یوسف مہر علی: مجاہد آزادی اور سماجی جہد کار

’’انگریزو! بھارت چھوڑو‘‘نعرہ کے تخلیق کارنےخوراک کی پیداوارمیں اضافے کے لیے بھی مہم چلائی تھی

افروز عالم ساحل

 یہ بات جولائی 1949 کی ہے۔ ہم سب آزاد ہندوستان میں سانسیں لے رہے تھے۔ اب ملک کو چلانے کی ذمہ داری ہمارے اپنے کاندھوں پر تھی۔ اس وقت کے بامبے میں ’زیادہ اناج اگاؤ‘ (Grow More Food) کی مہم چل رہی تھی۔ اس مہم کا نعرہ تھا ’اگاؤ یا مر جاؤ‘ (Produce or Perish)۔ یہ مہاراشٹر کو ’آتم نربھر‘ بنانے کی مہم تھی۔ بامبے کے وزیر زراعت مسٹر ایم پی پاٹل کا ماننا تھا کہ  اگر اس مہم کو پوری ایمانداری کے ساتھ شروع کیا جائے اور حکومت کو لوگوں کی طرف سے تعاون ملا تو 1951 تک اس صوبے کا  ’آتم نربھر‘ یعنی خود کفیل ہونا ناممکن نہیں ہوگا۔ ٹھیک اسی دوران دہلی میں سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے بھی یہ تجویز پیش کی کہ نئی زمین کو کاشتکاری کے استعمال میں لانے کے لیے بیس سے تیس لاکھ لوگوں پر مشتمل ایک ’لینڈ آرمی‘ کی تشکیل دی جائے تاکہ ملک میں غذائی پیداوار کی اضافے میں مدد ملے۔دراصل ’لینڈ آرمی‘ کا یہ پورا آئیڈیا اس وقت حکومت میں شامل رکن اسمبلی یوسف مہر علی کا تھا۔ انہوں نے باضابطہ طور پر فروری 1950 میں بامبے قانون ساز اسمبلی میں قرارداد پیش کر کے ’لینڈ آرمی‘ بنانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا صاف طور پر کہنا تھا کہ ’لینڈ آرمی‘ کے بغیر خوراک کی پیداوار کے لیے چلائی جارہی مہم کبھی بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ان کے قرارداد کا ہی اثر تھا کہ نہ صرف بامبے میں ’لینڈ آرمی‘ بنی بلکہ پورے ملک میں اس آئیڈیا پر عمل کیا گیا۔ 6 جون 1951 کو دہلی کے قریب صاحب آباد میں ’لینڈ آرمی‘ میں بحالی کے لیے پہلا سنٹر ملک کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے ہاتھوں کھولا گیا۔ سب سے پہلے اس ’لینڈ آرمی‘ میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے 30 طلبہ کی بحالی کی گئی۔یہی نہیں، 1950 میں ہی بامبے قانون ساز اسمبلی میں سب سے پہلے یوسف مہر علی نے ہی یہ تجویز پیش کی کہ قدیم یادگاروں اور مقامات، تاریخی ریکارڈوں اور مخطوطات کے تحفظ اور ان کی حفاظت کے لیے آرکائیو کے ڈائرکٹر کی تقرری ایک مستقل آفیسر کے طور پر کی جائے تاکہ وہ تاریخ اور تحقیق کے طلباء کو آسانی سے میسر آسکیں۔ یوسف مہر علی نے 1950 میں ہی اعلیٰ تعلیم میں فیس کے بڑھائے جانے کی بھی خوب مخالفت کی اور حکومت کو انتباہ دیا کہ کالج کی فیسوں میں حالیہ اضافے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

آزادی کے لیے نعرہ بنانے میں مہارت تھی

کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے بانیوں میں شامل رہے یوسف مہر علی آزادی کی تحریک میں اس وقت کے مجاہدین آزادی کو نعرہ دیئے جانے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت اس سے کہیں آگے ہے۔ یوسٖف مہر علی نے نہ صرف ’سائمن واپس جاؤ‘ (Simon Go Back) کا نعرہ دیا بلکہ خود قلیوں کا لباس پہن کر بامبے بندرگاہ پر کالے جھنڈے کو لہراتے ہوئے خود یہ نعرہ بھی بلند کیا۔ یہی نہیں، 1942 کی ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کی پوری تحریک یوسف مہر علی کے ذہن کی پیداوار تھی۔ اس تحریک پر جسٹس ویکینڈین (Justice Wickenden) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بامبے سے مدراس جاتے ہوئے گاندھی جی دھارواڑ اترے۔ یہاں انہوں نے یوسف مہر علی سے انہوں نے جو سیکھا تھا اسے لوگوں کو بتایا۔ انہوں نے کانگریس کے رہنماؤں کو ان کے خیالات کو اپنانے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ اپنی ذمہ داری پر ایک مہم چلانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے ان کے تحریک میں کانگریس شامل ہو یا نہ ہو۔ بہرحال گاندھی کے ضد کے آگے کانگریس یوسف مہر علی کے آئیڈیا کو ماننے کو مجبور ہوئی۔ اس مہم میں بھی Quit India کا نعرہ یوسف مہر علی نے ہی دیا۔ اس نعرے نے آزادی کی تحریک میں روح پھونک دی تھی۔

جسٹس ویکینڈین (Justice Wickenden) کی رپورٹ صاف طور پر بتاتی ہے کہ ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ کے عنوان سے جو ایک پرچہ ان دنوں لکھا گیا تھا، اس کے لیے یوسف مہر علی ذمہ دار تھے۔ یہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ یوسف مہر علی بھلے ہی کانگریس سوشلسٹ تھے لیکن وہ اب بھی ایک کانگریسی ہی ہیں اور ابتدا ہی سے گاندھی کی ہر تحریک کی راہ ہموار کرنے میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ یوسف مہر علی ملک کے الگ الگ حصوں میں جاکر اپنے لوگوں کو اس تحریک میں جوڑ رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق مہر علی نے جون کے پہلے ہفتے میں بہار کے بیدول میں آل انڈیا کسان سبھا کی ایک میٹنگ میں حصہ لیا۔ اس میٹنگ میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی کہ عوامی جدوجہد کے آغاز کی صورت میں کانگریس کو مکمل حمایت فراہم کی جائے، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔

مہر علی نے 25 جولائی 1942 کو پونا کے فرگسن کالج میں سوشلسٹ کارکنوں اور طلباء کے خفیہ کیمپ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’ملک کو غلامی سے آزاد کرنے کے لیے ہر وہ کام کریں چاہے وہ خانہ جنگی، انارکی اور انقلاب ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اس نام نہاد خفیہ کیمپ میں ان کے ذریعے کی گئی تمام اہم باتوں کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یکم اگست 1942 کو بھی مہر علی نے بامبے میں اس تحریک کی حمایت میں اشتعال انگیز تقریر کی۔ 8 اگست کو مہرعلی بنگال میں بھی ایسی ہی تقریر کر رہے تھے۔ جس میں انہوں نے برٹش حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے کی بات کہی۔

واضح رہے کہ اس مہم کے دوران یوسف مہر علی نے ایک اور نعرہ دیا جسے شاید ہی ہم سب جانتے ہوں۔ یہ نعرہ تھا، ’ہر آدمی کانگریس کا آدمی، ہر گھر کانگریس کا گھر‘ (Every man, a Congressman, every house, a Congress house) یہ نعرہ اس دور میں کافی مشہور ہوا اور اس کا فائدہ کانگریس کو خوب ملا۔

گاندھی جی کو ہمیشہ رہی ان کی فکر

3 ستمبر 1903 کو بامبے کے مشہور تاجر جعفر علی مہر کے گھر پیدا ہوئے یوسف مہر علی نے اپنی 47 سال کی زندگی زیادہ تر بیماری کی حالت میں گزاری۔ ان کی بیماری کی خبریں مسلسل اخباروں میں شایع ہوتی رہیں۔ 12 اپریل 1945 کے ٹائمس آف انڈیا میں شایع شدہ خبر کے مطابق ’یوسف مہر علی کی طبیعت کچھ عرصے سے خراب ہے۔ ڈاکٹر جیوراج مہتا نے انہیں آرام کی مدت بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔‘ لیکن مہر علی کو چین کہاں؟ انہیں تو اپنے ملک کو کسی طرح سے انگریزوں کے چنگل سے آزاد جو کرانا تھا۔ ان کی صحت کی فکر گاندھی جی کو ہمیشہ لگی رہی اور گاندھی جی ہمیشہ ان کی خیر وخبر لیتے رہے۔ اس کا اندازہ گاندھی جی کے ذریعے لکھے گئے خطوط سے بخوبی ہوتا ہے۔ بلکہ گاندھی جی کے خطوط سے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 30 سال کی عمر میں دل کے مریض ہوگئے تھے۔

2 جولائی 1934 کو گاندھی جی بھاؤنگر سے ولبھ بھائی پٹیل کو خط لکھا کہ یوسف مہر علی اسپتال میں ہیں۔ فروری 1937 کے آخر میں گاندھی جی نے ایک خط سمپورنانند کو بھی لکھا جس میں وہ انہوں نے بتایا کہ مہر علی دل کی بیماری سے دوچار ہیں اور کہا کہ مہر علی ہمیشہ ہی کمزور رہا ہے۔ 29 ستمبر 1937 کو گاندھی جی نے یوسف مہر علی کو خط لکھا، جس میں سیٹھ جمنالال کے سلسلے میں کچھ بات چیت کی۔ اس خط میں گاندھی جی مہر علی کو بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ لیکن 22 جولائی 1939 کے ہریجن کے شمارے کو پڑھنے سے معلوم چلتا ہے کہ یوسف مہر علی گاندھی جی کے ذریعے لکھے گئے ایک مضمون سے تھوڑے ناراض ہیں۔ انہوں نے اپنی ناراضگی ایک خط لکھ کر ظاہر کی ہے۔ گاندھی جی نے ان کے خط کی پوری باتوں کو شایع کر اپنے خیالات کو بھی ظاہر کیا ہے۔ یہ پوری بات چیت ہریجن کے اسی شمارے میں پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یوسف مہر علی نے سول نافرمانی تحریک کے دوران 200 سے زائد سبھاؤں میں تقریر کی تھی۔ 3 اکتوبر 1945 کو گاندھی نے مہرعلی کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے لکھا ’بھائی مہر علی! تمہاری نیک خواہشات ملیں۔ اس سے آگاہ کرنا تمہیں لکھنے کا بہانہ ہے۔ امید ہے کہ آپ صحتمند ہوں گے…‘

خط و کتابت کے ساتھ ساتھ یوسف مہر علی اور گاندھی جی لگاتار ایک دوسرے سے ملتے بھی رہے ہیں۔ 22 اپریل 1939 کو ٹائمس آف انڈیا میں شایع شدہ ایک خبر کے مطابق گاندھی جی سے ملنے کے لیے یوسف مہر علی الصبح راجکوٹ روانہ ہوگئے۔ وہاں سے وہ بامبے اور پھر کلکتہ جاتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس اور کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کی میٹنگ میں شریک ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مہر علی ایک طرف گاندھی کا احترام کرتے تھے، وہیں وہ اپنے دل میں مارکس کے لیے بھی یکساں احترام رکھتے تھے۔ یہ باتیں ان کے دوست مرارجی دیسائی نے 1950ء میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہی تھیں۔ اور یہی وہ نقطہ تھا جس میں مسٹر دیسائی ان سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔

سوشلسٹ پارٹی کے بانی

1929ء میں بامبے میں مسلمانوں کی ایک نئی سیاسی پارٹی قائم ہوئی جس میں یوسف مہر علی نہ صرف شامل تھے بلکہ اس پارٹی کے قواعد و ضوابط اور کام کرنے کے پروگرام کے مسودہ کے لیے بنائی گئی ٹیم میں عارضی سکریٹری کی حیثیت سے مقرر کئے گئے تھے۔ اس نئی پارٹی کا نام ’کانگریس مسلم پارٹی‘ تھا۔ اس پارٹی کا خاص مقصد فرقہ واریت اور رد عمل کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا اور کانگریس کے ذریعے مسلمانوں کے جائز مفادات کے تحفظ کی کوشش کرنا تھا۔ لیکن اس پارٹی کا آگے کیا ہوا، اس میں یوسف مہر علی کا کیا رول رہا اس بارے میں مزید جانکاری موجود نہیں ہے۔ لیکن ہاں! 1934 میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی بنی تھی اور مہر علی اس پارٹی کے بانیوں میں شامل تھے۔

آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں بھی شامل

بامبے کے ایلیفیسٹن کالج سے معاشیات اور تاریخ میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ برطانوی حکومت کے خلاف ملک میں ہونے والے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ پڑھائی مکمل ہوتے ہی ٹریڈ یونین لیڈر بن کر ملک کے کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کے حل اور جائز مقام دلانے کی غرض سے کچھ نوجوانوں کے ساتھ فروری 1928ء میں بامبے میں ایک طلبہ تنظیم ’بامبے پرووینشیل یوتھ لیگ‘ کی بنیاد ڈالی۔ نوجوانوں کے ساتھ انگریزوں کی ہر غلط پالیسیوں کی مخالفت کی۔ سڑکوں پر پولیس کی نہ صرف لاٹھیاں کھائیں بلکہ اپنا خون بھی بہایا۔

یہی نہیں، مہر علی آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانیوں میں بھی شامل رہے اور 1941ء میں اس کے صدر بنے۔ 1941ء میں اے آئی ایس ایف کا ساتواں سیشن پٹنہ میں یوسف مہر علی کی صدارت میں منعقد ہوا اس جلسہ میں انہوں نے طلبا کو سیاست میں حصہ لینے کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا اور یہ کہ طلبہ فرقہ وارانہ مسئلے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں، اس پر خاص روشنی ڈالی۔سب سے کم عمر والے بامبے کے میئر یوسف مہر علی اپریل 1935ء سے اگست 1943ء تک بامبے میونسپل کارپوریشن کے ممبر رہے۔ اور پھر 43-1942ء میں بطور میئر بامبے کے لوگوں کی خدمت کی۔ وہ اس وقت تک سب کم عمر کے میئر مانے جانے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ میئر منتخب ہوئے تب لاہور جیل میں قید تھے۔ لیکن جیل سے ہی بامبے کو سنبھالنے کا کام جاری رکھا۔ ملک کی آزادی کے بعد بامبے قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔

کتابوں اور جیل سے گہری دوستی

کتابوں اور جیل سے ان کی گہری دوستی تھی۔ اپنے 47 سال کی عمر میں انہوں نے کئی اہم کتابیں لکھیں وہیں آٹھ بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے۔ ایک بار تو دو سال تک قید رہے۔ 1942ء کی تحریک میں  ان کو جیل دوبارہ میں ڈال دیا گیا۔ جیل میں ہی دل کا شدید دورہ پڑا۔ علاج کے لیے سینٹ جارج ہاسپٹل میں داخل کروایا گیا، لیکن انہوں نے اپنا علاج کروانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جیل میں قید ان کے دو ساتھی بھی اسی پریشانی سے دوچار ہیں، ان کو بھی میری طرح خصوصی علاج کی سہولت ملنی چاہیے۔ حکومت نے ان کی یہ شرط نہیں مانی اور مہر علی نے حکومت کا احسان لینا گوارا نہیں کیا اور دوبارہ جیل پہنچ گئے۔

 1943ء میں جب جیل سے رہا ہوئے تو صحت کافی بگڑ چکی تھی۔ ٹائمس آف انڈیا کے ایک خبر کے مطابق جب انہیں 1943ء میں رہا کیا گیا تب ان کے دوست انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ محض ’ہڈیوں کا ایک بیگ‘ بن کر رہ گئے تھے۔ ڈاکٹروں نے علاج کے ساتھ ساتھ آرام کرنے کا مشورہ دیا لیکن وہ مسلسل سرگرم رہے۔ 1947ء میں جب حالت بہت زیادہ بگڑ گئی، تو علاج کے لیے امریکہ لے جایا گیا۔ یہاں بھی انہیں چین نہیں رہا۔ انہوں نے 1948ء میں نیو یارک میں منعقدہ ورلڈ یوتھ کانگریس میں ہندوستانی وفد کی قیادت کی اور پھر اسی سال میکسیکو میں ورلڈ کانگریس آف کلچر میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی کی نمائندگی کی۔

1948ء کے آخر میں وہ ہندوستان لوٹے اور آتے ہی آزاد ہندوستان میں لوگوں کی بہتر زندگی کے لیے پھر سے سرگرم ہو گئے۔ لیکن اس بار قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ دل کی اس بیماری نے ایک بار پھر انہیں اسپتال پہنچا دیا۔ 2 جولائی 1950 کی صبح ایک بار پھر سے دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔ وفات کے اگلے دن بامبے پوری طرح سے بند رہا اور اس کا اثر کئی دنوں تک دیکھنے کو ملا۔ ان سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بامبے والوں کو وہ کئی سالوں تک یاد رہے۔ وفات کی پہلی سالگرہ پر ان کے نام ایک فنڈ قائم کیا گیا اور پھر اس کے بعد بامبے کے گورنر ڈاکٹر ہرے کرشنا مہتاب نے مہاتما گاندھی روڈ پر مقیم واڈیا بلڈنگ میں مرحوم یوسف مہر علی کی زندگی اور کام کو یادگار بنانے کے لیے لائبریری کا افتتاح بھی کیا۔ آج بھی ممبئی میں ان کے نام پر ایک تنظیم کام کر رہی ہے۔ باوجود اس کے تاریخ کا یہ طالب علم اور قدیم یادگاروں اور مقامات، تاریخی ریکارڈوں اور مخطوطات کے تحفظ اور ان کی حفاظت کی وکالت کرنے والے یوسف مہر علی آج گمنام ہیں اور تاریخ کی صفحات سے مسلسل غائب کیے جارہے ہیں۔