ابو اشرف،ممبئی
انسان بھی عجیب مخلوق ہے وہ اپنے بکرے پر تو اپنی مرضی چلاتا ہے لیکن خود اپنے مالک کی نہیں مانتا
جمن سیٹھ نے کلن قصائی سے کہا ’’میرےبھائی چھکن پہلوان کو اچانک اسپتال میں داخل کیا گیا ہے اس لیے میں گاڑی لے کر جارہا ہوں‘‘
کلن بولا ’’لیکن سیٹھ میں ان بکروں کو لے کر کیا پندرہ کلومیٹر پیدل جاؤں گا ۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا‘‘جمن نے بگڑ کر کہا ’’تجھے کس نے کہا کہ انہیں پیدل لے کر جا؟ تو یہاں بلدیہ کی رسید وغیرہ بناکر انتظار کر ایک آدھ گھنٹے میں گاڑی آجائے گی’’ ’’ٹھیک ہے سیٹھ لیکن گاڑی جلدی بھیجنا ورنہ میں بور ہوجاؤں گا‘‘
’’بھائی عید تو پرسوں ہے۔ آج ویسے بھی تو گھر میں پڑا رہے گا اس سے بہتر ہے کہ منڈی گھوم لے یا موبائل پر ویڈیو دیکھ لے۔ لے یہ کھانے کے لیے نوٹ پکڑ’’
کھا پی کر فارغ ہونے کے بعد کلن نے سوچا چلو للن چرواہے کے ساتھ ٹائم پاس کیا جائے ۔ وہ اس کے پاس آکر بولا ’’کیوں بھائی کیا حال ہے؟‘‘
للن بولا ’’کیا بتاوں کلن وہی ہڈی وہی کھال ہے‘‘ کلن نے کہا ’’یار آج کل کھال کا برا حال ہے۔ پہلے مدرسے والے قربانی کی کھال کے لیے لڑتے تھے اب اس سے بھاگتے ہیں’’
’’ہاں بھائی دنیا بڑی خراب ہے، جس کا بھاؤ زیادہ ہو اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور سستی چیز کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھتی ۔ یہی حال بکروں کی کھال کا ہے’’
کلن نے کہا ’’یار میرے خیال میں انسانوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جس کے پاس دولت و شہرت ہو ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں’’
للن بولا ’’لیکن کوئی پوچھے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ہم کو اپنے کام سے کام اور اپنے بکروں سے مطلب۔ دنیا سے کیا لینا دینا’’
’’اچھا یار یہ بتاؤکہ پرسوں میں تمہارے ان خوبصورت بکروں کو ذبح کردوں گا تو تمہیں کیسا لگے گا؟
للن بولا ’’اچھا لگے گا اور کیسا لگے گا؟‘‘
’’یار تم جیسا بے مروّت انسان میں نے دنیا میں نہیں دیکھا‘‘
’’اس میں مروّت آپا کہاں سے آگئی؟‘‘
کلن نے کہا ’’ارے بھائی میں آپا واپا کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ مجھے تو تمہاری سنگ دلی اور خودغرضی پر غصہ آرہا ہے‘‘
’’بہت اچھے! تم لوگ سفاک اور ابن الوقت سیاستدانوں کو انتخاب میں کامیاب کرکے سر پر بٹھاتے ہو اور مجھے سنگ دل کہتے ہو؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘
’’بھیا وہ ہمارے دشمن ہیں اس لیے ان کے سرپر کانٹوں کا تاج رکھ دیتے ہیں لیکن تم ہمارے دوست ہو اس لیے تمہارے گلے میں ہار ڈالنا چاہتے ہیں‘‘
’’اچھا ہمارے لیے ہار اور ان کی خاطر جیت؟ بہت ناانصافی ہے؟‘‘
کلن بولا ’’اوہو لگتا ہے تمہاری عقل بھی بکروں کے ساتھ گھاس چرنے گئی ہے۔ میں جیت ہار کی نہیں بلکہ پھولوں کے ہار کا ذکر کررہا تھا‘‘
’’اب زیادہ بات نہ بناو کیا سمجھے؟ تمہاری زبان تو چھری سے بھی زیادہ تیز چلتی ہے‘‘
’’بات میں تھوڑی بنا رہا ہوں ۔ تم نے یہ بتایا ہی نہیں کہ جب یہ بکرے کٹ جائیں گے تو تمہیں کیوں اچھا لگےگا؟ اس سوال کو تم گول کرگئے‘‘
للن بولا ’’سچ پوچھو تو مجھےاس لیے اچھا لگے گا کیونکہ پہلے وہ بکیں گے، اس کے بعد ہی کوئی قصائی کاٹے گا نا‘‘
’’اچھا اگر یہ نہیں بکے تو کون سا آسمان پھٹ جائے گا یا زمین دھنس جائے گی؟‘‘
’’بھیا تم جیسے قصائی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہماری تو عمر بھر کی کمائی ڈوب جائے گی اور سال بھر کا گزارا مشکل ہوجائے گا‘‘
’’کیوں عید کے بعد کیا بکرے نہیں بکتے؟‘‘
للن بولا ’’بکتے تو ہیں لیکن ان کی قیمت کئی گنا کم ہوجاتی ہے ۔ یہ خاص بکرے بھی عام بکروں کے بھاؤبیچنے پڑتے ہیں ۔ بہت نقصان ہوتا ہے‘‘
’’اچھا ! اگر اس سال نہیں بکے تو اگلے سال بک جائیں گے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’دیکھ بھائی کلن قصائی یہ کہنا بہت آسان ہے مگر کرنا نہایت مشکل ہے‘‘
’’یار للن تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی اس میں مشکل کیا ہے؟‘‘
’’تجھے تو معلوم ہے کہ ہم ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے یہاں آتے ہیں ۔ ان بکروں کو لانے لے جانے پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوجاتی ہے‘‘
’’ہاں یار! لیکن تم نے خوب کمائے بھی تو ہیں اس میں سے کچھ آنے جانے پر خرچ ہوجائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’یار تو بھی عجیب آدمی ہے ۔ ہم نے کیا اس لیے کمائے ہیں کہ وہ ساری پٹرول میں جھونک دیں‘‘
’’ارے بھیا دھندے میں آمدنی کے ساتھ تھوڑا بہت خرچ بھی تو ہوتا ہے نا‘‘
’’بھیا جب سے پٹرول کی قیمت میں آگ لگی ہے ٹرانسپورٹ کا خرچ آسمان پر پہنچ گیاہے۔ کیا سمجھے؟‘‘
خیرمیں نے توپہلے ہی کہہ دیا کہ تم تو سنگ دل آدمی ہو، اب یہ بتاو کہ ان بکروں پر کیا گزرتی ہوگی؟‘‘
’’تو یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہا ہو؟ جا بکروں سے پوچھ لے‘‘
کلن نے بگڑ کرکہا ’’اوئے بیوقوف تو بکرے پالتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بات نہیں کرتے ۔میں ان سے کیا پوچھوں‘‘
’’وہ تو ہے لیکن اس منڈی میں ایک بکرا بات کرتا ہے‘‘
’’اچھا تب تو وہ سب سے پہلے بِک گیا ہوگا؟‘‘
للن بولا ’’نہیں۔ اس کا بھاؤ سن کر کوئی قریب نہیں پھٹکتا ۔ سلمان اور شاہ رخ بھی اسے نہیں خرید سکتے‘‘
’’تو کیا اس کا مالک اسے بیچنا نہیں چاہتا؟‘‘
’’چاہتا تو ہے ۔ اسی لیے بازار میں لے کر آیا مگر اپنے بھاؤ پر بیچنا چاہتا ہے‘‘
کلن نے پوچھا ’’اور اگر نہیں بکا تو کیا ہوگا؟‘‘
’’وہ اس کو واپس لے جائے گا لیکن بھاؤ کم نہیں کرے گا‘‘
’’یار! یہ تو ہٹ دھرمی ہے‘‘
للن بولا ’’بھائی! وہ اپنے بکرے کا مالک ہے، اس کی مرضی۔ ہم بھلا اس معاملہ میں کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
کلن نے کہا ’’یار انسان بھی عجیب مخلوق ہے، وہ اپنے بکرے پر تو اپنی مرضی چلاتا ہے لیکن خود اپنے مالک کی مرضی پر نہیں چلتا‘‘
’’بھیا سبھی کا یہ حال ہے؟ ہم تم بھی تو یہی کرتے ہیں‘‘
کلن تائید میں سرہلاکربولا ’’جب تک ہمارا دنیوی فائدہ ہو اپنے مالک کی مرضی پر چلتے ہیں اور نقصان نظر آئے توبغلیں جھانکنے لگتے ہیں‘‘
للن نے کہا ’’دیکھ اب میں تیری بکواس سے بور ہوگیا ہوں تو جاکر بکرے سے بات کر’’ اس کا بھی ٹائم پاس ہوجائے گا۔باڑہ نمبر بارہ میں وہ بندھا ہے‘‘
وہاں پہنچ کر کلن نے بولنے والے بکرے کے مالک تلک دھاری مگن کو سلام کیا اور پوچھا ’’بھیا کیا میں تمہارے بکرے سے بات کر سکتا ہوں‘‘
وہ بولا ’’یہ تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس سے پوچھو اگر موڈ ہوگا تو بات کرے گا ورنہ سینگ مار کر بھگا دے گا‘‘
کلن نے نے ڈر کر پوچھا ’’اچھا تو کیا وہ اس قدر مغرور ہے؟‘‘
’’اس میں گھمنڈ کی کیا بات ۔ ہر جان دار کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ چاہے تو بولے یا ہمارے پردھان جی کی طرح مونی بابا بن جائے‘‘
کلن نے ہنس کر کہا ’’یار ہمارے پردھان جی پر مونی بابا کا لقب صادق نہیں آتا ۔ وہ تو اب اتنا بولنے لگے ہیں کہ سننے والوں کا موڈ خراب ہوجاتا ہے‘‘
مگن نے کہا ’’بات تو ٹھیک ہے مگر پہلوانوں کے احتجاج اور منی پور کے فساد پر ان کی زبان کیوں گنگ ہوجاتی ہے؟‘‘
’’ارے بھائی بکرے کی طرح ان کی مرضی، چاہےکسی موضوع پر بولیں یا خاموش رہیں‘‘
’’اچھا یہ بتاو کہ تم میرا بھیجا کھانے کے لیے آئے تھے یا بکرے سے بات کرنے کے لیے؟‘‘
کلن کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ وہ بولا ویسے تو میں بکرے سے بات کرنے کے لیے آیا تھا مگر تم بھی بہت دلچسپ انسان نکلے‘‘
مگن بولا ’’اب چاپلوسی چھوڑو اور یہاں سے دفع ہوجاو مجھےموبائل پر آدی پروش دیکھنی ہے۔ جئے شری رام‘‘
کلن نے داڑھی والے بکرے کے قریب آکر کہا ’’السلام علیکم‘‘
بکرا بولا ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘
کلن نے سوچا اس قدر بدتمیز مالک کا اتنا مہذب بکرا؟ تعجب ہے۔ وہ بولا ’’کیوں بھائی صاحب کیا حال ہے‘‘
بکرا بولا ’’ابھی تک تو خیریت ہے ۔ آپ مجھے خریدنے کے لیے تو نہیں آئے‘‘
کلن کو سینگ مارنے والی بات یاد آگئی ۔ وہ بولا ’’بھیا میری کیا بساط کہ تم کو خریدوں میں تو معمولی قصائی ہوں‘‘
’’اچھا تو تمہارا کام میری خریدو فروخت کے بعد شروع ہو گا؟‘‘
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے ؟ تائید کرے یا انکار کردے۔ کلن بولا ’’وہ کام کون کرے گا میں نہیں جانتا‘‘
بکرا بولا ’’کوئی بھی کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور سناو میرے پاس آنے کی زحمت کیسے کی؟‘‘
کلن نے مطلب پر آکر کہا ’’بھائی ایسا ہے کہ دو دن بعد جب تمہاری قربانی ہو جائے گی تو تمہیں کیسا لگے گا؟
’’بہت اچھا لگے گا ۔ حضرت اسماعیلؑ نے جس سعادت کے لیے خود کو پیش کیا وہ مجھے نصیب ہوجائے گی‘‘
یہ جواب سن کر کلن چکرا گیا ۔ وہ بولا ’’بھیا یہ بتاو کہ تمہاری پرورش کسی مدرسے میں تو نہیں ہوئی‘‘
بکرا بولا ’’بیچ میں مدرسہ کہاں سے آگیا؟‘‘
’’نہیں یہ جو علم و حکمت کی بات تم نے کہہ دی میں اس کا راز جاننا چاہتا تھا‘‘
بکرا بولا ’’مجھے تم پڑھے لکھے آدمی نہیں لگتے کیوں علامہ اقبال تو پہلے ہی اس راز کو فاش کرچکے ہیں‘‘
کلن قصائی بکرے کی زبان سےاقبال کا نام سن کر بھونچکا رہ گیا۔ وہ بولا ’’اچھا کیا تمہیں وہ شعر یاد ہے؟
’’کیوں نہیں علامہ نے کہا تھا: یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی:
کلن قصائی کی سمجھ میں شعر نہیں آیا وہ بولا ’’لیکن پھر بھی اس طرح ذبح ہوجانا کسے اچھا لگتا ہے؟‘‘
’’دنیا بھر میں ہر روز لاکھوں بکرے ذبح ہوتے ہیں لیکن قربانی کی سعادت کتنوں کو نصیب ہوتی ہے ؟ اس لیے میں تو خود کو خوش بخت سمجھتا ہوں‘‘
’’ہاں یہ تو بہت بڑی بات ہے مگر قربانی تو تمہارا خریدار کرے گا تمہیں کیا ملے گا؟‘‘
’’بھیا کچھ وقت نکال کر اقبال کو پڑھا کرو کیا خوب کہا ہے : میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی میں اسی لیے ہوں بکرا، میں اسی لیے نمازی’’
کلن بولا ’’علامہ اقبال اپنے آپ کو بکرا کیسے کہہ سکتے ہیں؟’’
بھیا ’’انہوں نے تو خود کو مسلماں کہا لیکن میں نے اسے بکرا سے بدل دیا ۔ اب اتنی جسارت تو میں کرہی سکتا ہوں‘‘
کلن نے کہا ’’ہاں یہ بات تو ہے لیکن پھر بھی موت کا ڈر کسے نہیں ہوتا؟‘‘
’’یار لگتا ہے تم نے غالب کو بھی نہیں پڑھا‘‘
کلن بولا ’’بھیا ہم لوگوں کو شعر شاعری پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ہم لوگوں کی زندگی تو پایا اور اوجھڑی کی نذر ہوجاتی ہے‘‘
’’خیر! ہم جیسوں کو غالب کی نصیحت ہے: موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کلن بولا ’’میں تو بکرے سے ملنے آیا تھا مگر فلسفی مل گیا‘‘
’’ارے بھیا فلسفی کے سینگ تھوڑی ہوتے ہیں ؟ مجھے تو سینگ بھی ہیں‘‘
کلن نے کہا ’’دیکھو منڈی کے بکرے دھڑا دھڑ بک رہےہیں لیکن تمہارا کوئی گاہک ہی نہیں آتا ، اس پر تم کیا کہتے ہو؟‘‘
’’میں تو وہی کہتا ہوں جو غالب کہہ گئے : جیتے ہیں آرزو میں مرنے کی گاہک آتا ہے پر نہیں آتا‘‘
کلن نے کہا ’’یار تم تو شعر کا قیمہ بنا دیتے ہو‘‘
اس بیچ کلن نے دیکھا کہ مگن ایک گاہک کے ساتھ ان کی طرف آرہا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا ’’دیکھو بھیا تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس کی قیمت میں ایک روپیہ بھی کم نہیں کروں گا‘‘
گاہک بولا ’’ٹھیک ہے، لیکن بھاو تو بتاو؟
مگن نے کہا ’’ایک کروڑ روپیہ‘‘
یہ سن کر کلن کے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔ اب وہ گاہک کے جواب کا منتظر تھا۔
گاہک نے جواب دیا ’’مجھے پتہ تھا’’ اس نے اپنے ساتھی کی جانب اشارہ کرکے کہا ’’سریش اس کو بیگ تھما دو‘‘
مگن ہنس کر بولا ’’بھائی دو ہزار کے نوٹ تو نہیں ہیں ۔ ورنہ میں کہاں بنک کے چکر کاٹوں گا؟‘‘
سریش بولا ’’نہیں، سب پانچ سو کے کڑک نوٹ ہیں ۔ گن کر اطمینان کرلو‘‘
مگن نے بیگ کھول کر دیکھاتو اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ ایک کروڑ ہیں ۔ وہ بکرے کی رسی گاہک کو تھما کر بولا ’’مبارک ہو میں تو چلا جھمری تلیاّ‘‘
کلن کے لیے یہ سب حیرت انگیز تھا ۔ سریش بکرے کی رسی کو تھام کر چل دیا ۔ کلن بھی اس کے ساتھ ہولیا اور گاہک سے بولا ’’السلام علیکم‘‘
گاہک بولا: وعلیکم ۔ کیوں تم چارہ وارہ بیچتے ہو؟
کلن بولا ’’نہیں میں کلن قصائی ہوں ۔ تمہارا کا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام درویش شاہ ہے لیکن ہمارے پاس قصائیوں کی ایک بڑی فوج ہے اس لیے تمہاری ضرورت نہیں‘‘
’’قصائیوں کی فوج ؟ میں نے تو کبھی نہیں سنا‘‘
’’ارے بھیا تم نے بجرنگ دل کا نام نہیں سنا ؟ وہ بکرے تو دور انسانوں کو بھی نہیں چھوڑتے‘‘
کلن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ قربانی کے بکرے اور بجرنگ دل کا کیا تعلق ہے، اس نے پوچھا ’’درویش سیٹھ! تمہارا کاروبار کیا ہے؟‘‘
درویش شاہ بولا ’’میں کوئی کاروبار نہیں کرتا ۔ میں تو سیوک ہوں راشٹر(قوم) کی سیوا کرتا ہوں‘‘
کلن بولا ’’لیکن ایک سو چالیس کروڑ لوگوں کی سیوا آپ کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘
’’ارے بھائی میں پورے راشٹر کی نہیں بلکہ راشٹر کے ایک بڑے آدمی اندریش کمار کی سیوا کرتا ہوں‘‘
اچھا لیکن تمہارے پاس بکرے کے لیے ایک کروڑ روپے کہاں سے آگئے؟
’’یار یہ بھی کوئی سوال ہے۔ مجھے یہ رقم میرے مالک اندریش کمار نے دی ہے‘‘
’’اور ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آگئی؟‘‘
’’ارے بھیا میرے مالک کو ان کے مالک بھاگوت نے دی ہوگی‘‘
’’اور بھاگوت کے پاس اتنے پیسے کیسے آگئے؟‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ یہ رقم گوتم اڈانی کے خزانے سے آئی ہوگی‘‘
کلن کو لگا کہ اس بکرے کی ڈور بہت لمبی ہوگئی ہے۔ اس نے پوچھا ’’لیکن ایک بکرے پر گوتم اڈانی اتنی بڑی رقم کیونکر خرچ کرسکتا ہے؟‘‘
’’ارے بھائی پردھان جی کہیں تو وہ اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہے تم کیا سمجھتے ہو؟‘‘
کلن نے پھر سوال کردیا ’’لیکن پردھان جی یہ کیوں کہیں گے۔ اس بکرے سے ان کو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
درویش نے کہا ’’اس سوال پر میں نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ بکرا بولتا ہے اور سچ سچ بولتا ہے‘‘
کلن بولا ’’سمجھ گیا اور مرنے سے بھی نہیں ڈرتا اسی لیے پردھان جی کو اس سے ڈر لگتا ہے‘‘
درویش بولا ’’جی ہاں کلن یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو ذبح کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘‘
کلن نے پوچھا ’’لیکن کیا وہ اس طرح سچ کی آواز دبانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟‘‘
درویش شاہ نے کہا ’’نہیں۔ اس کے ہر قطرے سے ایک حق گو پیدا ہوگا اور سچ کا بول بالا کرے گا‘‘
بکرا ان دونوں کی بات چیت سن رہا تھا وہ بولا ’’گستاخی معاف اگر اجازت ہو تو اس بات پر ایک شعر عرض کروں؟‘‘
درویش شاہ نے کہا ’’برا ماننے کی بات ضرور سناو، میں وہ امانت تمہاری یادگار کے طور پر اپنے آقا اندریش کمارتک پہنچا دوں گا‘‘
بکرا بولا : اچھا تو شعر سنیں: آئینِ جواں مرداں، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023