ذات پر مبنی مردم شماری: کرناٹک میں سماجی انصاف کی نئی صبح؟

پسماندہ طبقات کے لیے موجودہ 32 فیصد ریزرویشن کو بڑھا کر 51 فیصد کرنے کا مطالبہ

0

محمد طلحہ سدی باپا، بھٹکل، کرناٹک

کرناٹک میں ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کو تقریباً ایک دہائی بعد جب کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، تو ریاست کی سیاست، سماج اور اقتدار کے توازن میں زلزلہ سا آ گیا۔ کانت راج کمیشن کی یہ رپورٹ محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں بلکہ دلتوں، پسماندہ طبقات اور نظرانداز کیے گئے طبقات کے لیے سماجی انصاف کی طرف بڑھتا ہوا ایک تاریخی قدم ہے۔
رپورٹ کی ابتدا اور پس منظر
یہ سروے اپریل-مئی 2015 میں کانت راج کمیشن کے ذریعے 1.35 کروڑ گھروں سے کیا گیا، جس میں ریاست کی کل آبادی کا تقریباً 95 فیصد حصہ شامل تھا۔ رپورٹ اگرچہ 2017 میں تیار ہو گئی تھی، مگر سیاسی وجوہات اور اندرونی رکاوٹوں کے سبب اسے پیش نہیں کیا جا سکا۔ بالآخر 2024 میں جے پرکاش ہیگڑے کمیشن نے مکمل رپورٹ، ڈیٹا اور سفارشات کے ساتھ اسے ریاستی کابینہ کو پیش کیا۔
اہم اعداد و شمار اور سفارشات
رپورٹ کے مطابق ریاست میں پسماندہ طبقات کی مجموعی آبادی 70 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 12.58 فیصد (75.25 لاکھ)، ویرشیو لنگایت 11 فیصد (66.35 لاکھ)، اور ووکالیگا 10.29 فیصد (61.58 لاکھ) بتائی گئی ہے۔ دلتوں (شیڈولڈ کاسٹ) کی آبادی 18.2 فیصد اور قبائلی (شیڈولڈ ٹرائب) کی 7.1 فیصد ہے، جب کہ جنرل کیٹیگری صرف 4.9 فیصد (29.74 لاکھ) پر مشتمل ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ پسماندہ طبقات کے لیے موجودہ 32 فیصد ریزرویشن کو بڑھا کر 51 فیصد کیا جائے۔ اس کے لیے موجودہ پانچ زمروں کو تبدیل کرکے چھ زمروں میں تقسیم کرنے اور کیٹیگری 1 میں شامل ذاتوں کے لیے "کریمی لیئر” کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مسلمانوں کی حالت اور کانت راج رپورٹ کا ممکنہ اثر
کانت راج کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کی آبادی کا 16 فیصد حصہ مسلمان ہے، جن میں سے 10 فیصد کا تعلق او بی سی طبقے سے ہے۔ یہ اعداد و شمار ریاست کے مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی پسماندگی کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔
زیادہ تر مسلمان غیر منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں اور تعلیم، روزگار و سیاسی نمائندگی میں ان کی موجودگی کم ہے۔ اگر یہ رپورٹ حکومتی سطح پر نافذ کی جاتی ہے تو او بی سی مسلمانوں کو تعلیم، سرکاری ملازمتوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں بہتر مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
رپورٹ کی بنیاد پر مخصوص اسکیمیں، تعلیمی ریزرویشن، اور سیاسی نمائندگی میں بہتری جیسے اقدامات ممکن ہیں، جو مسلمانوں کی مجموعی حالت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ البتہ، اس عمل میں سیاسی رکاوٹیں بھی متوقع ہیں، لیکن سماجی انصاف کے تناظر میں یہ قدم نہایت اہم اور دیرپا اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
سیاسی طور پر طاقتور طبقات کی مخالفت
ووکالیگا اور ویرشیو لنگایت برادریوں نے رپورٹ کو غیر سائنسی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی کم ظاہر کی گئی ہے اور کئی خاندانوں کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ دونوں برادریوں کے نمائندہ ادارے متبادل مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں اور قانونی کارروائی کے امکانات بھی تلاش کر رہے ہیں۔
اسی طرح برہمن، کرسچن اور یادو برادریوں نے بھی اعداد و شمار کو ناقص قرار دیا ہے۔
کمیشن کی وضاحت
کمیشن کا مؤقف ہے کہ سروے سرکاری عملے کے ذریعے شفاف انداز میں کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں 99 فیصد تک کوریج ہوئی، جب کہ شہری علاقوں، خاص طور پر بنگلور میں، یہ شرح 85 فیصد رہی۔ 5 فیصد آبادی کے چھوٹ جانے کی وجہ ہجرت، گھروں میں عدم موجودگی یا تعاون کی کمی بتائی گئی ہے۔ کمیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ مردم شماری سائنسی اور غیر جانب دار تھی۔
قانونی چیلنجز اور ریزرویشن کا تناسب
رپورٹ میں پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن 51 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کی طے کردہ 50 فیصد حد سے تجاوز کرتا ہے۔ اس میں اگر 24 فیصد ریزرویشن (ایس سی/ایس ٹی) اور 10 فیصد ای ڈبلیو ایس (جو کہ ریاست میں نافذ نہیں ہوا) شامل کیا جائے، تو مجموعی ریزرویشن 85 فیصد تک پہنچ جائے گا، جس سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اب وقت ہے آگے بڑھنے کا
اب جبکہ وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ مردم شماری میں ذات پر مبنی ڈیٹا شامل کرنے کا اعلان کیا ہے، تو ریاستوں کو اس حوالے سے پس و پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بچتا۔ جب مرکز خود اس اصول کو تسلیم کر چکا ہے، تو کرناٹک جیسے ریاستوں کو بھی بلا تاخیر رپورٹ پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
بہار میں بھی ایسی ہی مردم شماری کے بعد اعلیٰ ذاتوں کی مخالفت نے وہاں کے سیاسی ماحول کو گرما دیا تھا۔ لیکن بہار کی حکومت نے اس مخالفت کے باوجود پالیسی اقدامات کے لیے بنیاد فراہم کی۔ کرناٹک میں بھی ایسی ہی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔
راہل گاندھی کا نعرہ — "جس کی جتنی سنکھیا، اس کی اتنی حصہ داری” — اب محض انتخابی نعرہ نہیں، بلکہ عوامی مطالبہ بن چکا ہے۔
اس نعرے میں پسماندہ طبقات، دلتوں اور مسلمانوں کے وہ خواب شامل ہیں جو برسوں سے ادھورے رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سدارامیا اور سماجی انصاف کا وعدہ
جب سدارامیا نے پہلی بار 2013 میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا، تو انہوں نے خود کو سماجی انصاف کا علمبردار قرار دیا اور اسی جذبے کے تحت اس مردم شماری کا آغاز کیا۔ 2023 میں جب وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے، تو ایک بار پھر یہی نعرہ اُن کی سیاست کا مرکزی نکتہ تھا۔ اب جبکہ اُن کی موجودہ مدت کا نصف مکمل ہو چکا ہے اور ڈی کے شیوکمار کے ساتھ دو سالہ اقتدار کی شراکت داری کا وعدہ قریب الختم ہے، تو اُن پر یہ اخلاقی اور سیاسی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس رپورٹ کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اس پر عملدرآمد کا واضح لائحہ عمل بھی پیش کریں۔ یہ اُن کے سماجی انصاف کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کا نادر موقع ہے۔
نتیجہ: ایک تاریخی موقع
یہ رپورٹ ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے یا تو سماجی انصاف کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے یا پھر پرانی سیاست کی دلدل میں اس موقع کو دفن کیا جا سکتا ہے۔
اگر اس رپورٹ کو مکمل طور پر نافذ کر دیا گیا تو یہ دلتوں، پسماندہ طبقات اور نظرانداز قوموں کے لیے ان کے وقار، حقوق اور عزتِ نفس کی بحالی کا سفر بھی شروع ہوگا۔
"سماجی انصاف کوئی خیرات نہیں، یہ قوم کی بنیاد ہے — جس دن ہر فرد کو اس کا جائز مقام ملے گا، وہ دن ترقی اور انصاف کا اصل آغاز ہوگا۔”
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025