ذرا غور کریں ۔۔!
رمضان المبارک ہر سال آتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا رمضان آتا ہے اور صدیوں سے آرہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قرآن ختم ہوتا ہے اور ان گنت تعداد میں ہوتا ہے۔ ہر رمضان میں تلاوت قرآن ہوتی ہے ، روزے رکھے جاتے ہیں، نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ ذکر اور دعا میں راتیں بسر ہوتی ہیں۔ لیکن ہم وہیں کے وہیں رہتے ہیں جہاں رمضان شروع ہونے سے پہلے تھے۔ تقویٰ سے اتنے ہی محروم رہتے ہیں جتنے رمضان کے بغیر تھے۔ نہ ہماری شخصی حالت میں تبدیلی ہوتی ہے نہ ہمارے انفرادی اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے، نہ ہماری قومی و ملی حالت میں تغیر واقع ہوتا ہے، نہ ہمارے اوپر سے ذلت و مسکنت اور غلامی و پستی کے بادل چھٹتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟
اول تو اس لیے کہ سوچ سمجھ کر اہتمام اور کوشش کے بغیر ہم رمضان سے وہ خیر کثیر حاصل نہیں کرسکتے جس کے خزانے لٹاتے ہوئے وہ ہر سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس شعوری کوشش اور اہتمام سے ہم محروم ہیں یا اس کی طرف سے لاپروا ہیں۔
اس سے زیادہ یہ کہ ہماری حالت اس حالت سے زیادہ قریب ہے ، جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے یوں متنبہ فرمایا ہے کہ جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے (بخاری: ابوہریرہؓ) اللہ کو اپنا رب کہنا محمدﷺ کو اس کا رسول ماننا، قرآن کو اللہ کی کتاب تسلیم کرنا، پھر نہ یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ یہ سب ہم سے کیا کہتے ہیں، نہ اس پر عمل کرنا، آخر یہ سب جھوٹ اور جھوٹ پر عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ منافق رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور کہتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ الہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات تو سچی کرتے ہیں، لیکن ہیں جھوٹے۔ گویا زبان سے سچی بات کہنے کے باوجود انسان جھوٹا ہوسکتا ہے، اگر وہ اس سچی بات کے تقاضے نہ مانے اور ان کے مطابق عمل نہ کرے۔
دوسرے اس لیے کہ ہماری عبادات کا، ہماری نمازوں کا ، ہمارے روزوں کا، ہمارے اعمال کا اور ہماری سرگرمیوں کا رشتہ اس اس مقصد سے کٹ چکا ہے، جو قرآن لے کر آیا تھا اور جس کے لیے رمضان کے روزے فرض کئے گئے تھے۔ سب کچھ اسی لیے تھا کہ ہم قرآن کو خدا کےبندوں تک پہنچائیں، اس کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالیں اور اپنے معاشرہ کو بھی ڈھالیں، قرآن کو قائم کریں اور اس راہ میں صبر و استقامت سے جدوجہد کریں اور قربانیاں دیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر بار پھر یہ پکارتا ہوا آتا ہے کہ آو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تم سے کیا کہا ہے۔ آو اور ہر اس چیز کو ترک کردو،خواہ وہ تمہیں کتنی ہی مرغوب و محبوب ہو، جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں روکا ہے۔
ورنہ ہوسکتا ہے اور اس سےبڑی بد قسمتی تمہاری اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان تمہارے لیے آئے ، تم روزے بھی رکھو لیکن بھوک پیاس اور رت جگے کے سوائے کچھ تمہارے ہاتھ نہ آئے۔ بلکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اوپر وہ مثال صادق آجائے، جو اللہ تعالیٰ نے حاملین تورات کے بارے میں بیان فرمائی ہے:
’’جن لوگوں پر تورات کی امانت کا بار رکھا گیا، پھر انہوں نے اس امانت کونبھانے کا حق نہ ادا کیا، ان کی مثال ان گدھوں کی طرح ہے جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہوں‘‘۔(الجمعہ:۵)
یا کہیں اللہ کے رسول ﷺ رمضان اور قرآن کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہمارے خلاف دعویٰ لے کر کھڑے نہ ہوجائیں:’’اور رسول کہے گا، اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو متروک و مہجور کر چھورا تھا‘‘۔(الفرقان:۳۰)۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک میں وہ تقویٰ حاصل کرنےکی توفیق عطا فرمائے، جس سے ہم قرآن مجید کی ہدایت کے مستحق ہوں، ہم قرآن کا علم حاصل کریں، اس پر عمل کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کا پیغام لے کر کھڑا ہونے اور اس کو قائم کرنے کے لیے جہاد کرنے کی ہمت حوصلہ، عزم اور شوق و ولولہ عطا فرمائے۔ آمین!
(ماخوذ رمضان کیسے گزاریں،مولف خرم مرادؒ)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023