ذات پات کی مردم شماری : کمنڈل پر منڈل کی ضربِ کاری
بی جے پی کے لیے ’ دھرم سنکٹ‘ ۔ پسماندہ ووٹوں کی سیاست دوراہے پر
ڈاکٹر سلیم خان
80 بنام 20 کی ہندو۔ مسلم سیاست کرنے والوں کواب 85فیصد پسماندہ بمقابلہ 15فیصد غیرپسماندہ کی سیاست کا سامنا!
افتخار عارف کہتے ہیں ’ مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے‘ اسی طرح منڈل اور کمنڈل کی رقابت بھی کم قدیم نہیں ہے۔ منڈل ملک میں سماجی انصاف کی علامت ہے جبکہ کمنڈل ہندوتوا کے نسلی تفریق و امتیاز کی نشانی ہے۔ آریہ قوم کا مشرق وسطیٰ سے گنگا کی وادی میں وارد ہونا تو تقریباً تسلیم شدہ حقیقت ہے مگر ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے غائب ہوجانے والے دو قبائل میں سے ایک تھے۔ ہندوستان میں آنے کے بعد ان لوگوں نے وہی کیا جو نازی جرمنی کے چنگل سے نکل کر فلسطین میں موجودہ دور کے صیہونی کررہے ہیں۔ وہ موسیٰؑ کی شریعت کو چھوڑ کر اپنے اوپر ظلم کرنے والے فرعون کی حکمت عملی پر چل پڑے۔ فرعون سے متعلق ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔ قدیم ہندوستان میں موقع پاتے ہی آریہ قوم فرعون بن گئی ۔ وہ مقامی باشندوں کے ساتھ وہی سب کرنے لگی جو فرعون ان کے ساتھ کرتا تھا ۔
آریہ نسل کے غاصبوں نےنسلی تفریق کی بنیاد پر اس ملک کے باشندوں کو اپنا غلام بنالیا اور جن پر زور نہیں چلا انہیں بزورِ قوت جنوب میں دھکیل دیا۔ وہ لوگ آج بھی خود کو آریہ قوم کی حریف نسل یعنی دراوڑ کہتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں سناتن کے خلاف تمل ناڈو اور کرناٹک سے اٹھنے والی آوازیں اسی تشخص اور حریت فکر کا نمونہ ہیں ۔ شمالی ہند میں اس ظالمانہ رویہ کے خلاف بودھ اور جین مذاہب نے بغاوت کی تو ان میں سے اول الذکر کو دیس نکالا کردیا ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ بدھ مت ایشیا کے مشرقی ممالک میں تو خوب پھلا پھولا مگر اس ملک میں اس کی بیخ کنی ہوگئی ۔ یہ ایک منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ ہے اور اس کارنامہ کے لیے شنکر آچاریہ کی خوب تعریف کی جاتی ہے۔ ان کو مذہب کا بہت بڑا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ موخرالذکر جین مت کواس طرح نگل لیا گیا کہ اس کی شناخت ہی ختم ہوگئی اور اب یہ حال ہے کہ جینیوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی فرق ہی باقی نہیں رہا۔ سکھوں پر بھی یہ داو آزمانے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی نہیں ملی ۔
آریہ نسل پرست تعداد میں کم تھے اور آج بھی کم ہی ہیں۔ اس لیے مدمقابل کو اپنے سےچھوٹا کرنے کے لیے انہیں منقسم کرنا ضروری تھا ۔ وطن عزیز میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے ذات پات کی بنیاد بناکراسے مذہبی تقدس عطا کیا گیا ۔ شرک ، اوتار اور پنر جنم کے مثلث کی مدد سے ایک ایسا سماجی حرم تعمیر کیا گیا جس میں سب سے اوپر برہمن تھے ۔ ان کا کام کرم کانڈ کے ذریعہ عام باشندوں کو باطل عقائد کے چنگل میں پھنسا کر غلام بنائے رکھنا تھا ۔ اس کے نیچے چھتری طبقہ سرکار دربار چلاتا اور جنگ و جدال کرتا تھا۔ ویش تجارت کرتے اور شودر کھیتی باڑی و مزدوری کیا کرتے تھے۔ یہ تقسیم پیشہ ورانہ نہیں بلکہ نسلی تھی۔ اسی لیے شودروں کے کان میں اشلوک پڑھنے کی سزا کے طور پر سیسہ پگھلاکر ڈال دیا جاتا تھا اور ایک لویہ کا انگوٹھا کاٹ کر اپنے گرو کے چرنوں میں رکھ دینا قابلِ تعریف سعادتمندی کہلاتا تھا حالانکہ اس کا مقصد ان کو تیراندازی سے روکنا تھا ورنہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ ایک لویہ نے برضا و رغبت ایسا کیا ہو۔ بعید نہیں کہ زبردستی اس کی انگلی کاٹ کر الزام اسی کے سر منڈھ دیا گیا ہو جیسا کہ آج کل ہوتا ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ حماقت خوشنما بنا دی گئی تاکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب ملے اوراگر کوئی انکار کرے تو اس پر زور زبردستی کرنے کا جواز فراہم ہوجائے ۔ اس طرح ظالموں کی پردہ پوشی ہوتی رہے۔ آج یہ سب ہورہا ہے اس لیے اس کا سمجھنا آسان ہے ۔ منی پور میں نہ تو مظلوم خواتین کو بلوائیوں کے حوالے کرنے والے پولیس والوں کو سزا دی جاتی ہے نہ ان کی عصمت تار تار کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے بلکہ جس نے اس ظلم کو ویڈیو بناکر وائرل کیا اسی پر کارروائی ہوتی ہے۔ محمد زبیر اس طرح کی زیادتی کا شکار کئی بار ہوچکے ہیں۔ اب یہ بات طشت ازبام ہوچکی ہے کہ ہندوتوا نواز پھر سے ملک کو اسی تاریک دور میں لے جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔انہیں افسوس ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں نے اس ظلم وجبر کی چکی کو روک دیا اس لیے وہ ایک ہزار سال پرانے ہندوستان میں لوٹ جانا چاہتے ہیں جس کی بابت خود موہن بھاگوت اعتراف کرچکے ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
مسلم حکمرانوں نے ان لوگوں کا سیاسی زور تو توڑا مگر سماجی سطح پر اس رویہ کی مکمل بیخ کنی نہیں کرسکے اور انگریز بھی اس کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس لیے معاشرے کے اندر یہ کھچڑی ٹھنڈی آنچ پر پکتی رہی ۔منڈل تحریک دراصل اسی ظالمانہ طرز فکر کے خلاف بغاوت کی ایک کڑی ہے۔ امکان ہے کہ رب کائنات اس کے ذریعہ اس بشارت کو پورا کرے جس کے بارے میں کہا گیا:’’ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں‘‘۔ ملک میں اپنے نسلی تسلط کو برقرار رکھنے کی خاطر جو تحریکات مصروف ہیں وہ اس خطرے سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں سماجی ، معاشی و تعلیمی حیثیت سے پسماندہ طبقات کی پیمائش کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکی ۔ اس کے برعکس اس نے مردم شماری کے رجسٹر سے ذات پات کا کالم ہی نکال دیا ۔
یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ 1881ءمیں پہلی بار انگریزوں نے مردم شماری کروائی تو اس میں ذات کا بھی اندراج تھا۔ یہ سلسلہ ہر دس سال میں ایک مرتبہ 1931 تک جاری رہا۔ 1941 میں مردم شماری تو ہوئی مگر اس کے اعدادو شمار منکشف نہیں کیے گئے۔ آزادی کے بعد 1951میں جو مردم شماری ہوئی اس میں درج ذیل ذات یعنی دلت اور قبائل کی معلومات حاصل کی گئی کیونکہ انہیں ریزرویشن دینا ایک آئینی مجبوری تھی مگر دیگر ذاتوں پر پردہ ڈال دیا گیا۔ آئین ساز کمیٹی میں موجود پنڈت جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل ، ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے معمر رہنماچونکہ ہندوستانی سماج سے ذات پات کے نظام کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے اس لیے ان کی یہ متفقہ رائے تھی کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے سماج تقسیم ہوگا اور نسلی بھید بھاو کے نظام کو تقویت ملے گی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا خیال تھا کہ دس سال تک ریزرویشن دینے کے بعد دلت سماج اور پسماندہ قبائل بھی تعلیمی ، معاشی اور سیاسی سطح پر دیگر سماج کے برابر ہوجائیں گے۔
اس زمانے میں چونکہ عالمی سطح پر اشتراکیت کا غلبہ تھا اور پنڈت نہرو خود اس کے دلدادہ تھے اس لیے انہیں امید رہی ہوگی کہ ذات کے بجائے طبقہ واری کشمکش سماجی تفاوت کا خاتمہ کردے گی مگر اصلاح کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا ۔ وقت کے ساتھ نام نہاد اونچی ذاتوں کی سیاسی و سماجی برتری کے خلاف غم و غصہ بڑھنے لگا ۔ اترپردیش میں رام منوہر لوہیا اور بہار میں کرپوری ٹھاکر جیسے لیڈروں نے اس کے خلاف پوری قوت سے صدائے احتجاج بلند کی پسماندہ ذاتوں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ اپنی موت سے قبل 1967میں رام منوہر لوہیا اترپردیش میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے چودھری چرن سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب سنگھ کو اقتدار کے گلیارے میں جگہ ملی تھی ۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ اس وقت منڈل اور کمنڈل کے علمبردار اپنے سارے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی مفاد کی خاطر ساتھ آگئے تھے۔ اس طرح دو مرتبہ سابق کانگریسی چودھری چرن سنگھ کبھی کانگریس کے خلاف تو کبھی اس کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے ۔ یہاں تک کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا دی ۔ اس کے بعد جب مرارجی دیسائی نے مرکز میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت تک ذات پات کی بنیاد پر قائم ہونے والی علاقائی جماعتیں اس قدر طاقتور ہوچکی تھیں کہ ان کے دباو میں مرکز ی حکومت کو دیگر پسماندہ طبقات کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی نمائندگی کا اندازہ لگانے کے لیے منڈل کمیشن کے قیام کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ ہندوستان کی مروجہ سیاست کے اندر ایک انقلابی اقدام تھا ۔
منڈل کمیشن کی رپورٹ ایک سال میں تیار تو ہوگئی مگر پھر کانگریس نے چودھری چرن سنگھ کی حمایت کرکے مرارجی دیسائی کی سرکار گرادی ۔ اقتدار کی تبدیلی نے منڈل کی رپورٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ۔ کانگریس انتخاب جیت گئی تو اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے دورِ اقتدار میں کمیشن کی رپورٹ دھول چاٹتی رہی ۔ دس سال کے بعد جب تاریخ نے پلٹا کھایا توپھر ایک بار منڈل اور کمنڈل کے علمبردار ایک ساتھ آگئے ۔ سابق کانگریسی وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت کو بیک وقت بی جے پی اور اشتراکیوں کی بیرونی حمایت حاصل تھی۔ وی پی سنگھ پر جنتا دل میں موجود حریف دیوی لال پر ملائم سنگھ یادو یا لالو پرشاد یادو جیسے ابھرتی ہوئی قیادت کا دباو تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ ایک ایسا زخم تھا جس سے بی جے پی بلبلا اٹھی۔ اسی کے ایماء پر ملک بھر میں اس کے خلاف نام نہاد اونچی ذات کے طلبا نے احتجاج شروع کردیا۔ دہلی میں ایک طالب علم کو زندہ جلا کر اس کو خود سوزی کا نام دیا گیا جس سے ملک بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔
بی جے پی کےسابق صدر لال کرشن اڈوانی نے حکومت کی حمایت واپس لیتے ہوئے وزیر اعظم کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ آپ نے تو ہمارے لیے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا ۔ اس کے بعد سرکار گر گئی۔ کانگریس کی مدد سے چندر شیکھر وزیر اعظم بنے لیکن بالآخر نرسمہا راو کے پاس اقتدار آگیا۔ اس طرح منڈل کمیشن کی سفارشات دوبارہ ٹھنڈے بستے میں چلی گئیں۔ رام مندر کی تحریک پہلے وشو ہندو پریشد کا پروجیکٹ تھا اور بی جے پی کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بی جے پی نے منڈل کے خلاف کمنڈل تھام کر رام مندر تحریک کو پوری طرح اپنا لیا۔ اڈوانی کی رام رتھ یاترا دراصل منڈل کا توڑ تھی۔ اسی کے ساتھ بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر کانشی رام نے اترپردیش میں اپنی جڑیں مضبوط کرکے کانگریس کے دلت رائے دہندگان کو اغوا کرلیا تھا۔ بابری مسجد کے حوالے سے نرسمہا راو کی سرد مہری نے اتر پردیش کے مسلمانوں کو کانگریس کے خلاف سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں منقسم کردیا تھا۔ ملک کا مسلمان کانگریس، بی جے پی کا متبادل تلاش کررہے تھے۔
اس سیاسی تناظر میں نرسمہا راو انتخاب ہار گئے اور بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اٹل جی کی سرکار اعتماد کا ووٹ حاصل کیے بغیر تیرہ دن میں گر گئی۔ کانگریس نے اپنی حمایت سے دیوے گوڑا اور اندرا کمار گجرال وزیر اعظم بنوایا۔ یہ سانجھے کی ہانڈی پھوٹی تو اس کا فائدہ اٹھا کر کانگریس تو اقتدار میں نہیں آسکی مگر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی کو دوسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا ۔ جئے للیتا کی حمایت واپس لینے سے یہ سرکار تیرہ ماہ بعد گری تو اٹل جی نے کارگل کی تصویر دِکھا کر پھر انتخاب جیت لیا۔ این ڈی اے کی مخلوط حکومت میں چونکہ جارج فرنانڈیز ، نتیش کمار، ممتا بنرجی اور رام ولاس پاسوان جیسے لوگ شامل تھے اس لیے اٹل بہاری واجپائی اور اڈوانی کی جوڑی مودی اور شاہ کی مانند کھلا کھیل فرخ آبادی نہیں کھیل سکی۔ اس دوران کمنڈل اور منڈل دونوں سیاسی ایجنڈے سے غائب تھے۔ اٹل جی کا شائننگ انڈیا انہیں چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بنا سکا اور2004 میں سونیا گاندھی نے کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی بنادیا اور منموہن سنگھ کی مخلوط حکومت عالمِ وجود میں آگئی۔ اس سرکار کے اندر ملائم سنگھ یادو اور لالو پرشاد یادو طاقتور وزراء تھے اس لیے 2010 میں ان رہنماوں نے منڈل کمیشن کے نفاذ کی خاطر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کیا۔ اس مرحلے میں کانگریس کے پسماندہ لیڈر بھی حمایت میں اٹھ کھڑےہوئے اور منموہن سنگھ بھی تیار ہوگئے کیونکہ جن نام نہاد اونچی ذات کی ناراضی کا خطرہ پہلے تھا وہ اب ختم ہو چکاتھا۔ اترپردیش کےبرہمن بہوجن سماج پارٹی اور بی جے پی میں بٹ گئے تھے اور راجپوت و بنیا تو ہمیشہ ہی کمل کے ساتھ رہتے تھے۔
منموہن سرکار نے 2011 میں سماجی و معاشی ذاتوں کی مردم شماری کا فیصلہ کیا۔ 2013 میں 4 ہزار 389 روپے کے بجٹ سے یہ کام پورا ہوا مگر اس کو پیش کرنے سے قبل 2014 میں بی جے پی کو اپنے بل پر حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کے باوجود 2015 میں بہار اسمبلی انتخاب سے قبل سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کے اعدادوشمار جاری کرنے وعدہ کیا جو آگے چل کر ایک سیاسی جملہ ثابت ہوا۔ 2016 میں مودی سرکار نے ذاتوں کے اعدادو شمار کے علاوہ رپورٹ کو جاری کیا کیونکہ پلاننگ کمیشن کے سربراہ کی قیادت میں جس کمیٹی کو جائزہ لینا تھا اس میں ارکان کا تقرر ہی نہیں ہوا۔ اب مودی سرکار نے نیا بہانہ تلاش کرلیا تھا۔ اس کے مطابق 1931 کے اندر ملک میں جملہ 4,147 ذاتیں تھیں مگر نئی رپورٹ میں 46 لاکھ ہوگئیں۔ لیکن یہ اعدادوشمار خامیوں سے پُر ہیں اور اس کی بنیاد پر ریزرویشن کی پالیسی وضع کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس معاملے مودی سرکار کا موقف بدلتا رہا ہے۔
ادھو ٹھاکرے کی سرکار نےان اعداوشمار کا استعمال کرنے کے لیے جب عدالت عظمی سے رجوع کیا تو موجودہ حکومت کی جانب سے تین بڑے دلائل دیے گئے۔ پہلا تو یہ کہ پالیسی سے متعلق فیصلوں میں عدلیہ کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسرے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانا مناسب نہیں ہے اور تیسرا انتظامی نقطہ نظر سے یہ بے حد مشکل امر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ مردم شماری بی جے پی کے لیے بڑا دھرم سنکٹ ہے۔ پہلے وہ منڈل کی کھل کر مخالفت کرتی تھی مگر پچھلے دس سالوں میں پسماندہ طبقات کے اندر اس کی پذیرائی بڑھی ہے۔2009 میں صرف 22فیصد پسماندہ طبقات اسے ووٹ دیتے تھے لیکن 2019 میں 44 فیصد نے ووٹ دیا اس لیےاب وہ اس طبقہ کی مخالفت کرنے کا خطرہ مول نہیں لےسکتی اسی کے ساتھ اسے نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے رائے دہندگان کی ناراضی کا خوف بھی ستاتا ہے۔
انتخابی جوڑ توڑ کے علاوہ ایک مسئلہ نظریاتی بھی ہے۔ ہندوتوا کی بنیاد پر ہندووں کو متحد کرنے کا خواب ذات پات کی تقسیم سے بکھر جاتا ہے۔ سنگھ چاہتا ہے کہ ہندوستان میں 80بمقابلہ 20کی بنیاد پر یعنی ہندو مسلم کی تقسیم پر سیاست کی جائے جبکہ ذات پات کی بنیاد پریہ 85 فیصد پسماندہ اور 15 فیصد غیر پسماندہ کی جنگ بن جاتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے 15فیصد ووٹ بھی نہیں ملیں گے کیونکہ غیر پسماندہ آبادی میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ مودی سرکاربہار میں ذات پات کی مردم شماری سے کس قدر ہیبت زدہ ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے ساڑھے تین گھنٹے کے اندر اس پر وزیر اعظم کا ردعمل قابلِ توجہ ہے۔یہ اس وزیر اعظم کی چستی ہے جو پانچ ماہ سے منی پور میں جاری تشدد پر من کی بات کہنے سے کترا رہا ہے۔ مودی نے مردم شماری پرکہا کہ ترقی کے دشمن ذات پات کی بنیاد لوگوں کو تقسیم کرکے عوام کا استحصال کرتے ہیں ۔ عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے ہندووں کا جذباتی استحصال تو بی جے پی کرتی ہے جس میں وہ دن رات مشغول رہتی ہے۔
وزیر اعظم کا دوسرا بیان اور بھی مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے کہا ان کو برا بھلا کہنے والے دراصل پسماندہ طبقات کو گالی دیتے ہیں حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے پسماندہ ذات سے تعلق کے باوجود استحصال کرنے والے نظریہ کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تو انہوں نے حد کردی۔ وہ بولے کہ منموہن سنگھ کہتے تھے کہ قومی وسائل پر سب سے پہلا حق اقلیتوں کا ہے لیکن اب کانگریس پسماندہ طبقات کی خوشنودی کے لیے مسلمانوں کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ مسلمانوں کے لیے مگر مچھ کے آنسو وہ شخص بہا رہا ہے جس نے اپنی کابینہ سے دونوں مسلم وزراء کو نکال باہر کیا ۔ بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کروایا ۔ اس کا داہنا ہاتھ گجرات فساد پر کھلے عام فخر جتانے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ یہ دراصل مودی کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ کانگریس پہلے منڈل اور کمنڈل کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے چھوٹا کمنڈل تھام لیتی تھی لیکن اب جبکہ وہ نام نہاد اعلیٰ ذات کے رائے دہندگان سے وہ پوری طرح مایوس ہوچکی ہے اس لیے انہیں اسی طرح نظر انداز کررہی جیسے بی جے پی مسلمانوں کو کرتی ہے کیونکہ اس کو ملت سے کسی حمایت کی امید نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار اس سال کی گاندھی جینتی کو کبھی نہیں بھول سکے گا اس لیے کہ بی جے پی کے سابقہ حلیف نتیش کمار نے اس کی شہ رگ پر خنجر رکھ دیا ہے۔ یہ فریبی جتھا ملک کے پسماندہ طبقات کے پاس ان کا ہمدرد بن کر جاتا ہے اور استحصال کرتا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے اعدادو شمار اگر زیر بحث آجائیں تو یہ پتہ چل جائے گا کہ ان طبقات کی تعداد کتنی کم ہے۔ اس کے بعد سرکار دربار میں ان کی عدم موجودگی پربھی گفتگو ہوگی جو ان کے لیے سمِ قاتل بن جائے گی۔ راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ 62 فیصدپسماندہ ذاتوں سے جملہ 90 میں صرف 3 مرکزی سکریٹری ہیں اور ان کا 5فیصد بجٹ پر اختیارِ عمل ہے۔ ان حقائق سے انکار ممکن نہیں اس لیے سنگھ کی زبان پر قفل لگاہوا ہے، اس کو اپنی صد سالہ محنت پر پانی پھرنے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مشیت ایسے وقت میں انصاف کررہی ہے کہ جب سنگھ پریوار نے ایک پسماندہ شخص کو وزیر اعظم بناکر تیر بہ ہدف تو چلا دیا مگر وہی اس کے سینے میں پیوست ہوا چاہتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ مودی کے سنہری دورمیں سنگھ کی جڑ کٹنے کا انتظام ہوجائے گا۔ مکرو فریب کرنے والے لوگ اپنی چال چلتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے جو خیر الماکرین ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
حیرت کی بات یہ ہے کہ مشیت ایسے وقت میں انصاف کررہی ہے کہ جب سنگھ پریوار نے ایک پسماندہ شخص کو وزیر اعظم بناکر تیر بہ ہدف تو چلا دیا مگر وہی اس کے سینے میں پیوست ہوا چاہتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ مودی کے سنہری دورمیں سنگھ کی جڑ کٹنے کا انتظام ہوجائے گا۔ مکرو فریب کرنے والے لوگ اپنی چال چلتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے جو خیر الماکرین ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023