مستقبل میں عام لوگوں کے چاند کا سفر ممکن ہو سکے گا
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے خلائی مشن آرٹیمس ون کا اورائن خلائی جہاز نے اپنے مشن کے آٹھویں روز چاند سے بہت دور اپنا سفر جاری رکھا اور جہاں سے وہ دور دراز مدار میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔
نئی دہلی: ناسا کے ایک بیان میں کہا گیا کہ آرٹیمس ون اپنےمشن کے آٹھویں روز چاند کے دور دراز ریٹروگریڈ مدار میں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس مدار میں یہ چاند کے گرد مگر اس کی مخالف سمت میں سفر کرے گا۔
ناسا کا خلائی جہاز تین روز پہلے چاند کے قریب پہنچ گیا تھا جہاں یہ چاند سے 80 میل تک کے فاصلے تک پہنچا۔ اس کے بعد اس نے ایک بڑے مدار کی جانب سفر شروع کیا تھا۔
اس خلائی جہاز میں کوئی انسان موجود نہیں ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو مستقبل میں عام لوگوں کے چاند کا سفر ممکن ہو سکے گا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ناسا نے 50 سال کے وقفے سے آرٹیمس ون مشن کے تحت اورائن خلائی جہاز کو چاند کے اردگرد سفر پر روانہ کیا ہے تاکہ انسان کے دوبارہ چاند کی سطح پر اترنے کے مشن کے علاوہ اس سے بھی آگے تحقیقات کی جا سکے۔
یہ ایک آزمائشی پرواز ہے اور اس پر کوئی خلاباز سوار نہیں۔ اس پر صرف انسانی پتلےسفر کر رہے ہیں جوہزاروں سینسرز سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
ناسا کی خلاباز زینا کارڈمین نے وضاحت کی کہ ان سینسرز سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہاں کا ماحول کیسا ہے اور وہ انسانوں کے لیے کیسا ہو گا۔ تابکاری سینسرز، موشن سینسرز، ایکسلرومیٹر ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہم انسانی پے لوڈ کے بارے میں بہت خیال رکھتے ہیں۔
اور یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اگر یہ مشن خوش اسلوبی سے آگے بڑھتا ہے تو اگلی بار خلا باز بھی اس میں شامل ہوں گے جو پہلے چاند کے گرد مدار میں جائیں گے اور پھر آرٹیمس تھری میں پہلی خاتون اور پہلے غیر سفید فام شخص کو چاند کی سطح پر اتارا جائے گا۔
ناسا کے ایکسپلوریشن سسٹمز ڈیولپمنٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر جم فری کا کہنا ہے کہ ’ہم پہلی انسانی گاڑی کو اس سے آگے لے جا رہے ہیں اور ہم اورائن کیپسول کے ساتھ چاند سے 40,000 میل کا فاصلہ طے کرنے جا رہے ہیں۔‘
جب اورائن یہ کام مکمل کر لے گا تو یہ زمین سے تقریباً 280,000 میل کے فاصلے پر ہوگا جو اس سے قبل 1970 میں اپالو 13 کے عملے کے ریکارڈ کو توڑے گا۔
1960 کی دہائی میں اپالو بنیادی طور پر امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی طاقت کی دوڑ کا حصہ تھا۔ آرٹیمس ایک بین الاقوامی کوشش ہے جس کی قیادت ناسا کر رہی ہے جس میں کینیڈین سپیس ایجنسی، جاپان ایرو سپیس ایکسپلوریشن ایجنسی اور یورپیئن سپیس ایجنسی شامل ہیں۔