زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زندگی مشکل میں

اگر مسئلہ کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

آج کرہ ارض کا درجہ حرات بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے نباتات، جمادات، حیوانات اور ہر کسی کے لیے ایک مشکل گھڑی آگئی ہے۔ اگر اس مسئلہ کا فوری تدارک نہیں کیا گیا تو انسانوں کے ساتھ ساتھ فطری طور پر تمام جانداروں کا وجود خطرہ میں آجائے گا۔ ایسے مصائب کے شدید اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ تبدیلی موسم کی وجہ سے بہت زیادہ بارش، قحط، سیلاب، بے موسم کی بارش اور سمندری طوفان، آندھی، جنگل کی آگ، زمین کا کھسکنا، گلیشیر سے برف کا پگھلنا، سمندروں کے درجہ حرارت میں اصافہ نتیجتاً سطح سمندر میں بلندی وغیرہ۔ یہ سب مسائل ہیں جو آہستہ آہستہ شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ 5 جون کو ہر سال کی طرح اس سال بھی عالمی یوم ماحولیات منایا گیا ۔ اس سال کا عنوان ’’زمین کی بہار، بنجر اور سوکھے سے نجات‘‘ رکھا گیا تھا۔ ماحولیات کا مکمل تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے اور زرعی زمینوں کو زرخیز بنائے رکھنے میں حساسیت کی کمی کے سبب بھارت کے علاوہ کئی ممالک کی زمینیں اپنی زرخیزی کھوتی جارہی ہیں۔ اپنے پیغام میں اس خاص موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس نے واضح طور سے کہا ہے کہ انسانیت کا وجود زمین کی بقا پر ہی منحصر ہے۔ پھر بھی اقوام عالم میں آلودگی، موسمیاتی بدنظمی، بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی۔ زیر زمین پانی کا استحصال اور زراعت میں کیمیاوی مادہ کے استعمال سے دنیا کے کئی ممالک کی زمینیں اپنی زر خیزی کھو کر بنجر بنتی جا رہی ہیں۔ اب تو تفریق حیات کے فقدان سے صحت مند زمین ریگستان اور صحرا میں تبدیل ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں تین ارب سے زائد لوگ بنجر زمین کی پریشانی سے متاثر ہورہے ہیں۔ ساتھ ہی پینے کا پانی بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں صحت مند زمین، تفریق حیات کی ضرورت دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ اس نسبت سے حکومت کی جانب سے کوششیں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کار خیر میں سبھوں کی شراکت ضروری ہے۔ کم پانی اور کم کھاد کے ذریعے غذائیت سے بھرپور موٹے اناجوں (Millet) کی افادیت کی تشہیر کی ضرورت ہے۔ اس طرح شفاف توانائی کے شعبہ میں دنیا کے بہت سارے ممالک آگے آ رہے ہیں جن میں ہمارا ملک بھی ہے۔ وزیر اعظم نے گلاسگو موسمیاتی کانفرنس میں باضابطہ عندیا دیا تھا کہ 2070نتک گرین ہاوس کمپنیوں اور کاربن سےبپیدا شدہ گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے پابند عہد ہیں۔ اس سے حیاتیاتی توانائی پر انحصار کم کرنا ہوگا، جن کی کانکنی، تقسیم، توانائی کی تیاری اور اس کے استعمال سے چہار طرفہ آلودگی میں اضافہ سے زبردست نقصان ہوتا ہے۔ جس طرح ہم شفاف توانائی کے بھر پور حصول اور استعمال کے لیے کوشاں ہیں اس طرح بارش کے پانی کے تحفظ کا بی منصوبہ بند طریقے خیال رکھنا اہم ہے۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ ہم سب لوگوں کو انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کوششیں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کرنا ہوگا۔تیزی سے بدلتے موسم کے مزاج نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس بار موسم گرما کی شروعات فروری سے ہونے لگی ہے اور جون کا مہینہ آتے آتے تپش بلندی پر پہنچ جاتی ہے۔ ساری دنیا میں درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ آج 80 فیصد لوگ گرمی کی مار جھیل رہے ہیں۔ ہیٹ ویو کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کی اطلاعات بھی ہیں۔ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم نے اپنے طرز زندگی کو کچھ اس طرح بنا دیا ہے کہ ہماری ضرورت زندگی بن گئی ہے۔ ہمارے طرز زندگی میں آئی تبدیلی بڑھتے شہروں کے جنگلات، توانائی کی زیادہ کھپت جسے ہم نے عیش پسندی کو ضرورت سے بدل دیا ہے اب اس کی وجہ سے ندیاں خشک ہونے کے قریب ہیں۔ ساری دنیا میں 24 فیصد زمین بنجر ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اپنے ملک میں 35 فیصد زمین پہلے ہی ڈیگریڈ ہوچکی ہے اور وہ بھی بنجر بننے کی طرف جارہی ہے۔ گجرات، گوا جھارکھنڈ، دلی اور راجستھان کا ایک خاصہ حصہ اس راہ پر گامزن ہے۔
دنیا میں طرز زراعت میں بھی بہت زیادہ تبدیلی ہو رہی ہے اور اب تو کھیتی باڑی ایک کارپوریٹ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے کیمیاوی فرٹیلائزر زیادہ ہی استعمال ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے زرخیز زمین بھی بنجر ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب میں کھیتی میں اس طرح سے زمین ڈیگریڈ ہورہی ہے کئی جگہوں پر پانی کی کمی کی وجہ سے بھی لوگ زراعت کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ بنجر حالات کے لیے کلائمیٹ ویرییشن بھی ایک وجہ ہے۔ ہمارا جنگلات پر انحصار بھی تشویش کا باعث ہے۔ آج بنجر زمین کے تحفظ کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے سوائے اس کے کہ شجر کاری کے ذریعہ جنگلات کو بسانے کی تحریک چلانی ہوگی اور جنگلات کے مختلف Speeches پر کافی توجہ مرکوز کرنا ہوگا کیونکہ جنگلات دراصل قدرت (Nature) سے وابستہ ہوتے ہیں آج ساری دنیا میں شدت کی گرمی میں اضافہ اور سمندروں سے آنے والے طوفان کم از کم ہمیں سمجھا پائیں گے کہ آج ہم سرحد پر آپہوچے ہیں جہاں مستقبل قریب میں بنجر ہوتی دنیا ہمیں فنا کردے گی ۔ بڑھتی شدید گرمی سے دنیا بھر میں دو ارب اور بھارت میں ساٹھ کروڑ لوگوں کے لیے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر درجہ حرارت میں 2.7 سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوتا ہے تو دنیا کی سب سے بڑا آبادی والا ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ ایک مطالعہ سے وضاحت ہوئی کہ آئندہ چند دہائیوں میں کروڑوں لوگ اس قدر درجہ حرارت کا مقابلہ کریں گے جس کا سامنا اب تک سہارا جیسے ریگستان میں رہنے والے لوگ ہی کیا کرتے رہے ہیں۔ محض ایک سنٹی گریڈ کے اضافہ سے دس گناہ مہاجرت میں اضافہ ہوگا۔ اس دہائی کے اخیر تک سالانہ درجہ حرارت 29 سنٹی گریڈ سے زیادہ ہوجائے گا جس سے کئی طرح کے امراض کے ساتھ ساتھ قبل از وقت اموات اور اپاہج ہونے کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ سے vapour island کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف مٹی میں نمی کی کمی کی وجہ سے ملک کے کئی حصے خشک سالی کا سامنا کریں گے۔ نتیجتاً غریب بے روزگاری، سیلاب کا خطرہ اور غذائی عدم سلامتی میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے ہمیں قدرتی وسائل کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ چوکنا رہنا ہوگا تبھی ہم زمین کا تحفظ کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں جسم کا کولنگ سسٹم متاثر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مختلف طرح کی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان میں لو کا لگنا، سیل میں اینٹھن اور تھکاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دراصل پانی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لاپروائی برتے جانے پر اسٹروک اور مائیگرین کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔
ملک میں انتہائی غربت ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ روزانہ چلچلاتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کولنگ مشین نہیں پہنچ پاتی۔ دراصل موسمیاتی تبدیلی کے شکار یہی غربا اور مفلوک الحال لوگ ہیں۔ ہمارے سامنے معمہ یہ ہے کہ خود ہی گرین ہاوس کے اخراج کے ہم ذمہ دار ہیں جس نے ہماری زمین کو گرم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے والی بجلی سے خارج ہونے والی گرمی بھی زمین کو مزید گرم کرتی ہے۔ حالات اس وقت تک ایسے ہی رہیں گے جب تک ہم توانائی نظام (Energy System) کو کارن فری اور زیادہ شفاف نہ کرلیں۔ ہمارے ملک کے ساتھ ساری دنیا میں گرمی کی شدت تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں 2023 گرم ترین سال درج کیا گیا تھا۔ یعنی اب سردیوں کا احساس معدم ہوتا جائے گا۔ کم از کم گزشتہ سال عام درجہ حرارت 1.71 سنٹی گریڈ زیادہ رہی ہے۔ ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ وہ کون سی چیز ہوسکتی ہے جو ہمارے رہائشی ماحول میں گرمی کے اثر کو کم کرے۔ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ کنکریٹ کی گھنی آبادی والے ایسے حصوں میں گرمی زیادہ شدید ہوتی ہے جہاں آس پاس زیادہ پیڑ پودے اور چھوٹے بڑے تالاب نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ہمیں ایسی بلڈنگس بنانے ہوں گے جو قدرت (نیچر) کے مخالف نہ ہوں بلکہ اس کے موافق ہوں۔ اسے positive architecture of periodontium کہا جاتا ہے۔ ہماری روایتی عمارتیں انہیں اصولوں پر تعمیر ہوتی تھیں۔
***

 

***

 انسانیت کا وجود زمین کی بقا پر ہی منحصر ہے۔ پھر بھی اقوام عالم میں آلودگی، موسمیاتی بدنظمی، بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی، زیر زمین پانی کا استحصال اور زراعت میں کیمیاوی مادہ کے استعمال سے دنیا کے کئی ممالک کی زمینیں اپنی زر خیزی کھو کر بنجر بنتی جا رہی ہیں۔ اب تو تفریق حیات کے فقدان سے صحت مند زمین ریگستان اور صحرا میں تبدیل ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں تین ارب سے زائد لوگ بنجر زمین کی پریشانی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی پینے کا پانی بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں صحت مند زمین، تفریق حیات کی ضرورت دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ اس نسبت سے حکومت کی جانب سے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ مگر اس کار خیر میں سبھوں کی شراکت ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024