زوال پذیر امریکی سیاست

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ملک آمریت کی راہ پر گامزن

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

ٹرمپ اور وانس کے نازیبا بیانات کے باوجود کملا ہیرس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت امید کی کرن
جیسا کہ گزشتہ دوماہ میں اور خاص طور سے گزشتہ پندرہ دنوں میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوارڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم نے جو جارحانہ انداز اپنایا ہے اور اپنے مخالفین کے خلاف جو طوفانِ بدتمیزی شروع کی ہے اور متنازعہ بیانات دیے ہیں ان سے یہ ایک عام تاثر قائم ہورہا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے امریکی سیاست کو کتنا نیچے گرادیا ہے۔ اور اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو مستقبل کا منظر نامہ کافی خوفناک ہوسکتا ہے، اور خود ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانوں سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک متنازعہ بیان میں کہا کہ اگر امریکہ کے عیسائی انہیں اس مرتبہ ووٹ دیتے ہیں تو پھر چار سالوں کے بعد انہیں دوبارہ کبھی ووٹ نہیں دینا پڑے گا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ سابق صدر کے ان ریمارکس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ ایک انتخابی مہم میں جہاں ان کے ڈیموکریٹک مخالفین ان پر جمہوریت کے لیے خطرہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور ان کی 2020 میں صدر جو بائیڈن کے خلاف اپنی شکست کو الٹانے کی کوشش اور 6 جنوری 2021کو امریکی کیپیٹل میں مہلک بغاوت کے بعد سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیسے، لیکن آپ کو باہر نکل کر ووٹ دینا پڑے گا۔ ٹرمپ نے ویسٹ پام بیچ میں ٹرننگ پوائنٹ ایکشن کے بیلیورس سمٹ میں کہا کہ عیسائیو! باہر نکلو اور اس بار ووٹ ضرور دو۔کیونکہ آپ کو مزید ایسا نہیں کرنا پڑے گا یعنی مزید چار سال بعد ووٹ دینا نہیں پڑے گا۔
موجودہ نائب صدراور اس بار صدر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کی انتخابی ٹیم اور زیادہ تر لوگ ٹرمپ کے اس تبصرے کو نمایاں کر رہے ہیں کہ اگر عیسائی اس بار ان کو ووٹ دیتے ہیں تو پھرا نہیں دوبارہ ووٹ نہیں دینا پڑے گا۔ تو کیا اس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ ٹرمپ جمہوریت کو ختم کرنے کامقصد رکھتے ہیں یا وہ صرف امریکی عیسائیوں کو ووٹ دینے کے لیے آمادہ کررہے تھے؟
ہیریس مہم کے ترجمان جیسن سنگر نے ایک بیان میں عیسائیوں کو دوبارہ ووٹ نہ دینے کے بارے میں ٹرمپ کے ریمارکس پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، انہوں نے ٹرمپ کی مجموعی تقریر کو ‘‘عجیب و غریب’’ اور ‘‘محل نظر ’’ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کے تبصروں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی کیونکہ صارفین کا خیال ہے کہ ان کے تبصرے عموماً ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے تبصرہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ صدر بننے کے بعد ایک آمر ہوں گے، لیکن صرف ‘‘ایک دن کے لیے ’’ اور اس ایک دن کے دوران وہ میکسیکو کے راستے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے افراد کے لیے پوری طرح بند کردیں گے۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے مختلف بیانات ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے تو پھر وہ دوبارہ وہائٹ ہاؤز سے باہر نہیں نکلیں گے۔
اگر ٹرمپ دوسری مدت کے لیے جیت جاتے ہیں تو وہ صرف اگلے چار سالوں تک صدر رہ سکتے ہیں۔ امریکی آئین کے تحت امریکی صدور دو مدتوں تک محدود ہیں۔مئی میں نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے صدر کے طور پر دو سے زیادہ مدت تک خدمات انجام دینے کے سوال پر کہا تھا کہ ماضی میں فرینکلن ڈی روزویلٹ کے صدر کے طور پر سولہ سال کی مدت تک بطور صدر کام کرتے رہے یعنی کہ چار مدتوں کے برابر۔
مجموعی طور پر ڈونالڈ ٹرمپ جس طریقے کے متنازعہ بیان دیتے چلے آرہے ہیں اس سے ظاہرہوتا ہے یا تو وہ ذہنی طور پر پوری طرح ٹھیک نہیں ہیں یا پھر بہت ہی شاطرانہ طریقے سے اپنے روسی دوست ولادیمیرپوتن کی طرح ہمیشہ کے لیے امریکی صدر بنے رہنا چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی انتخابی دوڑ میں نائب صدر کے عہدے کے لیے ان کے ساتھی جے ڈی وانس بھی اپنے بیانات میں نہایت ہی نازیبا اور غیر شستہ الفاظ اپنے مخالفین کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ خاص طور سے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے خلاف ان کے بیانات نہایت ہی نامناسب ہیں کیونکہ انہوں نے کملا کو ایک ‘‘بانجھ بلی’’ قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ سیاست میں غیر مہذب یا جنسی حربے استعمال کرکے آگے بڑھی ہیں۔
ایک امریکی کالم نگار Lucian K. Truscott نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اس بارے میں رپورٹنگ کر رہا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے، اگر سب سے برا ہوا تو آخری دنوں میں ہمارے پاس آزاد پریس اور جمہوریت دونوں ہی ختم ہوچکے ہوں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ کا اصل منصوبہ کیا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اقتدار پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے اپنے منصوبے کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ پر زور انداز میں بات کی ہے۔ یہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ ٹرمپ اپنے ٹیلی پرمپٹر پر ریمارکس پڑھنے سے ہٹتے ہوئے ایک غیر معمولی طریقے سے چیخ و پکار کر رہے تھے جس سے ان کی ذہنیت کے بارے میں ہمیں کافی کچھ پتہ چلتا ہے اور ساتھ ہی کہ ان کا ایک دن کے لیے آمر بن جانا محض مذاق ہی نہیں، جیسا کہ ان کے حامیوں کا کہنا ہے، بلکہ واقعی حقیقت میں تبدیل ہوسکتا ہے، اگر وہ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے: ہمیں باہر نکلنا ہے اور ووٹ ڈالنا ہے تاکہ ہم اس شخص اور اس کی فاشسٹ آمریت کے منصوبوں کو روک سکیں، حراستی کیمپوں، پریس کو دبانے، اس کے دشمنوں کو جیلوں میں ڈالنے اور اس کے خاتمے کے ساتھ قانون کی حکم رانی قائم رکھنے کے لیے؟ یہ واقعی بہت سنجیدہ بات ہے اور اگر ہمیں یہ سب نہیں ہونے دینا ہے تو پھر ہمیں واقعی باہر نکل کر کملا ہیرس کو ووٹ دینا ہوگا۔
دوسری جانب ٹیکنالوجی کے شعبے سے ٹرمپ کو جو حمایت مل رہی ہے، وہ بھی ہمارے لیے کافی عجیب ہے۔ ایک زمانے میں META کے مالک Elon Musk نے ڈونالڈ ٹرمپ پر کافی تنقید کی تھی لیکن جب امریکی سپریم کورٹ نے انہیں دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تو ٹرمپ کی حمایت میں آنے والی امریکہ کی سلیکون ویلی کے ٹیکنوکریٹس کی قیادت ایلون مسک کررہے تھے، جنہوں نے انتخابی مہم کے لیے تقریباً پانچ بلین ڈالر کا عطیہ بھی دیا ہے اور پچھلے دنوں سماجی پلیٹ فارم X (سابقہ ٹویٹر) پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کملا ہیرس کی ایک نازیبا ویڈیو ڈالی اور X پر اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی نہیں دی کہ یہ صرف ایک مصنوعی طور پر بنائی گئی ویڈیو ہے۔
یعنی کہ مجموعی طور پر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ان کی صدارتی مہم اور ان کے حامی تمام لوگ جس طریقے سے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو اپنی سیاسی مہم کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ ایک نہایت ہی غیر شائستہ، نازیبا اور تمام سیاسی یا سماجی اصولوں کے خلاف مہم ہے، اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاست زوال کی طرف گامزن ہے۔ اور اگر ٹرمپ دوبارہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو ان کے دورِ اقتدار میں کس طریقے کا امریکہ ابھر کر سامنے آئے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ابھی تک جس تحمل سے کملا ہیرس کی مہم ٹیم نے ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی تہمتوں کا جواب دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس نچلی سطح پر آکر انتخابات نہیں لڑے گی جیسا کہ ریپبلکن ڈونالڈ ٹرمپ کررہے ہیں اور یہی وہ فرق ہے جو کہ شاید کملا ہیرس کو امریکہ کی نئی صدر بننے کے لیے اپنا اثر دکھا سکتا ہے اور اس کا ثبوت ٹرمپ کے مقابلے میں کملا ہیرس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ مختلف عوامی سرویوں کے مطابق رائے عامہ کملا ہیرس کے حق میں بڑھتی جارہی ہے اور وہ اپنے حریف ڈونالڈ ٹرمپ کو کافی پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔

 

***

 ڈونالڈ ٹرمپ ان کی صدارتی مہم اور ان کے حامی تمام لوگ جس طریقے سے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو اپنی سیاسی مہم کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ ایک نہایت ہی غیر شائستہ، نازیبا اور تمام سیاسی یا سماجی اصولوں کے خلاف مہم ہے، اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاست زوال کی طرف گامزن ہے۔ اور اگر ٹرمپ دوبارہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو ان کے دورِ اقتدار میں کس طریقے کا امریکہ ابھر کر سامنے آئے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024