زمین کی فکر اہلِ زمین کریں

2030 تک کا  ہدف :زمینی درجہ حرارت 1.5سنٹی گریڈ سے زائد نہ ہو

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے عالم انسانیت مہلک بیماریوں کے خطرے سے دوچار ۔احتیاطی تدابیر ضروری
متحدہ عرب امارات کے ساحلی شہر دبئی میں جاری اقوام متحدہ کے زیر اہتمام موسمیاتی سربراہی اجلاس کے دوران صحت عامہ کے مد نظر اخراج، آلودگی اور کچرے کو محدود کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک میں سے 123 نے قرارداد پر دستخط کردیے ہیں جبکہ اس پر دستخط کرنے والوں میں بھارت اور امریکہ کا نام غائب ہے۔ اس اعلامیہ کا اہم مقصد یہ ہے کہ  طبی شعبہ ایسے ذرائع وسائل کا استعمال کرے جو موسمیاتی تباہی کو روکنے اور کرہ ارض کی بڑھتی درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔ ساتھ ہی دیگر اہم شعبوں کی طرح عالمی شعبہ صحت بھی سبز مستقبل کی طرف رواں دواں ہو۔ اس قرارداد پر ہمارے ملک کی طرف سے دستخط نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کی نا انصافی اور اختلافات کی بنیاد کیا ہے؟ اب تک جتنے بھی موسمیاتی سربراہی اجلاس ہوئے ہیں ان کے اعلانات اور فیصلوں میں بھارت پیش پیش رہا ہے۔ شفاف توانائی کی پیداوار ترقی کے اہداف کی حصولیابی  میں اس کی ترقی قابل قدر رہی ہے۔ بھارت نے عالمی سطح پر اپنی امیدوں اور توقعات کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کی موسمیاتی تبدیلی کی نسبت سے نمائندگی بھی کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے والی معیشت ہونے کی وجہ سے بائیو فیول کا استعمال چند دہائیوں تک کرنا ہوگا۔ چین، امریکہ اور بھارت ماحولیاتی آلودگی کے سب سے بڑے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں جو سب سے زیادہ کاربن اور گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں۔
اگر ہم تاریخی تجزیہ دیکھیں تو اخراج کے متعلق فی کس اوسط کے حساب سے بھارت سے کئی گنا زیادہ اخراج امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔ ابھی تک بھارت نے اس حوالے سے اپنا موقف آفیشیل طور سے نہیں رکھا ہے مگر رپورٹ کے مطابق شعبہ صحت میں بھارت اخراج میں کمی کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ صحت عامہ کے تعلق سے کئی طرح کے چیلنجز ہیں جن میں مختلف قسم کی بیماریوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے پیچیدہ طبی مسائل بھی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے لیے مکمل طبی خدمات کے نظم کے قیام میں بھی وقت لگے گا۔ ان حالات میں اخراج کو کم کرنے کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر میں تبدیلی کے لیے ایک خطیر رقم اور مزید وقت بھی لگے گا جس سے طبی خدمات کی توسیع کے اہم اہداف سے ہم بھٹک سکتے ہیں۔
آج گلوبل وارمنگ عالم انسانیت کے لیے بڑی مصیبت بن گئی ہے۔ موسمیاتی شدت سے حرارت کے دباؤ اور جنگل میں آتش زنی کی وجہ سے دھواں براہ راست پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرات میں اضافہ ہوتا ہے متعلقہ علاقوں میں مچھروں کی افزائش بھی بڑھ جاتی ہے۔ شعبہ صحت پر ہونے والے اثرات کا سالانہ اقوام متحدہ موسمیاتی سربراہی اجلاس Cop-28 کے ایجنڈے میں پہلی بار آیا ہے۔ اس سے امید ہے کہ سرکاری وزرا موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے خطرات کا جائزہ لیں گے تاکہ خرابی صحت کی وجہ سے ملک کی معیشت متاثر نہ ہو۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کے مطابق 2030 تک تغذیہ کی کمی، ملیریا، ڈینگو، ڈائریا اور گرمی کی شدت سے عالمی پیمانہ پر اموات 2لاکھ 50ہزار سالانہ تک جاسکتی ہے۔ مچھر جو وائرس کو پھیلاتے ہیں ان میں ڈینگو، ملیریا، ویسٹ نائل، زیکا وغیرہ شامل ہیں جو گرمی کی شدت اور زیادہ بارش کی وجہ سے ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ این ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 2000میں ڈینگو کے کیسز 5لاکھ تھے جو 2019میں بڑھ کر 50 لاکھ تک پہنچ گئے۔ اس طرح گزشتہ سال پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے ملیریا کا پھیلاؤ 400فیصد تک بڑھ گیا۔ اب یہ بیماری افریقہ کے اوپری خطہ میں بھی  پھیلتی جارہی ہے جہاں سردی کی وجہ سے مچھر کی افزائش کم تھی۔ ہیضہ اور آنتوں کی بیماریاں غذا اور پانی کی خرابی کی وجہ سے تیزی سے پھیل رہی ہیں جبکہ  یہ دونوں بیماریاں بہت حد تک معدوم ہوچکی تھیں۔ 2021کے مقابلے میں 2022میں ہیضہ کے مرض میں شدت آئی ہے۔ اس کا پھیلاؤ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 25 فیصد ممالک میں مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ طوفان سیلاب اور قحط نے صاف پینے کے پانی کے ذرائع کو محدود کردیا ہے۔ اس کے ہی ساتھ دست و قے میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کافی اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں اچھی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے حرارت کی شدت میں سال بہ سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ توقع ہے کہ کئی دہائیوں تک اس میں اضافہ کا امکان ہے۔ فی الحال عالمی درجہ حرارت میں 1.1ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ماقبل صنعتی درجہ حرارت کے لوگوں کو 2022میں تقریباً 86دنوں تک ناقابل برداشت گرمیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لانسیٹ میڈیکل رپورٹ کے ذریعہ یہ ڈیٹا سامنے آیا ہے۔ اگر دنیا ماقبل صنعتی سطح کے دو سنٹی گریڈ کے اوپر آجاتی ہے تو گرمی کی شدت سے اموات میں چار گنا اضافہ ہوجائے گا۔ گرمی کی وجہ سے جنگل کا سبزہ خشک ہوتا جارہا ہے، نتیجتاً جنگل کے جنگل آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کو بیماریوں کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس موسمیاتی سربراہی اجلاس میں متحدہ عرب امارات و دیگر اداروں نے ٹراپیکل امراض کے خاتمہ کے لیے 77 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ ڈاکٹروں، جہد کاروں اور مختلف ممالک کے نمائندوں نے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے شعبہ صحت پر منڈلاتے خطرات سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ میڈیا کے مطابق Cop28 کے صدر سلطان احمد الجابر نے کہا کہ موسم سے متعلق عوامل 21ویں صدی میں انسانی صحت کے لیے بڑے خطرے ثابت ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ڈاکٹر ماریہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر براہ راست انسانی پھیپھڑوں پر پڑتا ہے۔ اس طرح موسمیاتی صحت کے متعلق خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے متحدہ عرب امارت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن کی طرف سے دس دس کروڑ ڈالر دیے گئے۔ صحت کے مسائل کے لیے فنڈز کا اعلان کرنے والے دیگر ممالک میں جرمنی، امریکہ اور بلجیم شامل ہیں۔ ورلڈ بنک نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے صحت کے خطرات کا مقابلہ کرنے والے ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے لیے ممکنہ چند معاون اقدامات کو تلاش کرنے کے لیے ایک پروگرام بھی شروع کیا۔
موجودہ موسمیاتی کانفرنس میں عالمی ہدف پر غور و فکر کا امکان ہے۔ اڈاپٹیشن کو لے کر گزشتہ نشستوں میں جو گفتگو ہوئی تھی ان کے لیے کلائمیٹ فائنانس کی ضرورت ہوگی۔ جو زیادہ کاربن اخراج کرنے والے ممالک ہیں وہ اس میں شمولیت اختیار کریں۔ گزشتہ بجٹ و تمحیص میں یہ بجٹ 100بلین ڈالر مانا گیا تھا جس کا ہدف اب تک مکمل نہیں ہوا۔ Cop جیسی کانفرنس تو عالمی ہیں مگر یہ 10 سے 20فیصد بھی اپنے کیے گئے وعدوں پر پوری نہیں اترتی ہیں۔ اس طرح کاربن کے اخراج پر کی جانے والی نشستیں خود ہی کاربن کے اخراج کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ Cop28 کے صدر سلطان احمد الجابر کے بیان سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا جب انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی سائنس نہیں ہے جو بتائے کہ فوسل فیول کے مرحلہ وار خاتمہ سے ہی 1.5سنٹی گریڈ کے ہدف کو حاصل کیا جاسکے گا۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ حیاتیاتی ایندھن کا خاتمہ دنیا کو واپس غاروں میں لے جائے گا۔ اس کے باوجود Cop 28 میں پیرس سمجھوتے کا ذکر بھی آیا جس میں کہا گیا تھا 2030 تک کاربن کے اخراج کو کم کرتے ہوئے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو 1.5سنٹی گریڈ سے زائد ہونے سے روکا جائے گا۔ موجودہ حالات سے فکر مند اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ ’’آج ہم سبھوں کی ایک ہی ذمہ داری ہے کہ ہم پرخلوص وعدہ کریں کہ ہم سب 2030تک اس  ہدف کو پاکر رہیں گے‘‘۔
***

 

***

 عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کے مطابق 2030 تک تغذیہ کی کمی، ملیریا، ڈینگو، ڈائریا اور گرمی کی شدت سے عالمی پیمانہ پر اموات 2لاکھ 50ہزار سالانہ تک جاسکتی ہے۔ مچھر جو وائرس کو پھیلاتے ہیں ان میں ڈینگو، ملیریا، ویسٹ نائل، زیکا وغیرہ شامل ہیں جو گرمی کی شدت اور زیادہ بارش کی وجہ سے ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ این ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 2000میں ڈینگو کے کیسز 5لاکھ تھے جو 2019میں بڑھ کر 50 لاکھ تک پہنچ گئے۔ اس طرح گزشتہ سال پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے ملیریا کا پھیلاؤ 400فیصد تک بڑھ گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023