ذکرک

(سیرتنبوی ﷺ کے عمرانی، سیاسی اور اقتصادی اقدامات کا تاریخی تجزیہ)

0

از: ڈاکٹر شاہد حبیب فلاحی

محمد طارق الانصاری غازی (پیدائش3 مارچ 1941، دیوبند -وفات13 اپریل 2024، انٹاریو، کینیڈا) معتبر صحافی، بلند پایہ مصنف اوراسلامی حمیت کے حامل مؤرخ کی حیثیت سے معروف ہیں۔ہندوستان و سعودی عرب کے کئی معروف اردو اور انگریزی روزناموں سے وابستگی کے دوران چالیس سالہ علم و مطالعہ اور تحقیق و جستجو پر مبنی ان کی کتابیں’نظریہ تہذیب‘ اور ’تذکار الانصار‘ نے سنجیدہ علمی حلقوں میں مخصوص شناخت رکھتی ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’ذکرک‘ سیرتِ نبوی کے لٹریچر میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔ یہ کتاب نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر مبنی ایک جامع مطالعہ پیش کرتی ہے، جو نہ صرف آپؐ کی ذاتی زندگی اور مذہبی کارناموں کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ عمرانی، سیاسی اور معاشی اصلاحات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔محمد طارق غازی کا کام اپنے منظم اور تجزیاتی انداز کی وجہ سے ممتاز ہے، جس میں انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ساتویں صدی میں عرب معاشرے میں کیسے انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ عصرِ حاضر میں اسکالرز اور مفکرین نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا ہے۔ محمد طارق الانصاری غازی کی ’ذکرک‘ بھی انہی میں سے ایک کاوش ہے جو نبی پاکؐ کی سیرت کو محض ایک داستان کے طور پر نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشی اصلاحات کے عملی رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے جو ہجرت کبریٰ کے بعد کے حالات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے۔ واضح ہو کہ ہجرت کے بعد ہی نبی پاکؐ کی طرف سے سماجی انصاف، سیاسی استحکام اور معاشی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔ یہ کتاب ان اقدامات کو ساتویں صدی کے عربی تناظر میں اور موجودہ اسلامی حکم رانی اور معاشرتی اصولوں کے حوالے سے جانچنے کی ایک انفرادی کوشش ہے۔ کتاب کا انتساب ”سب سے پہلے ایمان لانے والے انصاری حضرت ابو امامہ اسعدؓ ابن زرارہ“ کے نام کیا گیاہےاور تین صفحات پر مشتمل ایک مکمل باب (۲۳۵ تا ۲۳۷) بھی ان کے نام معنون کیا گیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’ذکرک‘ کا خاکہ زمانی ترتیب میں تیار کیا گیا ہے، لیکن یہ کتاب حضرت محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی سے شروع نہ ہو کر تکوینِ قریش اور تکوینِ انصار کےابواب سے شروع ہوتی ہےکہ نبوت کی زمین کی زرخیزی کے کام کا آغاز ان ہی قبائل کی تربیت سے ہوا تھا ۔ نبوت کے ابتدائی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بیعت عقبہ کے ذریعےعمرانی سفر آگے بڑھتا ہے اور نبوت کے بعد قائم ہونے والی خلافت کےحوالے سے انصار کے ’آخری ایثار‘ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ محمد طارق غازی نبی پاکؐ کی زندگی کا تفصیلی احاطہ کرتے ہیں، جس میں ان کی روحانی قیادت کے ساتھ ساتھ ان کی عملی حکم رانی اور معاشرتی تعمیر کی مہارت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کا ہر باب نبی کریم ﷺکی اصلاحات کے ایک مختلف پہلو کو بیان کرتا ہے۔ یوں ’ذکرک‘ سیرت کے عمرانی اصلاحات و نقوش کی ایک مفصل دستاویز ہے۔
’ذکرک‘ کے مرکزی تھیم میں سے ایک نبی اکرم ﷺ کا سماجی انصاف اور مساوات کے لیے کوششیں ہیں۔ محمد طارق غازی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس وقت کے قبائلی نظام کو چیلنج کیا اور کمزور طبقے جیسے خواتین، غلاموں اور غریبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ آپؐ نے عرب معاشرے میں خواتین کے مقام کو بدلنے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے کے قبائلی نظام کی جابرانہ ساختوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ اسلام سے قبل خواتین کا کوئی قانونی مقام نہیں تھا اور انہیں عام طور پر ملکیت کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ ’ذکرک‘ میں اس بات کی تعریف کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات نے شادی، طلاق اور وراثت کے حقوق متعارف کروائے، جو اس دور میں خواتین کے حقوق کو یقینی بناتے تھے۔ لیکن مکمل مساوات کا حصول ایک تدریجی عمل تھا۔
کتاب میں نبی اکرم ﷺ کے غلامی کے خاتمے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام نے فوراً غلامی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ اس کے خاتمے کے لیے ایک تدریجی راستہ اختیار کیا۔ آپؐ ﷺ نے غلاموں کو آزاد کرنے کو نیکی کا عمل قرار دیا اور ان کے حقوق کو تحفظ دیا۔ طارق غازی کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے غلاموں کو معاشرتی حیثیت دی اور ان کے وقار کو محفوظ رکھنے کے لیے قوانین متعارف کروائے، جو بالآخر اسلامی معاشروں میں غلامی کے خاتمے کی بنیاد بنے۔ مصنف نبی اکرم ﷺ کے نظام زکوٰۃ کی بھی تعریف کرتے ہیں جو دولت کی تقسیم کا ایک ذریعہ تھا اور معاشرتی بہبود کو فروغ دیتا تھا۔ زکوٰۃ کا مقصد غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا تھا۔ ’ذکرک‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس نظام نے نہ صرف غربت کو کم کیا بلکہ معاشرتی یکجہتی اور ذمہ داری کے جذبے کو بھی فروغ دیا، جس سے ایک زیادہ منصفانہ اور ہمدرد معاشرہ قائم ہوا۔
’ذکرک‘ میں سیاسی اصلاحات پر خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی سیاسی بصیرت کا تجزیہ محمد طارق غازی کے کام کا ایک اہم حصہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے کردار کو مدینہ میں ایک سیاسی رہنما کے طور پر ایک مثالی قیادت کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ نبی پاکؐ کو ایک ماہر سیاسی رہنما کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے ’میثاقِ مدینہ‘ جیسے معاہدوں کے ذریعے ایک کثیر المذہبی ریاست قائم کی جو مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے حقوق کا احترام کرتی تھی۔ مصنف کے مطابق یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جو مدینہ میں مختلف مذہبی اور قبائلی گروہوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں، یہودیوں اور مشرکوں کو ایک سیاسی فریم ورک کے تحت لانے کے عمل کو ایک سفارتی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ ’ میثاق مدینہ‘ انصاف، باہمی دفاع اور معاشرتی تعاون کے اصولوں پر مبنی تھا۔ مصنف اسے موجودہ دور کے کثرت پسندی اور بقائے باہمی کے اصولوں کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔اس لیے میثاق مدینہ کو کثیر المذہبی حکم رانی کا ایک نمونہ مانا گیا ۔ انہوں نے ’میثاق مدینہ‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے نبی پاکؐ کی کثیر المذہبی ریاست کی قیادت کو سراہا ہے۔ یہ معاہدہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان حقوق اور فرائض کی وضاحت کرتا تھا اور ایک منصفانہ نظام قائم کیا تھا۔ تاہم، طارق غازی کا تجزیہ اگر میثاق مدینہ کا جدید آئینوں اور حکومتی نظاموں سے موازنہ کرتا تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔
قانون اور امن کے قیام کے باب محمد طارق غازی نبی اکرم ﷺ کی جانب سے ایک قانونی ڈھانچے کے قیام کو بھی سراہتے ہیں جس نے عرب کے قبائلی معاشرے میں امن و امان کو قائم کیا۔ قبل از اسلام عرب میں خانہ جنگی، قبائلی دشمنی اور قانون کی عدم موجودگی تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے اسلامی اصولوں پر مبنی قوانین کے ذریعے وہاں انصاف اور استحکام کا نظام قائم کیا۔ مصنف نے جنگ اور امن کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کی فوجی حکمت عملی کو موضوع بنایا ہے اور نبی پاکؐ کی فوجی قیادت کا بھی جائزہ لیا ہے، خاص طور پر بدر، احد اور خندق کی جنگوں میں ان کی حکمت عملی کا ذکر کیا ہے۔ محمد طارق غازی نبی کریم ﷺ کو ایک ایسا رہنما قرار دیتے ہیں جن کا مقصد ہمیشہ امن تھا، لیکن دفاع کے لیے ضرورت کے وقت جنگ کرنے کے لیے تیار بھی رہتے تھے۔ تاہم مصنف اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دفاعی جنگوں میں حصہ لیا جن میں اخلاقی اصولوں کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ مصنف کا دفاعی جنگ پر زور درست ہے، لیکن اگر کتاب میں اس بات پر بھی بحث ہوتی کہ اسلامی تاریخ میں ان اصولوں کی تعبیر کیسے ہوئی ہے تو یہ تجزیہ زیادہ مکمل ہو سکتا تھا۔ سفارت کاری کے حوالے سے محمد طارق غازی نبی اکرم ﷺ کی سفارتی حکمت عملی کا بھی جائزہ لیتے ہیں، خاص طور پر قبیلوں کے درمیان پیچیدہ سیاسی تعلقات کو نبھانے میں۔ ہرقل کے دربار میں نمائندہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ صلح حدیبیہ کو ایک نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں نبی اکرم ﷺ نے جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے امن کو ترجیح دی۔
’ذکرک‘ میں معاشی اصلاحات اور معاشی اقدامات کو انصاف کے ایک وژن (Vision) کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یوں نبی کریم ﷺکی معاشی اصلاحات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ محمد طارق غازی نے دلیل دی ہے کہ ان اصلاحات نے ایک ایسے معاشی نظام کی بنیاد رکھی جو انصاف، مساوات اور رحم دلی پر مبنی تھا۔ انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی اصلاحات نے معاشی عدم مساوات کو کم کرنے اور منصفانہ تجارت کو فروغ دینے میں کیسے مدد کی۔ نبی اکرم ﷺ کی تجارت میں ایمانداری اور دیانت پر زور دینے کو خاص طور سے سراہا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے تجارت میں شفافیت اور منصفانہ لین دین کو فروغ دیا، جس نے مارکیٹ میں اعتماد اور استحکام کو جنم دیا۔ نبی اکرم ﷺ کی جانب سے سود کی ممانعت ایک انقلابی اقدام تھا۔ سود کے خاتمے کا مقصد استحصال کو روکنا اور دولت کی غیر مساوی تقسیم کو کم کرنا تھا۔ سود کی ممانعت سے معاشی انصاف کا ایک ایسا نظام قائم ہوا، جہاں دولت چند افراد کے پاس مرکوز نہ رہی بلکہ پورے معاشرے میں گردش کرنے لگی۔زکوٰۃ کے نظام کو طارق غازی نے نہ صرف ایک سماجی بلکہ ایک معاشی پالیسی کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق، زکوٰۃ نے دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا اور معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پچاس ابواب پر مشتمل کتاب ’ذکرک‘ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک جامع اور بصیرت افروز مطالعہ پیش کرتی ہے، جس میں عمرانی، سیاسی اور معاشی اصلاحات پر خاص زور دیا گیا ہے۔ محمد طارق الانصاری غازی نے نبی اکرم ﷺ کو ایک ایسے انقلابی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے، جنہوں نے انصاف، مساوات اور استحکام پر مبنی ایک نیا
معاشرتی ڈھانچہ قائم کیا ہے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو موجودہ دور میں ایک نمونہ کے طور پر پیش کرتی ہے، جس سے انصاف، اخلاقیات اور مساوات کے اصولوں کی بنیاد پر ایک جدید معاشرتی نظام کے قیام کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب سیرت ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے،کیونکہ یہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کی موجودہ دنیا میں اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ پر مزید توجہ دی گئی ہوتی تو جاذبِ نظر سرورق اور خوبصورت طباعت کی حامل کتاب کی وقعت میں یک گونہ اضافہ اور ہوا ہوتا۔ املے کی غلطیاں جیسے ”پزیر“ (ص13)، ” اوامر و نواحی“ (ص155) وغیرہ الفاظ قاری پر گراں گزرتے ہیں۔ سب سے زیادہ وجدان کو ٹھیس پہنچانے والی چیز یہ ہوئی ہے کہ فُل اسٹاپ کے لیے اردو کی مروجہ علامت(۔) کا استعمال نہ کر کے انگریزی کی علامت(.) استعمال کی گئی ہے، ایسا شعوری طور سے ہوا یا غیر شعوری طور سے، اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ بہرحال کتاب میں استعمال کی گئی زبان و اسلوب اور اس کے اندازِ تحقیق کو دیکھ کر اس کے لائق مطالعہ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ سیرتِ نبوی کےمنتہی قارئین کو بلا جھجھک اس کے مطالعے کی سفارش کی جا سکتی ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ محمد طارق الانصاری غازی کے قلم سے جب ’ذکرک‘ کا پہلا کچا نسخہ تیار ہوا تواسی رات اولین انصاری صحابی حضرت اسعدؓ ابن زُرارہ جن کے نام اس کتاب کا انتساب بھی ہے، مصنف کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ”تمہیں لینے آیا ہوں، تمہاری کتاب کا اجرا رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے، اسی تقریب میں لے جانے کے لیے آیا ہوں“۔ فجر کے وقت آئے اس خواب کے بیچ مصنف کی آنکھ کھل گئی اور اس کے ۹ ہفتوں کے بعد انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی (ڈاکٹر خلیل الدین تماندارکے تاثرات، ص724، اور بیک کور)۔ رہے نام اللہ کا۔
٭ مبصر کا پتہ اسسٹنٹ ایڈیٹر، این سی ای آرٹی، نئی دہلی۔
Mobile: 8539054888

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025