زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے ذریعہ غربت کا خاتمہ ممکن

باہمی ہمدردی اور تعاون پر مبنی سماج تشکیل دینے کی ضرورت

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

اسلام کے آنے سے قبل حکومتیں محتاجوں، محنت کشوں اور ضرورت مندوں پر ٹیکس عائد کرتی تھیں۔ ان کے متوسط طبقے کو بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا، جس میں چھوٹے تاجر اور زراعت پیشہ افراد خاص طور پر شامل تھے۔ جبکہ بادشاہ، امراء اور مذہبی طبقے، جن میں پادری، پجاری اور پنڈت وغیرہ شامل تھے، اس ٹیکس سے مستثنیٰ تھے۔ اس کی وجہ سے غریب اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگ مایوسی اور محرومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔
ہمارے ملک کا بھی یہی حال تھا اور اب بھی ہے، جہاں متوسط طبقہ اور انتہائی کمزور طبقے کے لوگ کمر توڑ جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انگریزوں کے دور میں بڑے زمین داروں اور نوابوں کے ذریعے بھاری بھرکم لگان لگا کر تاجروں سے جبراً وصولی کی جاتی تھی تاکہ حکومت کی تجوری بھری جا سکے۔ آج کی نام نہاد جمہوری حکومت بھی من مانے ٹیکسز لگا کر سو کروڑ کی آبادی کو افلاس کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ وزیراعظم سے لے کر مرکزی اور ریاستی نمائندے عیش کر رہے ہیں، جبکہ ملک کی 81 کروڑ آبادی پانچ کلو مفت اناج پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
آج مڈل کلاس کے پاس آمدنی کا معقول ذریعہ نہیں ہے۔ قوتِ خرید ختم ہو چکی ہے۔ بازار میں کھپت مفقود ہے۔ مختلف ذرائع سے قرض لے کر ملک کی بڑی آبادی کسی طرح گزر بسر کر رہی ہے۔ کھپت میں کمی کے باعث چھوٹی اور درمیانی فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔
ضرورت ہے کہ ٹیکس عائد کرنے میں عدل سے کام لیا جائے۔ اسلام آیا تو اس نے اس حالت کو یکسر بدل دیا۔ اس نے ضرورت مندوں، محتاجوں اور کمزور طبقات کے مفاد کے لیے مالداروں اور صاحبِ حیثیت لوگوں پر ایک طرح کا ٹیکس عائد کیا اور اسے زکوٰۃ کا نام دیا۔ اس کی وصولی اور خرچ میں ہر زاویے سے عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا۔
اصلاً زکوٰۃ صدقہ ہے اور صدقہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے معنی طہارت اور پاکی کے ہیں۔ اللہ عزوجل نے اسے "صدقہ الزکوٰۃ” اس لیے کہا ہے کہ وہ مال، دل اور معاشرے کی پاکیزگی کا ضامن ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا
"ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے کر انہیں پاک و صاف کرو۔”
اس حکمِ خداوندی کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں کو بخل، مال کی ہوس، تنگی، سختی، خود غرضی، طمع اور زر پرستی سے نجات دلائی جاتی ہے۔ نتیجتاً نفرت، حسد، عداوت، فتنہ و فساد اور جنگ و جدال سے لوگ محفوظ رہتے ہیں۔
معاشرے میں فقر و فاقہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں پر ابھارتا ہے۔ بھوک کی تپش سے لوگ ہر قسم کے جرائم کو جائز سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے "اللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِکَ مِنَ الفَقرِ وَالکُفرِ” جیسی دعا سکھائی۔
آدمی مجبور ہو کر اور اپنے اغراض کے خاطر بہیمانہ کاموں کو حلال سمجھنے لگتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں 70 مقامات پر اقامتِ صلوٰۃ کے ساتھ ایتاءِ زکوٰۃ کا حکم آیا ہے، مثلاً:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ
"پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔”
مسلمانوں میں مضبوط اخوت اسی وقت پیدا ہوگی جب دونوں کی ادائیگی صدقِ دل کے ساتھ ہو:
فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ
"پھر اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔”(التوبہ)
زکوٰۃ کی ادائیگی سے محض فرض سے سبکدوشی ہی نہیں ہوتی بلکہ ذات کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ تکمیل و تزکیہ ہی اصل احکام شریعت کا بنیادی مقصد ہے تاکہ انسان علم و بصیرت کے ساتھ اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کرکے رب کی خوشنودی کے سوا اور کچھ نہ چاہے۔ زکوٰۃ دراصل دنیا پرستی سے بچنے کا نام ہے۔ زکوٰۃ نہ دے کر آدمی اپنے سارے مال کو ناپاک کر دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو آسمانی مصیبت کی دھمکی دی ہے۔ اس لیے فریضہ زکوٰۃ اختیاری نہیں بلکہ ایک لازمی فریضہ ہے۔
نبی کریمؐ زکوٰۃ جمع کرتے تھے اور اپنے معتمد امرا و عمال کو مالداروں سے زکوٰۃ جمع کرنے کا حکم دیتے تھے تاکہ فقرا و مساکین میں اسے تقسیم کیا جا سکے۔ آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو ان محتاجوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے انہوں نے ان کے خلاف جنگ کی۔ زکوٰۃ کوئی انفرادی عبادت نہیں بلکہ یہ نماز کی طرح ایک اجتماعی فریضہ ہے، جسے وقت کے ذمہ دار (امام) کو اکٹھا کرنے کا حکم ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں انفرادی احسان کے تصور سے ضرورت مند مسلمانوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، اس لیے امام وقت کو چاہیے کہ وہ شریفانہ طور پر ضرورت مند غریبوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی حاجت روائی کرے۔ ملک میں زکوٰۃ کی ادائیگی بعض اوقات امرا کے ذریعے دولت کی نمائش کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جب ایک بار عزت نفس مجروح ہو جائے تو گداگری ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ’’حقیقت زکوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ انفرادی طور پر زکوٰۃ نکالتے ہیں، ان کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید زور دے کر کہا کہ اگر بھارت کے مسلمان مکمل طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کرکے اجتماعیت کے ساتھ محتاجوں اور ضرورت مندوں تک پہنچانے کا نظم کریں تو مسلمانوں کی غربت ختم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اہلِ ثروت حاجت مند طبقے کی ضرورت کا کفیل ہیں۔
پیریوڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) اور لیبر فورس پارٹیسپیشن رپورٹ 2020-21 تا 2022-23 کے مطابق بھارت میں مسلمان غریب ترین ہیں۔ مسلم محنت کشوں کی لیبر فورس میں شراکت دن بدن کم ہو رہی ہے کیونکہ ان کے پاس تکنیکی علم اور مہارت کا فقدان ہے۔ ان کے پاس کام کے قابل رقم بھی نہیں ہے جس سے وہ کم پونجی والی تجارت کر سکیں اور نہ ہی فنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روپے ہیں۔
زکوٰۃ کے طور پر نکالی جانے والی رقم کا تخمینہ ایک لاکھ کروڑ روپے ہے اور زکوٰۃ کی تقسیم کا تخمینہ تیس ہزار کروڑ روپے ہے۔ اس طرح ستر ہزار کروڑ روپے زکوٰۃ دینے والوں کے پاس ہی رہ جاتا ہے۔ زکوٰۃ سے مستحقین کو فائدہ نہ پہنچنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ پانچ سو یا ایک ہزار روپے بھکاریوں یا بھکاری مافیا کو دے دیتے ہیں۔ رمضان میں ساڑی، لنگی وغیرہ کی تقسیم کرکے، غیر موجود یتیم خانے اور مدرسوں کو، یا بڑے پیمانے پر افطار کٹس کے طور پر زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں میں سب سے زیادہ مفلسی اور غربت پائی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی ہند اقامت دین کے لیے سرگرم کل ہند تحریک ہے، جس کے پرچم تلے ‘زکوٰۃ سنٹر انڈیا’ اسلام کے تیسرے ستون کی اجتماعیت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ جیسے مسجد نماز کے قیام کے لیے ضروری ہے اسی طرح زکوٰۃ کے لیے اجتماعیت ضروری ہے۔ اس نظمِ زکوٰۃ سے خود کفالت اور ملت کے اندر خوشحالی کے بڑے وژن کو لے کر آگے بڑھا جا رہا ہے۔
‘زیڈ سی آئی’ امت کے ذریعہ امت کے لیے اور دیگر کلمہ گو کی فارغ البالی کے لیے عازم سفر ہے۔ اس کے ذریعے 20 تا 50 ہزار روپے کی رقم چھوٹے کاروبار کے لیے ضروری سامان اور مشینری سیٹ کرکے مستحقین کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بیوہ بھتہ، یتیموں کی مدد اور ضروری طبی امداد بھی دی جاتی ہے۔ لوگوں کے حالات زندگی کی باضابطہ تحقیق کرکے موزوں افراد کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہاں بڑی شفافیت برتی جاتی ہے۔
‘زیڈ سی آئی’ اپنی سرگرمیوں کو 500 رضا کاروں کے ذریعے روبعمل لاتی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں اس کے 21 پوائنٹس 11 ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس کا نظم ‘اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز’ (SOPs) کے تحت ہوتا ہے۔ سنٹر کا مقصد پورے ملک میں 240 یونٹس بنانا ہے اور اب تک 15 ہزار لوگوں کی مدد کی جا چکی ہے۔
اسلام کے معاشی نظام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جس دولت کو اس نے اتنا باعزت مقام عطا فرمایا، اس کے حصول اور تقسیم کا نظام بھی اسی کے شایان شان بنایا۔ اس کے لیے ایسا اصولی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا ہے جو ہر دور میں قابلِ عمل ہے۔ اس ڈھانچے کے لیے معاشی قوانین اور ضوابط وضع کیے گئے ہیں اور اسے ایک اخلاقی دائرے میں مقید کر دیا گیا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ زکوٰۃ کی اہمیت کے تعلق سے عوام الناس میں بیداری پیدا کی جائے تاکہ غربت کا خاتمہ ہو اور ایک خوشحال اور فارغ البال سماج تشکیل پائے۔ اس دین میں زکوٰۃ جیسی فارغ البالی اور خوشحالی کا بہترین نسخہ موجود ہے، مگر افسوس کہ ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہیں۔
آج انڈونیشیا، ملائشیا اور جنوبی افریقہ میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔ الحمد للہ کیرالا۔میں بھی زکوٰۃ کے ذریعے بڑے پیمانے پر اس کی اجتماعی وصولی اور تقسیم کا کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح بہار اور اڑیسہ میں امارتِ شریعہ بھی یہ فریضہ انجام دے رہی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی 31 فیصد آبادی 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو بے روزگار اور غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ لوگ خطِ افلاس سے نیچے رہ کر جھگی جھونپڑیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں (بحوالہ: کرسٹوفر جیفرلینڈ، فرانسیسی دانشور کی رپورٹ)۔ اسی طرح نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے 20 پسماندہ ترین اضلاع میں سے 11 اضلاع میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں۔ میوات، ہریانہ کا ضلع، جو دہلی سے متصل ہے، ان میں سب سے پسماندہ ہے۔
کل جب اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ "اے فلاں! میں بھوکا تھا، تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا؛ میں پیاسا تھا، تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا”، تو ہم کیا جواب دیں گے؟
جب ہم غرباء کے کھانے، لباس اور مکان کا خیال رکھیں گے تو مفلسی دور ہوگی، اور مسلمان عزت دار زندگی گزار سکیں گے۔ اس لیے اجتماعی نظمِ زکوٰۃ کے لیے ہم سب کو بیدار ہونا ہوگا، خواہ وہ علماء ہوں، دانشور ہوں، فنکار ہوں یا کالم نگار ہوں، تاکہ ایک "کیئرنگ اور شیئرنگ” سماج وجود میں آئے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025