ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (این بی ڈی ایس اے) ایک سرکاری ادارہ ہے۔ یہ اسی حکومت کے تحت کام کرتا ہے جس کی گود میں موجودہ میڈیا ایک شریر بچے کی مانند اچھلتا کودتا رہتا ہے۔ یعنی دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک حقیقی بیٹا ہے اور دوسرا پیدا تو کسی اور کے بطن سے ہوا مگر حکومت نے گوں ناگوں ضرورت کے سبب اسے گود لے لیا۔ بچوں کو اکثر والدین کا لاڈ پیار بگاڑ دیتا ہے لیکن جب وہ حد سے گزر نے لگتے ہیں تو ان کی سرزنش واجب ہو جاتی ہے۔ امبانی کے نجی چینل ’نیوز18 انڈیا‘ نے کرناٹک میں حجاب کے معاملے میں ٹی وی بحث کو اس قدر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا کہ مجبوراً این بی ڈی ایس اے کو ایک سخت قدم اٹھاتے ہوئے امن چوپڑا پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ مذکورہ ادارے نے چینل کو 6؍ اپریل 2022 کے مباحثے کی ویڈیو اپنی ویب سائٹ اور تمام پلیٹ فارمز سے ہٹانے کی بھی ہدایت کی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ این بی ڈی ایس اے کے صدر جسٹس اے کے سیکری (ریٹائرڈ) نے حجاب کی حمایت کرنے والے پینلسٹ کو ’ظواہری گینگ کا ممبر‘ قرار دینے اور ’ظواہری تمہارا خدا ہے‘ کہنے پر شدید اعتراض کیا۔ انہوں نے چینل کی اس وضاحت کو مسترد کر دیا کہ ان الفاظ کا استعمال حجاب کی حمایت میں احتجاج کرنے والی طالبات کے لیے نہیں بلکہ تنازع کے پیچھے کار فرما ’غیر مرئی قوتوں‘ کے لیے تھا۔
قومی ٹیلی ویژن چینل پر ہر دن پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی کے خلاف پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ منافرت میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے؟ ٹی وی اینکرز پر بڑی ذمہ داری ہے مگر وہ مہمان کو بھی وقت نہیں دیتے، ایسے ماحول میں مرکز کی خاموشی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ریگولیٹر سسٹم ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس دگرگوں صورتحال کے لیے موصوف نے سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ٹی وی چینلز پر ان کا آلہ کار بن جانے کا الزام لگایا تھا۔ ان کے مطابق سیاست داں اس نفرت انگیزی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جمہوریت کے ستونوں کو آزاد ہونا چاہیے۔ جسٹس جوزف نے خبردار کیا کہ اینکرز اگر غلطی کریں گے تو انہیں اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ہر کوئی اس جمہوریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ امن چوپڑا پر کی جانے والی کارروائی اسی ہدایت کے تحت ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اس پستی کے لیے صرف حکومت ذمہ دار نہیں ہے۔ لال کرشن اڈوانی نے ایمرجنسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا کو جھکنے کے لیے کہا گیا تو وہ سجدہ ریز ہو گیا۔ وہ غالباً خوف و ہراس تھا مگر فی الحال حرص و ہوس نے ٹی وی اینکرس کو اربابِ اقتدار کے تلوے چاٹنے والا پالتو جانور بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا میں تقریباً 90 فیصد قیادت کے عہدوں پر اعلیٰ ذات کے لوگوں کا قبضہ ہے، ایک بھی دلت یا آدیواسی بھارتی مین اسٹریم میڈیا کی قیادت نہیں ہے تو اس کے کیا معنیٰ ہیں؟ کیا یہ نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی خاطر فخر کا مقام ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کے بجائے حکومت کے آگے دُم ہلا رہے ہیں؟ کیا کسی طبقہ کے لیے کوئی مقام حاصل کرلینا ہی کافی ہے یا اس پر رہتے ہوئے ذمہ داریوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے؟ وہ اگر اس میں ناکام ہو جائے تو یہ اس کی نیک نامی کا سبب ہے یا بدنامی کا باعث ہے؟ غالب نے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’ڈبویا مجھ کو ہونے نے مرے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘۔ ان لوگوں نے تو میڈیا کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ یہ ابن الوقت راج درباری اگر میڈیا میں نہیں ہوتے تو اس قدر فتنہ فساد نہیں ہوتا۔
معروف عالمی ادارہ آکسفیم انڈیا نے نیوز لانڈری نامی چینل کی مدد سے تقریباً 43 بھارتی پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ ترتیب دی جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا میں تقریباً 90 فیصد لیڈر شپ کے عہدوں پر اعلیٰ ذات کے لوگوں کا قبضہ ہے۔ خبر، مضامین اور دیگر مواد کے لکھنے والوں میں بھی ایسا ہی عدم توازن ہے۔ 121 نیوز روم میں ایڈیٹر انچیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکٹو ایڈیٹر، بیورو چیف اسی مخصوص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اخبارات، ٹی وی نیوز چینلز، نیوز ویب سائٹس اور میگزینز میں ان پٹ، آؤٹ پٹ ایڈیٹرس میں سے 106 کی قیادت کے عہدوں پر اعلیٰ ذاتوں کے لوگ فائز ہیں، جبکہ پانچ اوبی سی کے پاس ہیں۔ دیگر 6 پسماندہ طبقات اور اقلیتی برادریوں کے پاس ہیں۔ ہر چار اینکرز میں سے تین اعلیٰ ذات سے ہیں۔ اس لیے جو تعفن پھیل رہا ہے اس کے لیے کوئی دلت، آدیواسی یا او بی سی ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ توموجود ہی نہیں ہے۔ مباحثوں کا معیار اس لیے گر گیا ہے کیونکہ پرائم ٹائم ڈیبیٹ شوز کے 70 فیصد سے زیادہ پینلسٹ کے لیے، نیوز چینلز اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بلاتے ہیں۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں میڈیا پر ان طبقات کا چھا جانا فخر کی نہیں شرم کی بات ہے۔
امسال مئی میں عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی شائع کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2022 میں ان لوگوں کی بدولت بھارت 8 درجہ گرکر 150 پر پہنچ گیا۔ صحافت کے نگراں کار ادارے کی تحقیق میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں میڈیا کے اندر تفریق و امتیاز کا انکشاف ہوا۔ مذکورہ ادارے کے امریکی ڈپٹی ڈائریکٹر کلیٹن وائمرز نے تسلیم کیا کہ دنیا بھر میں جانب دارانہ خبروں کے عروج کی وجہ سے مصدقہ صحافت کا نقصان ہوا ہے۔ میڈیا میں تفریق اور معلومات کی افراتفری سے سماجی سطح پر نیا تفرقہ پیدا ہو رہا ہے۔ میڈیا کے معاملے میں دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ بہادر کی حالت بھی مثالی نہیں ہے۔ امریکہ کو میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے 42واں درجہ دیا گیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق امریکی ابتری کی وجوہات میں مقامی اخبارات کا خاتمہ، میڈیا میں تفریق، ڈجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف عداوت اور جارحانہ رویوں کا پروان چڑھنا اہم ہیں۔ اس سے صحافت کو نقصان پہنچا ہے۔ موصوف کے مطابق کچھ ممالک میں میڈیا اداروں کو حکومت کی جانب سے فنڈنگ دی جاتی ہے جبکہ ان کے ادارہ جاتی آپریشن میں مداخلت نہیں کی جاتی تاکہ یہ ادارے سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد رہیں۔ بھارت کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔
ذرائع ابلاغ کو اپنے قابو میں رکھنے کی خاطر حکومت ’چارہ اور چابک‘ کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ چارے کی بات کریں تو امسال جولائی میں وزیر اطلاعات و نشریات نے ایوان پارلیمان میں بتایا کہ 2019 کے بعد سے مودی حکومت اشتہار بازی پر 900 کروڑ روپیہ خرچ کرچکی ہے۔ اتر پردیش کی حکومت نے اس سال کے لیے 410.08 کروڑ کا بجٹ مختص کیا ہے اس میں مزید سو کروڑ کے اضافے کی گنجائش ہے۔ ایسا سبھی ریاستی حکومتیں کرتی ہیں۔ یہ عوامی ٹیکس کا پیسہ ہے جو ان کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ پارٹی کی تجوری سے جو کالا اور سفید دھن بانٹا جاتا ہے اس کا حساب کتاب رکھنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں بے ضمیر صحافیوں کی خاطر اپنے ایمان کو بچانا ایک بہت بڑی آزمائش ہے اور اس میں اچھے اچھے ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس جال میں گرفتار ہونے سے بچ جانے والوں پر سرکاری عتاب نازل ہوتا ہے۔ دہلی کا معروف ادارہ ’دی وائر‘ فی الحال سرکاری غیض وغضب کا شکار ہے۔ اس سے قبل کیرالا کا میڈیا ون، این ڈی ٹی وی، نیوز کلک اور دیگر کئی چینلس کو پریشان کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بلا واسطہ طور پر شمس تبریز قاسمی کے ملت ٹائمز اور عباس حفیظ کے لائیو ٹی وی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
حکومت کی اس دوہری چال کا شکار ہونے والے صحافیوں نے مال و دولت تو خوب کمائی مگر عزت و تکریم سے محروم ہوگئے۔ اس کے برعکس عزت انہیں کو ملی جنہوں نے سرکاری مراعات کو ٹھکرایا اور خوف وخطر کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذمہ داری ادا کی۔ ان میں جہاں رویش کمار کا نام سرِ فہرست ہے وہیں رعنا ایوب بھی ان کے پیچھے ہیں۔ سدھارتھ ورداراجن کے شانہ بشانہ عارفہ خانم شیروانی بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔ ابھیسار شرما کے ساتھ عبدالسلام پتیگی بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس میدان میں ایک طرف پرتیک سنہا اپنی موجودگی درج کراتے ہیں تو ان کے دو قدم آگے محمد زبیر نظر آتے ہیں۔ ثنا ارشاد مٹو اور دانش صدیقی کو مشکل ترین حالات میں بہترین صحافتی فوٹو گرافی کے لیے عالمی سطح پر جو پزیرائی ملتی ہے اس کا تو تصور بھی ’گودی میڈیا‘ کا کوئی صحافی نہیں کر سکتا۔ سدھیر چودھری، دیپک چورسیا، انجنا اوم کشیپ، ارنب گوسوامی اور امن چوپڑا جیسے لوگوں کی حیثیت صحافی کی نہیں بلکہ نوٹنکی باز بھانڈوں کی سی ہو کر رہ گئی ہے اور کوئی انہیں پوچھ کر نہیں دیتا۔
باضمیر اور دلیر صحافیوں پر جاری و ساری حکومت کی زیادتی کا ایک نمونہ گزشتہ ماہ اس وقت پھر سامنے آگیا جب کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو امیگریشن حکام نے کوئی وجہ بتائے بغیر دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا۔ وہ نیرو مودی یا وجے مالیا کی مانند ملک کو لوٹ کر فرار نہیں ہو رہی تھیں بلکہ قوم کا نام روشن کرنے کی خاطر گراں قدر پلٹزر انعام لینے کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔ اس روکے جانے پر ثنا نے بتایا تھا کہ ان کے پاس امریکہ کا باضابطہ ویزا اور سفری ٹکٹ بھی موجود تھا، اس کے باوجود جانے اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح کے تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کا موقع زندگی میں کبھی کبھار ہی ملتا ہے اور اس سے بھی مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ رچانے والی حکومت نے روک کر اپنی اسلام دشمنی کو بے نقاب کر دیا۔ پچھلے ایک برس کے اندر دوسری مرتبہ انہیں بیرون ملک جانے سے روکا گیا ہے۔ جولائی میں ایک کتاب کے اجراء اور تصویروں کی نمائش میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے بھی ان کو روک دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مودی حکومت نے یہ حماقت کر کے دنیا بھر میں اپنی مذمت کا سامان کیوں کیا؟
دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) کی جنرل سکریٹری سجاتا مدھوک کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ ’’یہ صرف پریس کی آزادی پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی بھارتی شہری کی آزادی پر حملہ ہے۔ آپ اپنے کسی شہری کو باہر جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟’’ انہوں نے مزید کہا ’’وہ (ثنا) ایک ایوارڈ یافتہ فوٹو گرافر ہیں، وہ انعام لینے جا رہی تھیں۔ انہیں بار بار روک کر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ صرف کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہی نہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ حکومت پہلے بھی ایسا کرتی رہی ہے” حکومت کے اس اقدام کی وجہ بتاتے ہوئے سجاتا مدھوک نے کہا کہ ’’اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کسی کشمیری صحافی کو باہر جانے سے روک کر کشمیر کے معاملات اور اصل حقائق کو دنیا سے چھپایا جا سکتا ہے تو یہ بالکل بے معنی فعل ہے۔ جب آپ کسی کو روکتے ہیں فوراً خبر بن جاتی ہے۔ آپ حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے‘‘ حکومت اپنے کرتوتوں سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ اس کی سمجھ میں اتنی آسان سی بات بھی نہیں آتی اور وہ حماقت پر حماقت یا بدنامی پر بدنامی کا سامان کرتی چلی جاتی ہے۔
پچھلے سال جولائی میں سری لنکا میں زبردست تاریخی سیاسی خلفشار رونما ہوا جس نے وہاں اقتدار پر قابض حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ اس غیر معمولی خبر کو کور کرنے کی خاطر ساری دنیا کے اخبارات نے اپنے نامہ نگار وہاں روانہ کیے۔ برطانیہ کے مشہور اخبار ’’گارجین‘‘ نے خبر رسانی کی خاطر کشمیری صحافی آکاش حسن کو سری لنکا بھیجنے کے لیے منتخب کیا لیکن حکومتِ ہند نے انہیں بھی دہلی ہوائی اڈے پر روک دیا۔ اس طرح کی حرکات سے حکومت کا پہلے تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ معمول پر آگیا ہے۔ وہاں کے باشندوں کو بھی وہی مراعات حاصل ہو گئی ہیں جن سے ملک کے دیگر حصے میں رہنے والے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ظاہر ہوئی ہے کہ حکومت سبھی کو نہ خرید سکتی ہے اور سب کو خوف زدہ کر دینا اس کے بس میں ہے بلکہ وہ خود ان سے ڈر کر اس طرح کے بزدلا اقدامات کرتی ہے۔
ثنا ارشاد مٹو سے قبل مسرت زہرا کو انٹرنیشنل وومین میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے عالمی تمغہ مل چکا ہے۔ ایک جرمن ادارہ سپاس نامہ کے ساتھ دو کروڑ کی رقم جانباز صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دیتا ہے۔ صحافت کے شعبے میں معتبر اور اعلیٰ ترین ایوارڈ سمجھے جانے والے ’پلٹزر پرائزز 2022‘ کا اعلان ہوا تو اس میں بھارت کے چار فوٹوگرافر شامل تھے، ان میں مرحوم دانش صدیقی کا نام دوسری مرتبہ شامل کیا گیا تھا جو گزشتہ برس جولائی میں افغانستان کے اندر جنگ کی کوریج کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ انہیں بھارت میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی دوران لی جانے والی تصاویر کے لیے پلٹزر ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے علاوہ رائٹرز کے فوٹوگرافرز میں عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امت دیو کے نام بھی شامل تھے۔ یہ کس قدر اعزاز کی بات ہے کہ جس اقلیت کی آبادی ملک میں صرف 15 فیصد ہے اس کی حصہ داری مؤقر ترین ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں 75 فیصد ہے۔ دن رات امت کو کوسنے اور عار دلانے والوں کو ان حقائق کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔
معروف صحافی اور مصنف رعنا ایوب کے خلاف ای ڈی نے حال ہی میں منی لانڈرنگ کے فرد جرم میں کئی سنگین الزامات لگائے ہیں جن کا انکار وہ پہلے ہی کرچکی ہیں۔ بی جے پی کے نزدیک رعنا ایوب کا سب اہم قصور مختلف مسائل پر بے باک رائے کا اظہار ہے۔ گجرات فسادات پر مبنی ان کی تحقیقاتی و دستاویزی تصنیف گجرات فائلز وزیر اعظم مودی کی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے کیونکہ اس مقبول کتاب کے دنیا بھر میں سال 2019 تک 6 لاکھ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے تھے۔ ایسا اعزاز بھلا ملک کے کس صحافی کو حاصل ہوا ہے؟ رعنا ایوب کے مضامین ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ سمیت کئی بین الاقوامی اور قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی حمایت میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک پورا صفحہ شائع کیا تھا۔ رعنا ایوب کو سال 2002 می موسٹ ریزیلئنٹ جرنلسٹ ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے اور وہ جراْت مندانہ صحافت کے لیے ’میک گیل میڈل‘ سے بھی نوازی جا چکی ہیں۔
مسلم پبلک افیئرز کونسل آف یو ایس اے نے 2020 میں رعنا ایوب کو وائس آف کریج اینڈ کانشئس (دلیری اور باضمیر) ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا جبکہ ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے ان 10 صحافیوں کی فہرست میں جگہ دی ہے، جن کی جان کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ سوشل میڈیا میں انہیں ریپ تک کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں اور ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اس ملک کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں بزدلوں کو نوازا جاتا ہے۔ کنگنا رناوت جیسے چاپلوسوں کو سرکاری سیکیورٹی دی جاتی ہے اور باصلاحیت افراد کی ناقدری ہوتی ہے۔ ایسے میں نامور لوگ کیسے پیدا ہوں گے؟ بھارتی صحافت کا ایک غیر معمولی واقعہ امسال محمد زبیر کا آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا کے ساتھ ٹائم میگزین کے ذریعہ 2022 کا امن کا نوبل انعام جیتنے کے دعویدار کے طور پر درج کیا جانا تھا۔ وہ تو خیر انعام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ورنہ بعید نہیں کہ حکومت ہند انہیں بھی اس کو لینے کے لیے جانے سے روک کر اپنی زبردست بے عزتی کروالیتی۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں پائے جانے والے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ملت کے یہ ستارے روشن چراغ کی مانند ہیں اور ان پر نہ صرف امت بلکہ پوری قوم اور عالمی صحافتی برادری ناز کرتی ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
’پلٹزر پرائزز 2022‘ کا اعلان ہوا تو اس میں بھارت کے چار فوٹوگرافر بھی شامل تھے۔ ان میں مرحوم دانش صدیقی کا نام دوسری مرتبہ شامل کیا گیا تھا جو گزشتہ برس جولائی میں افغانستان کے اندر جنگ کی کوریج کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ انہیں بھارت میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی دوران لی جانے والی تصاویر کے لیے پلٹزر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ رائٹرز کے فوٹوگرافرز میں عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امت دیو کے نام بھی شامل تھے۔ یہ کس قدر اعزاز کی بات ہے کہ جس اقلیت کی آبادی ملک میں صرف 15 فیصد ہے اس کی حصہ داری مؤقر ترین ایوارڈیافتگان کی فہرست میں 75 فیصد ہے۔ دن رات امت کو کوسنے اور عار دلانے والوں کو ان حقائق کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022