
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
کسانوں کے بیج، زمین اور دودھ پر کارپوریٹ قبضے کی تیاری؟
دیہی معیشت پر عالمی منڈی کا حملہ، بھارت کے لیے انتباہی گھنٹی!
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے بھارت کی تجارتی پالیسیوں پر کی گئی تنقید نے ایک بار پھر اس نازک سوال کو عوامی بحث کا موضوع بنا دیا ہے کہ آیا یہ عالمی طاقتوں سے آزاد تجارتی معاہدے بھارت جیسے زرعی معیشت پر انحصار کرنے والے ملک کے لیے واقعی مفید ہے یا یہ معاہدے کروڑوں چھوٹے کسانوں، دیہی مزدوروں اور زرعی ثقافت کو کسی عالمی منڈی کی قربان گاہ پر چڑھانے کی تیاری ہے؟ مارکو روبیو نے کھلے لفظوں میں کہا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی زرعی اور ڈیری پالیسی ہے جو مزاحمت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، گویا کسانوں کا اپنے حقوق کا دفاع کرنا اب ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ بھارت کی معیشت ایک طویل عرصے تک زراعت پر منحصر رہی ہے۔ آج بھی ملک کی تقریباً 60 فیصد آبادی کسی نہ کسی حیثیت میں زراعت سے وابستہ ہے۔ چھوٹے اور متوسط درجے کے کسان جو دو ایکڑ سے بھی کم زمین پر کاشت کرتے ہیں، بھارت کی زرعی پیداوار کا ایک بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔ حکومت کی سبسیڈی یافتہ اسکیمیں، ایم ایس پی یعنی (کم از کم امدادی قیمت) اور ایمپورٹ کی پابندیاں کسانوں کے تحفظ کے بنیادی ستون ہیں۔
مارکو روبیو نے جس بے باکی سے بھارت سے جی ایم سیڈس، ڈیری، مکئی، سویابین، بادام، سیب اور ایتھنول جیسی امریکی مصنوعات کے لیے مارکیٹ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے وہ دراصل بھارت کی زرعی خود مختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔ امریکی کمپنیاں بھارت میں سستی، سبسیڈی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے بھرپور مصنوعات بیچنا چاہتی ہیں۔ ان کی آمد کا مطلب یہ ہوگا کہ مقامی کسانوں کی روایتی فصلیں جو محدود وسائل پر منحصر ہوتی ہیں عالمی مسابقت میں پیچھے رہ جائیں گی۔ نتیجتاً کسان معاشی دباؤ، قرض اور بالآخر دیہی معیشت کی بربادی کا شکار ہو جائیں گے۔
تو آئیے! جی ایم فصلوں اور ان کی تباہ کاریوں کے بارے جانتے ہیں
امریکی دباؤ کے تحت بھارت میں جی یم یعنی جینٹکلی موڈیفائیڈ فصلوں کی اجازت دینا کسانوں کو بیجوں کو حاصل کرنے کے لیے کارپوریٹ کمپنیوں کا غلام بنانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ جی ایم فصلوں کے ساتھ انہیں کیمیکل فرٹیلائزر اور مخصوص کیڑے مار ادویات کا استعمال کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے جس کا اثر مٹی، پانی اور انسانی صحت پر لازماً مرتب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اسے جدید زراعت کا ماڈل بنا کر پیش کر رہا ہے۔
ڈیری سیکٹر: ریڈ ملک کی دراندازی
بھارت کا دیہی ڈیری سیکٹر دنیا میں سب سے زیادہ متحرک اور روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے۔ لاکھوں گھرانے چند گایوں یا بھینسوں کے دودھ سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ دودھ مقامی بازاروں میں فروخت ہوتا ہے اور غذائیت کے اعتبار سے بھی مقامی آبادی کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ لیکن امریکہ کی ڈیری لابی بھارت میں ریڈ ملک جیسی مصنوعات متعارف کروانا چاہتی ہے۔ ریڈ ملک سے مراد وہ پروسیسڈ دودھ ہے جس میں مصنوعی اجزاء، فلیورز، پروٹین ایڈیٹیو یعنی گایوں بھینسوں کو مختلف جانوروں کا گوشت ملا ہوا چارہ کھلایا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ دودھ دیں اور اس کے ساتھ دودھ میں بعض اوقات غذائی رنگ شامل کیے جاتے ہیں تاکہ وہ صحت مند اور ‘ہیلتھی’ دکھائی دے۔ لیکن درحقیقت، یہ مصنوعی دودھ صحت کے لیے مفید کم اور مضر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دودھ ذائقے اور اشتہاری مہم کے ذریعے صارفین کو لبھاتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں:
دیہی دودھ فروشوں کا روزگار خطرے میں آ جاتا ہے۔
مصنوعی دودھ کی سستے داموں فراہمی مقامی مارکیٹ کا توازن بگاڑ دیتی ہے۔
عوام کی صحت پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اور پھر یہ نام ویج دودھ ہوتا ہے۔
سبسڈی اور درآمدی تحفظ پر امریکی تنقید
امریکہ کی شکایت ہے کہ بھارت اپنے کسانوں کو سبسیڈی دیتا ہے جو مارکیٹ ڈسٹورشن کا سبب بنتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں سبسیڈی کا دائرہ بھارت سے کہیں زیادہ وسیع ہے، مگر چونکہ وہ اسے ’’تکنیکی مدد‘‘ یا ’’مارکیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کے نام سے پیش کرتے ہیں اس لیے عالمی ادارے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اگر بھارت عالمی دباؤ میں آ کر اپنی سبسڈی پالیسیاں واپس لے لے تو کسانوں کی لاگت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو وہ زراعت چھوڑ دیں یا خود کشی کے دہانے پر پہنچ جائیں۔ سستی اور سبسیڈی یافتہ امریکی مصنوعات کی اجازت دینا دراصل بھارت کے لاکھوں چھوٹے کسانوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ اس وقت بھارت میں کسانوں کی اوسط آمدنی ماہانہ 8 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ اگر ان کی پیداوار کی مانگ کم ہو جائے تو وہ مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔
2020-21کے کسان آندولن نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ بھارتی کسان اپنی زمین، بیج، پانی اور پیداوار پر کسی کارپوریٹ کنٹرول کو قبول نہیں کرے گا۔ جس طرح تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیا گیا، ویسا ہی ردعمل ایسے کسی آزاد تجارتی معاہدے کے خلاف بھی آ سکتا ہے۔
نئی دہلی نے ابھی تک زراعت اور ڈیری شعبے کو امریکی مطالبات سے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مزاحمت کب تک جاری رہ سکے گی؟ امریکہ جیسے طاقتور اتحادی کے ساتھ شراکت داری کے دباؤ میں کہیں یہ تحفظاتی پالیسی تبدیل نہ ہو جائے۔
حل اور راہِ عمل
زرعی خود مختاری کا تحفظ: بھارت کو اپنی کسان پالیسیوں کو قومی مفاد سے مشروط رکھنا ہوگا، نہ کہ بین الاقوامی تجارتی دباؤ سے؟
جی ایم اور Red Milk پر کنٹرول: جی ایم فصلوں اور مصنوعی ڈیری مصنوعات پر سخت ریگولیشن، لیبلنگ اور ممانعت ہونی چاہیے۔
سبسیڈی کو دستوری تحفظ: زرعی سبسڈی کو محض بجٹ کا معاملہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے دیہی انصاف کا حصہ بنایا جائے۔
ڈیری کسانوں کو منڈی کی طاقت فراہم کرنا: کوآپریٹو ڈیری ماڈل جیسے ’’مندی یا امول‘‘ کو مزید وسعت دے کر چھوٹے کسانوں کو مارکیٹ میں مضبوطی دی جائے۔
عوامی شعور بیداری: صارفین کو ‘Red Milk’ اور جی ایم مصنوعات کے صحت و ماحولیاتی نقصانات سے باخبر کیا جائے۔
امریکہ کے ساتھ مجوزہ تجارتی معاہدہ صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک نکتہ آغاز ہے جہاں بھارت کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے آگے جھکنا چاہتا ہے یا اپنی خود مختار، جان دار اور مقامی زراعت کا دفاع کرے گا۔ اگر حکومت نے کسانوں کی آواز نہ سنی تو نہ صرف دیہی معیشت تباہ ہو گی بلکہ خوراک، بیج، دودھ اور زمین کا مستقبل بھی مغربی کمپنیوں کے رحم و کرم پر آ جائے گا۔ زرعی شعبے کی یہ قربانی کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
آخر میں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بھارت کے زرعی شعبے پر دباؤ ڈال کر امریکہ نہ صرف اپنا تجارتی فائدہ چاہتا ہے بلکہ ایک بڑی حکمتِ عملی کے تحت ترقی پذیر ممالک کی خود مختاری کو بھی محدود کرنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت نے عالمی دباؤ کے آگے سر جھکا دیا تو صرف کسان ہی نہیں بلکہ پورا ملک اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ حکومت، دانش ور، عوام اور میڈیا — سب مل کر اس دباؤ کو بے نقاب کریں اور بھارتی کسانوں کے حق میں آواز بلند کریں۔ کیونکہ اگر کسان ہار گئے تو بھارت بھی ہار جائے گا۔
***
بھارت کے زرعی شعبے پر دباؤ ڈال کر امریکہ نہ صرف اپنا تجارتی فائدہ چاہتا ہے بلکہ ایک بڑی حکمتِ عملی کے تحت ترقی پذیر ممالک کی خود مختاری کو بھی محدود کرنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت نے عالمی دباؤ کے آگے سر جھکا دیا تو صرف کسان ہی نہیں بلکہ پورا ملک اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ حکومت، دانش ور، عوام اور میڈیا سب مل کر اس دباؤ کو بے نقاب کریں اور بھارتی کسانوں کے حق میں آواز بلند کریں۔ کیونکہ اگر کسان ہار گئے تو بھارت بھی ہار جائے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025