسول الیاس  نے ون نیشن ون الیکشن تصور کی پر زور مذمت کی

نئی دہلی ،18جنوری :۔

مرکز کی مودی حکومت نے ون نیشنل ون الیکشن کے اپنے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سر گرمیاں تیز کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سطحی  کمیٹی کے سربراہ سابق صدر رام ناتھ کووند   نے  گزشتہ دنوں عوام سے مشورے طلب کئے تھے  جس پر بذریعہ ای میل عوام اپنے تجاویز ارسال کر رہے ہیں  ۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کے تصور کی سختی سے مخالفت کی ہے۔اعلیٰ سطحی کمیٹی کو بھیجے گئے خط میں، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے جمہوریت میں اس کے نقصانات کی طرف اشارے کئے اور   اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈبلیو پی آئی کے قومی صدر ڈاکٹر  قاسم رسول الیاس نے انتخابات کے موجودہ طریقہ کار کوون نیشن ون الیکشن میں تبدیل کرنے کی تجویز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بیمار جمہوریت کے علاج کے نام پر اس سے بڑی بیماری کبھی نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے  ایک ملک ایک انتخاب کے تصور کی مخالفت کرتے ہوئے کئی نکات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملک ایک انتخاب ایک چیلنج ہے کیونکہ اس پر عمل درآمد کے لیے موجودہ قوانین اور انتظامی سیٹ اپ میں بے مثال تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلیوں، بلدیات اور پنچایتوں کے انتخابات بیک وقت کرانے کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے نصف ریاستی اسمبلیوں کی منظوری بھی درکار ہوگی۔

ڈبلیو پی آئی کے صدرسید قاسم رسول الیاس  نے ون نیشن ون الیکشن کوریاستوں کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا، ”اس سے ریاستوں کی آزادی بری طرح متاثر ہوگی۔ مزید برآں، یہ ریاستوں اور مرکز کے درمیان طاقت کے توازن کو متاثر کرے گا۔ اس سے ریاستی اسمبلیوں کی طاقت کم ہو جائے گی۔‘‘

سید قاسم رسول الیاس کے مطابق  اگر  ایک ملک ایک انتخاب کےتصور کو نافذ کیا گیا تو علاقائی اور چھوٹی جماعتیں مقامی مسائل کو مضبوطی سے نہیں اٹھا سکیں گی کیونکہ قومی مسائل ان پر حاوی ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ وہ انتخابی اخراجات اور حکمت عملی کے حوالے سے  قومی جماعتوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی اور ختم ہو جائیں گی،اس طرح مقامی لوگوں کے مقامی مسائل بھی دب کر رہ جائیں گے۔

ڈاکٹر الیاس نے نے خدشہ ظاہر کیا کہ  یہ مشق ہندوستان کو صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا انتخابات کے وقت  عوام سیاسی جماعتوں کو جوابدہ ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے وعدوں کے لئے بھی مجبور کر سکتے ہیں مگر ایک ملک ایک انتخاب میں ایسا نہیں کر سکتے ،آمرانہ طاقتیں نظام پر حاوی ہو جائیں گی ۔  انہوں نے ک نشاندہی کی کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال ہے جب تک کہ وہ مختلف وجوہات کی بنا پر تحلیل نہیں ہو جاتیں۔ انہوں نے پوچھا، "اگر وسط مدتی انتخابات کی ضرورت ہو تو کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ  مرکز کی مودی حکومت   ون نیشنل ون الیکشن کے تصور کو عملی جامہ پہنانے  کے لئے سر گرم ہو گئی ہے ۔ اس کے لئے اب زمینی سطح پر کوششیں شروع کر دی گئی ہیں ۔رام ناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے کچھ دنوں قبل پبلک نوٹس جاری کر کے عوامی سے مشورے طلب کئے ہیں ، مرکز کا خیال ہے کہ اس تصور سے بار بار ملک میں ہونے والے اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں ۔مگر جمہوری انتخابات میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کا یہ عمل جمہوریت کے لئے مزید نقصاندہ ہو سکتاہے۔