!ذات پات پر مبنی مردم شماری ، منووادی نظام کے حامیوں کے لیے ناقابل قبول

آر ایس ایس کی تائید بی جے پی کو لگنے والے انتخابی دھچکوں سے بچانے کی کوشش

شہاب فضل، لکھنؤ

ریزرویشن کے غلط نفاذ کے سبب یو پی میں اساتذہ کی بھرتی زیر التوا، نوجوان احتجاج پر مجبور
ذات پات یا کاسٹ سسٹم بھارت کی ایک سماجی حقیقت ہے جس کے وجود یا معنویت کو وہی جھٹلا سکتا ہے جسے یا تو بھارتی معاشرہ کی سمجھ نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریہ ساز تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے جب گزشتہ دو ستمبر کو کیرالا میں اپنی تین روزہ میٹنگ کے بعد ذاتوں کی مردم شماری کے لیے نامہ نگاروں کے سامنے رضا مندی ظاہر کی تو اس کا تذکرہ زور و شور سے شروع ہونے لگا کہ آخر آر ایس ایس کو اپنے روایتی موقف سے کیوں ہٹنا پڑا اور کہیں یہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو لگنے والے دھچکے سے پارٹی کو باہر نکالنے کی ایک کوشش تو نہیں۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی لوک سبھا انتخابات 2024 کی مہم میں لگاتار ذاتوں کی مردم شماری کا موضوع اٹھاتے رہے اور لوک سبھا میں بھی انہوں نے کہا ‘‘ہم ذاتوں کی مردم شماری کرواکے رہیں گے’’۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں بھی اسے شامل کیا گیا۔ راہل گاندھی نے ریزرویشن کی پچاس فیصد کی حد کو بھی بڑھانے کی بات کہی ہے۔ سوشلسٹ پارٹیوں بشمول سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور این ڈی اے میں شامل جنتا دل (متحدہ) کی جانب سے ذاتوں کی مردم شماری کا مطالبہ شدت سے کیا جاتا رہا ہے۔ بہار میں تو ذاتوں کا سروے کیا بھی گیا جس کی رپورٹ نتیش کمار کی حکومت نے عام کردی اور اس بیانیہ کو مزید تقویت دی کہ سماجی انصاف اور وسائل و مواقع تک سبھی کی رسائی کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر ذاتوں پر مبنی مردم شماری کرائی جائے ۔
بہار میں ذاتوں کے مردم شماری میں یہ ابھر کر سامنے آیا کہ دیگر پس ماندہ طبقات (او بی سی) اور انتہائی پس ماندہ طبقات (ای بی سی) کی آبادی ریاست کی مجموعی آبادی میں تریسٹھ فیصد ہے جب کہ ایس سی اور ایس ٹی اکیس فیصد سے کچھ زائد ہیں۔ اسی مردم شماری کے بعد بہار حکومت نے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے مجموعی ریزرویشن فیصد کو پچاس سے بڑھا کر پینسٹھ فیصد کردیا تھا۔ حالانکہ پٹنہ ہائی کورٹ نے اس پر روک لگادی ہے جس کے بعد راشٹریہ جنتا دل اس معاملہ کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی جہاں یہ معاملہ زیر غور ہے۔
ذات پات پر مبنی مردم شماری اور ‘منوواد
خودساختہ ثقافتی تنظیم آر ایس ایس کے ترجمان سنیل آمبیکر نے پالکاڈ، کیرالا میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ذات پات کی مردم شماری ان طبقوں یا ذاتوں کے لیے فلاحی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے خاطر صحیح اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے درست ہے، ‘‘لیکن اسے صرف ان برادریوں اور ذاتوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا جانا چاہیے۔ اسے انتخابات کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے’’۔ جس مسئلہ کو برسوں سے سیاسی گفتگو اور بیانیہ کا موضوع بنایا جاتا رہا ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے سمجھ سے بالاتر ہے۔
ذات پات پر مبنی سروے اور اس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہندوستان کے لیے جامع ترقی کو یقینی بنانے کا ایک بہترین آلہ ثابت ہوسکتا ہے، لیکن یہ خیال ہندتو کے نظریہ اور ‘منوواد’ کے برعکس ہے۔ آرگنائزر کے سابق ایڈیٹر شیشادری نے دی پرنٹ میں اپنے مضمون بعنوان ‘‘آر ایس ایس کو تنگ سیاسی مطالبات کے آگے نہیں جھکنا چاہیے۔ ذات پات کی مردم شماری ہندو سماج کو تقسیم کر دے گی‘‘، میں اسی موقف کو پیش کیا ہے۔ آر ایس ایس کے ہفت روزہ ‘پانچ جنیہ’ میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کے خلاف سخت مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ اسی لیے اب ذات پات پر مبنی مردم شماری کو آر ایس ایس کی حمایت، بی جے پی کے لیے مسائل پیدا کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اتر پردیش کی صورت حال سے اس پیچیدگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اتر پردیش میں ریزرویشن کی پالیسی کا غلط طریقہ سے نفاذ!
2019 ء میں اترپردیش میں انہتر ہزار ٹیچروں کی بھرتی کا امتحان ہوا تھا مگر اس کے نتائج میں محفوظ زمرہ کے امیدواروں کی فہرست تیار کرتے وقت ریزرویشن پالیسی کا غلط طریقہ سے نفاذ کیا گیا۔ جب یہ معاملہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں گیا تو عدالت نے ثبوتوں اور دلائل کی بنیاد پر کہا کہ اس میں گڑبڑ ہوئی ہے۔ عدالت نے ریزرویشن کا درست نفاذ کرتے ہوئے تین مہینے کے اندر منتخب امیدواروں کی نئی فہرست بنانے کا حکم گزشتہ 13 اگست 2024 کو ریاستی حکومت کو دیا ہے۔موجودہ وقت میں محفوظ زمرہ کے یعنی دلت اور او بی سی امیدوار مظاہرہ کر رہے ہیں اور خاص طور سے ریاستی حکومت کے او بی سی وزراء اور لیڈروں بشمول نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ، تکنیکی تعلیم کے وزیر آشیش پٹیل، ان کی اہلیہ و مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل، بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر سنگھ چودھری اور پنچایتی راج کے وزیر اوم پرکاش راج بھر کے گھروں کے باہر دھرنا دے رہے ہیں۔
اس میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ محفوظ زمرہ کے امیدوار، جنہوں نے امتحان میں جنرل کٹ آف سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے انہیں جنرل زمرہ کے بجائے محفوظ زمرہ میں رکھا گیا۔ چار برس ہوگئے ہیں اور یہ بھرتی ریاستی حکومت کی غلط پالیسی اور قانونی چارہ جوئی کے باعث مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ احتجاج کرنے والے امیدواروں کو خدشہ ہے کہ اگرچہ ہائی کورٹ نے طویل قانونی جنگ کے بعد انہیں راحت فراہم کردی ہے لیکن اگر اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو معاملہ ایک بار پھر قانونی الجھن کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت منتخب امیدواروں کی نئی فہرست جلد از جلد تیار کر کے اساتذہ کی تقرری کا عمل شروع کرے اور ریزرویشن کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ناقص فہرستیں بنانے والے افسروں کے خلاف کارروائی کرے۔
محفوظ زمرے کے امیدواروں کا کہنا ہے کہ ریزرویشن پالیسی کے نفاذ میں تضادات ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنرل زمرہ کے امیدواروں کے کٹ آف سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے باوجود، انہیں جنرل زمرہ کی اسامی کے تحت بھرتی کرنے کے بجائے محفوظ امیدواروں میں شمار کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں محفوظ زمرہ کو ان کے مقررہ کوٹہ کے مطابق نمائندگی نہیں دی گئی اور پچاس فیصد سے زائد جنرل زمرہ کے امیدواروں کو منتخب کیا گیا۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے ان الزامات کی توثیق کی کہ ان تقرریوں کے دوران ریزرویشن پالیسی کے نفاذ میں تضادات تھے۔ ریاستی حکومت پہلے ہی اس کا اعتراف کر چکی ہے، حالانکہ اس نے کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرے گی اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کرے گی لیکن احتجاج کرنے والے او بی سی اور دلت امیدوار اس پر مطمئن نہیں ہیں ۔
ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے 13 اگست کو اکیانوے درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت اترپردیش کو ہدایت دی کہ وہ ریزرویشن پالیسی کو اتر پردیش پبلک سروسز (ریزرویشن آف شیڈولڈ کاسٹس، شیڈولڈ ٹرائبس اینڈ ادر بیک ورڈ کلاسیز) ایکٹ 1994 کے سیکشن 3 (6) کے مطابق نافذ کرے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ اگر کوئی محفوظ زمرہ کا امیدوار جنرل زمرے کے لیے مقرر کردہ میرٹ کے مساوی میرٹ حاصل کرتا ہے تو میرٹ پانے والے محفوظ زمرہ کے امیدوار کو جنرل زمرہ میں منتقل کردیا جائے گا۔
سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے یوگی آدتیہ ناتھ حکومت پر ریزرویشن کا حق چھیننے کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ انہتر ہزار امیدواروں کے ساتھ اور خاص طور سے ریزرویشن کے ساتھ اتنا کھلواڑ کسی حکومت نے نہیں کیا جتنا کہ بی جے پی کی حکومت کر رہی ہے۔
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بھی یہ سوال کیا ہے کہ حکومت اتر پردیش یہ وعدہ کرنے کے باوجود کہ وہ عدالت کے حکم پر مکمل طور پر عمل کرے گی، ابھی تک تقرری نامے کیوں جاری نہیں کر رہی ہے۔
اگرچہ حکومت کے پاس اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت ہے، لیکن اس پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ بھرتی کا تعلق ریزرویشن جیسے حساس مسئلے سے ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے نے بی جے پی کے لیے مزید مشکلیں کھڑی کی ہیں کیونکہ اتر پردیش میں جلد ہی دس اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔
اکھلیش یادو ذات کی مردم شماری کو سماجی انصاف کا راستہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سماج تقسیم نہیں ہوگا بلکہ جڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سماج کو بانٹتے رہے ہیں ، توڑتے رہے ہیں وہ لوگ اگر کہیں کہ ذات کی مردم شماری سے سماج میں دوریاں بڑھیں گی تو اس سے بڑا دوغلاپن اور کچھ نہیں ہوگا۔
ذات پر مبنی مردم شماری کیسے ہوسکتی ہے؟
ہندوستان میں ہر دس سال میں ہونے والی مردم شماری پچھلی بار 2011ء میں ہوئی تھی۔اب غالباً اسی حساب سے پھر مردم شماری شروع ہوگی جس میں توقع یہ کی جارہی ہے کہ مردم شماری کے فارم میں کئی تبدیلیاں کی جائیں گی۔
سماجی کارکن اور کالم نگار یوگیندر یادو نے گزشتہ 3 ستمبر کو انڈین ایکسپریس کے اپنے کالم میں ذات پر مبنی مردم شماری کے سلسلہ میں کئی اہم باتیں گوش گزار کی ہیں۔ مردم شماری میں 1931ء کے بعد سے ہر شہری کی ذات نہیں پوچھی گئی ہے، تاہم آزاد ہندوستان میں ہونے والی مردم شماری میں اس سوال کا جواب ضرور ریکارڈ کیا جاتا رہا ہے کہ آیا جواب دہندہ کا تعلق درج فہرست ذات (ایس سی) سے ہے یا درج فہرست قبائل (ایس ٹی ) سے؟ یہی نہیں، مردم شماری میں ایس سی اور ایس ٹی کے تعلیمی اور معاشی اشاریے پر مبنی ذات وار معلومات کو بھی درج کیا جاتا ہے۔
1931ء کی مردم شماری میں شہریوں کی ذات کا اندراج کیا گیا تھا اور نوے جلدوں پر مشتمل پیپل آف انڈیا بھی موجود ہے جو ہندوستان کی تمام ذاتوں اور قبائل پر ایک انسائیکلوپیڈیا ہے اور جسے اینتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا نے مرتب کیا ہے۔
یوگیندر یادو کے مطابق مردم شماری میں جو فارم استعمال کیا جاتا ہے اسی میں کچھ تبدیلیاں کرکے ذات کی مردم شماری کی جاسکتی ہے۔ اس میں عمر، جنس ، تعلیم، پیشہ، گھر کا رقبہ، نوعیت، زمین، بڑے گھریلو اثاثوں اور پانی، بجلی اور کھانا پکانے والی گیس تک رسائی جیسی معلومات کے ساتھ ذات کا کالم شامل کیا جائے۔ اس سے بالکل اسی قسم کا ڈاٹا حاصل ہوگا جسے سپریم کورٹ نے مستند اور ثبوتوں پر مبنی سماجی پالیسی کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ اس طرح کے ڈاٹا سے سماجی، تعلیمی و اقتصادی بہبود کی پالیسیوں کی تیاری میں بہت مدد ملے گی۔
مردم شماری میں سبھی مذاہب کے شہری اپنی ذات درج کرسکیں گے اور اگر کوئی شخص اپنی ذات درج نہیں کرنا چاہتا تو وہ اسی طریقہ سے ذات کے کالم میں ‘‘کوئی ذات نہیں’’ درج کرسکتا ہے جیسے کہ مذہب کے کالم میں کئی شہری یہ درج کرتے ہیں کہ ان کا ‘‘کوئی مذہب نہیں’’ ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی پر حملے اور جوابی وار
کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مسئلہ پر آر ایس ایس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘آر ایس ایس کے لوگ نیا آئین نہیں چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ منوسمرتی کی بنیاد پر آئین ہند بنے اور اسی لیے یہ لوگ آئین کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ریزرویشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں’’۔ انہوں نے کہا کہ مودی اور آر ایس ایس، بابا صاحب کے بنائے ہوئے آئین کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس طرح کے بحث و مباحثے چل رہے ہیں کہ ذات پر مردم شماری ہونی چاہیے یا نہیں؟ دلت مفکرین اور کارکن زور وشور سے اس معاملہ کو اٹھا رہے ہیں حالانکہ برہمن نواز لوگ بھی اپنی دلیلیں دے رہے ہیں مگر دلت رہنما اور کارکن مستعد ہیں اور ان کا جواب دے رہے ہیں۔
اس بات کی بھی نشان دہی کی جارہی ہے کہ لیٹرل انٹری کے نام پر بھاجپا کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ریزرویشن کو درکنار کرکے اعلیٰ عہدوں پر تقرری کی کوشش کی جسے اپوزیشن کے دباؤ میں پچھلے دنوں مسترد کرنا پڑا۔ حالانکہ اس سے قبل کئی سرکاری محکموں میں تقرری کی بھی جاچکی ہے۔ اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اساتذہ کی بھرتیوں میں ایک خاص پس منظر کے لوگوں کو براہ راست بھرتی کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بے شمار محکموں اور اداروں میں محفوظ عہدوں کو بھرا ہی نہیں جارہا ہے۔ برسہا برس سے این ایف ایس یعنی کوئی اہل امیدوار نہیں پایا گیا کہہ کر عہدے خالی رکھے جارہے ہیں۔
کیرالا میں آر ایس ایس کی میٹنگ کے بعد کیرالا مسلم کانفرنس کے لوگوں نے زور دے کر کہا کہ ریزرویشن ایک آئینی حق ہے، سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ کمیونٹیز (ایس ای بی سی) کے لیے دیگر ترقی یافتہ برادریوں کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے لیے ریزرویشن ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریزرویشن سے انکار آئین کی خلاف ورزی ہے۔
کیرالا مسلم کانفرنس کے جنرل کنوینر اے کے سلطان نے کہا کہ ذات پات کی مردم شماری کرانے پر آر ایس ایس کا تازہ موقف خوش آئند ہے۔ کانفرنس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں سرکاری خدمات میں آبادی کی بنیاد پر ریزرویشن کو لاگو کرنے کے لیے ضروری قانون سازی کریں۔
کیرالا میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نے ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری کی تائید کرکے دراصل اسی قدیم موقف کا اعادہ کیا ہے جو مسلمانوں نے آئین کی تیاری کے وقت اپنایا تھا اور ایس سی،ایس ٹی ریزرویشن کی حمایت کی تھی تاکہ صدیوں سے استحصال کے شکار طبقات کو انصاف مل سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ہر سماج، برادری اور کمیونٹی کی سماجی، تعلیمی و معاشی صورت حال ، روزگار، فی کس آمدنی، اثاثہ جات ، وسائل تک رسائی جیسے امور کا پتہ چل سکے گا۔ اس سے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی میں ذیلی زمرے بنانے میں بھی مدد ملے گی جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے تاکہ ریزرویشن کے فوائد ہر ذات کے لوگوں کو ملنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

 

***

 ذات پات پر مبنی سروے اور اس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہندوستان کے لیے جامع ترقی کو یقینی بنانے کا ایک بہترین آلہ ثابت ہوسکتا ہے، لیکن یہ خیال ہندتو کے نظریہ اور ‘منوواد’ کے برعکس ہے۔ آرگنائزر کے سابق ایڈیٹر شیشادری نے دی پرنٹ میں اپنے مضمون بعنوان ‘‘آر ایس ایس کو تنگ سیاسی مطالبات کے آگے نہیں جھکنا چاہیے۔ ذات پات کی مردم شماری ہندو سماج کو تقسیم کر دے گی‘‘، میں اسی موقف کو پیش کیا ہے۔ آر ایس ایس کے ہفت روزہ ‘پانچ جنیہ’ میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کے خلاف سخت مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ اسی لیے اب ذات پات پر مبنی مردم شماری کو آر ایس ایس کی حمایت، بی جے پی کے لیے مسائل پیدا کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اتر پردیش کی صورت حال سے اس پیچیدگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024