
ذی الحجہ رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا موسم
پہلے عشرے کی خوب قدر کریں کیونکہ ان ایام کا کوئی بدل نہیں
سمیہ بنت عامر خان
ذی الحجہ اسلامی تقویم کا آخری مہینہ ہے۔ چونکہ اس مہینہ میں اسلام کا پانچواں عظیم رکن ادا کیا جاتا ہے اس لیے اسے ذی الحجہ یعنی حج کے مہینے سے موسوم کیا گیا ہے۔ قرآن میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر (کعبے) تک جانے کی مقدرت رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘ (آل عمران) جس طرح حج کرنے پر فضیلت وارد ہوئی ہے، اسی طرح استطاعت کے باوجود اس میں غفلت برتنے پر بھی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘ (ترمذی)۔
ذی الحجہ کا پورا مہینہ قابلِ احترام ہے یہ پورا مہینہ خدا کی قدرتوں اور حکمتوں کا آئینہ دار ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن اور راتیں تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مہینے میں رحمتیں برکتیں اور سعادتیں بندوں پر کس طرح سایہ فگن ہوتی ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس مہینے کی فضیلت و اہمیت کا ادراک کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے سورہ فجر کی پہلی آیت والفجر ولیالٍ عشر۔‘‘ ترجمہ: (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی) میں جن دس راتوں کی قسم اٹھائی، علماء کا اتفاق ہے کہ وہ دس راتیں ماہ ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ تو جس عشرہ کی خالق کائنات نے قسم کھائی ہو اس کی عظمتوں کا کیا پوچھنا؟ اس کے علاوہ اس مہینے کے پہلے عشرہ کا نام اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایام معلومات رکھا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ قرآن کی آیت (وَیَذْکَرُوا اسْمَ اللہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایام معلومات سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ اس طرح اس مہینے کی اہمیت و فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ یہ چار رحمت اور برکت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں جن بعض دنوں اور راتوں کو خاص فضیلت بخشی ہے ان میں ذی الحجہ کے شروع کے دس دن بھی شامل ہیں۔
ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔حدیث مبارکہ میں الله کے رسول ﷺ نے ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک عشرہ ذوالحجہ سے زیادہ پسندیدہ دن کوئی اور نہیں جس میں اس کی عبادت کی جائے اس عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے متواتر روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات میں قیام لیلۃ القدر میں قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی 758)
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے یعنی سب اللہ کے راستے میں قربان کردے، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے۔ (ترمذی)
ذی الحجہ کے دس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب دنوں سے افضل ہیں۔ ان دنوں میں عبادت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے یہاں (ذی الحجہ کے ) دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کر عظیم اور محبوب تر کوئی عبادت نہیں لہٰذا ان میں’’ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للٰہ‘‘خوب کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد)
یعنی عشرہ ذی الحجہ میں کثرت سے اللہ رب العزت کا ذکر کرنا بھی نبیوں کی سنت ہے۔ علمائے کرام خصوصی طور پر سبحان اللہ اللہ اکبر اور الحمد للہ کے ذکر کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح اس پورے عشرہ کے ایک دن یعنی یوم عرفہ یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ ایک خاص حیثیت کی حامل ہے۔ اس دن بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ اس دن حج کا سب سے بڑا رکن وقوف عرفہ ادا کیا جاتا ہے۔اسلام کے عظیم رکن حج کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس دن لاکھوں انسان میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے مغفرت و بخشش طلب کرتے ہیں۔ عرفہ کے دن کی دعا کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ "سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے کی وہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر ”(ترمذی) لیکن ہمارا رب جو رحمان و رحیم ہے اس نے اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے حاجیوں کے ساتھ ساتھ غیر حاجیوں کو بھی اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔ حدیث میں اس خاص دن کو خاص انداز سے بیان کیا گیا پورے سال کے دن میں اسے افضل دن قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: نو ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم) معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ نویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔
یوں تو ذی الحجہ یہ پورا ایک ہی مہینہ بے شمار برکتوں سے بھرا ہوا ہے لیکن دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے زیادہ معظم ہے۔ کیونکہ اس دن ہر مسلمان قربانی کرکے سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔ یوں تو قربانی کا عمل ہر امت کے لیے رہا ہے۔
جیساکہ سورہ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَی مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج ۳۴) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا رب العالمین کو اس قدر پسند آئی کہ تا قیامت اس سنت کو امت محمدیہ پر واجب کر دیا۔ اب ہر سال صاحب استطاعت مسلمان گائے، بیل، بکرے، دنبے وغیرہ کی قربانی کرکے ﷲ کی راہ میں خون بہا کر سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش کی تھی جس میں سے ٦٣ اونٹ کی قربانی آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ ۳۷ اونٹ حضرت علیؓ نے یعنی ذبح کیے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا کہ ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں، عملی اظہار ہے۔
دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضائے الٰہی ہونی چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن (سورة الانعام ۱۶۲) میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضا کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
اسی لیے ہمیں چاہیے کہ عید الاضحٰی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں آپؐ کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور حاجت مندوں کا خیال رکھیں۔ جیساکہ سورہ حج کی آیت 28 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: لِّيَشۡهَدُوۡا مَنَافِعَ لَهُمۡ وَيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَيَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِيۡـرَ (اپنے فائدے حاصل کرنے کے لیے آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ)
قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: لَن یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاوٴُھَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورة الحج ۳۷) اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ تو آئیے حدیث مبارکہ کی رو سے قربانی کیا ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کا جائزہ لیں۔
حضرت زیدؓ بن ارقم فرماتے ہیں’’ اللہ کے رسول سے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ)
اس لیے ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس قیام کے دوران آپ قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی)
اس طرح ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتیں ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کُھروں کو لے کر آئے گا اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم)
قرآن و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ دس ذی الحجہ یعنی عید الاضحٰی کے دن قربانی کا عمل رب ذوالجلال کو کتنا پسند ہے۔
غرض یہ کہ سال کا ایک مہینہ، جو بے شمار رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا موسم ہوتا ہے، اسے کاہلی اور سستی کی نذر نہ ہونے دیں۔ خاص طور پر ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو غنیمت جانیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ عبادت، ذکر، روزے اور قربانی کے ذریعے ربّ کریم کا قرب حاصل کریں۔ یہ درحقیقت رب العالمین کی طرف سے ایک خاص پیکیج ہے تاکہ اگر رمضان المبارک یعنی ایامِ معدودات میں کسی عبادت میں کوتاہی رہ گئی ہو تو ایامِ معلومات یعنی ذوالحجہ کے ان بابرکت دنوں میں اس کی تلافی کی جا سکے۔
یہ وہ قیمتی لمحات ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگ سکتے ہیں، نیک اعمال کی طرف لوٹ سکتے ہیں اور رب کی رضا و قرب کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اے امتِ مسلمہ! ان ایام کی قدر کرو، ان لمحوں کو غنیمت جانو کیونکہ ان کا کوئی بدل نہیں۔ موت جو ہماری تمناؤں کے درمیان حائل ہے اس سے پہلے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ رات کی غفلت سے نکلو، چاہے رات کتنی ہی طویل ہو، اللہ کی رحمت و فضل کا ایک جھونکا بھی تمہارے زنگ آلود دل کو روشن کر سکتا ہے۔ خود کو اللہ کی اطاعت میں لگا دو تاکہ تم اس کی جنت کے حق دار بن سکو۔
***
ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی ضرور کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (ابن ماجہ)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جون تا 06 جون 2025