ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری

منڈل اور کمنڈل کی سیاست میں او بی سی اور غریب طبقہ کا نقصان

زعیم الدین احمد حیدرآباد

جب سے حزب اختلاف کی جانب سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے، وزیر اعظم مودی یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن ملک کو ذاتوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے، ہندوستانی سماج کو ذاتوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے جبکہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ملک کے حق میں نہیں ہے۔ میں تو ایک ہی ذات جانتا ہوں اور وہ ذات ہے غربت کی۔ غربت سے بڑی ذات کوئی نہیں ہے، غربت کو ختم کرنا ہی سب سے بڑی خدمت ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم کی یہ باتیں تو دوسری طرف امیت شاہ او بی سی کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم خود ایک او بی سی ہیں۔ کابینی وزرا میں 29 ارکان کا تعلق او بی سی ہے ہے۔ ریاستوں میں بی جے پی کے جتنے ایم ایل اے ہیں ان میں 27 فیصد کا تعلق او بی سی سے ہے۔ مختلف ریاستوں میں بی جے پی کے جتنے یم ایل سی ہیں ان میں 40 فیصد او بی سی سے ہیں، چنانچہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ان دعووں کا خلاصہ بھی پیش کیا۔
حزب اختلاف جب یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملک کتنی ذاتیں ہیں اور ان کا تناسب کیا ہے اس کی ساری تفصیلات حاصل کرنی چاہئیں تو اس کے جواب میں بی جے پی کے ان دو لیڈروں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم ذاتوں کی تقسیم کو پورے ہندوستانی سماج کی تقسیم گردانتے ہیں تو دوسری طرف وزیر داخلہ ان کی اپنی پارٹی میں او بی سیوں کی ساری تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ آخر یہ تضاد بیانی کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک طرف ملک کے سربراہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کرتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کے وزیر داخلہ اس کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؟ اس لیے کہ بی جے پی منڈل کی سیاست سے اچھی طرح واقف ہے، اس کے فوائد و نقصانات سے بھی وہ بخوبی واقف ہے۔ جب سے منڈل کی سیاست شروع ہوئی ہے بی جے پی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اترپردیش میں بی ایس پی، بہار میں آر جے ڈی و جے ڈی ایس جیسی پارٹیاں ذاتوں کی بنیاد پر ہی قائم ہوئی ہیں۔ ان پارٹیوں نے بی جے پی کی اعلیٰ ذات کی سیاست کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ پارٹیاں درد سر بنی ہوئی ہیں۔ ذاتوں کو برابر کی حصے داری کا مطالبہ مسلسل کر رہی ہیں۔ گو کہ کانگریس نے یہ سوالات اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کی ہے لیکن ان پارٹیوں نے اس مسئلے کو بڑی شدومد کے ساتھ اٹھایا اور بڑی حد تک وہ کامیاب بھی رہیں۔ اس چیلنج کو قابو میں کرنے کے لیے ہی بی جے پی نے کمنڈل کی سیاست کو آگے بڑھایا، یعنی مندر کی سیاست شروع کردی۔ جس دور میں منڈل کا مطالبہ زور و شور سے جاری تھا اور ممکن تھا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری اسی وقت شروع ہوجاتی اور ساری حقیقت طشت ازبام ہوجاتی، عین اسی وقت کمنڈل کا مسئلہ منظر عام پر لایا گیا اور ساری سیاست مندر کے اطراف گھومنے لگی۔ اس طرح بی جے پی نے منڈل کی سیاست کو مات دینے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی، لیکن اسے اس بات احساس تھا کہ مندر کی سیاست زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں ہے، کیوں کہ ہندوستان میں مذہب کے مقابلے میں ذاتوں کو ہی اہمیت حاصل ہے۔
یہاں ہمیں بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارا ملک مختلف ذاتوں اور مختلف طبقات کا گہوارہ ہے، یہاں کسی ایک مذہب کے ماننے والے نہیں پائے جاتے بلکہ ہر ذات کی ایک الگ مذہبی شناخت ہے، ہر ذات کا ایک الگ عقیدہ ہے، جبکہ بی جے پی کی پوری سیاست ہندو مذہب اور ہندتو نظریات کی سیاست پر مبنی ہے۔ ہندتو کی بنیاد پر کام کرنے والی بی جے پی کے لیے کئی ذاتیں بہت بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔ جو پارٹیاں ذاتوں کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں وہ بی جے پی کی گلے کی ہڈی بن گئی ہیں، اسی لیے اس نے کمنڈل کی سیاست کا سہارا لیا اور یہ کمنڈل اس کے لیے آب حیات بن گیا۔ بی جے پی نے اپنی بنیادی سوچ میں تبدیلی لاتے ہوئے ذات پات پر مبنی سیاست کو بھی شامل کردیا، یعنی ہندتو کے ساتھ ساتھ ذات پات پر مبنی سیاست بھی اس میں شامل ہوگئی۔ جو پارٹیاں محض ذات پات کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں ان کو روکنے کے لیے اس کی حکمت عملی یہ رہی کہ جس جگہ جو ذات غالب ہے، مثال کے طور پر اتر پردیش میں یادو طبقے کا غلبہ ہے، اسی طرح بی ایس پی میں چمار دلت طبقے کا غلبہ ہے۔ بہار میں آر جے ڈی میں بھی یادو طبقے کا غلبہ ہے۔ جے ڈی یو میں کرمی طبقے کا غلبہ ہے۔ الغرض جہاں جس علاقائی پارٹی میں کسی مخصوص طبقے کا غلبہ ہے اس کے مقابلے میں جتنے بھی غیر یادو او بی سی طبقات ہیں ان کو یکجا کیا اور ان کو اپنے ساتھ لیا۔ دیگر طبقات کو ساتھ لینے کے لیے اس نے دو طریقے اختیار کیے: پہلا، اس نے اپنی پارٹی میں جتنے او بی سی لیڈر ہیں ان کو پارٹی میں ذمہ داریاں دینی شروع کردیں، چنانچہ اس نے یو پی میں لودھا طبقے سے تعلق رکھنے والے کلیان سنگھ کو پارٹی میں بڑی ذمہ داری دی۔ ایم پی میں اوما بھارتی، شیوراج سنگھ چوہان بہار میں سوشیل کمار مودی۔ تلنگانہ میں ڈاکٹر لکشمن، بنڈارو دتاتریہ، بنڈی سنجے۔ الغرض مختلف مقامات پر اس نے او بی سی قائدین کو ابھارا۔ بی جے پی نے پارٹی کے اندر ہی برہمن بنیا طبقے سے ہٹ کر دیگر او بی سی اور دلت طبقات کو ابھارا اور اپنے ہندتو ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک انکلوزیو سیاست اختیار کی۔ یہ اس کی پہلی حکمت عملی رہی۔
دوسری حکمت عملی کے طور پر اس نے ذات پات پر مبنی جتنی چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں ہیں ان کو اپنے ساتھ لینا شروع کیا، مثلاً اپنا دل پارٹی، سنجے نشاد پارٹی، سہیل دیو بھارتی سماج پارٹی، ہندوستان عوامی مورچہ، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی۔ ان تمام پارٹیوں کو اس نے نہ صرف اپنے ساتھ شامل کیا بلکہ ان ذاتوں میں اپنے ہندتو نظریات کو بھی داخل کردیا، یعنی منڈل کے ساتھ کمنڈل کو بھی اس میں شامل کردیا۔ پہلا مرحلہ وہ تھا جب منڈل بمقابل کمنڈل کی سیاست چل رہی تھی۔ دوسرے مرحلے میں منڈل اور کمنڈل ایک ساتھ ہوگئے۔ اس مرحلے میں بی جے پی نے بہت قوت حاصل کی، ان دونوں کو ایک ساتھ لینے سے وہ طاقت ور ہوئی، گو کہ اس مرحلے میں او بی سی طبقات کو جتنا نقصان ہوا شاید ہی کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ اب ملک کی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے منڈل کا تیسرا مرحلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں او بی سی کی صورت حال کچھ بہتر رہی، ان کا سیاسی وزن پایا جاتا تھا، ہر سطح پر ان کی نمائندگی موجود تھی، لیکن دوسرے مرحلے میں انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑا، ان کا سیاسی وزن کم ہوا، ان کے مسائل میں اضافہ ہوا، انہیں مذہب کے نام پر قربان کیا گیا۔ اب تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا ہے، کانگریس نے او بی سی کا نعرہ لگایا ہے، ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے، بلکہ بہار کی ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بعد تو اس مطالبے نے شدت اختیار کر لی ہے۔ کانشی رام کی سال گرہ کے موقع پر "دلت گورو یاترا” نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خواتین تحفظات میں او بی سی کے معاملے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں، یہ مطالبات نہ صرف کانگریس اٹھا رہی ہے بلکہ دیگر او بی سی پارٹیاں جیسے بی ایس پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، جو انڈیا اتحاد حصہ ہیں، وہ بھی اٹھا رہی ہیں۔ یہ مطالبہ ایک بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے، ایسے موقع پر مسلمانوں کو بھی ایسے او بی سی ذاتوں کے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے جو ہندتو نظریات (جو کہ فسطائیت اور نفرتی سیاست پر مبنی ہیں) کے خلاف ہیں ان کا ساتھ دیں تاکہ ایک مضبوط اتحاد قائم ہو، جس کے ذریعے بی جے پی کی نفرتی سیاست کو ختم کیا جاسکے۔
***

 

***

 یہاں ہمیں بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارا ملک مختلف ذاتوں اور مختلف طبقات کا گہوارہ ہے، یہاں کسی ایک مذہب کے ماننے والے نہیں پائے جاتے بلکہ ہر ذات کی ایک الگ مذہبی شناخت ہے، ہر ذات کا ایک الگ عقیدہ ہے، جبکہ بی جے پی کی پوری سیاست ہندو مذہب اور ہندتو نظریات کی سیاست پر مبنی ہے۔ ہندتو کی بنیاد پر کام کرنے والی بی جے پی کے لیے کئی ذاتیں بہت بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔ جو پارٹیاں ذاتوں کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں وہ بی جے پی کی گلے کی ہڈی بن گئی ہیں، اسی لیے اس نے کمنڈل کی سیاست کا سہارا لیا اور یہ کمنڈل اس کے لیے آب حیات بن گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024