ذات پات کی مردم شماری پر سیاست

بہار میں نتیش کا کمزور ہوتا موقف سیاسی وفاداریوں میں بدلاؤ کا عکاس

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

زمینی صورتحال سے واقفیت اور آبادی کے تناسب سے تحفظات کے لیے مردم شماری ضروری
کچھ عرصے سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی کا مطالبہ بڑے زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے۔ نتیش کمار کا بھی دیرینہ مطالبہ ہے کہ ملک بھر میں ذات پات پر مبنی مردم شماری ہو، انہوں نے بہار میں ذات پات پر مبنی سروے بھی کرایا ہے، کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اس کا وعدہ کیا ہے کہ وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائے گی۔ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی نے بڑی شدومد کے ساتھ یہ بات کہی کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری ہو کر رہے گی، سوال یہ اٹھتا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کیوں ضروری ہے؟
1990 کی دہائی میں جب ذات پات پر مبنی سیاست عروج پر تھی، یہ وہ وقت تھا جب منڈل کمیشن کے نفاذ کی باتیں چل رہی تھیں، اسی دہائی میں ’کمنڈل‘ کی سیاست کا جنم ہوا، وہی کمنڈل جو ہندو مذہبی شناخت کی علامت بن گئی اور اسی دور میں بی جے پی اور اسی قبیل کی دیگر ہندتوادی گروپوں کا عروج بھی ہوا، یہ ہندوتو گروپ ہندوؤں کی شناخت کے مسائل لے کر اٹھے، خاص طور پر رام جنم بھومی تحریک شروع کی اور اس کو پورے ملک میں پھیلایا۔
چنانچہ کمنڈل سیاست، منڈل کی سیاست کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار بن کر کھڑی ہوگئی جس نے ذات پات کی شناخت پر مذہبی حیثیت کو ترجیح دی۔ اور یہی وہ مذہبی حیثیت ہے جو بی جے پی کی اصل جان ہے اس کے بغیر وہ سیاست کر ہی نہیں سکتی، چوں کہ ذات پات، بی جے پی اور ہندتو وادی گروپوں کی مذہبی سیاست میں بڑا روڑا بنی ہوئی تھی، اگر منڈل کی سیاست مضبوط ہوتی تو کمنڈل کی سیاست کبھی میدان میں ٹک نہیں پاتی اور یوں بی جے پی اور اسی قبیل کے ہندتوا وادی گروپ مضبوط نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ذات پات پر مبنی مردم شماری کی شدید مخالف رہی ہے۔
2021 میں سوشو اکنامک کاسٹ سینسیس کرانےکی بات آئی تو مرکزی حکومت نے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا، اس وقت مرکزی حکومت نے کہا کہ اس طرح کی مردم شماری کرانے میں بڑے انتظامی چیلنجنس ہیں اور یہ ایک بوجھل عمل ہے۔ ایس سی اورایس ٹیس کی روایتی مردم شماری کے بجائے اس طرح کی مردم شماری کرانا حکومت کے لیے بہت مشکل ہے۔ حکومت نے بہت سے انتظامی، آپریشنل اور لاجسٹک چیلنجز کا حوالہ بھی دیا۔
ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں ذات پات کی مردم شماری کا مطالبہ زیادہ ہے، جہاں بی جے پی پسماندہ ذاتوں کے بل بوتے پر اپنی سیاست چمکا رہی ہے، اپوزیشن پارٹیوں کا خیال ہے کہ بی جے پی سے انہی پسماندہ ذات کے ووٹوں کے ایک بڑے حصے کو الگ کر کے اپنی طرف راغب کرنے سے ان کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ خاص طور پر سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں، جو روایتی پسماندہ طبقات کی نمائندہ پارٹیاں ہیں، یہ پارٹیاں بھی پسماندہ ذاتوں کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں اور اسی لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کو وہ ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھتی ہیں۔
پارلیمنٹری الیکشنس میں چونکا دینے والے نتائج کے بعد، بی جے پی بھی پسماندہ طبقات کو بہلانے اوراپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، کیوں کہ جو ہندتو یا رام جنم بھومی کا نعرہ تھا وہ تو کام آگیا، اب اس میں کوئی کشش باقی نہیں رہی، عوام کو ان مسائل سے روزی روٹی تھوڑی ملتی ہے، اسی لیے بی جے پی اب پسماندہ طبقات کا رخ کر رہی ہے۔ ہریانہ میں، اس سال کے آخر میں انتخابات ہونے والے ہیں، اسی لیے بی جے پی نے کریمی لیئر کی جو حد تھی اس کو چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر آٹھ لاکھ روپے کر دیا ہے اور اس میں او بی سی کے لیے تنخواہوں اور زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانا ایک پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے، یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو ویلفیئر پولیٹکس کو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کردے گا، اس کے اثرات نہ صرف پولیٹیکل پارٹیوں پر پڑیں گے بلکہ سماج پر بھی اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے، سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوں گی، ایک ایسا سیاسی طوفان برپا ہوگا کہ پارٹیاں اسے سہہ نہیں پائیں گی۔ نتیش کمار ذات پات پر مبنی مردم شماری کا کئی سال سے مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے بی جے پی کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرلیا ہے۔ اس صورت حال میں ان کی پارٹی پر سوال اٹھنا لازمی ہے، ذاتوں کے تناسب سے تحفظات کے مطالبے پر ان کا موقف اب کمزور نظر آ رہا ہے۔ ذاتوں کے تناسب سے تحفظات ان کا دیرینہ خواب ہے، لیکن بی جے پی اس کی سرے سے مخالف ہے، آگے صورت حال کیا رہے گی یہ دیکھنا دلچسپ رہے گا۔
2022 میں، بہار حکومت نے ذات پر مبنی سروے کرایا، یہ ایک قابل ذکر پہل تھی، اس سروے پر پانچ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس جامع سروے سے پتہ چلا کہ بہار میں دو سو چودہ مختلف ذاتیں پائی جاتی ہیں، اس میں بڑے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، اس سے آبادیاتی ساخت کا پتہ چلا ہے۔ بہار کی آبادی میں دیگر پسماندہ طبقات یعنی او بی سی ستائیس فیصد ہیں اور انتہائی پسماندہ طبقات یعنی آئی بی سی چھتیس فیصد ہیں، جو کہ بہار کی آبادی کا جملہ تریسٹھ فیصد سے زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ درج فہرست ذاتیں یعنی ایس سی، آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہیں یعنی (2.6 کروڑ) جب کہ درج فہرست قبائل یعنی ایس ٹی ڈیڑھ فیصد یعنی (22 لاکھ) ہیں۔
اس سروے کی بنیاد پر 9 نومبر 2023 کو بہار اسمبلی نے متفقہ طور پر پسماندہ طبقات، انتہائی پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے ریزرویشن کے موجودہ پچاس فیصد سلیب سے بڑھا کر پینسٹھ فیصد کرنے کا بل منظور کیا۔ جس میں انتہائی پسماندہ طبقے یعنی آئی بی سی کا کوٹہ اٹھارہ فیصد سے بڑھا کر پچیس فیصد، پسماندہ طبقے یعنی بی سی کے لیے بارہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد، درج فہرست ذات ایس سی کے لیے سولہ فیصد سے بڑھا کر بیس فیصد اور درج فہرست قبائل کا کوٹہ بھی اٹھارہ فیصد سے بڑھا کر پچیس فیصد کیا گیا ہے۔
بہار کی صورت حال سے ملک کی دیگر ریاستوں کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، یو پی، مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاست میں ذاتوں کی صورت حال بہار سے کچھ مختلف نہیں ہو گی، ملک کی حقیقی صورت حال سے واقف ہونے کے لیے اور آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
***

 

***

 بہار کی صورت حال سے ملک کی دیگر ریاستوں کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، یو پی، مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاست میں ذاتوں کی صورت حال بہار سے کچھ مختلف نہیں ہو گی، ملک کی حقیقی صورت حال سے واقف ہونے کے لیے اور آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024