زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

جماعتِ اسلامی سری لنکا کے سابق امیر، مرحوم شیخ ابراہیم حسن لبی- ایک ہمہ گیر شخصیت

محمد عبداللہ

یہ سال 1971 کا ایک دن تھاجب شیخ ابراہیم کے امتحانات کے نتائج یونیورسٹی آف پیراڈینیا سے جاری کیے گئے ۔ اس سے پہلے کہ انہیں نتائج کا علم ہوتا یونیورسٹی کے شرقی زبانوں کے شعبہ کے سربراہ، پروفیسر ڈبلیو ایس کرونارتنے، اپنی گاڑی میں تیس کلومیٹر کا سفر طے کرکے اویانوتا میں اپنے شاگرد ابراہیم سے ملنے آئے۔ اس بڑے آدمی کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ پروفیسر صاحب نے انہیں مبارکباد دی اور ان سے مصافحہ کرتے ہوئے بتایا کہ آج یونیورسٹی نے ان کے نتائج جاری کر دیے ہیں اور انہوں نے امتحانات میں نو مضامین میں فرسٹ کلاس آنرز حاصل کرکے پروفیسر کا بیس سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ پروفیسر صاحب صرف انہیں اس کامیابی پر مبارکباد دینے آئے تھے۔ یہ شیخ ابراہیم کی قابلیتوں کی فقط ایک جھلک ہے۔
سری لنکا میں جماعت اسلامی کے سابق امیر، شیخ ابراہیم، 30 مارچ 2024 کو کولمبو میں 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ سری لنکا کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ 1937 میں اویانوتا میں پیدا ہونے والے شیخ ابراہیم نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ 1947 میں انہوں نے مہراگاما غفوریہ عربی کالج میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے نو سال تک تعلیم حاصل کی اور بعد میں وہاں لیکچرار بن گئے۔ غفوریہ عربی کالج میں تعلیم کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سری لنکا سے منسلک ہوگئےتھے۔انہوں نے وزارتِ تعلیم کے تحت تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1963 میں انہیں ٹیچرز ٹریننگ کالج میں داخلہ ملا اور 1965 سے انہوں نے تربیت یافتہ استاد کے طور پر اپنی خدمات جاری رکھیں۔ 1967 میں انہوں نے یونیورسٹی آف پیراڈینیا میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے پاکستانی نژاد دانشور پروفیسر ایس اے امام کے زیر نگرانی عربی کی تعلیم حاصل کی اور اول پوزیشن حاصل کی، جس کے سلسلے میں ہی اوپر بیان کردہ واقعہ پیش آیا۔
اپنے نتائج کے فوراً بعد انہیں یونیورسٹی آف کیلانیا اور پھر یونیورسٹی آف پیراڈینیا میں عربی اور اسلامی تہذیب کا لیکچرار مقرر کیا گیا۔ شیخ ابراہیم نے 1957 میں ہی جماعت اسلامی سری لنکا میں شمولیت اختیار کی تھی اور 1958 میں 21 سال کی عمر میں اس کے سکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ اس کے بعد سے انہوں نے جماعت میں کئی اہم عہدے سنبھالے۔ 1976 میں ان کو جماعت کا امیر منتخب کیا گیا۔ تاہم 1977 میں انہیں اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے لیے سعودی عرب کا رخ کرنا پڑا۔ 1982 میں انہیں دوبارہ امیر کے طور پر منتخب کیا گیا اور انہوں نے 1994 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کی امارت کے دوران جماعت نے مختلف شعبوں میں بہت ترقی کی۔امیر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے لمبے عرصے تک نائب امیر کا عہدہ سنبھالا اور عائشہ صدیقہ کالج آف ہائر ایجوکیشن اور تنویر اکیڈمی جیسے اہم تعلیمی ادارے قائم کرنے میں اپنا وقت صرف کیا۔ انہوں نے مولانا مودودی کی مشہور قرآن کی تفسیر "تفہیم القرآن” کا سنہالی زبان میں ترجمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تفسیر جماعت اسلامی سری لنکا نے بارہ جلدوں میں شائع کی اور اس پر دس سال سے زیادہ عرصہ لگا تھا۔ اس تفسیر کی تقریبِ رونمائی میں ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈی ایم جیا رتنے مہمان خصوصی تھے۔
شیخ ابراہیم کئی سال تک جماعت کے ماہنامہ رسالے ‘الحسنات’ کے مدیرِاعلی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔شیخ ابراہیم عربی، انگریزی، سنہالی اور تمل زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ایک باصلاحیت خطیب اور مصنف تھے اور ان کے ریڈیو پروگرامس اسٹیٹ براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی مسلم سروس پر کافی مقبول تھے۔انہوں نے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی، ریاض میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کی اور اس دوران دنیا بھر کی متعدد اسلامی شخصیات اور علماء سے قریبی تعلقات قائم کیے اور لاہور میں مولانا مودودی سے کئی بار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
وہ الہیئة الخیریة الاسلامیة العالمیة کے بانی ارکان میں سے ایک تھے اور انہوں نے سری لنکا میں اسلامک ڈیولپمنٹ بینک (آئی ڈی بی) کے اسکالرشپ پروگرام میں طالب علموں کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ آل سیلون جمعیۃ العلماء کے نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے، جو سری لنکا میں مسلمان علماء کی سرپرست تنظیم ہے۔شیخ ابراہیم نے اسلام اور اسلامی تہذیب سے متعلق یونیورسٹی اور قومی تعلیمی نصاب کی تشکیل میں حصہ لیا۔ نیز انہوں نے وزارت تعلیم کے ماتحت ہونے والے GCE او اور اے لیول کے امتحانات میں ان مضامین کے ممتحن اعلی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
شیخ ابراہیم نے اپنے دور کے مسلم سیاسی رہنماؤں سے اچھے تعلقات برقرار رکھے۔ سری لنکن پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر محمد حنیفہ اور ملک کے سابق وزیر خارجہ محترم شاہ الحمید انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کمیونٹی کے مختلف مسائل پر براہ راست مشورے کے لیے انہیں بلاتے تھے۔
وہ سری لنکا میں اسلامی تعلیم کے شعبے میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مدامپے اصلاحیہ عربی کالج اور بتالم اصلاحیہ لیڈیز کالج کے علاوہ اوپر مذکورہ عائشہ صدیقہ کالج اور تنویر اکیڈمی جیسے ادارے قائم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ وہ ملک کے ممتاز اسلامی تعلیمی ادارے جامعہ نظیمیہ کی ابتدائی نصاب کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
معاشرتی مسائل کا مطالعہ کرنے کے لیے کوئی تحقیقی ادارہ نہ ہونے پر انہوں نے سرندیب انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ قائم کیا اور کئی سالوں تک اس کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا۔ اس ادارے کے ذریعے انہوں نے سماجی مسائل پر کئی قومی سطح کے سیمینار کا انعقاد بھی کیا۔
شیخ ابراہیم مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لیے بہت فکرمند رہتے تھے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے مسلم سیول سوسائٹی تنظیمات کی ایک سرپرست تنظیم ’اتحاد المسلمین‘ کی تشکیل کی قیادت بھی کی۔ جماعت اسلامی سے اپنی طویل وابستگی کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنی خدمات کے لیے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ بلکہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے پر انہوں نے اپنا پورا پروویڈنٹ فنڈ جماعت کے تعمیراتی فنڈ میں عطیہ کر دیا۔ شیخ ابراہیم علماء، دانشوروں اور عوام الناس کے درمیان یکساں محترم اور معزز شخصیت تھے۔ وہ ایک ترقی پسند عالم تھے جو ہمیشہ آگے کی سوچتے تھے۔ انہوں نے اپنی کمیونٹی اور اپنی جماعت کے مستقبل کی منصوبہ بندی کی۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنا مشکل ہوگا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024