ظ: ایک شخص تھا

0

محمد عارف اقبال

سینئر صحافی ندیم صدیقی (پ:16 اکتوبر 1951) کانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم جمیل مرصع پوری ممبئی کے شعری و ادبی حلقوں میں معروف تھے۔ ندیم صدیقی کے صحافتی تجربات تقریباً 50 برسوں کو محیط ہیں۔ 2009 میں روزنامہ انقلاب ممبئی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد روزنامہ اردو ٹائمز سے بھی وابستہ ہوئے۔ پھر ممبئی اردو نیوز میں اپنی خدمات دیں۔ اس اخبار سے وہ 2019 تک وابستہ رہے۔ لیکن صحافتی حلقے کے علاوہ ندیم صدیقی کی شناخت ایک اعلیٰ درجے کے شاعر کی بھی ہے۔ انہوں نے ملک سے باہر کے مشاعروں کو بھی اپنے فکر انگیز کلام سے رونق بخشی ہے۔ 2015 میں ان کی ایک کتاب ’پُرسہ‘ کے نام سے شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کرچکی ہے۔ یہ کتاب مرحوم اہل قلم کے خاکے نما تذکروں پر مشتمل ہے۔
اس تعارفی شناخت نامہ کے بعد ایک ایسے محقق اور مصنف کا ذکر کیا جائے جس نے علامہ اقبال کی سوانح حیات لکھنے کا ایک نادر طریقہ ایجاد کیا۔ پاکستان کے ایک نامور محقق، تاریخ داں اور ماہر اقبالیات خرم علی شفیق نے علامہ اقبال کی سوانح حیات کئی جلدوں میں لکھی ہے۔ یہ سوانح حیات روایات سے ہٹ کر تاریخی اعتبار سے بڑے دلنشیں ادبی اسلوب میں ہے۔ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کا ہر واقعہ اپنے عصر کے مختلف واقعات سے منسلک ہے۔ گویا علامہ کی سوانح حیات کے ساتھ ہی آپ علامہ کی عصری تاریخ سے بھی روشناس ہوتے جارہے ہیں۔ مصنف نے اس میں تاریخ نگاری کے اس اسلوب کو اختیار کیا ہے جس سے اس ماحول اور زمانہ میں اقبال کے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے حالات اور واقعات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اس میں تاریخ کئی جہتوں سے ایک ساتھ چلتی ہے۔ تاریخ نگاری کی یہی خصوصیت کسی عہد کو سمجھنے میں زیادہ معاون ہوتی ہے، اس لیے ہمارا احساس ہے کہ سوانح نگاری یا تاریخ نگاری کا یہ اسلوب کم سے کم گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں کے اردو لٹریچر میں تحقیق و تلاش کے باوجود شاید ہی مل پائے۔
درج بالا سطور میں پاکستان کے خرم علی شفیق کے حوالے سے ایک پیرا لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ اردو دنیا میں ایک تجربہ خرم علی شفیق نے کیا جس کی پذیرائی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ندیم صدیقی صاحب نے ظ انصاری پر جو کتاب مرتب کی ہے اس کا انداز بھی انوکھا ہے۔ کسی بھی ادبی شخصیت پر آج کل جس طرح کی کتابیں تیار کی جارہی ہیں ان میں شخصیت کے حوالے سے مختلف لوگوں کے مضامین کو جمع کرکے ایک عدد ’پیش لفظ‘ یا ’مقدمہ‘ لکھ کر مرتب یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تحقیق کا حق ادا کردیا ہے اور خیر سے وہ مصنف بھی بن گیا ہے۔ عام طور پر یہی ہورہا ہے۔ ندیم صدیقی کی یہ کتاب ’ظ- ایک شخص تھا‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں انہوں نے ظ انصاری کی شخصیت میں ڈوب کر بڑے محققانہ انداز میں کنکر پتھر کو الگ کرکے موتی اور جواہر تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ندیم صدیقی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا ہر جملہ نپا تلا ہوتا ہے۔ لفاظی سے وہ ہمیشہ گریز کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کی زندگی میں یہ بات راسخ ہے کہ ’’اگر دل و دماغ کے سوتے خشک نہ ہوئے ہوں تو زندگی کا ہر لمحہ ہمیں کوئی سبق دیتا رہتا ہے۔ … جس دن یہ عمل تمام ہوا اس دن، اس لمحے کو سمجھ لینا چاہیے کہ بس ہم تمام ہوئے۔!!‘‘
وہ حضرت علیؓ کے اس فرمان کو بھی حرز جاں بنائے ہوئے ہیں کہ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، وہ میرا استاد ہے۔‘‘
اس کتاب کی ابتدا ہی میں ندیم صدیقی کا درج ذیل خاکسارانہ اعترافیہ قابل توجہ ہے:
’’ڈاکٹر ظ انصاری سے متعلق جو کچھ آپ کے سامنے ہے آپ کے ہاتھوں میں ہے، …ہم اسے تصنیف یا تالیف کیا کہیں!! البتہ آپ چاہیں تو اسے نقل کہہ لیجیے، ہمارا مقصود ظ انصاری پر ایک فوکس تھا، ایک پہاڑ جیسی شخصیت کو ذرّے میں سمیٹنا محال ہے۔ ہم نے ان کے علم کے تنوع اور افکار کی مختلف جہتوں اور ان کی شخصیت و کردار پر گاہ گاہ روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے، اگر پڑھنے والے کے ہاں ظ انصاری کے تعلق سے کوئی تجسس بیدار ہوتا ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری محنت سوارت ہوئی۔‘‘
ندیم صدیقی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انتساب کے لیے جس تحریر کو منتخب کیا، وہ بھی ظ انصاری کے قلم سے ہے۔ ذرا انتساب ملاحظہ فرمائیں:
’’اُس اماں کے نام… جس کو لفظ کی حرمت، اپنی زبان کا اتنا پاس تھا کہ اپنے بیٹے کے ایک غلط لفظ بولنے پر لوہے کا چمٹا پھینک مارا جس سے بچے کے پَیر کے انگوٹھے کا ناخن ادھڑ گیا تھا۔ آدھی صدی گزر گئی، انگوٹھے پر زخم کا نشان تو باقی رہا مگر اماں (لئیق فاطمہ) کے لائق بیٹے (ظ انصاری) کی زبان سے وہ لفظ پھر نہ نکلا۔‘‘
نامور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی کے حوالے سے ندیم صدیقی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر ظ انصاری جو ممبئی یونیورسٹی میں غیر ملکی زبانوں کے صدر تھے، 6 فروری 1925 کو سہارنپور (مغربی یوپی) میں پیدا ہوئے۔ تعلیم میرٹھ، الٰہ آباد وغیرہ میں پائی، ماسکو میں انہوں نے تراجم کا جو کام کیا وہ اتنا اعلیٰ اور معیاری ہے کہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انہوں نے انگریزی، فارسی اور روسی زبان کی کوئی 38 شاہکار کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا، جن میں نہ صرف کارل مارکس اور ایف اینجلز کی منتخب تصانیف شامل ہیں بلکہ دوستو فسکی کے چار، چے خف اور پوشکن کے (ایک ایک) ناول بھی ہیں۔‘‘ (صفحہ 39)
روزنامہ ’انقلاب‘ ممبئی کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر ظ انصاری )و:31 جنوری 1991(کے بارے میں ندیم صدیقی، جنہوں نے روزنامہ انقلاب میں برسوں ان کی معیّت میں کام کیا، لکھتے ہیں کہ …شخصی اور قلمی کردار کی روشنی میں جتنا دیکھا تو اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہ رہ حیات کے ایک مسافر تھے، ایسے مسافر کہ جس کے مقدر میں کہیں قیام نہیں لکھا تھا… لہٰذا ان کا ذہن کہیں رُکا نہیں اور اگر ٹھیرا بھی تو اگلے سفر کی تیاری کے لیے کچھ آرام… اور پھر روانگی…!!
ندیم صدیقی لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب ظ انصاری کی کھِلّی اڑاتے تھے کہ انہوں نے کئی اخبار نکالے اور کئی اخباروں نے انہیں نکالا… مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جہاں (اور جس اخبار میں) گئے وہاں جتنے دن رہے، اتنے دن کے اخبار کو ’مثالی اخبار‘ بنادیا، ان کی تحریر کی چھاپ، ان کے انداز کی کشش کہیں ماند نہیں پڑی۔ (صفحہ 38)
ماہنامہ قومی زبان، کراچی (مئی 1991) میں ’ڈاکٹر ظ انصاری کے بارے میں‘ جو کچھ لکھا گیا ہے اس کتاب میں درج ہے کہ انہوں نے جدید روسی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا جو گیارہ ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے، ان کا یہ کام ماسکو سے تین جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ ’قومی زبان‘ مزید لکھتا ہے:
’’ڈاکٹر ظ انصاری نے دو جلدوں میں اردو روسی… روسی اردو… فرہنگ بھی مرتب کیں جو پچیس ہزار الفاظ پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر ظ انصاری نے مرزا غالب کی فارسی مثنویوں کے بھی اردو میں منظوم ترجمے کیے جنہیں غالب انسٹیٹیوٹ (دہلی) نے شائع کیا، پانچ جلدوں میں امیر خسرو کی پانچ مثنویاں بھی مرتب کیں، جن میں اشعار کی کُل تعداد اٹھارہ ہزار ہے، روسی زبان میں امیر خسرو اور مرزا غالب کے بارے میں دو کتابوں کے ساتھ، بہترین روسی کہانیوں کے اردو تراجم بھی کیے جو تین جلدوں میں ماسکو سے شائع ہوئے ہیں۔ ان ترجموں کو پڑھیے تو اصل کا گمان ہوتا ہے، فکشن کے ایسے خوب ترجمے اردو میں مشکل سے ملیں گے۔
ڈاکٹر ظ انصاری نے اردو میں جو کتابیں تصنیف کی ہیں ان میں مثنوی کا سفرنامہ (1989)، ابوالکلام آزاد کا ذہنی سفر (1950) کانٹوں کی زبان (اداریوں کا مجموعہ، 1987) جواہر لعل نہرو: کہی اَن کہی (1987) کتاب شناسی (تبصرے، 1981) اقبال کی تلاش (1987) دوستو فسکی (1978) پوشکن (1976) چے خف (1976) خسرو کا ذہنی سفر (1966) غالب شناسی (جلد اوّل 1966) غالب شناسی (جلد دوم 1974) زبان و بیان (1958) کمیونسٹ اور مذہب (1957) جارج برنارڈ شا (1951) ورق ورق (مثلِ روزنامچہ، 1951)… ان کتابوں کے علاوہ مرحوم نے 128 مقالے بھی لکھے جو معیاری رسائل اور جرائد میں چھپے، مشرقی جرمنی، مصر، سوویت یونین، لندن وغیرہ میں انہوں نے مختلف علمی، فکری، نظریاتی موضوعات پر لیکچر بھی دیے۔ قومی یک جہتی کے موضوع پر (ممبئی کے قریب شہر پونے کے) انڈین انسٹیٹیوٹ میں تیس لیکچر دیے۔‘‘
کتاب میں کُل دو باب ہیں لیکن موضوعات اور عنوانات کے تنوع سے یہ کتاب ظ انصاری کی شخصیت کا مرقع بن گئی ہے۔ اگر ہر بات پر بات کی جائے تو شاید تبصرہ بے معنیٰ ہو۔ باب دوم ہی سے ظ انصاری کی مختلف تحریروں کا جامع انتخاب ہے۔ آغاز اس طرح ہوتا ہے ’’… میرا ہی نام ظ انصاری ہے!‘‘ (صفحہ 68)
ڈاکٹر ظ انصاری کو اپنی 66 سالہ حیات میں قدرت نے جتنی مہلت دی، انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ نہ صرف تعمیری اور علمی و ادبی کاموں میں صرف کیا بلکہ پوری ایمانداری کے ساتھ اللہ رب العزت کی دی ہوئی صلاحیوں کا بھرپور استعمال کیا۔ ابتدا ہی سے ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ علمی، فکری اور نظریاتی معرکوں کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کے سفر کے سیاسی اور سماجی معرکے بھی سر کیے۔ بالآخر انہوں نے اپنے انتقال سے چند ماہ قبل ایک مضمون لکھا جو روزنامہ انقلاب (ممبئی) کے 21 ستمبر 1990 کے شمارے میں شائع ہوا۔ ان کے مضمون کا جلی عنوان تھا ’کمیونزم ایک نظام فریب‘۔ اس کتاب میں شامل تین صفحات پر مشتمل یہ مضمون (صفحہ 184 تا 186) قابل توجہ ہے۔ اپنے مضمون میں ڈاکٹر ظ انصاری ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ستّر برس پہلے دنیا میں ایک نظام پیدا ہوا تھا جس نے خدا اور پیغمبروں کو نکال باہر کیا، گرجاؤں میں گھوڑے باندھے، عوام پر جبر کو لادا، اب دیکھو روٹی کو ترس گئے ہیں، ہوٹلوں میں قطار لگی ہے، کرنسی نام کی گویا کوئی چیز موجود نہیں، ہر چیز ڈالر میں، روبل میں ہوائی جہاز کا ٹکٹ نہیں ملتا، ڈالر میں خریدو اور وہ بھی ڈبل قیمت دے کر قومی انٹرنیشنل فریب… گاؤں کا آدمی درست کہتا ہے:
’اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں‘
دارالمکافات کو کچھ بے وقوف کافی پینے اور جی بہلانے کی جگہ سمجھے تھے، اب دیکھ لو جس طرح ٹیومر کا علاج آگے نہیں اسی طرح سوشلزم کی بیماریوں کا علاج آگے نہیں!‘‘
ماسکو ریٹرن شخص ڈاکٹر ظ انصاری کے درج ذیل الفاظ موجودہ دنیا کے لیے ایک ایسا پیغام ہے جو نہ صرف باطل سے برأت کا اعلان ہے بلکہ ’حق‘ کی پناہ میں توبۃ النصوح بھی ہے۔ ظ انصاری لکھتے ہیں:
’’میری وہ کتابیں جن میں کمیونزم کی مَیں نے تائید کی ہے، اپنے آپ کو ان سے الگ کرتا ہوں، I disown، اب جس قدر جیوں گا، اس بوسیدہ نظام جبر کے خلاف لکھوں گا، یہ پورا نظام ایک فریب ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ (صفحہ 185)
’اللہ مغفرت فرمائے، عجب آزاد مرد تھا! ‘
ندیم صدیقی صاحب کی یہ کتاب از اوّل تا آخر بالاستیعاب مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔ ہر سطر اور ہر حرف نپا تلا۔ حوالوں سے موثق۔ ایسا لگتا ہے کہ فاضل مصنف نے ڈوب کر لکھا ہے۔ بظاہر بعض چھوٹے چھوٹے واقعات لیکن فکر انگیز اور معنیٰ خیز۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 2020 میں فیصل آباد (پاکستان) کے مثال پبلشرز نے شائع کیا تھا۔ جس کے محرک و مہتمم پروفیسر غازی علم الدین (پ: یکم جنوری 1959) ہیں۔ پروفیسر غازی علم الدین اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے 1983 میں فارغ التحصیل ہیں۔ اپنی 35 سالہ تدریسی خدمات اور پرنسپل جیسے عہدے سے 2018 میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس پاکستانی ایڈیشن میں ندیم صدیقی کی ایک جامع تحریر پروفیسر غازی علم الدین کے بارے میں کچھ یوں ہے:
’’ڈاکٹر ظ انصاری فکر و خیال کے ساتھ لفظ و معنیٰ کی حرمت کے صرف قائل نہیں بلکہ اس عمل کے مبلغ بھی تھے، ان کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ وہ صحتِ الفاظ کے تعلق سے بزرگ و خرد کی تفریق نہیں رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آدمی اپنے علم و عمل سے بزرگ ہوتا ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین بھی اسی قبیل کا کردار رکھتے ہیں، وہ بھی لفظ کی وحدتِ حُرمت کے سامنے نام نہاد علم و فضل کی بُت شکنی کرنے میں چوکتے نہیں اور مستزاد یہ کہ اپنی شرافتِ نفسی کو بھی مجروح نہیں ہونے دیتے، ہمارے نزدیک یہ بھی ایمان و ایقان کی ایک واضح نشانی ہے، ان کا نام علم الدین تو والدین نے رکھا ہوگا مگر لسانیات میں پھیلے ہوئے کفر کے مقابل انہوں نے اپنے کردارِ علمی سے خود کو ایک غازی ثابت کیا۔ ظ انصاری سے ان کا معنوی رشتہ ہی پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کا سبب بھی ہے، کاش ہماری زبان و ادب میں ایسے دوچار غازی اور پیدا ہوجائیں!!‘‘
جس ’اردو قبیلہ‘ کے زیر اہتمام ہندوستان میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے، ڈاکٹر ظ انصاری نے اس ادارے کے بارے میں ایک تقریب میں اپنے قلم سے تاثرات تحریر کیے تھے جس کا عکس کتاب کے آخر میں شامل ہے۔ ذرا اسے بھی ملاحظہ کیجیے:
’’قبیلے دراصل جدا جدا خاندانوں کے جوڑے، ہمسائیگی، ہم پیشگی اور ہم زبان سے بنتے ہیں۔ اگر تینوں شرطوں میں سے کوئی ٹوٹ جائے، باقی نہ رہے تو اسی نسبت سے قبیلہ ٹوٹنا شروع ہوتا ہے۔ اردو قبیلہ واحد قبیلہ ہے ہمارے زمانے کا کہ پھیلا تو دور دور تک سایہ بھی اس کا دراز ہے، اس میں سے جو بزرگ اٹھتا ہے اس کی جگہ بھرنے کی بجائے ٹھنڈی رہ جاتی ہے۔ حوصلہ مند اور بے غرض نوجوان اٹھیں، جن کے دل میں قبیلے کا درد ہو تو شاید کچھ بات بنے ورنہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا…
جمائیے قبیلہ مبارک ہو آپ کو۔‘‘
اس کتاب میں ظ انصاری کے نام لکھے گئے چند نادر خطوط بھی شامل ہیں۔ ان میں ولی شاہ جہاں پوری، مولوی عبدالحق، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھ پوری، جوش ملیح آبادی، امتیاز علی عرشی، دیوان سنگھ مفتوں، احتشام حسین، مالک رام، محمد طفیل (نقوش، لاہور)، راجہ مہدی علی خاں، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور مرزا ادیب کے اسمائے گرامی ہیں۔ کتاب میں ظ انصاری کی منتخب تحریریں اور تبصرے بھی شامل ہیں۔ عصمت چغتائی کے ایک ناول ’ایک قطرہ خوں‘ پر ظ انصاری کا تبصرہ بڑا ہی دلچسپ ہے۔ (صفحہ 109)
اس کتاب کے مطالعے کے لیے قارئین کو مبصر کی طرف سے اُکسانے کے کئی طریقے دریافت کیے گئے ہیں۔ میرے نزدیک ’کتاب کا موضوع اور مصنف و مولف‘ کا نام ہی کافی ہے کہ مطالعہ لازماً کیا جائے۔ تاہم آخر میں ظ انصاری کی ایک مختصر تحریر پڑھتے جائیے:
’’پرانے زمانے میں منطق والوں نے انسان کی تعریف کی تھی ’حیوانِ ناطق‘ (بولنے والا جانور) تم جو بہت بولتے ہو تو شاید تم نے انسان کو حیوانِ ناطق ہی سمجھا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ بڑا انسان بننے کے لیے زیادہ بولنا ضروری ہے۔ جو بڑا ’ناطق‘ ہوتا ہے اس کے بڑے حیوان ہونے میں کسے شبہ ہوگا؟ لیکن بڑا انسان؟… وہ صرف اس وقت بولتا ہے جب نہ بولنے میں نقصان ہو۔‘‘ (صفحہ 112)
(مضمون نگار اردو بک ریویو، نئی دہلی کے ایڈیٹر ہیں ۔ موبائل نمبر:9953630788)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025