ظریفانہ: کارِجہاں اورفن چمچہ گری

کچھ چمچوں کے بارے میں۔۔

محمد اسد اللہ، ناگپور

مضمون کا لفافہ دیکھ کر آپ نے بھانپ ہی لیا ہوگا کہ ذکر خیر کسی چمچے کا نہیں اس ’چلتے پرزے‘ کا ہے جو اصل چمچے کا استعارہ ہے۔ وہ چمچہ نہیں جو پیالی میں شکر گھولتا ہے، یہ وہ’ ذاتِ شریف‘ ہے جو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا ہے، چائے خود پی جاتا ہے اور لوگوں کو طوفان کے حوالے کر کے اپنے گھر کا راستہ لیتا ہے۔ جہاں اچھے اچھے سورما ہار جائیں، یہ مردِ با تدبیر کسی وزیر کی خدمت میں ایک ہار لے کر پہنچ جاتا ہے تو جیت کر ہی واپس آتا ہے۔ جہاں بات بنائے نہ بنے، چمچہ وہاں اپنی چرب زبانی سے وہ جادو جگاتا ہے کہ لوگ دنگ رہ جائیں۔ کام کسی کا ہو، چمچہ سب کو پیچھے دھکیل کر منظرِ عام پر چھا جاتا ہے۔ یہ وہ شہ بالا ہے جو اپنی تب و تاب اور کھنکھناہٹ سے دولہے کو بھی مات دے دیتا ہے۔ اسٹیل کا نہ ہوتے ہوئے بھی اس قسم کا ہر چمچہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا لوہا سب مان لیں، ایسے کسی بھی چمچے کو یہ پسند نہیں کہ اسے چمچہ کہا جائے لیکن سیاسی لیڈر، صنعت کار، ڈائرکٹر یا باس کے چمچے کے دل میں یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ آنجناب کو اس بڑی شخصیت کا چمچہ سمجھا جائے کیونکہ لوگ صاحب سے اتنا نہیں ڈرتے جس قدر ’صاحب کے چمچے‘ سے گھبراتے ہیں کہ وہ باس کو ان کے خلاف نہ جانے کب کیا گھول کر پلا دے؟
اسے بھی کمالِ چمچہ گیری ہی کہہ لیجیے کہ ہم حقیقی چمچوں کو چھوڑ کر مجازی چمچوں تعریف کر نے لگے۔
کچھ بیان ان بے جان اور بے ضرر چمچوں کا بھی ہو جائے جن کے حسنِ کارکردگی سے متاثر ہو کر انسانوں نے ’چمچہ گیری‘ کا فن ایجاد کیا، اس فن کی پیالی میں ایسے عجیب و غریب ہتھکنڈے ڈال ڈال کر گھولے کہ اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یوں بھی یہ ہنر کسی کو ہمالیہ کی بلندی پر چڑھانے ہی سے عبارت ہے۔ فنِ چمچہ گیری نے اب وہ صورت اختیار کرلی ہے کہ اسٹیل یا چاندی کے چمچے تک خود کو کسی کا چمچہ کہتے ہوئے شرمائیں۔
چمچوں کو ہم ان سائنس کی ایجادات میں شمار کر سکتے ہیں جن کی بدولت انسانی زندگی نے راحت کی سانس لی، مشقتوں سے خلاصی پائی اور چین و سکون کو ہر طرف بکھرا ہوا دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ اب لوگ باگ ان ایجادات کو استعمال تو دھڑلّے سے کرتے ہیں مگر انہیں دیکھتے ترچھی نظر سے ہیں۔ ایسے کسی قدامت پرست عاشقِ دل گیر کے تیرِ نظر کو سیدھا کرنے کی کوشش بے سود ہے۔ چمچہ ایک ذریعہ اور وسیلہ محض ہے مگر نظریاتی تفریق نے اسے اسباب دنیاداری میں شامل کر دیا ہے، یہ مادیت پرستی کی علامت اور مایا جال ہے۔ مغربی یا مادی تہذیب نے چمچوں کو کھانے کے ٹیبل پر سجا کر جلے پر تیل کا کام کیا ہے۔ دراصل چمچہ اس تہذیب کی دین ہے جس نے خود کو زمین سے بلند کرنے یا اس سے دوری اختیار کرنے کی خاطر میز اور کرسی ایجاد کی تھی۔ اسی تہذیب نے اس ہنر کو اس قدر پروان چڑھایا کہ میر صادق اور میر جعفر جیسے شاہ کار چمچوں کی مدد سے برصغیر میں شان دار دعوت اڑائی گئی۔
چمچے یقیناً آرام و آسائش کے علم بردار ہیں۔ کوئی بچہ آسودہ گھرانے میں آنکھ کھولے تو کہا جاتا ہے کہ وہ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ہے۔ کسی کو تکلیف یا زحمت سے بچانے کے لیے انگریزی میں ’اسپُون فیڈنگ‘ کی ترکیب عام ہے۔ ہماری زبان میں اسے بنے بنائے نوالے مہیا کرنا کہہ لیجیے۔ حقیقی چمچوں کا تعلق پیٹ، پلیٹ اور پیالیوں سے ہے۔ مجازی چمچوں کے لیے کارِ جہاں دراز ہے۔ حقیقی چمچے کی اہمیت سمجھانے کے لیے یہی ایک مثال کافی ہے کہ ہاتھ کی پانچ انگلیاں مل کر بھی ’مالِ ضیافت‘ تک نہیں پہنچ پاتیں اور ایک سر گرم چمچہ تنِ تنہا آگے بڑھ کر سب کچھ حاصل کرلیتا ہے۔ چمچہ ہونٹوں تک پہنچ کر لذتِ کام و دہن جگاتا ہے اور سیدھا دل میں اتر جاتا ہے کہ دل تک جانے کا راستہ پیٹ ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔ رموزِ چمچہ گیری سے ناواقف اہلِ دل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور چمچے اسی گزرگاہ سے ہو کر چٹکی بجاتے بڑے بڑے لوگوں کا دل جیت لیتے ہیں۔ عہدے، منصب اور وزارت وہ مقامات ہیں جہاں چمچوں کا میلہ لگتا ہے۔
ضیافت اور سیاست میں ہر دو قسم کے چمچے کل بھی سرگرمِ عمل تھے اور آج بھی اسی سرعت کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان دنوں سیاست نے اپنا دامن ہر میدان میں پھیلایا ہے۔ گھر دفتر، کاروبار، تعلیم گاہیں، عبادت گاہیں غرض سیاست ہر جگہ ہوا بن کر داخل ہوگئی ہے۔اسی لیے چمچے ہوا کے دوش پر ہر جگہ سرایت کر گئے ہیں۔ یوں بھی نئے زمانے میں کھانوں میں سینڈوچ بہت مرغوب ہیں۔چمچے تو بہر حال ہاتھ اور لب و دنداں کے درمیان سینڈوچ بن جاتے ہیں۔ ان بچولیوں کی مقبولیت میں اسی سینڈوچ پرستی کا ہاتھ ہے۔ لطف یہ کہ کھانے اور ہاتھوں کے درمیان چمچے ہوتے ہیں جو بظاہر کھانے میں مدد کرتے نظر آ تے ہیں۔ چمچے اپنا کام دستِ تعاون بڑھا کر ہی شروع کرتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ کی انگلیوں کو کھانے سے دور کر کے خود ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ وہی مثال ہے اونٹ اندر عرب باہر۔
انگلیوں کی مدد سے کھانا ایک فطری عمل ہے اس میں چمچے کی شمولیت دخل در معقولات (ماکولات) ہے۔ بظاہر چمچے کی مدد سے کھانا اچھا لگتا ہے، صفائی و شائستگی کا مظہر بھی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ ایک طرف چھری، کانٹے اور چمچے ہیں اور دوسری طرف ہاتھوں کی انگلیاں! دونوں میں ایک لطیف سا فرق یہ ہے کہ چمچے اور اس کے قبیلے کے تمام افراد بے جان، سنگ دل، سفاک، مروت سے عاری، بے حس اور سرد ہیں اس کے برعکس ہاتھوں کی انگلیاں، گرم دمِ جستجو اور نرم دمِ خورد و نوش ہیں۔ انگلیوں کی مدد سے آپ بڑی پھرتی کے ساتھ کھانا نکال لیتے ہیں۔چمچوں کے ساتھ تکلفات کے سو سو بل پڑتے ہیں۔ چمچوں کو سنبھالنا گویا محبوب کی عشوہ طرازیاں جھیلنے کے برابر ہے۔ انگلیوں اور کھانے کے لقموں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نرم خو، ملائم اور لطیف ہیں۔ نرم نوالے ملائم انگلیوں سے مس ہوتے ہی تجنیس تام (تجنیسِ طعام) وجود میں آتی ہے اور اس وقت تک بر قرار رہتی ہے جب تک کھانا جزو بدن نہیں بن جاتا۔ اس کے برعکس کھانے اور چمچے کا میل ملاپ خالص سیاسی گٹھ بندھن ہے، جیسے کوئی سیاسی پارٹی الیکشن لڑنے کے لیے، کبھی کسی ریاست میں، اپنے مینی فیسٹو کے خلاف نظریات رکھنے والی پارٹی سے بھی سمجھوتہ کرلیتی ہے مگر مقصد پورا ہونے پر اگلے الیکشن میں اس سے جدائی اختیار کر لیتی ہے۔ ذرا غور کیجیے! کھانے کے عمل کے دوران پانچوں انگلیاں اور ہاتھ استعمال ہوتے ہیں مگر آپ کے دہن اور لب و دنداں تک کھانے کی رسائی چمچے ہی کے توسط سے ہوتی ہے، کسی انگلی کی کیا مجال جو درمیان میں حائل ہو سکے۔ چمچے کی آمد ہاتھ اور انگلیوں کی بے دخلی کا کھلا اعلان ہے۔ ایک چمچے کی موجودگی پانچ انگلیوں اور ایک مضبوط ہاتھ کو سلسلہ طعام کے اس نظام سے بے دخل کر دیتی ہے اور چمچہ ایک ڈکٹیٹر بن کر سب پر چھا جاتا ہے۔ جمہوری نظام ہو یا بادشاہت، چمچوں اور مصاحب کے بغیر بات نہیں بنتی۔ چمچے در اصل عہدیداروں کی ضرورت بھی ہیں اور عیاشی کا ذریعہ بھی۔ ظاہر ہے جہاں کھانے کا سلسلہ ہوگا چمچوں کی ضرورت پیش آئے گی ہی۔
چمچوں کی رفاقت میں کھانا کھاتے ہوئے ہم خود کفالتی جیسی پر اعتماد صفت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کھانے کے دوران چمچوں کا استعمال کرتے ہیں تو چمچوں ہی کے دستِ نگر ہوتے ہیں گویا آپ نے خوراک کے ذریعے جسمانی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بیرونی طاقت کا سہارا لیا ہے، کیونکہ چمچہ بہر حال ایک بیرونی چیز ہے، ہمارے ہاتھ اور اس کی انگلیاں ہماری ذات کا حصہ ہیں، یعنی ہاتھ اپنے ہیں چمچے غیر ہیں۔ ہر چند چمچے ابتداء میں لاکھ اپنائیت کا ثبوت دیں، اس وقتی رفاقت کا انجام غیریت پر ہی ہوتا ہے، یعنی کھانا ختم کر کے ہم چمچوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی مجھے چمچے اور انگلیوں کے درمیان انتخاب کی نوبت آئی میں غالبؔ کا یہ مصرع پڑھ کر چمچوں سے دست بردار ہو گیا۔
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائیں کیا!
***

 

***

 چمچہ ایک ذریعہ اور وسیلہ محض ہے مگر نظریاتی تفریق نے اسے اسباب دنیاداری میں شامل کر دیا ہے، یہ مادیت پرستی کی علامت اور مایا جال ہے۔ مغربی یا مادی تہذیب نے چمچوں کو کھانے کے ٹیبل پر سجا کر جلے پر تیل کا کام کیا ہے۔ دراصل چمچہ اس تہذیب کی دین ہے جس نے خود کو زمین سے بلند کرنے یا اس سے دوری اختیار کرنے کی خاطر میز اور کرسی ایجاد کی تھی۔ اسی تہذیب نے اس ہنر کو اس قدر پروان چڑھایا کہ میر صادق اور میر جعفر جیسے شاہ کار چمچوں کی مدد سے برصغیر میں شان دار دعوت اڑائی گئی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023