زخموں کی سرزمین
خبیب کاظمی
رات کا پہر تھا اور غزہ کے سیاہ آسمان تلے ایک ہسپتال کی عمارت کے اندر زندگی اور موت کی کشمکش جاری تھی۔ الاقصیٰ شہداء ہسپتال جو کبھی غزہ کے دل کی دھڑکن تھا اب جنگ کے بوجھ تلے دب چکا تھا۔ ڈاکٹر مریم سعد، اردن سے آئی ہوئی ایک تجربہ کار ڈاکٹر اپنی بارہ گھنٹے کی طویل ڈیوٹی کے اختتام پر ایک کونے میں تھک کر بیٹھ گئی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں تھکن کی لکیریں واضح تھیں مگر دل میں درد اور بے بسی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کے سامنے جو منظر تھا وہ شاید ان کی زندگی کا سب سے دردناک منظر تھا۔
دیر البلح کے اس ہسپتال میں جہاں پہلے 160 بستروں کی گنجائش تھی اب وہاں 800 مریض زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ بچے، بوڑھے، عورتیں سبھی وہاں تھے، ان میں سے کچھ زندہ تھے، کچھ نیم مردہ اور کچھ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر مریم ایک بچے کے قریب گئیں جس کی عمر مشکل سے چھ سال ہو گی۔ اس کا نام عامر تھا۔ اس کی آنکھیں خوف کے بوجھ سے خالی اور بے جان لگ رہی تھیں جسم جلے ہوئے زخموں سے ڈھکا تھا اور وہ مسلسل اپنی ماں کو پکار رہا تھا، حالانکہ وہ جانتا بھی نہیں تھا کہ اس کی ماں اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی۔
عامر کی ماں اسرائیلی بمباری میں شہید ہو چکی تھی۔ اس کی موت نے عامر کو یتیم کر دیا اور یہ ننھا سا بچہ ایک ایسی جنگ کا شکار ہو چکا تھا جس کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔ وہ صرف ماں کی محبت اور باپ کے سائے کی خواہش رکھتا تھا لیکن جنگ نے اس کی ساری امیدیں چھین لی تھیں۔ ڈاکٹر مریم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ایک آہ بھری، وہ کیا کہتیں؟ اس کے پاس عامر کو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی ختم ہو چکے تھے۔
اسی لمحے ایک اور نرس بھاگتی ہوئی آئی، "ڈاکٹر صاحبہ! ایک اور بچہ آ گیا ہے۔” مریم نے تیزی سے قدم اٹھائے اور ہسپتال کے دوسرے کمرے کی طرف بڑھیں۔ وہاں ایک ننھی سی بچی تھی بمشکل چند مہینوں کی۔ اس کا چہرہ زخموں سے بھرا ہوا تھا اور ایک آنکھ غائب تھی۔ نرس نے بتایا کہ یہ بچی اسی حملے میں زخمی ہوئی ہے جس میں عامر کی ماں جاں بحق ہوئی تھی۔ اس ننھی سی بچی کی زندگی بھی موت کے دروازے پر دستک دے رہی تھی اور ہسپتال میں موجود محدود سامان کے باعث اس کی زندگی بچانا مشکل تھا۔
ڈاکٹر مریم نے اسے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں منتقل کرنے کا حکم دیا لیکن وہاں بھی بستروں کی کمی تھی۔ بے ہوشی کی دوا بھی ختم ہو چکی تھی، اور سرجری کے لیے ضروری آلات بھی دستیاب نہیں تھے۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں نہ صرف زندگیوں کا نقصان ہو رہا تھا، بلکہ انسانیت کی بنیادیں بھی لرز رہی تھیں۔
غزہ کا یہ ہسپتال جو کسی زمانے میں زندگی بچانے کی علامت تھا اب خود موت کے شکنجے میں تھا۔ ادویات ختم ہو چکی تھیں، طبی عملے کی تعداد کم ہو چکی تھی اور جو باقی رہ گئے تھے، وہ بھی اپنے خاندانوں کو بچانے کے لیے پریشان تھے۔ ہر کوئی اس جنگ کے بوجھ تلے دب رہا تھا اور ڈاکٹر مریم کے لیے یہ منظر ناقابل برداشت تھا۔ وہ سوچتی تھیں، "ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا یہ وہی دنیا ہے جو انسانیت کی دعویدار ہے؟”
غزہ میں ہونے والی یہ جنگ صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں تھی، بلکہ روحوں کو بھی تاراج کر رہی تھی۔ بچے جن کی آنکھوں میں خواب ہونے چاہیے تھے وہ اب خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ عورتیں جو اپنے گھروں کی محافظ تھیں، اب بے سروسامان سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ مرد جو اپنے خاندانوں کے محافظ تھے، اب اپنے ہی ملک میں بے گھر تھے۔
اس جنگ کا ایک اور پہلو بھی تھا، وہ لوگ جو غزہ سے باہر تھے۔ دنیا بھر کے ممالک، عالمی تنظیمیں اور انسانیت کے علم بردار، سب اس ظلم کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی اسکرینوں پر فلسطینی بچوں کی لاشیں دکھائی جاتی تھیں، خبریں آئیں لیکن پھر سب خاموش ہو گیا۔ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی تھی، کوئی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانے والا نہیں تھا۔ دنیا نے ان معصوموں کی چیخوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔
ڈاکٹر مریم جانتی تھیں کہ ان کی ذمہ داری صرف ہسپتال کی چار دیواری کے اندر تک محدود نہیں تھی۔ ان کے دل میں ایک آواز تھی جو انہیں بار بار کہہ رہی تھی کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر غزہ کے باہر کی دنیا خاموش رہی تو یہ معصوم بچے ہمیشہ کے لیے جنگ کا شکار ہو جائیں گے۔ وہ جانتی تھیں کہ جنگ بند کرنا ان کے بس میں نہیں ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ دنیا کی ضمیر کو جھنجھوڑنا ان کی ذمہ داری ہے۔
"ہمیں یہ جنگ روکنی ہو گی۔” وہ خود سے کہتیں، لیکن وہ جانتی تھیں کہ یہ الفاظ کافی نہیں تھے۔ غزہ کے باہر والوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہو گی۔ یہ صرف غزہ کے بچوں کی جنگ نہیں تھی، یہ انسانیت کی جنگ تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ دنیا کے لوگ اگر ایک ہو جائیں، تو شاید اس ظلم کو روکنے کا کوئی راستہ نکل سکے۔
یہ سوچتے ہوئے مریم نے ہسپتال کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ اندھیرا چھا چکا تھا، لیکن اندھیرے میں بھی روشنی کی ایک کرن تھی۔ وہ امید تھی۔ امید کہ شاید کبھی یہ جنگ ختم ہو، شاید کبھی یہ بچے ہنس سکیں، شاید کبھی دنیا جاگ جائے۔
یہ کہانی صرف غزہ کی نہیں تھی بلکہ ہر اس جگہ کی تھی جہاں ظلم ہو رہا تھا، اور دنیا خاموش تھی۔ غزہ کی سرزمین پر چلنے والے یہ معصوم بچے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے، لیکن اس جنگ کا خاتمہ کرنے کی ذمہ داری صرف ان پر نہیں تھی۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری تھی۔
اور پھر مریم نے خود سے وعدہ کیا "میں یہاں سے جا کر کبھی خاموش نہیں رہوں گی۔ میں دنیا کو بتاؤں گی کہ یہ بچے کس طرح زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ان کی آواز بنوں گی۔”
غزہ میں رہنے والوں کے لیے امید اور محبت کی روشنی کا پیغام لانا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔
(یہ درد و غم میں ڈوبی ہوئی کہانی ، جس کے کردار اگرچہ فرضی ہے لیکن اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جو منظر کشی اس کہانی میں کی گئی ہے، اصل حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک اور کربناک ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ اللہ غزہ اور اہل غزہ پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
یہ کہانی ان مناظر کی صداقت کو بیان کرتی ہے جو ہم روزانہ اخبارات، ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ یہ صرف ایک داستان نہیں بلکہ غزہ کے مظلوموں کی خاموش فریاد ہے، ان کے بے آواز آنسوؤں کی گونج ہے۔ یہاں نام تو مختلف ہیں، مگر دکھ، الم اور اذیت حقیقی ہے۔ اور سچائی ان الفاظ سے کہیں زیادہ گہری اور دل خراش ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف اس دکھ کو سمجھیں بلکہ کہ غزہ کے لوگوں کی مدد کریں۔ اللہ ہمیں یہ شعور اور ہمت عطا فرمائے کہ ہم ان کی حمایت میں کھڑے ہوں اور ان کے درد کو بانٹنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024