زمین ،خلا اور مصنوعی سیارے سے ظلم و بربریت کی شہادت

یمنی حوثیوں کے بحیرہ احمر میں اقدامات اور عالمی طاقتوں کی بدحواسیاں

مسعود ابدالی

زندہ یرغمالیوں کے ساتھ جنگ بندی، یا متعدد اموات کے ساتھ جبری جنگ بندی-فیصلہ بی بی کے ہاتھ میں
مصنوعی ذہانت (AI) کے امریکی ادارے سینتھیٹیک (Synthetic) اور CNNنے مصنوعی سیارے سے حاصل کی جانیوالی تصاویر یا Satellite Images کے ذریعے غزہ پر اسرائیلی بمباری کا تجزیہ کیا ہے۔ سینتھیٹیک کا کہنا ہے کہ بمباری کے پہلے ماہ یعنی 7 اکتوبر سے 7 نومبر کے دوران غزہ پر 2000 پونڈ کے سینکڑوں بم گرائے گئے۔ امریکہ کے فراہم کردہ یہ خوفناک بم، مقام نزول پر 1000 فٹ کے علاقے کو مٹی کا ڈھیر بنادینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصنوعی سیاروں سے لی جانیوالی تصاویر پر 12 میٹر ٖچوڑے اور 3 میٹر گہرے 500 گڑھے نظرآرہے ہیں جو صرف ایک ماہ کی بمباری کا نتیجہ ہیں جبکہ موجودہ صورتحال میں آتش و آہن کی موسلادھار بارش کو تقریباً 80 دنوں سے زائد ہوچکے ہیں ۔ پہلے 30 دنوں میں اس پٹی کا 6 کلومیٹر علاقہ گہرے گڑھے میں تبدیل کردیا گیا۔ غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے جہاں اوسطاً ہر کلومیٹر رقبے پر 6507 نفوس آباد ہیں۔ گویا 39ہزار افراد زندہ درگور یا بے گھر ہوگئے۔ اس سے پہلے امریکہ یہ مہلک بم عراقی شہر موصل میں استعمال کرچکا ہے۔امریکہ نے 5400 ایسے بم اسرائیل کو فراہم کئے ہیں۔ سینتھیٹیک کے مطابق کچھ گڑھے 24 میٹر چوڑے ہیں۔ 27 اکتوبر کو زمینی حملے کے بعد سے بمباری میں شدت آچکی ہے اور اب اسرائیل بنکر شکن بم استعمال کررہا ہے جو کنکریٹ کو ریت کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔اسکے نتیجے میں غزہ کی 24 لاکھ آبادی کا 80 فیصد حصہ بے گھر ہوچکا ہے۔ لاکھوں ٹن بارود سے سطحِ زمین، آبنوشی و آبپاشی کےوسائل، زراعت و مویشی بانی اور زیر زمین پانی کے ذخائر پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کے تجزیے کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا۔
اسرائیلی وزیر اعظم انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ناگزیر یا Collateral نقصان قرار دے رہے ہیں ۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فضائی حملے کی مثال دی۔ یہ مشن جرمن خفیہ پولیس گسٹاپو کے مرکز کو تباہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن غلطی سے کوپن ہیگن میں ایک اسکول نشانہ بن گیا جس میں 86 بچے ہلاک ہو گئے۔ اُس وحشیانہ حملے کا دفاع میں بی بی بولے "یہ جنگی جرم نہیں تھا، نہ یہ ایسا کچھ تھا کہ جس کے لئے آپ برطانیہ کو مورد الزام ٹھیرائیں۔ یہ ایک ‘جائز’ جنگی عمل تھا جس کے نتائج کبھی کبھی المناک ہوجاتے ہیں’
کچھ ایسی ہی بےحسی کا اظہار امریکی صدر بائیڈن نے بھی کیا۔ جمعہ 22 دسمبر کو انھوں نے فون پر اسرائیلی وزیراعظم سے تفصیلی گفتگو کی جسکے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بی بی سے انتہائی احتیاط کی درخواست کی تاکہ غزہ میں شہری نقصان کم سے کم ہو اور پھر خود ہی پُر غرور لہجے میں بولے ’میں نے جنگ بندی کی بات نہیں کی‘۔ امریکہ نے اسی روئے کا مظاہرہ اقوام عالم کے سامنے بھی کیا جب پہلے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو انتہائی حقار ت سے ویٹو کردیا اور جب بعد میں یہی قرارداد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے منظور ہوگئی تودباو میں آکر چچا سام کاموقف کچھ نرم ہوا۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ اسرائیل میں اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے زبردست عوامی مہم تھی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ لنڈا ٹامس کرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ غزہ کو انسانی امداد کی بحالی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے قیام امن کی ایسی قرارداد کی حمایت کریگا جس کا متن ’قابل قبول، معتدل اور موثر‘ ہو۔ یقین دہانی کیساتھ نخرے بلکہ نخوت کا یہ عالم کہ
عشوہ بھی ہے شوخی بھی ، تبسم بھی حیابھی
متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی جانیوالی قرارداد کا لفظ جنگ بندی Ceasefire امریکہ کے لئے ناقابل قبول تھا چنانچہ انھیں منانے کے لیے کشیدگی کا خاتمہ (Cessation of hostilities) تجویز ہوا۔ اس پر بھی واشنگٹن راضی نہ ہوا اور ترمیم کرکے اسے کشیدگی میں معطلی(Suspension of hostilities) کردیا گیا۔ کشیدگی میں معطلی یعنی عارضی فائر بندی اہل غزہ کو قبول نہیں۔ قطر سے مستضعفین کے ترجمان نے صاف صاف کہدیا کہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کی 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپسی ضروری ہے۔ اس دوٹوک ردعمل پر ماہرین نے پھر سرجوڑ لئے اور روسی نمائندوں نے سمجھایا کہ اہل غزہ کو زمین پر برتری حاصل ہے، چچا اور انکے بچہ جمہورا کے نازولاڈ اٹھانے کا وقت گزرگیاکہ اب باگیں مستضعفین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہفتے بھر کے مزید بحث ومباحثےکے بعد سلامتی کونسل نے غزہ امن قرارداد منظور کرلی جسمیں فریقین کو مستقل بنیادوں پر کشیدگی ختم کرنے (Sustainable cessation of hostilities)کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرارداد میں غزہ کے لیے انسانی امداد بڑھانے اور امدادی سرگرمیاں موثر کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی یہ قرارداد 13صفر سے منظور ہوگئی۔ امریکہ اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کی متن سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تحریک ان موذیوں کا منہ بند کرنے کے لیے منظور ”کروائی” گئی ہے جو جنگی قیدیوں کی واپسی سے بی بی اور غزہ امن سے امریکہ کی عدم دلچسپی پر تنقید کررہے ہیں۔
تکبر کی بنا پر بی بی کا لہجہ اب تک نہیں بدلا لیکن بھاری جانی نقصان نے اسرائیلی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اہل غزہ دعویٰ کررہے تھے کہ اسرائیل کا مایہ ناز گولانی بریگیڈ کا ایک چوتھائی حصہ تباہ ہوچکا ہے۔ درجنوں افسران و سپاہی تابوت کی زینت اور سینکڑوں ٹینک، بکتر بندگاڑیاں اور بلڈوزر رزق خاک بن گئے۔ گزشتہ ہفتے الجزیرہ عربیہ نے انکشاف کیا کہ گولانی بریگیڈ کو غزہ سے واپسی کا حکم دیدیا گیاہے۔ 1948 میں قائم ہونے والا گولانی یونٹ اسرائیل کے پانچ پیدل (Infantry)بریگیڈ میں سے ایک اور انتہائی تربیت یافتہ لڑاکا یونٹ سمجھا جاتا ہے۔عین حالت جنگ میں بریگیڈ کی واپسی سے مستضعفین کے دعوے میں کچھ صداقت نظر آرہی ہے۔
جمعہ 22دسمبر کو اسرائیلی عسکری تجزیہ نگار Amos Harel کا روزنامہ الارض (Haaretz)کے عبرانی ایڈیشن میں مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات اور غزہ کی زمینی حقیقت کے درمیان خلا کو (خواہشات کے پُل سے) پاٹنا مشکل ہے‘ ۔ اسی دن الارض کے انگریزی ایڈیشن میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم احد المرٹ (Ehud Olmert)نے لکھا کہ ‘اگر اسرائیل غزہ سے 130 یرغمالیوں کو وطن واپس لانا چاہتا ہے تو اسے جنگی حکمت عملی کا رخ تبدیل کرنا ہوگا۔ مستضعفین کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بھلے انتہائی مطلوب ہٹ لسٹ میں شامل اسکے تمام رہنما ہلاک یا پکڑے جائیں۔(بی بی کے اقدامات سے) دہشت گردی کا خاتمہ تو نہیں ہو گا۔ ہاں (خدانخواستہ) مزید یرغمالی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ زندہ یرغمالیوں کے ساتھ جنگ بندی، یا مرنے والوں کے ساتھ جبری جنگ بندی‘
دوسری طرف یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر کو اسرائیل آنے اور جانے والے جہازوں کے لیے علاقہ ممنوعہ بنادیاہے۔ انکا کہنا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہونے تک وہ اسرائیلی جہازوں کو بحیرہ احمر سے نہیں گزرنے دینگے۔ جسکی وجہ سے اسرائیلی بندرگاہ ایلات ویران ہوگئی۔شمالی بحیرہ احمر میں خلیج عقبہ کے دہانے پر قائم یہ بندرگاہ بحر مردار (Dead Sea)سے پوٹاش اور دوسری قدرتی نمکیات کی برآمد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔رائٹرز کے نمائندے کو بندرگاہ کے سربراہ نے بتایا کہ سرگرمی میں 85 فیصد کی کمی ہوگئی ہے۔ بحیرہ مردار کو بحیرہ لوطؑ بھی کہتے ہیں۔
یہ صورتحال امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔ متکبر واشنگٹن کے لیے یہ تصور ہی شرمناک ہے کہ حوثی ملنگ بحیرہ احمر میں انکے لاڈلے کا ناطقہ بند کردیں۔ بحیرہ احمر پر بالادستی کو لاحق خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ نے اپنے 9اتحادیوں کے ساتھ ایک بحری ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا اور 19 دسمبر کو امریکی وزیرخارجہ نے مزید رعب جھاڑتے ہوئے کہا کہ اب ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 20 ہوگئی ہے۔ اس اتحاد کو نگہبانیِ خوشحالی مہم یا Operation Prosperity Guardianکا نام دیا گیا۔ یہ خبر سن کر حوثیوں نے ہانک لگائی کہ فی الحال تو ہمارا ہدف صرف اسرائیل کے بحری و تجارتی مفادات ہیں لیکن اگر ’گارڈین‘ کو اپنے بدتمیز چھوکرے کی پیٹھ ٹھونکنے پر اصرار ہے تو ہم انھیں بھی ٹھونکنے کو تیار ہیں۔ دھمکی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے انھوں نے بحرہند میں ہندوستانی ریاست گجرات کے ساحل پر ویراول بندرگاہ کے قریب آتشیں کیماوی مواد سے لدے لائیبیریا کے پرچم بردار ایک اسرائیلی جہاز کو نشانہ بناڈالا۔
اس دھمکی کے بعد نگہبانیِ خوشحالی مہم کے کچھ اہم ارکان نے احتیاط کے گھونگھٹ کاڑھنے شروع کردیئے ہیں۔فرانس نے مہم کے مقصد سے تو اتفاق کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اپنی باگیں چچا سام کے ہاتھو ں میں دینے کے بجائے فرانسیسی جہاز اپنے ملک کی بحری کمان کے تحت کام کریں گے۔ اٹلی نے ایک تباہ کن جہاز Virginio Fasan علاقے کی طرف روانہ کیا لیکن یہ بھی کہدیا کہ جہاز بحیرہ احمر میں اطالوی بحری مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہ نگہانی خوثحالی مہم کا حصہ نہیں۔ اسپین نے اعلان کیا کہ اسکے بحری دستے نیٹو اور یورپی یونین کے کمان میں رہیں گے۔نیدر لینڈ (ہالینڈ) نے مہم میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کرکے بحریہ کے 10 افسران بحرین بھیجنے کا اعلان کردیا۔ ڈنمارک نے بھی مہم میں حصہ لینے کے لیے اپنے ایک افسر کی خدمات پیش کردیں۔ معلوم نہیں امریکی اتحادیوں کے اس مسخرانہ طرز عمل کی وجہ واشنگٹن پر عدم اعتماد ہے یا حوثیوں کا خوف کہ بحر ہند کی طرح کہیں یہ اپنا دائرہ کار آبنائے جبل الطارق، بحر روم اور بحراوقیانوس تک نہ بڑھادیں۔
حکمرانوں کے بےحس روئیے کے برخلاف اسرائیل اور مغرب کے لیے عرب عوام کے جذبات بھی شدید ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ نے سعودی عرب کے بارے میں ایک جائزہ شایع کیا ہے جسکے مطابق 96 فیصد سعودیوں کا خیال ہے کہ عرب ممالک کو غزہ حملے پر بطور احتجاج اسرائیل سے تمام سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر رابطے منقطع کرلینے چاہئیں جبکہ 91 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ ’بربادی اور جانی نقصانات کے باوجود غزہ کی جنگ فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی فتح ہے‘
معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔ فلسطین کے مسیحی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ تباہی اور بچوں کی اموات کی بنا پر اس بار حضرت عیسیٰؑ کے مقام پیدائش بیت اللحم میں کرسمس کی تقریبات نہیں ہوئیں۔ بیت اللحم کے تاریخی Lutheran church کی مرکزی عبادت گاہ میں اہل غزہ سے یکجہتی کے لیے علامتی ملبہ بچھادیا گیا۔ گزشتہ دنوں غزہ کے تاریخی، ہولی فیملی گرجا گھر میں مسیحی عبادت گزار محترمہ ناہید خلیل اور انکی صاحبزادی ثمر کمال کو اسرائیلی نشانچیوں نے ہلاک کردیا۔اس واقعہ کو کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے دہشت گردی قراردیا۔
اسی طرح غزہ کے میڈیکل سپرانٹنڈینٹ ڈاکٹر منیرالبرش کو ایک عرصے سے اسرائیلی فوج دھمکی دے رہی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے مریضوں کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔جمعہ 22 دسمبر کو ڈاکٹر صاحب کے گھر پر بمباری سے انکی 13 سالہ حافظہ بیٹی جنان، جنت روانہ ہوگئیں اور منیرالبرش شدید زخمی ہیں۔ دوسرے 8000 بچوں کی طرح اس معصوم حافظہ سے بھی یہ سوال یقیناً ہوگا کہ تُو کس جرم میں میں ماری گئی؟ معلوم نہیں اس روز یہ معصوم اپنے خونِ ناحق کا خراج کس سے طلب کرینگے؟؟ اللہ نہ کرے انکی ننھی انگلیاں خون بہا کے لیے سواارب مسلمانوں کی طرف اٹھ جائیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024