ذات پات کے حربے اور2024کے پارلیمانی انتخابات
اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی کیا بی جے پی کو شکست دینے میں مددگار ثابت ہوگی؟
سید خلیق احمد
جب نریندر مودی حکومت نے او بی سی کی ذیلی زمرہ بندی کے لیے 2017 میں روہنی سنگھ کمیشن قائم کیا، تو اسے یہ توقع نہیں رہی ہوگی کہ اپوزیشن جماعتوں کو پیچھے چھوڑکر ایک مستقل ووٹ بینک بنانے کے لیے بچھائے گئے اپنے ہی جال میں وہ خود پھنس جائے گی۔ زعفرانی پارٹی کا او بی سی کمیشن کے قیام کے پیچھے بظاہر خیال یہ تھا کہ تمام او بی سی برادریوں کے درمیان ریزرویشن فوائد کی مساوی تقسیم کے لیے او بی سی برادریوں کے ذیلی زمرے تیار کیے جائیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ او بی سی کے 27 فیصد کوٹہ کا زیادہ تر حصہ او بی سی کے بالائی طبقے نے سمیٹ لیا ہے۔ تاہم، نچلے/ پسماندہ اور انتہائی پسماندہ او بی سی کو، جو او بی سی آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہیں، اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔
چونکہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے نچلے/پسماندہ اور انتہائی پسماندہ او بی سی پر توجہ نہیں دی تھی، اس لیے بی جے پی نے انہیں اپنے حق میں منظم اور فعال کیا۔ اس حکمت عملی کے نتائج برآمد ہوئے کیونکہ CSDS کے سروے کے مطابق 49 فیصد سے زیادہ OBCs نے 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں زعفرانی پارٹی کو ووٹ دیا، جس سے بی جے پی کو اپنے طور پر اقتدار میں آنے میں مدد ملی۔
او بی سی میں ذیلی زمرہ جات بنا کر، بی جے پی نچلے/پسماندہ/انتہائی پسماندہ او بی سی کے لیے 27 فیصد او بی سی کوٹہ کے اندر ذیلی کوٹہ طے کرنا چاہتی تھی تاکہ او بی سی کے اس گروپ میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ اس حکمت عملی سے یادووں اور کرمیوں جیسی غالب اوبی سی برادریوں کے لیے ریزرویشن کوٹہ محدود ہو جاتا ہے جو 1990 کی دہائی سے قومی سیاست میں غالب قوتوں کے طور پر ابھرے ہیں، جس سے نہ صرف ہندی پٹی کے علاقے بلکہ پورے ملک میں برہمنوں اور ٹھاکروں جیسی اعلیٰ ذاتوں کے تسلط کا خاتمہ ہوتا ہے۔ او بی سی کو تقسیم کرنے کی بی جے پی کی مطلوبہ حکمت عملی غالب او بی سی برادریوں کو سیاسی طور پر غیر متعلقہ بنا دے گی جیسا کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے۔
روہنی سنگھ کمیشن کی رپورٹ اس سال اگست میں صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو کو پیش کی گئی تھی جس کی سفارش متوقع خطوط پر ہی تھی۔
اس نے کُل 2,633 او بی سی ذات کے گروپوں کو چار زمروں میں تقسیم کیا۔
اس نے 1674 ذاتوں کے گروہوں کو، جو او بی سی میں سب سے پسماندہ ہیں لیکن آبادی میں کم ہیں، زمرہ I میں رکھا اور ان کے لیے ریزرویشن کا 2 فیصد مقرر کیا۔ اس نے 6 فیصد کوٹہ ریزرویشن کے ساتھ 534 ذات گروپوں کو زمرہ II میں رکھا، 9فیصد ریزرویشن کے ساتھ زمرہ III میں 328 ذاتوں کے گروپوں کو شامل کیا، اور 10 فیصد ریزرویشن کے ساتھ 97 ذاتوں کے گرپوں کو زمرہ IV میں رکھا، جو اوبی سی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان سفارشات کو درست ذات اور ذیلی ذات کے اعداد و شمار کے بغیر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ 2018 میں روہنی سنگھ کمیشن نے او بی سی کی ذات کے لحاظ سے آبادی کا پتہ لگانے کے لیے ایک آل انڈیا سروے کے لیے بجٹ کی بابتہ مرکزی وزارت داخلہ کو خط لکھا۔ وزارت داخلہ نے جواب دیا کہ وہ 2021 کی مردم شماری میں او بی سی پر ذات پات کا ڈیٹا اکٹھا کرے گی۔ تاہم، مودی حکومت نے نہ تو 2021 کی دہائی کی مردم شماری کی اور نہ ہی 2011 کی سماجی، اقتصادی اور ذات کی مردم شماری کا ڈیٹا جاری کیا۔
ایسے میں روہنی سنگھ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں بی جے پی کے لیے حکمت عملی تیار کرنے والوں کا خیال ہے کہ روہنی کمیشن کی رپورٹ پر ذات پات کی مردم شماری کر کے لاگو کرنے سے پنڈورا باکس کھل جائے گا اور بی جے پی کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔
بی جے پی نے پہلے بھی اتر پردیش میں یادو اور دیگر غالب او بی سی کا کوٹہ کم کرنے کی کوشش کی تھی جب 2001 میں راج ناتھ سنگھ یوپی کے وزیر اعلیٰ تھے۔ راج ناتھ سنگھ کی حکومت نے ایک سماجی انصاف کمیٹی تشکیل دی تھی۔ 27 فیصد او بی سی کوٹہ میں سے، کمیٹی نے پانچ فیصد یادووں کے لیے، نو فیصد دیگر او بی سی ذاتوں کے لیے، اور باقی 70 دیگر ذاتوں کے لیے کوٹہ تجویز کیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ نتیجتاً 2002 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح نقصان اٹھانا پڑا جب اس کی تعداد 88 رہ گئی جو 1996 میں اس کی تعداد کا نصف تھی اور یوں وہ ریاست میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
اب جب کہ مودی حکومت او بی سی کے مختلف ذیلی زمروں کے لیے طے شدہ کوٹہ کی بنیاد پر او بی سی کو تقسیم کرنے کے اپنے منصوبے میں مصروف تھی، غالب او بی سی برادریوں اور اپوزیشن جماعتوں کے سیاست دانوں نے خود کو مایوس محسوس کرتے ہوئے سماجی انصاف کی اسکیموں کی تیاری کے لیے ذات پات کی بنیاد پر آبادی کے سروے کا مطالبہ کیا۔ جہاں کانگریس نے اس سال فروری میں چھتیس گڑھ میں پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر میں ذات پر مبنی سروے کا پرزور مطالبہ کیا ہے، وہیں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ذات پات کے سروے کا حکم دے دیا جس کی رپورٹ دو ہفتے قبل جاری کی گئی تھی۔
اور اب کانگریس نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے ملک گیر ذات کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی نے نہ صرف ملک بھر میں ذات پات کی مردم شماری کا پرزور مطالبہ کیا ہے بلکہ اس نے قانون سازی کے ذریعے 50 فیصد ریزرویشن کی حد کو ہٹا کر او بی سی، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے متناسب حصہ کی دلیل بھی دی ہے۔ دو دن پہلے اپنی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ (سی ڈبلیو سی) میں پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ ذات کا سروے کرے گی اور او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کو متناسب نمائندگی دے گی۔
اگرچہ پی ایم مودی نے ابتدائی طور پر بہار کے ذات پات کے سروے کے نتائج اور او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کے لیے ان کی آبادی کی بنیاد پر متناسب ریزرویشن کے کانگریس کے مطالبے پر تنقید کی تھی، لیکن بی جے پی کے رہنماؤں نے زعفرانی پارٹی کے خلاف او بی سی کے پولرائزیشن کے خوف سے اس معاملے میں خاموشی اختیار کرلی کیونکہ راج ناتھ سنگھ کی کوششوں کے بعد 2001 میں او بی سی ذاتوں کی درجہ بندی اور او بی سی کوٹہ کے اندر کوٹہ طے کرنا اسے راس نہیں آیا تھا۔
بہار کاسٹ سروے نے آشکار کردیا ہے کہ او بی سی ریاست کی آبادی کا 63 فیصد ہیں لیکن ریاست کے وسائل میں ان کا حصہ صرف 27 فیصد ہے۔ ریاست کی کل آبادی کا محض 20 فیصد کے ساتھ اعلیٰ ذاتوں کا ریاست کے وسائل میں 50 فیصد حصہ ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیداری او بی سی ووٹروں کو بی جے پی سے پیچھے ہٹا سکتی ہے اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو فتح حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
تاہم، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ذات پات کی سیاست سے جسے حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں آزما رہی ہیں، کس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ )
***
***
بہار کاسٹ سروے نے آشکار کردیا ہے کہ او بی سی ریاست کی آبادی کا 63 فیصد ہیں لیکن ریاست کے وسائل میں ان کا حصہ صرف 27 فیصد ہے۔ ریاست کی کل آبادی کا محض 20 فیصد کے ساتھ اعلیٰ ذاتوں کا ریاست کے وسائل میں 50 فیصد حصہ ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیداری او بی سی ووٹروں کو بی جے پی سے پیچھے ہٹا سکتی ہے اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو فتح حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔تاہم، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ذات پات کی سیاست سے جسے حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں آزما رہی ہیں، کس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023