حمیرا علیم
ہر سال رمضان میں لوگ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب بھی ہم صدقہ و زکوٰۃ دینے کے لیے نکلتے ہیں تو مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ کس شخص یا ادارے کو دیں؟ اللہ تعالٰی صدقات اور زکوٰۃ کے ذریعے غریب لوگوں کی مدد فرما کر انہیں بھی معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف جو قرآن میں بتا دیے گئے ان میں فقراء اور مساکین کا ذکر سب سے پہلے ہے۔ فقراء سے مراد ضرورت مند لوگ ہیں جن کے پاس گزر بسر کے لیے کچھ نہ ہو۔ اور مساکین سے مراد وہ ضرورت مند لوگ ہیں جو خودداری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ و صدقات پر پہلا حق رشتے داروں کا ہے کیونکہ غریب رشتے داروں کی مدد کر کے صلہ رحمی کا اجر بھی ملے گا اور صدقے کا اجر بھی۔ دوسرا حق پڑوسی کا ہے اور تیسرا حق بیوہ اور یتیم کا پھر جو بھی شخص اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ برداشت نہ کر سکے اس کا۔
چنانچہ ہم بھی انہی مدات میں زکوٰۃ و صدقات تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یقین مانیے جب بھی ہم نے کسی کو پیسے دیے معلوم ہوا کہ وہ ہم سے زیادہ امیر ہے، اتنا کہ ہم جیسے کئی لوگوں کو صدقہ دے دے۔ رشتے دار تو الحمدللہ سب ہی صاحب حیثیت ہیں اور اڑوس پڑوس کے لوگ بھی، لہٰذا کسی گھر میں کام کرنے والی خادمہ، کوئی رکشہ یا ٹیکسی ڈرائیور، کسی عمارت کا سیکیورٹی گارڈ یا کسی بیوہ کی مدد کے لیے اسے کچھ دیا تو چند دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ تو گھر، گاڑی اور اچھے خاصے بینک بیلنس کے مالک ہیں۔ ایک بیوہ خاتون کے گھر کرائے پر ہیں، گاڑی ہے بچے سب جوان اور جاب کرنے والے ہیں مگر وہ سرکاری اسکیموں سے مستفید ہوتی ہیں۔
میری والدہ کے گھر کے سامنے ایک بیوہ خاتون اپنے چار بچوں کے ساتھ کرایے کے گھر میں رہتی تھیں اکثر کچھ مانگنے آجاتی تھیں، والدہ خود بھی دیتی رہتی تھیں اور بیرون ملک مقیم بھائی سے بھی دلواتی رہتی تھیں۔ جب کبھی ان سے کہا کہ گھر کا کام کر دیا کیجیے ماہانہ رقم بھی مل جائے گی اور آپ کا خرچ بھی چلتا رہے گا تو صاف انکار کر دیتیں کہ فلاں درد ہے فلاں تکلیف ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے بیٹے کی منگنی کی تو میں ڈیڑھ سو لوگوں کی ضیافت کی۔
میں ماہانہ صدقہ کی مد میں اپنے مالی کو کچھ رقم دیتی تھی جو وہ اپنے محلے میں کسی بیوہ کو دیتے تھے۔ ایک دن مالی نے بتایا کہ خاتون کے چار بیٹے نشہ کرتے ہیں اور وہ ان کو روزانہ فی کس روزانہ سو روپے دیتی ہیں، جب سے آپ نے رقم دینی شروع کی ہے وہ ہر دوسرے روز آ کر ہمیں تنگ کرتی ہے کہ وہ پیسے دو جو باجی ہمارے لیے بھیجتی ہیں۔ جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ باجی مہینے میں صرف ایک بار پیسے دیتی ہیں تو وہ کوسنے لگتی اور الزام دھرتی کہ تم نے ہمارے پیسے کھا لیے۔
زکوٰۃ مالی کو دیتی تھی کہ گھر کے چودہ افراد کے ساتھ کیسے گزرتی ہو گی۔ چند سالوں بعد معلوم ہوا موصوف کے چار گھر کرائے پر ہیں اور بیٹے کی شادی پر بارہ لاکھ روپے لگائے ہیں۔
ایک دن نزدیکی محلے میں ایک لیڈی ٹیلر کے پاس جانا ہوا جنہوں نے اپنا چھوٹا سا نیا گھر تعمیر کیا تھا جس پر 25 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ شوہر بھی دل کے مریض بن گئے اور خود کو بھی شوگر تھی۔ چار بچے اسکول جاتے تھے۔ کسی بیوہ کا ذکر کرنے لگیں تو میں نے زکوٰۃ دینے کے لیے کہا۔کچھ دیر بعد ان کا فون آ گیا کہ مجھے ہی زکوۃ دے دیجیے کیونکہ گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میں انہیں گلوکومیٹر اور ادویات لے کر دے چکی تھی اور ڈاکٹر کے ہاں لے جا چکی تھی لیکن ان کے مانگنے پر انکار نہیں کر سکی اور پیسے اور راشن دے دیا۔ اب وہ گاہے بگاہے آ کر کہانیاں سناتیں اور میں حسب توفیق مدد کر دیتی ہوں۔
ایک دن باتوں باتوں میں بتانے لگیں کہ ان کا بیٹا پچیس ہزار روپے کی جاب کرتا ہے اور نند صاحب حیثیت ہیں ساری گروسری وہ دلوا دیتی ہیں۔ میرے چھوٹے بیٹے کے لیے جو قرآن حفظ کر رہا ہے وہ سارے ڈرائی فروٹس بھی لاتی ہیں۔ میرا موبائل بڑے بیٹے نے توڑ دیا تھا تو میں نے کپڑے سی کر پچیس ہزار روپے کا موبائل خرید لیا ہے۔ اور میں حیرت سے ان کا منہ دیکھ رہی تھی۔
ان سب واقعات کے بعد میں نے سوچا سڑک پر بیٹھے سفیدی کرنے والے، عمارت بنانے والے مزدور، موچی اور نائی وغیرہ کو پیسے دوں گی۔ گروسری لینے گئی تو غلطی سے بیگ سے پرس نکال کر ایک موچی کو پیسے دے دیے۔ آناً فاناً کوئی ڈیڑھ سو لوگ میرے اردگرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے کہ ہمیں بھی پیسے دو۔ شکر ہے کہ کسی نے نہ بیگ چھنینے کی کوشش کی نہ ہی ہاتھ سے جھپٹنے کی۔ بڑی مشکل سے گھیرے سے نکل کر چوک میں کھڑے ہوئے پولیس مین تک پہنچی کہ ان سے جان چھڑاوئے اور خود گروسری کے لیے اسٹور کی طرف بڑھی مگر دس پندرہ ہٹے کٹے مرد پیچھے چلنے لگے کہ پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ جلدی سے پاس کھڑے رکشہ میں بیٹھ کر گھر پہنچی اور توبہ کی کہ آئندہ ایسی کوئی حماقت نہیں کروں گی۔ میاں صاحب کو بتایا تو ڈانٹ پڑی کہ وہاں مزدور کم اور نشہ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے کوئی ضرورت نہیں انہیں پیسے دینے کی۔ ایک اور صاحب کو بھی دیکھا جو جوان بیٹے کے ساتھ بیمار بنے سارے خاندان سے روپے اینٹھ رہے تھے اور کام کے لیے بیمار اور بستر سے نہ ہل سکنے والے، بیٹے سمیت ان روپوں پر کبھی کسی ہوٹل اور کبھی کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کھا رہے تھے اور عیش کر رہے تھے۔
والدہ اور بھائی دو ہی افراد ہیں لیکن والدہ کی بیماری کی وجہ سے اکثر ہیلپرز رکھنی پڑتی ہیں جو فرمائشیں کچھ یوں کرتی ہیں۔ امپورٹیڈ بیڈ شیٹس، بیگز، جوتے، شیمپوز، لوشنز، سوئیٹرز جو کہ بہن بھائی والدہ اور بھائی کے لیے بھیجتے ہیں دیکھ کر فرماتی ہیں ’’آنٹی میرے پاس تو کوئی بیڈ شیٹ ہی نہیں‘‘ میرے ہاتھ تو اس قدر خشک ہو گئے ہیں، آپ کے پاس کوئی نرم سے سلیپر ہوں گے، والدہ شوگر پیشنٹ ہیں تو ان کے لیے مخصوص جوتے آتے ہیں، اپنے بیٹے کو کہیے گا کہ میرے لیے اور کچھ لائے نہ لائے ڈوو صابن، نیویا کا لوشن اور ہیڈ اینڈ شولڈر کا شیمپو ضرور لائے، حالانکہ ایسی کوئی فرمائش ہم نے بھی کبھی بھائی سے نہیں کی، گاوں سے آیا ہوا ساگ اور آٹا تک دیکھ کر ان کی رال ٹپک جاتی ہے۔ کہتی ہیں آنٹی مجھے بھی دیجیے گا۔ صبح جب وہ آتی ہیں تو امی انہیں انڈے، پراٹھے، بریڈ جیم چائے کا ناشتہ کرواتی ہیں۔ پھر کام شروع ہوتا ہے جس میں سے ڈسٹںنگ، ہوور، کپڑے مشین میں ڈالنا انہیں کھنگالنا، برتن دھونا یہ امی کی ذمہ داری ہے۔ بس جھاڑو دینا کپڑے چھت پر ڈالنا اور بیڈ شیٹس بدلنا کرنا وہ کرتی ہیں اور اگر دل نہ چاہے تو کہہ دیتی ہیں سر یا کمر میں درد ہے۔ کھانا کھانے کے بعد کہتی ہیں کہ گھر میں بچے بھوکے ہوں گے۔ اچھا سالن لے جانا روٹی تندور سے لے لینا۔ والدہ کینٹینر میں سالن پکڑاتے ہوئے کہتی ہیں تو اطلاع دی جاتی ہے پیسے نہیں ہیں۔ اب نان کے پیسے بھی دے دیے تو انہیں یاد آتا ہے رات کو بھی کچھ پکانا ہو گا میرے میاں کا دل تھا گوشت یا چکن کھانے کا جو انہیں دوران کام فریج میں نظر آ جائے، چنانچہ ایک پیکٹ چکن یا گوشت بھی انہیں تھما دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ الائچیاں، مصالحے، پتی، چینی چاول سب یومیہ اساس پر لے جاتی ہیں اور مہینے کے آخر میں سارے گھر کا راشن الگ لے جاتی ہیں اور جب کبھی ہم بہن بھائی جاتے ہیں یا کوئی مہمان آتا ہے تو ان کو پیسے کپڑے دینا بھی فرائض میں شامل ہے۔ ان کے بہن بھائیوں کی شادیوں پر ان کے جوڑے، بہن بھائیوں کے جوڑے اور پہلے تو سونے کی کسی چیز کیا مطالبہ ہوتا تھا اب فرنیچر یا فریج کا ہوتا ہے۔ صدقہ زکوٰۃ ان سب کے علاوہ چاہیے ہوتا ہے۔ اور شادی پر مایوں، مہندی، ابٹن، بارات سب دن بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ اچھے والے ہالز کی بکنگ کروائی جاتی ہے اور کپڑے بھی اچھے والے خریدے جاتے ہیں۔ میک اپ بھی کسی اچھے سیلون سے کروایا جاتا ہے۔
یہ کہنا تو عذاب ہو جاتا ہے کہ یہ جوتے یا سوئیٹر تو ابھی میں نے خود ایک بار پہنے ہیں۔ منہ پر ہی بد دعائیں دینے لگتی ہیں ہائے آنٹی لوگ تو اتنے کمینے اور کم ظرف ہوتے ہیں گھر بھرا ہوا ہوتا ہے مگر دل نہیں کرتا ان کا کہ کوئی چیز کسی غریب کو دے دیں۔ اللہ ایسے لوگوں سے سب چھین لیتا ہے۔
اکثر اوقات مجھ سے بھی کہتی ہیں آپ کے کوئی کپڑے بچوں کے جوتے ہوں تو دے دیجیے۔ اب کوئی پوچھے چند دن کے لیے میں گھر سے فالتو کپڑے جوتے تو اٹھا کر لے جاوں گی نہیں کہ انہیں دے دوں۔ اور چھوڑیے بچوں کے فیڈرز تک مانگنے بیٹھ جاتی ہیں۔ اور اگر انہیں یہ کہہ دیا جائے کہ آج طبیعت خراب ہے سارا کام خود ہی کر لو تو الٹا سیدھا کام کر کے اگلا ہفتہ چھٹی پر رہتی ہیں کہ بخار ہو گیا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی نازک ہیں تو کام کیوں کرتی ہیں اور جتنی وہ کام نہ کر کے بھی فرمائشیں کرتی ہیں اس سے تو بہتر ہے کہ وہ سیدھی طریقہ سے بھیک ہی مانگ لے۔تنخواہ، روزانہ کا کرایہ، کھانا، سبزی گوشت، پھل، ماہانہ گروسری،، ان سب میں تو ایک مستقل غلام مل جائے گا۔ میں تو کوئی ہیلپر نہیں رکھتی لیکن والدہ کی مجبوری ہے کہ اکثر بیمار رہتی ہیں اور ہیلپرز ساری ایسی ہی دستیاب ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سب لوگ ایسے ہی فراڈی ہیں، بہت سے حقیقی مستحقین بھی ہیں۔ لیکن قرآن نے ان کی علامت بیان کی ہے کہ وہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر نہیں مانگتے۔کووڈ کے دوران ایسے بہت سے لوگ دیکھے جو کہ آن جاب تھے جاب چھوٹ گئی تو گھر کا راشن اور کرایہ دینے کے قابل بھی نہ تھے ان کی مدد بھی کی مگر یہ وہ سفید پوش لوگ ہیں جو مانگتے نہیں اور جن کی مدد کرنے کے لیے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کہ ان کی عزت نفس کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور ان کی مدد بھی ہو جائے۔
ان سب تلخ تجربات کے بعد میں نے سوچا کہ اب اداروں کو آزماتے ہیں۔ چنانچہ چند سال سے زکوٰۃ خدمت خلق میں سرگرم عمل اداروں کو دے رہی ہوں۔
آپ بھی ایسے ہی تجربات سے گزری ہوں تو پھر اپنے اردگرد سفید پوشوں کی مدد کیجیے۔ خاموشی سے پیسے ایک لفافے میں ڈالیے اور ان کے گیٹ سے اندر پھینک دیجیے۔ گروسری لیجیے اور ان کے گھر کے باہر رکھ کر کال بیل دبا دیجیے اور غائب ہو جائیے۔ اپنے بچوں کے لیے کپڑے جوتے، کتب، بیگز لیں تو ایک ایکسٹرا لے کر ان کے اسکول بھجوا دیجیے کہ پرنسپال کسی مستحق بچے کو دے دیں۔ اور اگر کھانا بنائیں یا کوئی اچھی ڈش یا کوئی مٹھائی پھل خریدیں یا پیزا کیک تو ان کے ہاں بھی ضرور بچوں کے ہاتھ بھیج دیجیے۔ اللہ تعالٰی ہمارے صدقات کو قبول فرمائے اور انہیں حقیقی مستحقین تک پہنچانےکی توفیق عطا فرمائے۔
***
***
حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ و صدقات پر پہلا حق رشتے داروں کا ہے کیونکہ غریب رشتے داروں کی مدد کر کے صلہ رحمی کا اجر بھی ملے گا اور صدقے کا اجر بھی۔ دوسرا حق پڑوسی کا ہے اور تیسرا حق بیوہ اور یتیم کا پھر جو بھی شخص اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ برداشت نہ کر سکے اس کا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023