ظالم حاکم کے سامنے حق گوئی عزیمت کا کام ہے

فلسطینیوں کے صبر و استقامت نے صہیونی ظلم کا چہرہ بے نقاب کر دیا

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

حدیث شریف میں ہے کہ ظالم حکم راں کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔ یہ حدیث نہ صرف ظالموں کے خلاف کلمہ حق کی فضیلت بیان کرتی ہے بلکہ اس میں اس عمل کو بہترین جہاد قرار دیا گیا ہے، جو کہ نیک عمل کی سب سے بلند ترین صورت ہے۔اس طرح کی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کچھ صاحبِ عزیمت لوگ ہوتے ہیں جو خطرات کو مول لے کر ظالم حکم رانوں کو معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں ۔حکم رانوں کو زورِ بازو سے منکرات سے روکا نہیں جا سکتا تو وہ زبان سے اس حق کو ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ان اصحابِ عزیمت کو برا بھلا کہتے ہیں کہ یہ حکم رانوں پر تنقید کرکے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان لوگوں کا مسلک یہ ہے کہ بادشاہ اللہ کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں لہٰذا ان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ بعض لوگ اس حد تک جاتے ہیں کہ بادشاہوں کی خوشامدی میں لگ جاتے ہیں اور ان پر ان کی غلطیوں پر تنقید کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا میں کچھ باہمت لوگ ہوتے ہیں جو حق گوئی کا حق ادا کرتے ہیں چاہے ان کو اس سے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ کچھ لوگ حق گوئی کی ذمہ داری کو احتیاط کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ جہاں حق گوئی سہل ہو اور اس کا فائدہ یقینی ہو وہیں حق بولتے ہیں۔ وہ قرآن کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَى (سورۃ الاعلیٰ:۹) ’’لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔‘‘جہاں نصیحت کرنے کے نتیجے میں ظلم کا اندیشہ ہو وہاں وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
قرآن کی رُو سے ہر شخص کو اس کی استطاعت کے مطابق مکلف بنایا گیا ہے۔ اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے اندر کتنی استطاعت ہے۔ اس لیے نہ ہی صاحبِ عزیمت کو صاحبِ رخصت سے تعرض کرنا چاہیے اور نہ ہی رخصت چاہنے والوں کو اصحابِ عزیمت سے مخاصمت برتنی چاہیے اور اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے جرأت مند اہلِ ایمان کو پسند فرماتا ہے جو خطرات کو مول لے کر ظالموں کے سامنے حق کو پیش کرتے ہیں۔ اس لیے معاشرے میں لازماً صاحبِ عزیمت لوگوں کی قدر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اس لیے وہ ایسے جرأت مندوں کو پیدا کرتا ہے جو ظالموں کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اتمامِ حجت کا فرض انجام دیں۔اتمامِ حجت کے لیے ظالموں کے سامنے حق کو پیش کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کچھ باہمت لوگوں کو حق گوئی کی توفیق دیتا ہے۔ اگر ظالم ذی اقتدار حکم راں اس حق گوئی کے جرم میں حق گو مردِ مومن پر ظلم کرنے کا ارادہ کر لے تو اس سے ظالموں کے اندر چھپی ہوئی خباثت باہر آتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ظالموں کی اندر کی خباثت کو دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ ظالم حکم رانوں کو حق پرست اور حق گو لوگوں سے سخت عناد ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جبر واستبداد کے ذریعے سے ہی اقتدار میں رہ سکتے ہیں اور تنقید کا راستہ کھلا رکھا جائے تو اس سے ان کی حکومت کی ساکھ گر جائے گی۔ ایسے حکم راں حق گوئی کو جرم سمجھتے ہیں اور سزاؤں کی ایسی بدترین مثالیں قائم کرتے ہیں کہ کسی کی مجال نہ ہو کہ دبے لفظوں میں بھی کوئی تنقید کرسکے۔ جب ڈر اور خوف کی وجہ سے کوئی تنقید کرنے والا باقی نہیں رہے گا تو حکم رانوں کے اطراف خوشآمد لوگ ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ حق گوئی کے مقابلے میں بد ترین سزؤں کا ماحول پیدا کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ معاشرہ میں اصحابِ عزیمت کو پیدا کر کے اتمامِ حجت کا کام لیتا رہتا ہے تاکہ ظالموں کا ظلم بھی دنیا کے سامنے آشکار ہو۔ اگر بادشاہوں کے اطراف صرف خوشامد کرنے والے لوگ ہوں تو کبھی ان کے اندر کی خباثت سامنے نہیں آ سکتی۔ آج اہلِ غزہ کی استقامت ہی سے اسرائیلی ریاست کی بربریت دنیا کے سامنے عیاں ہوئی ہے۔ اگر اہلِ فلسطین سرنگوں ہوتے تو اسرائیل دنیا میں باعزت اور کامیاب ترین ریاست بن کر سامنے آتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے انتظامات کرتا ہے جس سےہر فرعون کی سرکشی کو عیاں کر دیا جائے۔
اسلام دینِ عدل، دینِ حق اور دینِ استقامت ہے۔ ظلم کو روکنے، حق کا بول بالا کرنے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی تعلیم اسلام کی بنیادی روح ہے۔ قرآن و سنت میں ایسے متعدد مقامات ہیں جہاں ظالم حکم رانوں کے خلاف کلمہ حق کہنا جہادِ اکبر قرار پایا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگیوں میں بھی یہی پیغام نمایاں ہے۔ آج بھی دنیا میں صاحبِ عزیمت لوگ اسی عظیم سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جو حق کی خاطر اپنی جان، مال، عزت اور زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اپنی اقوام کے سامنے پیش کیا جس کے نتیجے میں ان کی شدید مخالفت کی گئی ۔ان کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے شدت سے ان کو دعوت حق سے روکنے کی کوشش کی اور قبل اس کے کہ وہ ان کے خلاف کوئی اقدام کرتے اللہ تعالیٰ نے ان قوموں پر عذاب نازل کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا محض اس بات پر کہ انہوں نے اپنی قوم اور وقت کے بادشاہ کے سامنے دلائل کو سامنے رکھ کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی تھی۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کیا صرف اس بات پر کہ وہ اللہ واحد کی بندگی طرف دعوت دے رہے تھے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بالآخر اس کو غرق کر دیا گیا۔فرعون کے سامنے حق کو پیش کرنا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ و ہارون علیہم السلام کو تیار کیا اور ان سے فرمایا: اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (سورۃ طٰہ :۴۳) ’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘ فرعون جیسا جابر حکم راں جس کے ظلم سے پورا مصر کانپتا تھا، اس کے دربار میں اللہ نے اپنے رسول اور ایک نبی کو بھیجا تاکہ وہ اس کے سامنے کلمہ حق کہیں۔
ہر زمانے میں اصحابِ عزیمت بھی ہوتے ہیں اور اصحابِ رخصت بھی۔ اصحابِ عزیمت وہ باہمت لوگ ہوتے ہیں جو ہر حال میں حق کہتے ہیں، خطرات کو مول لیتے ہیں، سچائی کا پرچم بلند رکھتے ہیں، حتیٰ کہ جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ جب کہ اصحاب ِ رخصت وہ لوگ ہوتے ہیں جو حالات کی نزاکت، اپنی استطاعت اور وقت کے تقاضے کو دیکھ کر حکمت اور تدبیر سے کام لیتے ہیں اور خاموشی اختیار کرتے ہیں تاکہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسرے بھی۔ قرآن کا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 286) اس لیے ہر شخص پر لازم تو نہیں کہ وہ صاحبِ عزیمت بنے، مگر صاحبِ عزیمت کا مقام بلا شک و شبہ بلند تر ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا "اے اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟’’ آپ نے فرمایا: ‘حق بات کہنا، اگرچہ وہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو‘‘ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’طاقتور مومن ایمان، ہمت، کردار میں کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے‘‘ بعض معاملات میں حق گوئی فرض بن جاتی ہے اور خاموشی قوم کے لیے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب میری امت ظالم کو ظالم کہنے سے باز آجائے تو وہ عذاب کی مستحق بن جائے گی۔‘‘ اور ایک اور حدیث میں ہے ’’تم بد ترین حاکموں کو دیکھو گے جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہیں گے، پس جو ان سے اعلان برأت کرے وہ نجات پا گیا۔‘‘ بادشاہوں کی خوشامدی کرنے والے علماء کے بارے میں فرمایا: بدترین مخلوق وہ عالِم ہے جو حکم رانوں کا درباری ہو۔‘‘
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ دنیا میں ظالموں کی خباثت کو آشکار کرتا ہے تاکہ ان کے پاس ظلم و زیادتی کرنے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اگر سب لوگ خاموشی اختیار کریں تو ظالم اپنی طاقت کے زعم میں ظلم کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جہاں ہر فرد کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ ظالموں کا ظلم بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے اور وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو ظلم کے خلاف اٹھ کر جان کی بازی لگانے والے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ظالم کا ساتھ دینے والے ہیں اور وہ لوگ بھی جو خاموشی میں اپنی عافیت تلاش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ (سورۃ آل عمران :۱۷۹) ’’اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا‘‘ اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے: لِيَمِيزَ اللّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىَ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعاً فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (سورۃ الانفال :۳۷) ’’یہ اس لیے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں‘‘۔ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ حق کے ذریعے باطل کے علم برداروں اور ظالموں کے جرائم کو دنیا کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔
اہلِ فلسطین، خاص طور پر اہلِ غزہ، آج کی دنیا کے وہ صاحبِ عزیمت لوگ ہیں جنہوں نے اپنے جسموں، گھروں، جانوں اور بچوں کی قربانی دے کر اسرائیل کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ اگر وہ سر نِگوں ہو جاتے تو دنیا اسرائیل کو مہذب ریاست سمجھنے لگتی اور اس کی خباثت ظاہر نہ ہوتی۔
بلا شبہ یہ اس زمانے کا معجزہ ہے کہ غزہ کے فلسطینی اپنی صبر و استقامت بھری جدوجہد کے ساتھ اس حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے کہ یہودی حقیقت میں بڑی ظالم اور سفاک قوم ہیں۔ اس آزمائش میں مسلم حکم رانوں کا رول بھی اللہ تعالیٰ نے کھول کر رکھ دیا ہے ۔جب اہلِ فلسطین سے یہ پوچھا جاتا کہ وہ ہجرت کرکے دوسرے ملک کیوں نہیں چلے جاتے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کی خاطر فلسطین کو نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ مزاحمت حماس کی طرف سے شروع نہیں بھی کی جاتی تو اس صورت میں بھی صہیونی انہیں خاموشی کے ساتھ تباہ کر دیتے اور دنیا کو پتہ بھی نہ چلتا۔ یہودی اتنا ظلم کرتے ہیں کہ جس سے ہمیشہ جنگ کی صورتحال باقی رہے اور ہر جنگ میں اسرائیل کو نیا زمینی خطہ ملتا گیا۔ لیکن آج دنیا کے سامنے یہودیوں کا مکروہ ترین چہرہ ظاہر ہو چکا ہے جسے وہ ہولوکاسٹ کے پیچھے چھپائے ہوتے تھے۔
دنیا میں جب ظالم مظلوم پر مسلسل ظلم کرتا ہے تو تین صورتیں پیش آتی ہیں۔ یا تو مظلوم ظلم سہہ سہہ کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور ظالم کا ظلم بھی ظاہر نہیں ہوتا یا مظلوم خود کشی کر کے خود کو ظلم سے آزاد کر لیتا ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ مظلوم ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو کر اس کے ظلم کو دنیا کے سامنے آشکار کر دے۔ اسلام یہ تیسرا راستہ دکھاتا ہے اور خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے اور ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا حکم دیتا ہے اور اگر اس جدوجہد میں جان بھی چلی جاتی ہے تو اسے شہادت کی موت قرار دیتا ہے۔ اس طرح اسلام ظلم کے استیصال کا راستہ دکھاتا ہے۔ آج بھی نام نہاد مسلم حکومتوں کے اندر حکم رانوں پر تنقید کرنے والوں کو جیلوں میں رکھ کر بد ترین اذیتیں دی جاتی ہیں جنہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی مبارک سعی کی تھی۔ بھارت میں بھی کئی نوجوان ہیں جن کو حق گوئی کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ گویا یہ اعلان ہے کہ خبردار! کوئی حق گوئی کی جرأت نہ کرے ورنہ اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔ کئی حق گو غیر مسلم بھی اس وقت حق گوئی کی پاداش میں جیلوں میں بند ہیں۔
جو لوگ اصحابِ عزیمت کے بارے میں نا زیبا کلمات کہتے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں۔ بلا شبہ یہ لوگ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں، ان کی عظمت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اور جو لوگ صاحبِ رخصت ہیں، ان پر بھی طعن نہ کیا جائے کیونکہ اللہ ان کے دلوں کے حالات کو بخوبی جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صاحبِ عزیمت لوگوں کا ساتھ دینے، حق بات پر صبر و استقامت کے ساتھ جمے رہنے اور ظلم کے خلاف زبان و عمل سے جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 

***

 بلا شبہ یہ اس زمانے کا معجزہ ہے کہ غزہ کے فلسطینی اپنی صبر و استقامت بھری جدوجہد کے ساتھ اس حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے کہ یہودی حقیقت میں بڑی ظالم اور سفاک قوم ہیں۔ اس آزمائش میں مسلم حکم رانوں کا رول بھی اللہ تعالیٰ نے کھول کر رکھ دیا ہے ۔جب اہلِ فلسطین سے یہ پوچھا جاتا کہ وہ ہجرت کرکے دوسرے ملک کیوں نہیں چلے جاتے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کی خاطر فلسطین کو نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ مزاحمت حماس کی طرف سے شروع نہیں بھی کی جاتی تو اس صورت میں بھی صہیونی انہیں خاموشی کے ساتھ تباہ کر دیتے اور دنیا کو پتہ بھی نہ چلتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
holiganbet
casibom
marsbahis giri?
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
Adana Escort
roketbet
galabet
betoffice
maksibet
betzula
meritking
?sparta escort?sparta escort?sparta escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort?sparta escortantalya escortfethiye escort