ظریفانہ

رشی کی چال سے ٹوٹا نہ فرنگی کا طلسم

ڈاکٹر سلیم خان

ہر بات میں سازش سازش پکارنے والے اندھ بھکتوں کو آنکھیں کھولنی ہوں گی
للن نے کلن سے پوچھا :کیا بھیا اپنی لنگڑی لولی سہی سرکارتو بن ہی گئی۔ اب کیوں منہ لٹکائے گھوم رہے ہو؟
کلن بولا :بھیا ہمارے رشی سونک کے ساتھ ان گوروں نے جو سازش کی اسی نے موڈ خراب کردیا ۔ قسم سے بڑی بدمعاش قوم ہے۔
للن نے کہا: یار تم ہر معاملے میں سازش تلاش کرتے ہو یہ بتاؤکہ ایودھیا میں ہمارے خلاف کون سی سازش ہوئی جو ہم ہار گئے ؟
کلن بولا: یار تم آدمی تو پرانے ہو مگر مجھے پھر بھی شک ہوتا ہے کہ کہیں دشمن سے ملے ہوئے تو نہیں ہو؟
کیا بکواس کرتے ہو کلن ۔ سنگھ کے سنسکار مجھے وراثت میں ملےہیں ۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرے والد گرو گولوالکر کے خاص چیلے تھے ؟
ارے بھائی مجھے سب معلوم ہے لیکن تم ہمیشہ ’اپنی ڈگر سےہٹ کر‘ بات کردیتے ہو اس لیے شک ہونے لگتا ہے۔
ڈگر سے ہٹ کر والی بات؟ میں نہیں سمجھا ۔ تم کس ڈگر کی بات کررہے ہو؟
للن نے کہا: وہی بات جو اپنے واٹس ایپ گروپس، انسٹا گرام اور یو ٹیوب چینل پر چل رہی ہوتی ہے ۔
اچھا اب سمجھا ! دیکھو بھیا میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں جب کوئی بات پڑھتا یا سنتا ہوں تو اس پر غور بھی کرتا ہوں ۔
اچھا تو باقی سب لوگ کیا کرتے ہیں ؟
وہ آنکھ موند کر مان لیتے ہیں۔ اسی لیے لوگ ہمیں اندھ بھکت کہہ کر طعنے مارتے ہیں ۔
دشمن جو کرتے ہیں سو کرتے ہیں مگر اب تو تم نے بھی میرے منہ پہ گالی دے دی ۔
دیکھو للن یہ تہمت یا الزام نہیں حقیقت ہے اور ہماری واٹس ایپ یو نیورسٹی بہت جلد بند ہونے جارہی ہے۔
اچھا وہ کیوں ؟ دو دو امیت کے ہوتے یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ شاہ جی چونکہ اس کے چانسلر اور مالویہ جی وائس چانسلر ہیں یہ ناممکن ہے۔
کلن بولا :دیکھو بھیا یونیورسٹی وائس چانسلر یا چانسلر کے لیے ہوتی ہے اور نہ ان سے چلتی ہے۔
اچھا تو کس کے لیے ہوتی ہے اور کس سے چلتی ہے؟
بھیا للن ، چانسلر حضرات یونیورسٹی کے لیے ہوتے ہیں اور درسگاہ طلبا کے لیے ہوتی ہے اور انہیں کی وجہ سے چلتی ہے ۔
للن نے سوال کیا لیکن اپنی ’نمو‘ یونیورسٹی میں طلبا کی کون سی کمی ہے؟
دیکھو بھائی اب بھی کافی بھیڑ بھاڑ تو دکھائی دیتی ہےمگر وہ تعداد تیزی کے ساتھ گھٹ رہی ہے ۔
کیا بکواس کرتے ہو کلن! ایک طلسماتی پردھان جی کے ہوتے یہ ناممکن ہے۔
بھیا سچ تو یہ ہے کہ انہیں کی بدولت یہ یونیورسٹی بند ہوا چاہتی ہے کیونکہ ان کا طلسم ٹوٹ رہا ہے ۔
یار کمال ہے! کیا تمہارے پاس جادو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہے یا تم نے ہمارے یونیورسٹی کے طلبا کو گن رکھا ہے۔
جی نہیں لیکن موجودہ دور میں اس تعداد کو چھپانا ممکن نہیں ہے ۔ یو ٹیوب پر ناظرین کی تعداد کو دیکھ کر اس کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بھیا سچ بتاوں یو ٹیوب پر توہمارے پردھان جی چھائے ہوئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ دن رات کیمرے کے سامنے بیٹھ کر بولتے ہی رہتے ہیں۔
للن تمہاری یہ بات درست ہے مگر ویڈیو کے نیچے ذرا ناظرین کی تعداد دیکھنے کے بعد اس کا راہل سے موازنہ کرلیا کرو تو ہوش اڑ جائیں گے۔
راہل؟ کون راہل ؟؟
دیکھو یہی سوال پردھان جی نےحقارت سے پوچھا تھا۔ اس نے انہیں حزب اختلاف کا رہنما بنا دیا اور راہل نےایوان میں آ کر دھجیاں اڑا دیں۔
پھر بکواس کرنے لگے کون پوچھتا ہے راہل کو؟ اور کون دیکھتا ہے اس کو؟
ذرااپنی یونیورسٹی سے باہر نکل کر دیکھو سچائی سمجھ میں آجائےگی۔ ایوان پارلیمان کے خطاب کو دیکھنے والوں کی تعداد حقیقت بیان کرتی ہے ۔
کیا ہے وہ حقیقت جس پر تم کانگریسیوں کی مانند اچھل رہے ہو۔
دیکھو بھیا ہمارے پردھان کے خطاب کو کل 72 ہزار لوگوں نے دیکھا کیا سمجھے ؟
ہاں تو کیا یہ تعداد کم ہے؟
کم تو نہیں مگراس کا راہل سے موازنہ کریں تو اونٹ پہاڑ کے نیچے آجاتا ہے۔ راہل گاندھی کی تقریر کو جملہ آٹھ لاکھ لوگوں نے دیکھا کیا سمجھے؟
کیا بات کرتے ہو ۔لگتا ہے پہلی پہلی تقریر تھی تو اس کو جاننے کے لیے لوگوں نےدیکھا ہوگا کہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ’پپو‘ کیسا بولتا ہے؟
دیکھنے کی وجہ جو بھی ہولیکن اس کو چوبیس ہزار لوگوں نے لائیک کیا جبکہ اپنے پردھان کو پسند کرنے والوں کی تعداد صرف بارہ سو ہے ۔
یہ نہیں ہوسکتا ۔ مجھے تو اس میں بھی کوئی سازش لگتی ہےلیکن امیت شاہ نے یوٹیوب کو پیسے دے کر یہ تعداد کیوں نہیں بدلوائی ؟
یار پھر وہی سازش ؟ جان لو کہ امیت شاہ کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ اب ان سے نہ کوئی ڈرتا ہے اور نہ بکتا ہے۔
کیا بولتے ہو وہ آج بھی ملک کے وزیر داخلہ ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ ایسا کہو گے تو یو اے پی اے لگا دیں گے ۔
ارے بھیا وہ زمانے لد گئے۔ اس پارلیمانی اجلاس میں اسپیکر سے تحفظ طلب کرکے اپنی عزت کا بھاجی پالا کردیا۔
ہاں یار کلن سچ بتاوں مجھے بھی وہ سن کر بہت برا لگا میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارا محافظ ایسا محتاج تحفظ ہوگا ۔
یار للن جس یونیورسٹی کے چانسلر کوجمع تفریق کا حساب نہ آتاہو اس کی یونیورسٹی لالچ اور خوف کے سہارے کتنے دن چلے گی؟
دیکھو کلن امیت شاہ بنیا ہے ان کی سیاسی سمجھ پر تم سوال اٹھا سکتے ہو مگر ریاضی دانی کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ یہ خصوصیت تو جینس میں ہوتی ہے۔
یار مجھے تو ان کے بنیا ہونے میں شک ہورہا ہے۔ انہوں نے کبھی گاندھی جی کو چَتوَر (ذہین) بنیا کہا تھا جی چاہتا ان کو مورکھ (احمق)بنیا کہوں ۔
ارے بھیا ہمارے شاہ جی سے اتنے ناراض کیوں ہو ۔ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ مسئلہ کیا ہے؟
دیکھو للن امیت شاہ سے جب انتخابی نتائج کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ بولے کہ ہم 85 فیصد نمبر لانے والے تھے مگر75 فیصد لاسکے۔
جی ہاں تو اس میں کیا غلط ہے۔ ہماری سرکار تو بن گئی ۔
میں سرکار کی نہیں فیصد کی بات کررہا تھا یہ بتاو کہ 85 اور 75میں کتنا فرق ہے؟
للن بولادس فیصد کا اور کتنا ؟ یہ بھی کوئی سوال ہے۔
کلن نے کہا: تمہیں یاد ہے شاہ نے کہا ہم 370 لائیں گے اور اب صرف 240 لاسکے تو کتنا فرق ہوا ؟
یار کلن زیادہ سوال مت پوچھو تم ہی حساب کرکے بتاو ۔ میں بھی تو مودی اور شاہ کا بھگت ہی ہوں۔
دیکھو بھیا 68فیصد لانے والے تھے اور صرف 44 فیصد لاسکے ۔ یعنی سارے اعدادو شمار غلط ہیں ۔ ایسے چانسلر کو تم کیا کہو گے ؟
للن بولا: یار ایک بات بتاؤ آج کل تم دن رات اپنے ہی لوگوں کے پیچھے پڑے رہتے ہو اور راہل گاندھی کی خوب تعریف کرتے ہو ۔ کیا بات ہے؟
ارے بھائی یہ سمجھ لو کہ اڈانی نے ٹیمپو میں بھر کر جو نوٹ راہل کو بھجوائے تھے وہ اس نے میرے پاس بھجوا دیے ۔
ارے کلن تم سمجھتے کیوں نہیں وہ تو لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے پردھان جی کا ایک انتخابی جملہ تھا ۔ اڈانی کی کیا مجال؟
دیکھو للن اب لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے اور مجال والا جملہ واپس لے لو کیا سمجھے ؟
کیوں اڈانی نے بھی کوئی گڑ بڑ کردی ہے کیا؟
اڈانی نے تو نہیں امبانی نے کردی ۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ لے کر سونیا اور راہل گاندھی کے گھر پہنچ گئے۔
ارے بھیا اندرا گاندھی سے مکیش کے والد دھیرو بھائی امبانی کے پرانے مراسم تھے ۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے؟
بڑی بات ہے ۔ پچھلے دس سالوں میں امبانی خاندان کی یہ تیسری شادی ہے۔ اس سے پہلے انہیں گاندھی خاندان کیوں یاد نہیں آیا؟
ہاں یار یہ تو کافی سنگین مسئلہ ہے۔ مجھے یاد ہے مکیش نے مودی کو کامیاب کرنے کے لیے سی این این آئی بی این کو خریدا تھا ۔
جی ہاں اور اڈانی نے آگے چل کراین ڈی ٹی وی کو خرید لیا مگر اب وہ دونوں دھیرے دھیرے راہل کی جانب جھکنے لگے ہیں۔
ہاں یار اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ لگتا ہے پردھان جی کے ’برے دن آنے والے ہیں‘۔
ارے بھیا یہ سمجھ لو کہ آچکے ہیں۔ امبانی نے چونکہ سونیا سے ملاقات کی اس لیے مودی نے انہیں جیو کا نرخ بڑھانے کی اجازت دے دی۔
تو کیا تم کہنا چاہتے ہو کہ مکیش نے ناک دبا کر پردھان جی کا منہ کھلوا دیا مگر اس سے تو ائیرٹیل اور وڈافون کا بھی بھلا ہوگیا ۔
ہاں بھیا مثل مشہور ہے کہ بہتی گنگا میں سبھی ہاتھ دھو لیتے ہیں۔
للن نے کہا: یار میں رشی سونک کے بارے میں جانتا تھا کہ آخر اس بے چارے کا اتنا برا حال کیوں ہوا؟
چلو اچھا ہے کہ تم سازش کی نفسیات سے باہر نکل کر کچھ سوچنے تو لگے ہو لیکن یہ سمجھنا تمہارے لیے خاصا مشکل ہے۔
کیوں تم ایسا کیوں سوچتے ہو۔ میں مودی بھکت ضرور ہوں لیکن رشی سونک سے مجھے کوئی خاص عقیدت نہیں ہے ۔
اچھا ہے مگر سچ بتاوں کہ کل جب پردھان جی کا بھی یہی حال ہوجائے گا تو ازخود تم یہ سمجھ جاوگے۔
یار پھر تم نے دل دکھانے والی بات کہہ دی ۔ پردھان جی کا یہ حال کبھی نہیں ہوسکتا۔
جی ہاں اس لیے کہ تم لوگ پردھان جی کوانسان نہیں بھگوان سمجھتے ہو ۔
جی ہاں صحیح کہا رشی سونک تو ایک انسان ہے۔ وہ تو ہار سکتا ہےمگر بھگوان نہیں ہار سکتا ۔
تم لوگوں کی یہی سوچ پردھان جی کو بھی رشی سونک بنادے گی ۔ اس لیے اگر ان کو بچانا ہے تو اس خیال کو دل سے نکال دو۔
للن نے کہا :یہ مشکل تو بہت ہے مگر پھر بھی بتاو کہ آخر برطانیہ کی بی جے پی کو دو سوسال میں سب سے بڑی شکست کیوں ہوئی ؟
بھائی اس کی ایک وجہ تو آپسی لڑائی تھی دوسرے مہنگائی، بےروزگاری، صحت عامہ میں سرکار کی عدم دلچسپی اور کورونا سے نمٹنے میں ناکامی تھی ۔
یار دیکھو ہمارےیہاں بھی آپس کی لڑائی اور یہ سارے مسائل ہیں پھر بھی پردھان جی نے سرکار بنا لی ۔ اب تو مانتے ہونا ان کا جادو؟
یہ پردھان جی کا کریڈٹ نہیں یہ ہمارے عوام کی حماقت ہے کہ وہ اقلیت دشمنی بنام فسطائیت کےجھانسے میں آگئی یہ مسئلہ وہاں نہیں ہے۔
یار للن میں نے سنا ہے کہ وہاں ہندوستانی بہت مضبوط ہیں اسی لیے رشی سونک کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا ۔ وہ کیوں بے اثر ہوگئے؟
بھائی پہلے تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ ہندوستانیوں کی طاقت کے سبب رشی سونک وزیر اعظم بنے ۔
اچھا تو کیاایک ہندوستانی ویسے ہی وزیر اعظم بن گیا ؟
بھائی ایسا ہے بورس جانسن کے بعد رشی سونک نے لیز ٹرس کے خلاف وزیر اعظم بننے کی کوشش کی مگر ہار گئے ۔
وہ مجھے معلوم ہے ۔ یہ بتاو کہ پھر وہ وزیر اعظم کیسے بنے؟
ہوا یہ کہ لیز ٹرس نے بڑے بڑے وعدے کیے اور پورا نہیں کرسکیں اس لیے انہیں استعفیٰ دینا پڑا ۔
ارے کمال ہے ۔ یہ فرنگی بھی پاگل ہیں اتنی سی بات پر ہٹا دیا ۔ ہمارے سیاست داں تو کوئی بھی عہد پورا کیے بغیر جیت جاتے ہیں ۔
وہ پاگل نہیں ہم ہیں جو بار بار دھوکہ کھاتے ہیں ۔
لیکن تم نے یہ نہیں بتایا کہ آخر رشی سونک کے سر پر تاج کیسے سجا؟
لیز ٹرس کے استعفیٰ سے پارٹی کے ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ اس لیے بغیر الیکشن ٹرس کے خلاف ہارنے والے سونک کو وزیر اعظم بنادیا گیا ۔
اچھا تو کیا تقدیر سے وہ صحیح وقت میں صحیح مقام پر ہونے کے سبب وزیر اعظم بن گئے تھے ۔
جی ہاں یہی بات ہے۔ سمجھ لو ’خدا مہربان تو بندہ پہلوان ‘ کا معاملہ ہو گیا۔
لیکن یہ بتاو کہ وہاں بسنے والے ہندوستانیوں نے رشی سونک جیسے تلک دھاری ہندو کو ووٹ دیا یا نہیں ۔
اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ رشی سونک نقل مکانی کرنے والوں کے مخالفین کی جماعت کا امیدوار تھا ۔
اچھا مگر اپنی قوم سے غداری کرکے گوروں میں شامل ہونے والے انگریزوں نے رشی کو ووٹ کیوں نہیں دیا ؟
فرنگی اب بھی رشی کو سیاہ فام سمجھتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے مخالف جماعت کے گورے کو ووٹ دے دیا ۔
یار میں تو سمجھتا تھا کہ سیکولر جمہوری نظام نسلی امتیاز کو جڑ سے نکال دیتا ہے مگر برطانیہ میں تو ایسا نہیں ہوسکا؟
مجھے خوشی ہے کہ مغرب کے باطل نظام کی یہ منافقت اس انتخاب نے تمہارے آگے واضح کردی ۔
جی ہاں اس کے علاوہ وہاں کے عوام چودہ سالوں تک ایک ہی پارٹی کی حکومت سے اوب چکے تھے اس لیے اسے مسترد کردیا ۔
للن بولا لیکن میڈیا کے اعدادو شمار سے پتہ چل رہا ہے کہ اپنے ملک کے لوگ بھی پردھان جی اور پارٹی سے اوب رہے ہیں ۔
جی ہاں یہ تو دیوار پر لکھی تحریر ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔
تب تو وہی تبدیلی کی شدید خواہش ہمیں بھی ٹھکانے لگا دے گی ۔
جی ہاں للن اگر وہ ہوگیا تو ہمارے پردھان جی کو جھولا اٹھاکر اپنے رشی سونک کے پاس جانا ہوگا۔
ہاں مگر ممکن ہے اس وقت تک رشی سونک اپنی سسرال بنگلورو آچکا ہوگا ۔ اس لیے کہ ایسی ذلت آمیز شکست کے بعد وہاں رہنا بے کار ہے۔
کلن بولا :وہ بڑ اسیانا آدمی ہے۔ اس نے امریکہ کی بھی شہریت لے رکھی ہے اس لیے وہ ہندوستان آنے کے بجائے وہاں نکل جائے گا ۔
یار اپنے پردھان جی نے ایسا کوئی انتظام کیا ہے کہ نہیں ۔
جی نہیں اپنے ملک میں اس کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہاں سیاسی رہنماوں کی پیروی نہیں بلکہ پرستش کی جاتی ہے۔
یار کلن تمہاری اس بات پر مجھے غالب کا ایک شعر یاد آگیا ۔
کلن بولا:ارشاد
للن نے کہا :
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بتِ بیداد گر کو میں
کلن بولا :یار معاف کرنا ۔ تمہارے منہ سے یہ شعر سننے کے بعد میں کبھی تم کو اندھ بھکت نہیں کہوں گا ۔
شکریہ ۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024