!زکوٰۃ دین کا اہم ستون !

ملت اسلامیہ میں اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ

0

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

نماز کے ساتھ متعدد مقامات پرزکوۃ کی تاکید اسکی اہمیت بیان کرنے کے لیے کافی
"اے ایمان والو! اللہ کا ٹھیک ٹھیک تقویٰ اختیار کرو اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقے میں نہ ہڑو۔۔۔اور دیکھو!، کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو واضح ہدایتیں پانے کے باوجود فرقوں میں بٹ گئے اور اختلاف میں مبتلا ہو گئے (آل عمران:۲۰۱-۵۰۱) یہ آیتیں اس زمانے میں نازل ہوئیں جب مسلمانوں کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کی تعمیر ابتدائی مرحلے میں تھی۔ ان آیات میں دو باتیں واضح انداز میں بیان کی گئیں ہیں۔ایک تقویٰ کا التزام اور دوسری مضبوط و منظم اجتماعیت۔ اقامت دین کے معنی ہیں اللہ کے دین کو زمین پر قائم کرنا۔ اس کے لیے جو بنیادی صفت لازم ہے وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے، ہر آن اور ہر لمحہ مسلم بن کر زندگی گزارنا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کے تمام احکام کا ٹھیک ٹھیک اتباع کیا جائے۔ اس کے کسی امر کو چھوڑنے سے بھی پرہیز کیا جائے اور اس کے کسی نہی کے کرنے سے خوف کھایا جائے۔ اسی طرح مسلم کے معنی سچے فرماں بردار، مخلص اور اطاعت شعار کے ہیں۔ مسلم وہ شخص ہے جس نے احکام خداوندی کے سامنے اپنی گردن مکمل طور پر جھکا دی ہو۔ اسلام جن عبادات کا بندہ مؤمن کو حکم دیتا ہے اس کا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا مسلم بندہ بن جائے۔
زکوٰۃ کی اہمیت: لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں۔ دوسرے معنی پاک و صاف ہونے کے ہیں۔شرعی اصطلاح کے مطابق زکوٰۃ میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک صاف ہو جاتا ہے اور عدم ادائیگی سے چونکہ اس میں غرباء و مساکین کا حق شامل رہتا ہے اس لیے اس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی نماز کا ذکر آیا ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی ساتھ ساتھ ہے۔ قرآن میں دو درجن سے زائد مقامات پر اقیموا الصلاۃ کے ساتھ واتوا الزکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دین میں جس قدر نماز کی اہمیت ہے، اتنی ہی زکوٰۃ کی بھی ہے۔ دونوں ہی عبادتیں اجتماعیت کا تصور پیش کرتی ہیں اور انفرادی عبادت کی بجائے اجتماعی عبادت قرار پاتی ہیں۔
ایک بندہ مومن نماز قائم کرنے کے لیے تو جدوجہد کرے لیکن وہ اس بات سے واقف نہ ہو کہ زکوٰۃ کی وصولی و تقسیم کا نظام بھی برپا کرنا ہے تو یہ بات ادھوری ہوگی۔ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی شریعت میں اتنی ہی اہم ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار، اعراض و فرار مسلمانی کے زمرے سے نکل جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ نے اپنے دور خلافت میں ان لوگوں سے جنگ کا اعلان کیا، جنہوں نے نماز کو باقی رکھتے ہوئے زکوٰۃ کی ادئیگی سے انکار کیا تھا۔ لہٰذا جس طرح نماز برائیوں اور فحش کاموں سے انسان کو روکتی ہے ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی انسان کے مال کو پاک کرتی ہے۔
دیگر امتوں میں زکوٰۃ کا نظم: نماز اور زکوٰۃ دین کے ایسے ارکان ہیں جن کا ہر مذہب میں آسمانی تعلیمات کے پیروکاروں کو حکم دیا گیا ہے۔ یہ دونوں فریضے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کے ماننے والوں پر بھی زکوٰۃ کے احکام کو جاری رکھا گیا۔ قرآنِ حکیم میں حضرت ابراہیمؑ ان کے بیٹے حضرت اسحاقؑ اور ان کے بیٹے حضرت یعقوبؑ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ سے نیکیوں کے کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے”(الاانبیائ:۳۷)۔حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں فرمایا "وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا کرتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے”(مریم:۵۵) قرآن کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا "میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبوت سے سرفراز کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں، مجھے با برکت بنا دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی ہے”(مریم:۰۳-۱۳) اسی طرح قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا تھا ان میں یہ حکم بھی تھا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو (البقرہ:۳۴) ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے "اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے ان کی مدد کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے مٹا دوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ (المائدہ:۲۱) یہ تمام آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں پر بھی نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا تھا، پھر جن لوگوں نے اس میں تحریف نہیں کی اور اس کے احکام پر عمل کرتے رہے وہی مسلم کہلائے اور انہی کو آخرت کی ہمیشگی نصرت و کامرانی کی بشارت دے دی گئی۔
مضبوط و منظم اجتماعیت: قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ بارہا اس جانب توجہ دلاتا ہے کہ اے مومنو! اللہ کی بندگی اختیار کرو، اس کے لیے صبر اور نماز سے مدد لو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ نماز اور زکوٰۃ کے نظام پر آگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف یہ عبادات اللہ سے قرب کا ذریعہ بنتی ہیں تو دوسری طرف ہماری نظر میں جو غیر اہم چیزیں اہم بن گئی ہیں ان کی اہمیت کم کرتے ہوئے اللہ کے احکام پر کاربند رہنے میں مدد کرتی ہیں۔ نماز ہو یا زکوٰۃ، یہ دونوں ہی عبادات بندہ مومن کو اجتماعی زندگی کی دعوت دیتی ہیں۔ ایسی اجتماعیت جو منظم بھی ہو اور مضبوط بھی۔ پھر یہ احکام کہ "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور فرقوں میں نہ بٹ جاؤ”یہی ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی گزارنی چاہیے، ان کا ہر عمل اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انجام دیا جانا چاہیے۔ اور اسی چیز کو زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے ذریعہ سے بھی وہ ثابت کرتے ہیں۔ یہ اجتماعیت ایسی ہے جس میں کہیں دراڑ نہیں، یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے اور اس سے وابستہ افراد گروہ در گروہ ٹولیوں اور گروپوں میں تقسیم نہیں ہوتے۔
قرآنی ارشادات: "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے رہے اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے”(البقرہ:۷۷۲) مزید فرمایا "تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں” (المائدہ:۵۵) مزید فرمایا "خدا کی مسجدوں کو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل ہوں گے”(التوبہ:۸۱) اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو نہ نمازوں کی پابندی کرے اور نہ زکوٰۃ ادا کرے۔ پس یہ بات ہمارے غور و فکر کرنے کے لیے اور ساتھ ہی اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ آیا یہ صفات ہمارے اندر موجود ہیں یا ان سے ہم غفلت برت رہے ہیں؟ اور یہ ممکن نہیں کہ ایک بندہ مومن جو اللہ کی صفات سے واقف ہو اور اس کی رحمت اور اس کی جباریت کا علم رکھتا ہو اس کے باوجود بغاوت پر آمادہ ہو جائے تو ایسا شخص کافر ہی ہو سکتا ہے۔
احادیث میں زکوۃ کا تذکرہ: حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس کو کروں تو جنت میں داخل ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ "تو اللہ کی عبادت کر اور کسی کو اس کا شریک نہ بنا اور نماز قائم کر اور زکوٰۃ ادا کر اور رمضان کے روزے رکھ” تو اس اعرابی نے کہا قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس پر زیادتی نہ کروں گا۔ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا "جس شخص کو کسی جنتی کو دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے” حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا "جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کے سر پر دونشان ہوں گے ۔قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر قرآن کی آیت پڑھی اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا”۔ ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا "جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ صرف پاک کمائی کو قبول کرتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لیے پالتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے”۔ جہاں یہ احادیث ہمارے اندر مال و دنیا کی رغبت کم کرتی ہیں، اللہ کا تقویٰ پیدا کرتی ہیں، جہنم کے عذاب سے ڈراتی ہیں، وہیں ہمارے اندر جنت کی طلب پیدا کرتی ہیں، اللہ سے تعلق قائم کرنے میں مدد کرتی ہیں اور اپنے مال کو بطور زکوٰۃ اور بطور صدقہ و خیرات خرچ کرنے پر ابھارتی ہیں۔
انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب: اسلام میں زکوٰۃ ایک طے شدہ مقدار میں اور ایک طے شدہ مدت یعنی ایک سال مکمل ہونے پر ادا کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو انفرادی شخصیت میں مزید بہتری پیدا کرنے کی طرف ابھارتا ہے اور اس کے لیے وہ کہتا ہے کہ یہ تو ایک لازمی عبادت ہے جو مسلمانوں کی اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے جبکہ وہ صاحب نصاب ہو لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر سے دنیا کی رغبت کم کرنے اور مال کی محبت گھٹانے کے لیے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی حاجت ہے جس کے فوائد انسان کو خود ہی حاصل ہوں گے۔ اور فائدہ یہ ہوگا کہ یہ مال جس میں لوگوں کے حقوق ہیں وہ حقوق ادا ہو سکیں گے، ساتھ ہی یہ مال آخرت کی ہولناکیوں اور عذاب جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بنے گا۔ قرآن نے کہا کہ "ہم نے اِن (اہل مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ کوئی استثناء نہیں کر رہے تھے۔رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بَلا اس باغ پر پِھر گئی اور اس کا ایسا حال ہو گیا جیسے کوئی کٹی ہوئی فصل ہو۔ صبح سویرے ان لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو۔ چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں نہ آنے پائے۔ وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ پھل توڑنے پر قادر ہیں۔ مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے "ہم راستہ بھول گئے ہیں، نہیں، بلکہ ہم محروم رہ گئے”۔ان میں سے جو سب سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا "میں نے تم سے کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے”؟ وہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب، واقعی ہم گناہ گار تھے”(القلم۷۱-۹۲) لہٰذا انسان کبھی بھی اس زعم میں مبتلا نہ ہو کہ اس کو مال و دولت اور اولاد کی شکل میں جو رزق دیا کیا گیا ہے وہ اس کی خود کی کمائی ہے، بلکہ اس کو ہمہ وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ وقتی چیزیں ہیں، اور یہ زندگی بھی وقتی ہے جو بہت قلیل ہے۔ لہٰذا جو وقت میسر ہے اس میں کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ کا حق نماز کے ذریعے سے اور اس کے بندوں کا حق زکوٰۃ کے ذریعے سے ادا کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی لاپروائی اور بے احتیاطی سے پرہیز کیا جائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025