زہریلی نسائیت کے بڑھتے اثرات ۔لمحۂ فکریہ
مساواتِ مرد و زن کے نعرے سے بھی ایک قدم اور آگے ۔۔۔!
محمد انور حسین،اودگیر
اسلام میں مردو عورت کو جو مقام دیا گیا ہے اسی میں سب کی بھلائی مضمر
فلمی دنیا کی مشہور زمانہ اداکار نینا گپتا جو لبرلزم کی نمائندہ مانی جاتی ہیں کچھ دن پہلے ایک پوڈکاسٹ میں فیمینزم کے بارے میں اپنے ایک بیان کے باعث مشہور ہوگئی تھیں انہوں نے کہا تھا کہ "فیمینزم ایک فالتو نظریہ ہے ۔اس بات پر یقین کرنا ضروری نہیں ہے کہ مرد اور عورت برابر ہوتے ہیں ۔”
اسی طرح ایک اور مشہور اداکارہ نورا فتح نے بھی اپنے پوڈ کاسٹ میں یہ بات کہی کہ ” نسائیت یا فیمینزم نے سماج پر منفی اثرات ڈالے ہیں، مزید یہ بات بھی کہی کے عورت اور مرد سماجی لحاظ سے برابر نہیں ہوسکتے ۔عورت کی ذمہ داری بچوں کی پرورش ہے اور مرد کی ذمہ داری پیسہ کمانا ہے ۔اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے بعد اگر کوئی لڑکی پیسے کماتی ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے "اس بیان کے بعد سوشل میڈیا میں کافی اعتراضات کیے گئے ۔بعد میں وضاحت کرتے ہوئے نورا فتح نے کہا کہ اس کا مطلب زہریلی یا انتہا پسند نساییت سے ہے ۔اس طرح فی زمانہ نسائی تحریک اختلافات کی زد میں ہے ۔
نسائیت(feminism) ایک نظریہ ہے جو عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے مطالبہ کے لیے وجود میں آیا ہے۔نسائیت کے اہم مطالبات میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کے فرق کو ختم کرنا شامل ہے ۔اس کے علاوہ کام کی یکساں اجرت ،بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ،ووٹ دینے کا اختیار ،تعلیم کا اختیار ،مردوں کی برتری کی مخالفت ،جنسی استحصال سے حفاظت اور ملکیت کے حقوق وغیرہ بھی مطالبات بھی شامل ہیں ۔یہ نظریاتی تحریک کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جارہے ہیں ۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تحریک ایک غیر فطری نہج پر بڑھتی جارہی ہے ۔
نسائیت کی تاریخ پچھلی دو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس نظریہ کے مختلف تہہ دار پہلو ہیں ۔نسائیت کے سفر کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔پہلے دور کا آغاز 1830 یعنی صنعتی انقلاب کے دور میں ہوا جو تقریباً 1920 تک جاری رہا ۔اس دور میں عورتوں کو ووٹ دینے کے اختیار کا مطالبہ کیا گیا اور ساتھ ہی جائیداد میں حقوق کی بات کی گئی ۔اس تحریک کی کوششوں کے نتیجہ میں 1920 میں امریکہ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا اختیار ملا تھا ۔
اس کی دوسری لہر 1960 سے 1980 کے درمیان رہی ۔اس دور میں صنفی تفریق کو ختم کرنے ،بچوں کی پیدائش میں عورت کی مرضی کو قبولیت حاصل کرنے اور کام کی جگہ مرد اور عورت کی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔1963 میں یکساں اجرت کا قانون پاس کیا گیا ۔
تیسرا دور 1990 سے 2010 کے درمیان مانا جاتا ہے ۔اس دور میں عورت اور مرد کے درمیان کے فرق کو ختم کرنے نیز، انفرادیت کی وکالت کی گئی۔ عورتوں پر تشدد کے خلاف 1994 میں قانون بھی بنایا گیا۔
اس کا چوتھا دور 2010 کے بعد شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے جس میں عورتوں کی میڈیا اور سوشل میڈیا میں شرکت اور شمولیت کی پوری آزادی حاصل کی گئی ۔اس کے علاوہ +LGBTQ کے حاملین بھی اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔یہ تحریک روز بہ روز نئے مطالبات اور نئے نظریات کو اس میں شامل کرتی جارہی ہے ۔
جہاں تک بھارتی نسائیت کا تعلق ہے اس کی شروعات بھی بیسویں صدی میں ہوچکی تھی ۔انگریزوں کے دور میں شروع ہونے والی اس تحریک کے موضوعات بھی کم و بیش وہی تھے جو یوروپ میں تھے ۔جیسے عورتوں کی تعلیم ،بیوہ کی شادی ،شادی کی عمر ، جدوجہد آزادی میں عورتوں کی شمولیت ،عورتوں کے معیار زندگی کی بہتری ،مساوی حقوق ،تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی آزادی ،شریک حیات کے انتخاب کی آزادی ،تجارت اور نوکریوں میں یکساں مواقع وغیرہ وغیرہ ۔اسی لیےساوتری بائی پھولے،پنڈت رما بائی،کملا دیوی چٹوپادھیائے،ونا مجمدار،برندا کرت،اروندھتی رائے ، کویتا کرشنن وغیرہ کو نسائی تحریک کی نمائندہ خواتین مانا جاتا ہے ۔
یہاں تک کا سفر تو غنیمت تھا لیکن اس کے بعد نسائیت کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا جسے اب زہریلی نسائیت یا(Toxic Feminism ) کہا جانے لگا ۔یہ نسائیت کی انتہا پسندانہ اور بگڑی ہوئی شکل ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی نہیں بلکہ برتری کی بات کرتی ہے ۔ اس میں مردوں سے تعصب اور نفرت پائی جاتی ہے ۔ان لوگوں سے بھی نفرت پائی جاتی ہے جو عورتوں کی نسائیت کی مخالفت کرتے ہیں ۔دوسروں کے جذبات اور سماجی جذبات کا پاس ولحاظ نہ رکھنا ،طاقت، قانون اور مواقع کا غلط فائدہ اٹھانا اور مردوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا وغیرہ۔
ماہرین اس نظریہ کو ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس زہریلی نسائیت کے لیے کچھ وجوہات کو بنیاد بنایا جاتا ہے جس میں پدرسری خاندانی نظام شامل ہے جس کے تحت ہمیشہ مردوں کو عورتوں کے مقابلہ میں برتری حاصل رہی ہے، جس میں مرد اور عورت کی تکریم کا مسئلہ بھی ہے ۔آج بھی عورت کو مرد کے مقابلہ میں کم تر سمجھا جاتا ہے ۔بھارت میں عورتوں کے ساتھ ظلم ،بربریت جنسی ہراسانی کے واقعات مسلسل جاری ہیں اس لیے عورتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اسی عدم تحفظ کے تصور نے ان کے درمیان زہریلی نسائیت کو فروغ دیا ۔اس کے علاوہ عورتوں کی تعلیم سے محرومی ،میڈیا اور سیاست جیسی وجوہات ہیں جنہوں نے اس کے فروغ میں مدد کی ہے ۔بھارت کی فلمی صنعت بالی ووڈ نے اس زہریلی نسائیت کو پیش کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔ اس زہریلی و انتہا پسند نسائیت کے علم برداروں نے ملک اور سماج میں بہت سے منفی رجحانات کو فروغ دیا جس میں خاندانی نظام کی ضرورت پر ہی سوالات اٹھائے گئے ۔ان کے مطابق خاندان کا وجود عورت کو پدرسری نظام کا حصہ بناتا ہے جو اس نسائی تحریک کو منظور نہیں، اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ خاندانی نظام عورت کی آزادی اور حقوق کا قاتل ہے ۔اگر کسی کو اولاد کی خواہش بھی ہے تو سنگل پیارنٹ فیملی کے ذریعے بچوں کی پرورش کر سکتا ہے لیکن میاں بیوی پر مشتمل خاندان کی وکالت نہیں کی گئی ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ عورت اپنی جنسی ،معاشی اور جذباتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر قید سے آزاد ہوتی جارہی ہے ۔جون 2023 میں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گلییڈن نامی ڈیٹنگ ایپ متعارف ہوا ۔اس کی سروے رپورٹ چونکادینے والی ہے ۔اس سروے کے مطابق55فیصد شادی شدہ لوگ اپنی شریک حیات کو دھوکہ دیتے ہیں جس میں عورتوں کا فیصد 56فیصد ہے ۔
اس کے علاوہ زہریلی نسائیت خواتین کی برتری چاہتی ہے اور مردوں سے برابری کے تصور کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے ۔ اس زہریلی نسائیت کو فروغ دینے میں سوشل کا میڈیا کا اہم رول ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں میں بالی ووڈ فلموں اور بہت سی ویب سیریز کے ذریعے اس نظریہ کو پر زور طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس نظریہ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں عورت ہر حدود سے آزاد ہوجانا چاہتی ہے وہ کسی کے زیر تسلط و نگرانی میں رہنا گوارا نہیں کر سکتی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی سماج کی لڑکیاں نہ صرف جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتی جارہی ہیں بلکہ وہ دھوکہ بازی، بدلہ،سازش، نفرت، فحاشی، ڈپریشن اور ڈرگس جیسے مسائل کو بھی فروغ دے رہی ہیں ۔
*خطرہ کہاں ہے؟
خطرہ ان خواتین کے ساتھ بھی ہےجن کے پاس مذہب کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔خطرہ ان خواتین کے ساتھ بھی ہے جو مذہب پسند ہیں ۔مزید خطرہ مسلم نوجوان لڑکیوں کے لیے بھی ہے کہ آزادی اور برتری کے خوبصورت نعروں میں یہ لڑکیاں بھی غلط راستہ اختیار نہ کرلیں اور ہمارا خاندانی نظام تباہ ہو جائے ۔ان منفی رجحانات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے پڑیں گے ۔
اسلام ،عورت کو جو مقام و مرتبہ، عزت و تکریم عطا کرتاہے اس کا اظہار قول وعمل سے ہونا چاہیے ۔ نسل نو کو ان فریب زدہ نظریات سے بچانا ہوگا ۔ان کی اخلاقی تربیت کرنی پڑے گی اور پورے ملک کو بے راہ روی سے بچانے کی کوشش کرنی پڑے گی۔اگر وقت رہتے ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے تو بری طرح خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت
پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے
***
***
اسلام ،عورت کو جو مقام و مرتبہ، عزت و تکریم عطا کرتاہے اس کا اظہار قول وعمل سے ہونا چاہیے ۔ نسل نو کو ان فریب زدہ نظریات سے بچانا ہوگا ۔ان کی اخلاقی تربیت کرنی پڑے گی اور پورے ملک کو بے راہ روی سے بچانے کی کوشش کرنی پڑے گی۔اگر وقت رہتے ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے تو بری طرح خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024