ظفر احمد صدیقی : عکس و نقش
محمد عارف اقبال
پروفیسر ظفر احمد صدیقی (10 اگست 1955 – 24 نومبر 2020) کا شمار اردو کے ان اساتذہ میں ہوتا ہے جو اپنی لیاقت اور صلاحیتوں کا نہ صرف علمی و تحقیقی مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اردو اساتذہ کی آبرو کہے جاتے ہیں۔ بنارس میں 18 سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد علی گڑھ میں ان کی ملازمت کا زمانہ 20 دسمبر 1997 سے 31 اگست 2020 تک رہا۔ گزشتہ 30 برسوں میں یونیورسٹی کی سطح پر اردو کے جن اساتذہ کا تقرر ہوا، خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں معدودے چند کے سوا اردو کے بیشتر اساتذہ فارسی زبان سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے بعد بھی کماحقہ صلاحیتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ طلبہ خوش نصیب ہیں جن کو مثالی اساتذہ سے فیض حاصل ہوتا ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے لکھا ہے:
‘‘ظفر احمد صدیقی جدید عہد کے ان معدود چند اہل علم میں ہیں جنہوں نے اردو کی کلاسیکی شعریات کی تفہیم میں عربی و فارسی شعر و ادب کے مآخذ سے براہ راست استفادہ کیا ہے۔ عربی اور فارسی زبان و ادب سے ان کی واقفیت قابل رشک کہی جاسکتی ہے۔ ان کا خاص امتیاز یہ بھی ہے کہ اردو کے تنقیدی مسائل کی گرہ کشائی اور تلاش و تفحص میں انہوں نے عربی و فارسی سے جس طرح استفادہ کیا ہے، اس کی مثال ہمارے زمانے میں کم دیکھنے میں آئی ہے۔’’(مضمون: ظفر احمد صدیقی اور تدوین متن، صفحہ 252)
مذکورہ بالا اقتباس ڈاکٹر مشیر احمد کی تازہ کتاب ‘ظفر احمد صدیقی: عکس و نقش’کا ہے۔ مشیر احمد نے گریجویشن (1998) سے پی ایچ ڈی (2006) تک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی ہے۔ شعبہ اردو، ڈی ڈی یو گورکھپور یونیورسٹی، گورکھپور میں تقریباً چار سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبہ میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مشیر احمد بھی ان خوش نصیبوں میں ہیں جن کو لائق و فائق اساتذہ ملے۔ ان کی پہلی کتاب خطوط غالب کے ادبی مباحث، 2011 میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر مشیر احمد نے زیر نظر کتاب کے مقدمہ کے آغاز ہی میں لکھا ہے کہ ظفر احمد صدیقی نے ’’بے یشمار تحقیقی اور تنقیدی نگارشات کے ذریعے اہل علم کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ان کی علمی صلاحیت اور لیاقت کا دائرہ اردو زبان و ادب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عربی اور فارسی زبان و ادب کے بنیادی نکات کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم و فنون پر بھی انہیں یکساں دسترس حاصل تھی۔‘‘ ڈاکٹر مشیر نے ظفر احمد صدیقی کی دوسری شناخت ’’عمدہ اور بہترین معلّم‘‘ کی بتائی ہے۔ یہ گواہی ایک ایسے شاگرد کی ہے جس نے اپنے استاد محترم ظفر احمد صدیقی سے راست فیض حاصل کیا ہے۔ 34 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر مشیر احمد کا یہ بلیغ ’مقدمہ‘ اس کتاب کے جملہ موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ’مقدمہ‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولف و مرتب پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔
‘ظفر احمد صدیقی: عکس و نقش‘ کو تین حصے میں منقسم کیا گیا ہے۔ ’عکس’کے تحت قریب ترین احباب اور عزیز و اقارب کے تاثرات کو جگہ دی گئی ہے۔ اس حصے میں شعبہ اردو کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر قاضی افضال حسین اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
‘‘.. بنارس ہندو یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران ظفر احمد مدرسہ اسلامیہ ریوڑی تالاب میں حدیث شریف کا درس بھی دیتے تھے، غالباً مسلم شریف کا۔ علی گڑھ میں ظفر کا آنا میرے لیے انتہائی خوشی کی اور شعبہ کے لیے بابرکت بات تھی۔ شعبہ میں ان کی آمد کے ساتھ علم دوستی اور نیکی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہوتی کہ ہمارے نصاب میں جو علوم اس شعبہ کے لوگ عام طور پر پڑھانے پر قادر نہ تھے وہ سب ظفر کو دے دیے گئے اور اکثر صبح اور دوپہر کے وہ کلاسز جو بعض اساتذہ اپنے لیے زحمت تصور کرتے تھے، وہ سب انہیں تفویض کردی گئیں۔ ان دونوں باتوں سے اساتذہ کو اطمینان ہوا اور طلبہ خوش ہوئے۔’’(صفحہ 85)
اس اقتباس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اے ایم یو کے شعبہ اردو میں جو سہولت پسندی پائی جاتی ہے، اس سے وہاں کے طلبہ بھی پریشان رہتے ہیں، لیکن اچھے استاد کی آمد پر ان کے چہرے کھِل اٹھتے ہیں کہ وہاں کے طلبا واقعی اکتسابِ علم کے خواہاں ہیں۔
’نقش‘ کے تحت 19 موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ یہ مضامین ظفر احمد صدیقی کے علمی و ادبی نگارشات کے حوالے سے ہیں۔ لکھنے والوں میں شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر عراق رضا زیدی، ڈاکٹر ٹی آر رینا، پروفیسر طارق سعید، پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی، پروفیسر احمد محفوظ، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر محمد اکرم السلام اعظمی، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر محمد اختر، ڈاکٹر جمشید احمد ندوی، ڈاکٹر لئیق احمد، ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن، ڈاکٹر مامون رشید، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر ابراہیم افسر، ڈاکٹر تجمل حسین اور وسیم احمد علیمی شامل ہیں۔ ان محققین اور نقاد میں تجربہ کار بزرگ بھی ہیں اور نوجوان اسکالرز بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی محققانہ کاوشوں پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے اور تجزیہ کرتے ہوئے اپنی آراء بھی پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے ’ظفر احمد صدیقی کی حاشیہ نگاری‘ پر جو علمی مضمون تحریر کیا ہے اس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں: ‘‘… شرح دیوان اردو غالب از سید علی حیدر نظم طباطبائی : مرتبہ ظفر احمد صدیقی میں جس طرح سے حواشی کا اہتمام کیا گیا ہے، وہ یقیناً علم و تحقیق کی دنیا میں کسی علمی ذخیرے سے کم نہیں۔’’(صفحہ 356)
کتاب کے آخری حصے میں ظفر احمد صدیقی کے پانچ مضامین شامل ہیں۔ پھر عکس تحریر بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ پانچویں مضمون ’اردو زبان کے امتیازات‘ ظفر احمد صدیقی کا ایک عالمانہ توسیعی خطبہ ہے جو 20 مارچ 2015 کو شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیر اہتمام پیش کیا گیا تھا۔ اس کی ترتیب و تہذیب اشفاق احمد عمر نے کی ہے۔ اپنے عالمانہ خطبہ میں ظفر احمد صدیقی ایک جگہ کہتے ہیں:
‘‘عربی کا ایک شاعر ہے شوقیؔ، جس کا اقبال سے موازنہ کیا کرتے ہیں۔ یہ جدید دور کا مصر کا شاعر ہے لیکن اگر آپ شوقی کے کلام کو براہ راست عربی میں پڑھیں تو آپ کہیں گے کہ علامہ اقبال کا جواب شوقیؔ کے پاس بھی نہیں ہے اور حافظؔ بھی مصر کے جدید شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے معاصرین میں ہیں یا ان سے کچھ چھوٹے، وہ بھی اقبال کے ہم پلّہ نہیں ہیں اور ہندوستان کی زبانوں کو چھوڑیے، خود فارسی میں بھی اقبال کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ جب اقبال کے کلام کو جدید دور میں باضابطہ فارسی میں ایران میں شائع کیا گیا تو وہ لوگ اقبال کے بارے میں کہتے ہوئے پائے گئے کہ اقبال جیسا شاعر پورے چھے سو سال یا سات سو سال کی تاریخ میں فارسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔‘‘ (صفحہ 460)
ظفر احمد صدیقی نے اپنا یہ عالمانہ خطبہ زبانی پیش کیا تھا۔ اس کے مطالعے سے موجودہ دور کا کوئی بھی اردو کا پروفیسر یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ ظفر احمد صدیقی جیسی علمی و ادبی گفتگو وہ کیوں کر کرسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اظہر من الشمس ہے۔ اردو، فارسی اور عربی زبان سے واقفیت ہی نہیں بلکہ ان زبانوں کے کلاسیکی ادب سے کسی اردو پروفیسر کا سروکار جب تک نہیں ہوگا، وہ ایسی گفتگو کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے اسلام اور اسلامی تاریخ میں گہری بصیرت رکھنی ہوگی۔ لیکن یہ کام ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔
ڈاکٹر مشیر احمد نے بڑا عمدہ کام کیا ہے کہ انہوں نے ظفر احمد صدیقی کے حیات و کارنامے پر مشتمل یہ کتاب شائع کردی ہے۔ اس کتاب کا بغور مطالعہ یونیورسٹیوں کے موجودہ اساتذہ اور ریسرچ اسکالروں کو لازماً کرنا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024