زکوٰۃ کا اجتماعی نظام خوش حالی کا نقیب

بھارت میں اجتماعی نظم زکوٰۃ: ایک لائحہ عمل

ایچ عبدالرقیب، چنئی

غریبوں کی خبر گیری اور انہیں بنیادی ضروریات فراہم کرنا مسلم سماج پر فرضِ کفایہ ہے
نوٹ: جناب ایچ عبدالرقیب صاحب سنٹر فار اسلامک فائنانس، نئی دلی کے صدرنشین ہیں۔ انہوں نے ملک میں اسلامک فائنانس و غیر سودی بینکاری اور زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں موصوف نے امت کے قائدین و علمائے کرام کے غور و فکر کے لیے زکوٰۃ کی اجتماعی وصولی و تقسیم سے متعلق بعض تجاویز پیش کی ہیں۔ ان پر گفتگو و مباحثے کے بعد کسی اجتماعی فیصلے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے قارئین بھی ان پر اپنی رائے پیش کرسکتے ہیں۔
ایڈیٹر
زکوٰۃ سے دولت کا ایک بڑا حصہ غریبوں کو منتقل ہوتا ہے (دی گارجین)
ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر اپنی دولت (جمع پونجی، سونا، سرمایہ کاری) میں سے 2.5 فیصد حصہ بطورِ زکوۃ نکالنا فرض ہے۔زکوۃ کا شمار اگرچہ اسلام کے بنیادی ارکان میں ہوتا ہے لیکن عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس کی جزئیات اور تفصیلات سے نا واقف ہے حالانکہ دوسرے ارکان جیسے نماز و حج وغیرہ کے مسائل کی باریکیوں سے لوگ واقف ہیں لیکن زکوٰۃ کو صحیح طریقہ سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اکثر لوگ صحیح طور پر اس کو ادا نہیں کرتے اور بعض تو زکوۃ نکالتے ہی نہیں۔ زکوٰۃ کو معمولی صدقہ وخیرات سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک ایسا نظم ہے جس سے نہ صرف ایمان بلکہ اہلِ ایمان میں بھی ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
قرآن نے واضح طور پر زکوٰۃ کے کل آٹھ مدات بتائے ہیں، لیکن بہت سارے لوگ ان کو چھوڑ کر چند کیلو اناج یا چند کپڑے اور تھوڑے بہت روپے تقسیم کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ اس فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں حالانکہ اس سے غریبوں اور لاچاروں کی حالت میں کچھ بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور وہ بدستور غریب ہی رہتے ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کی حالت کے بارے میں سچر کمیٹی رپورٹ، نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی SNAP رپورٹ اور ابھی ماضی قریب میں ڈاکٹر کرسٹوفر جیفر لاٹ کی رپورٹ ان کی بدحالی اور معاشی ابتری کی واضح تصویر ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق ملک کا ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے اور ان میں بھی زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ آبادی کے تناسب سے قید خانوں میں بند مسلمانوں کی تعداد دوگنی ہے۔ 18 سے 25 سال کے نوجوان بچوں میں سے ہر تیسرا نوجوان جاہل اور ان پڑھ ہے۔
غریبوں کی خبر گیری اور انہیں بنیادی ضروریات فراہم کرنا مسلم سماج پر فرضِ کفایہ ہے۔ غربت کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک معاشی اور دوسرا سماجی۔
روز مرہ کی بنیادی ضروریات جیسے کھانا، کپڑا، مکان اور صاف پانی کی دستیابی معاشی پہلو میں آتے ہیں، جبکہ سماجی پہلو میں معلومات تک رسائی، تعلیم اور صحت قابل ذکر ہیں۔
ملک میں زکوٰۃ کے تصور کو واضح کرنے اور اس کے عملی نفاذکے لیے اس مضمون میں دس نکات پیش کیے جا رہے ہیں جس پر آپ قارئین غور فرمائیں اور ایک بڑے طبقہ تک اس کے پیغام کو عام کریں۔
-1عوامی بیداری
سب سے پہلا قدم عوام میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کے تئیں بیداری لانا ہے، ساتھ ہی عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں زکوٰۃ کا جو کردار رہا، اس کو واضح کرنا ہے۔ اس بات کی وضاحت لازم ہے کہ زکوٰۃ کا حکم عہد نبوی میں دیا گیا اور آپ کے جاں نثار صحابہ کو وصول زکوٰۃ اور تقسیم پر مامور کیا گیا تھا۔
زکوٰۃ کا یہ نظام اتنا موثر اور بہترین تھا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں لوگ زکوٰۃ لے کر نکلتے، مگر انہیں اس کے مستحق نہیں ملتے۔ان سنہرے ادوار میں ہمیں غمخوار اور خیر خواہ معاشرہ کی بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔
-2 زکوٰۃ کی تحریک سے ایماندار، متقی اور پیشہ ور افراد کو جوڑتے ہوئے عوامی بیداری کے ذریعہ باصلاحیت مرد وخواتین کو اس تحریک ونظام کے انتظامیہ کا حصہ بنایا جائے۔ دیندار افراد کے ساتھ پیشہ ور افراد و دانشوران جنہیں دنیوی امور کے علاوہ اکاونٹس اور آڈیٹنگ وغیرہ کی معلومات ہوں، جیسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے جس سے نہ صرف ایمان دار بلکہ موثر نظام تشکیل پائے گا۔
محلہ میں علاقائی سطح پر مساجد کو مرکز بناتے ہوئے اس نظام کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔
‏3 -معاشی تعلیم اور دولت کی پیداوار
ہمارے معاشرے میں معاشی تعلیم کا فقدان ہے۔ دولت پیدا کرنے کے طریقے جیسے تجارت کرنا یا پرکشش و اچھی ملازمتوں سے جڑنے پر ابھارنا چاہیے۔ ایک پلان تیار کرنا چاہیے کہ بچت کیسے کی جائے اور اس کی سرمایہ کاری کہاں اور کیسے ہو، اس کی وجہ سے معاشرہ میں عطیہ دہندگان مضبوط ہوں گے اور حقیقی معیشت کا تصور ابھر کر آئے گا جہاں پر عوام کو ملازمتیں بھی دستیاب ہوں گی۔
رسول اکرم ﷺ کے بازارِ مدینہ اور ام المومین حضرت خدیجہ ؓ کی تجارت کو سامنے رکھ کر مسلمان فائدہ مند تجارت سے جڑیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام اور طلحہ بن عبیداللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شمار آج کے حساب سے ارب پتیوں میں ہوتا ہے۔
-4 مدراس کے نصاب میں جدید نظامِ زکوٰۃ کو جگہ دینا
زکوٰۃ کے سلسلے میں علمائے امت کو پہل کرنی چاہیے۔ مدراس میں اس موضوع کو داخلِ نصاب کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سیمیناروں اور جلسوں میں اس پر کام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ عوام الناس کی حقیقی زندگی اور ان کی مصروفیات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے مختلف قسم کے سماجی ومعاشی سروے کرانے چاہئیں۔
زکوٰۃ کا ہر شعبہ، مختلف قسم کے علوم اور صلاحیتوں کا متقاضی ہے۔ وصول زکوٰۃ کے لیے علم نفسیات، علم الحساب (اکاونٹس اور آڈٹ جس سے حساب وکتاب رکھا جائے) علم شماریات (جس سے معاشی وسماجی حالات کا سروے ہوسکے) اور ذاتی تعلقات وغیرہ۔
اور اسی طرح شعبہ تقسیم زکوٰۃ کے لیے مالی معاملات میں کافی مہارت اور درک کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب اس قسم کے موضوعات کو سیمیناروں اور جلسوں کا عنوان بنائیں گے تو علماء ان سے لیس ہو کر ملک بھر میں زکوٰۃ کی تحریک کو بڑے پیمانے پر پھیلا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیموں خصوصا اسلامک فقہ اکیڈمی اور ورلڈ زکوٰۃ کونسل کو سامنے آنا چاہیے۔
-5 مساجد کو مرکز بنائیں
تحریک کی شروعات، محلہ کی مسجد میں کمیٹی کی تشکیل سے ہو جس میں عالم دین، چارٹرڈ اکاونٹنٹ اور چند سماجی خدمتگار ہوں۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقہ اور محلہ کا سماجی ومعاشی سروے کرائیں، پھر اس کی بنیاد پر وصول زکوٰۃ اور تقسیم ِزکوٰۃ کا طریقہ کار متعین کیا جائے۔
چند ایسی خواتین کو بھی اس ٹیم میں شامل کیا جائے جن کے تعلقات وسیع ہوں اور جو مختلف خاندانوں خصوصا عورتوں اور بچوں کے بارے میں کافی معلومات رکھتی ہوں، ان کے ذریعہ سے یہ پیغام کافی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ کمیٹی یا ٹیم کی تشکیل کے وقت ممبروں کی صلاحیت اور ان کے جذبہ دینداری کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔
-6 مالیاتی ٹکنالوجی Fin-Tech کا استعمال
فِن ٹک (مالیاتی ٹکنالوجی) وصولِ زکوٰۃ اور تقسیمِ زکوٰۃ میں کافی اہم اور موثر رول ادا کرسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لین دین کو ڈیجیٹلائز کرنے سے سارا نظام متحرک اور موثر ہوجاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کو سہولت اور آسانی ہوتی ہے بلکہ ان میں نظام پر بھروسہ اور اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سارے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ فِن ٹک میں crowd funding کا بکثرت استعمال ہوتا ہے جس سے عوام کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے توسط سے رقم جمع کرتی ہے۔
حساب وکتاب اور آڈٹ کے لیے Block-chain کا بھی استعمال ہوسکتا ہے۔(Block-chain ایک ایسا نظم ہے جس میں معلومات کو تبدیل کرنا، تحریف کرنا یا ترمیم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
-7 زکوٰۃ اور مائیکرو فائنانس (چھوٹے قرضہ جات کی فراہمی)
زکوٰۃ کی رقم سے ہم ضرورت مندوں کو چھوٹے موٹے قرض فراہم کرسکتے ہیں۔عموما دیکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے غریبوں اور ضرورتمندوں کی ہنگامی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا ہے مگر ہم زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کے بجائے اس سے سرمایہ کاری کریں یعنی چھوٹے موٹے کاروبار اس سے کھڑے کیے جائیں تو یہ کافی نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ جب ایک مرتبہ کسی غریب کی تجارت چل پڑے تو نہ صرف اس کی معاشی حالت میں سدھار آسکتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی ملازمت دے سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں معاشرہ سے غربت کا خاتمہ تیزی سے ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ لینے والے زکوٰۃ دینے والے بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ زکوۃ کی رقم سے کمزور اور ضروت مند افراد کو قرض فراہم کرتے تھے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
-8 زکوٰۃ سے مہارتوں کو بڑھاوا دینا
چند ممالک جیسے ملائشیا وغیرہ میں غریبوں کی درجہ بندی دو حصوں میں کی جاتی ہے۔
۱۔ ایسے غریب ولاچار جو اپنی گزر بسر اور نان شبینہ کے لیے خود سے انتظام نہیں کر سکتے جیسے معمر افراد، بیوہ خواتین، معذور اور مرض الموت میں مبتلا پریشان حال جنہیں گزارے کے لیے پیسوں کے علاوہ، ادویات کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ان کے لیے حکومت کی جانب سے باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری قسم کے غریب وہ ہیں جو باصلاحیت اور خود کار تجارت یا ملازمت کر سکتے ہیں لیکن ان کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ آگے بڑھ سکیں، چنانچہ ایسے افراد کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں پیسوں سمیت ہر قسم کی سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار اور اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو جائیں۔ جب چند ہی سالوں میں ان کی حالت مستحکم ہو جاتی ہے تو وہ لوگ معاشرہ کا احسان زکوٰۃ کے عطیہ جات کی شکل میں لوٹاتے ہیں۔
-9 زکوٰۃ اور غیر مسلم
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں سے ’فقراء‘ سے مراد مسلمان غریب ہیں اور ’مساکین‘ سے مراد غیر مسلم غریب ہیں۔
بھارت جیسے گنجان ملک میں زکوٰۃ کا تھوڑا سا بھی حصہ اگر غیر مسلم ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کا مثبت اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ مسلمانوں کا اچھا نام دوسرے سماج کے لوگوں میں ذہن نشین ہوسکتا ہے۔
ملی ومذہبی طبقے کے علماء اور قائدین اس سلسلے میں مل جل کر مباحثہ کریں اور عملی اقدام سے قبل اجماع یا حتمی رائے قائم کریں۔
دوسرے ممالک کے موثر نظامِ زکوٰۃ کی کامیاب کہانیاں
ورلڈ زکوٰۃ فورم کا وجود تقریبا 40 سے زائد ممالک میں ہے جن میں سے دو ملک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔
ملائشیا اور انڈونیشیا میں زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف قسم کی تکنیکوں اور طریقوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
انڈونیشیا کے ادارہ BAZNAS نے زکوٰۃ کی رقم کا معاشی، تعلیمی اور سماجی میدانوں میں موثر استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ صفائی اور قابل تجدید توانائی Renewable energy میں اس کا کامیاب استعمال کیا ہے۔
ملائشیا میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے لیے نئی ٹکنالوجی جیسے فن ٹک کا موثر استعمال ہوتا ہے۔ SANZAF جنوبی آفریقہ کی ایک تنظیم ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی محض 2.3 فی صد ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ تنظیم کئی دہائیوں سے اس ملک میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس تنظیم کی سربراہی دو خواتین کر رہی ہیں۔ چیر پرسن محترمہ فیروز محمد اور سی ای او یاسمینہ فرائنٹک ہیں۔ اس تنظیم میں 52 فی صد ملازمین خواتین ہیں۔ اس تنظیم کو سماجی میدان میں صلاحیتوں کی تعمیر اور رفاہی کاموں کے لیے کیمبرج، برطانیہ کی بین الاقوامی معاشی ایڈوائزری کی جانب سے عالمی سطح کا بہترین انتظامیہ ایوارڈ دیا گیا۔
بنگلہ دیش میں بھی زکوٰۃ کا نظام کافی منظم ہے۔ زکوٰۃ کے اس مشن کی انجام دہی کے لیے قابل ترین اور تربیت یافتہ افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ لوگ زکوٰۃ سے دیہی ترقی اور تعلیم اطفال میں قابل ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
برطانیہ میں یو کے زکوٰۃ فاؤنڈیشن، مختلف میدانوں میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔
زکوٰۃ اور SDG
دنیا سے غربت کے خاتمہ اور پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ نے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں جن میں سے کچھ اس کرہ ارض کے تحفظ سے متعلق ہیں اور کچھ ایسے امن وخوشحالی سے متعلق ہیں جن سے سارے لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ Sustainable Development Goals اور زکوٰۃ کے مقاصد (جو مقاصد الشریعہ کے قبیل سے ہیں) میں قدرے اشتراک ہے۔
ملائشیا اور انڈونیشیا میں قائم زکوٰۃ تنظیموں نے اقوام متحدہ اور یورپی ایجنسیوں کی مدد سے مختلف پراجکٹس پر کام کیا ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی ان تنظیموں کے اشتراک سے غربت کے خاتمہ اور ایک ہمدرد وغم خوار معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 دولت پیدا کرنے کے طریقے جیسے تجارت کرنا یا پرکشش و اچھی ملازمتوں سے جڑنے پر ابھارنا چاہیے۔ ایک پلان تیار کرنا چاہیے کہ بچت کیسے کی جائے اور اس کی سرمایہ کاری کہاں اور کیسے ہو، اس کی وجہ سے معاشرہ میں عطیہ دہندگان مضبوط ہوں گے اور حقیقی معیشت کا تصور ابھر کر آئے گا جہاں پر عوام کو ملازمتیں بھی دستیاب ہوں گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023