محمد آصف اقبال، نئی دہلی
کہا جاتا ہے کہ زندگی ایک مرتبہ ملی ہے لہٰذا اس کو اس طرح گزارا جائے کہ اس سے حد درجہ فوائد حاصل ہوں۔ فائدے دنیاوی بھی ہوسکتے ہیں اور اخروی بھی اور دونوں جہانوں میں بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ انسان کے نقطہ نظر اور فہم و آگاہی پر منحصر ہے کہ وہ دنیا اور دنیوی زندگی کو کس نظرسے دیکھتا ہے اور اس کے بارے میں وہ کیا عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہے۔ درحقیقت انسانوں کے مختلف گروہ فی زمانہ بے شمار افکار و نظریات سے وابستہ رہے ہیں اور عموماً یہ افکار و نظریات گنجلک شکل میں موجود ہیں۔ جہاں ایک سرے سے انسان وابستہ ہوکر جب آگے بڑھتا ہے تو بے شمار راستے اور ہر راستے میں مزید کئی راہیں نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ گنجان، بے نام و نشان، مبہم اور نامکمل راستوں پر گامزن رہتے ہوئے زندگی کے بیش قیمت دور کو ضائع کردیتا ہے۔ان حالات میں فرد واحد اور مختلف گروہ حقیقت کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود بھی نہیں چاہتے کہ کوئی انہیں سیدھے راستہ کی نشان دہی کرے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس کے منفی و بظاہر مثبت اثرات انسان کی زندگی پر کس طرح رونما ہوتے ہیں؟ یہ سوال اگرچہ بہت اہم ہے اس کے باوجود عموماً اسے نظر انداز کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی جان خود اپنی ہاتھوں سے ختم کر بیٹھتا ہے۔ عام طور پر خودکشی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک دوسروں کی مرضی کے بغیر اپنی جان گنوا دینا، دوسرے وہ اپنے عزیز و اقرباء اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسے خود کشی کرنے کی اجازت دی جائے۔دوسری قسم کی خود کشی جس میں اجازت لے کر جان لی جاتی ہے اسے یوتھنیزیا کہتے ہیں۔ یوتھنیزیا وہ عمل ہے جس میں حد درجہ درد اور تکلیف میں مبتلا شخص یا اس کے متعلقین درد اور تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے زندگی ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوتھنیزیا پس منظر اور جائز و ناجائز کی بحث:
یوتھنیزیا، دردناک اور لاعلاج بیماری میں مبتلا افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کا عمل یا جسمانی عارضے میں مبتلا افراد کا علاج روک کر مرنے کی اجازت دینا ہے۔ چونکہ زیادہ تر ممالک کے قوانین میں اس کے لیے کوئی خاص بندوبست نہیں ہے، اس لیے اسے عام طور خودکشی (اگر خود مریض انجام دے) یا قتل (اگر کسی دوسرے کے ذریعہ انجام دیا جائے) سمجھا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں کئی یورپی ممالک نے اپنے قوانین میں نرمی سے سزا سنانے کے لیے خصوصی دفعات رکھی تھیں اور یوتھنیزیا کے لیے استغاثہ میں حالات کو کم کرنے پر غور کیا گیا تھا۔وہیں قدیم فلسفیوں سقراط، افلاطون اور اسٹوکس کے نزدیک یوتھنیزیا کو اخلاقی طور پر جائز قرار دیا گیا تھا۔برخلاف اس کے روایتی عیسائی عقیدے میں اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ یوتھنیزیا کو قانونی حیثیت دینے کے لیے منظم تحریک کا آغاز انگلینڈ میں 1935 میں ہوا، جب سی کلک ملارڈ نے رضاکارانہ یوتھنیزیا لیگلائزیشن سوسائٹی (بعد میں یوتھنیزیا سوسائٹی) کی بنیاد رکھی۔ سوسائٹی کے بِل کو 1936 میں ہاؤس آف لارڈز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن 1950 میں ہاؤس آف لارڈز میں اسی موضوع پر ایک تحریک پیش کی گئی۔ یوتھنیزیا کو قانونی حیثیت دینے والے ممالک 2001 میں نیدرلینڈز اور 2002 میں بیلجیم تھے۔ 2009 میں جنوبی کوریا کی سپریم کورٹ نے ایک دماغی مردہ خاتون کے خاندان کی درخواست کو منظور کرنے کے اپنے فیصلے میں "عزت کے ساتھ مرنے کے حق” کو تسلیم کیا اور حکم دیا کہ اس سے لائف سپورٹ سسٹم ہٹا دیا جائے۔وہیں یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ T4 پروگرام جو نازی جرمنس کی کوشش تھی، اس میں لاعلاج بیماریوں، جسمانی یا ذہنی طور پر معذور، جذباتی طور پر پریشان اور بوڑھے لوگوں کو مارنے کے لیے ایک یوتھنیزیا پروگرام تیار کیا گیا تھا جسے ہٹلر نے 1939 میں شروع کیا اور 1945 نازی جرمن فوج کی شکست تک خفیہ طور پر قتل و غارت گری کا سلسلہ اس پروگرام کے ذریعہ جاری رہا۔
کن ممالک میں یوتھنیزیا غیر قانونی نہیں ہے؟
چند سال پہلے اٹلی سے خبر آئی کہ وہاں کی اعلیٰ عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے ’ناقابلِ برداشت تکلیف‘ میں ہے تو اس کی ’خودکشی میں مدد کرنا جرم نہیں ہے‘۔یہ اہم فیصلہ اطالوی شخص ڈی جے فیبیو انٹونیانی کے کیس میں دیا گیا جنہوں نے 2017 میں سوئٹزرلینڈ کے ایک یوتھنیزیا کلینک میں آسان موت کو ترجیح دی تھی۔ ڈی جے فیبیو 2014 میں ایک کار حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی اور ہاتھ پیر بھی مفلوج ہوگئے۔ جب انہوں نے اپنی بیماری سے تنگ آ کر ڈاکٹروں کی مدد سے خود کشی کا فیصلہ کیا تو اس پر اٹلی جیسے کیتھولک ملک میں ایک بڑی بحث شروع ہو گئی۔ رومن کیتھولک چرچ نے اس طرح موت کی کھلی مخالفت کی۔ چرچ نے عدالت کے فیصلے کے بعد بھی کہا کہ اس نے عدالت کے اس فیصلے سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے اور اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے ویٹیکن میں ہیلتھ پروفیشنلز کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی بیمار آدمی کی مرنے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اسے مارنے والی دوائی کے استعمال کی لالچ کو رد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوا کی تعریف ہے کہ یہ انسانی زندگی کی خدمت کرتی ہے۔ ابھی تک جن ممالک میں یوتھنیزیا غیر قانونی نہیں ان میں بیلجیئم، کینیڈا، کولمبیا، لگزمبرگ، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ کی چھ ریاستیں (کیلیفورنیا، کولوراڈو، مونٹانا، اوریگون، ورمونٹ اور واشنگٹن) شامل ہیں۔ بیلجیئم ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جہاں یوتھنیزیا کی کھلی اجازت ہے۔
مرنے میں مدد کرنے والے ڈاکٹر کے احساسات:
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بیلجیئم کے ڈاکٹر ڈی لوشٹ کہتے ہیں ’ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ہر چیز کا علاج نہیں کر سکتے تو ہم مریض کی اذیت کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس لیے اگر میں آخری حد تک جاتا ہوں تو میں بطور ڈاکٹر وہی کر رہا ہوں جو میری ذمہ داری ہے۔’میں اسے مریض کو مارنا نہیں کہتا۔ میں اس کی اذیت اور تکلیف کی عمر کو کم کر دیتا ہوں‘۔ ڈاکٹر لوشٹ نے اب تک سو سے زیادہ افراد کی زندگی ختم کی ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں ایک شخص کو دکھایا گیا ہے جس کی وہ زندگی کی آخری رات تھی۔ 82 سالہ مائیکل ایک سابق پولیس افسر تھے جن کو آخری درجے کا جبڑے کا کینسر تھا۔ مائیکل کا درد اتنا شدید تھا کہ انہوں نے کئی مرتبہ خود کشی کا سوچا۔ ان کا کہنا تھا ’میں ابھی تک برداشت کر رہا تھا کیونکہ انسانی وقار بہت اہمیت رکھتا ہے‘۔ان کی بیوی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ٹیوب سے کھانا کھلایا جا رہا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ میں ایک زنجیر پہنے ہوئے کتے کی طرح محسوس کر رہا ہوں جو کہ غیر انسانی ہے۔ جب ڈاکٹر نے انہیں کہا کہ یہ آپ کی زندگی کی آخری رات ہے تو مائیکل کا کہنا تھا ’ہاں کل صبح سب ختم ہو جائے گا۔ یہ کینسر نہیں ہے جو مجھے لے جا رہا ہے، یہ میرا فیصلہ ہے‘۔ ڈاکٹر لوشٹ کہتے ہیں کہ جب مائیکل مرنے جا رہے تھے تو انہوں نے ہم سب کا شکریہ ادا کیا۔
ہندوستانی سماج اور ہندو مذہب میں یوتھنیزیا کا تصور:
نیشنل لائبریری آف میڈیسن ڈاٹ کام پر موجود ریسرچ پیپر میں، جسے ونود کے سنہا، ایس باسو اور ایس سرکھیل نے لکھا ہے، ایک چیپٹر حوالوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ‘ہندو ازم – خودکشی، یوتھنیزیا اور ڈاکٹر کی مدد سے خودکشی’۔ جہاں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ ہندو مت میں، خودکشی کے لیے لفظ آتما گتھا میں بھی ارادے کے عناصر موجود ہیں۔ خود غرضانہ مقاصد کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو مارنے کے ارادے کی ہندومت میں مذمت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ہندو مت نے ان روشن خیال لوگوں کی تعظیم کی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی موت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح پانڈووں نے "مہاپرستھان” یا اپنے ہمالیائی سفر کے ذریعے عظیم سفر کی تعریف کی جب وہ یاترا میں چلتے تھے، ہوا اور پانی پر پھلتے پھولتے تھے جب تک کہ انہوں نے ایک کے بعد ایک اپنے جسم کو چھوڑ دیا تھا۔ ہندو روایت میں موت ایک پیشگی شکل اور نمونے کے طور پر کام کرتی ہے، جس کے ذریعے انسان کے نفس یا روح کو کائناتی عدم استحکام سے جوڑنے والے رشتوں کو مکمل طور پر توڑا جا سکتا ہے اور جس کے ذریعہ لافانی اور آزادی کے حتمی مقاصد کو بالآخر اور یقینی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ ہم نے سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری، رانچی میں ایک مطالعہ ڈیزائن کیا تاکہ ہندوستانی نفسیاتی ماہرین کے مختلف رویوں کو سمجھا جا سکے۔ تحقیق میں کچھ دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ مطالعہ میں حصہ لینے والے 165 نفسیاتی ماہرین میں سے 99 نے سوال نامہ مکمل کیا۔ 55 فیصد سے زیادہ نے PAS کی حمایت کی اور خیال ظاہر کیا کہ اسے قانونی شکل دی جانی چاہیے جبکہ صرف 28 فیصد نے اس خیال کی مخالفت کی۔ فیصلے کا تعین کرنے والے عوامل میں 70 فیصد کیسز میں درد کے متاثرین، 50 فیصد کیسز میں صحت یاب ہونے کی امید کھونے دینے والے مریض، 49 فیصد کیسز میں دماغی صلاحیتوں کا نقصان، 35 فیصد کیسز میں اپنا خیال نہ رکھ پانا اور زندگی کا خراب معیار وغیرہ سامنے آیا۔اس تحقیق نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ہندوستانی سماج سے وابستہ ماہرین کے نظریات کسی ایک مستحکم رائے قائم کرنے میں مانع ہیں۔ برخلاف اس کے خودکشی کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اسے تمام پریشانیوں سے نجات مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گرون پران (Garuda Purana) کے مطابق جب کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو اس کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ ایسے شخص کی روح کو نہ جنت ملتی ہے نہ جہنم۔ اس لیے خودکشی کے بعد روح کا سفر اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔برخلاف اس کے 9 مارچ 2018 کو اپنے سابقہ موقف کے برعکس سپریم کورٹ آف انڈیا نے قتل بہ جذبہ رحم کی اجازت دے دی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کے زیر صدارت پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ دیا ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مریض کسی پیچیدہ اور مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شدید تکلیف واذیت کا شکار ہو تو مریض کی خواہش پر اس کے رشتہ داروں کے کہنے پر یا ڈاکٹر از خود فیصلہ کر کے مریض کو ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا سکتا ہے۔ یوتھینزیا کو جائز قرار دینے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایک تو اس قتل کا مقصد مریض کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے، بلکہ اس کو تکلیف سے بچاناہے۔ اس لیے اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے، اس لیے اسے اپنے آپ کو ختم کرلینے کا اختیار ہونا چاہیے۔یہ ہندوستانی سماج کی وہ صورتحال ہے جہاں یوتھنیزیا جیسے جدید مسائل کا حل مذاہب، افکار و نظریات اور تصورات میں واضح نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانے کا انسان عصر حاضر کے بے شمار مسائل میں کنفیوژن کا شکار ہے۔
تخلیق انسان، یوتھنیزیا اور اسلامی تعلیمات:
اسلام کا اصولی نقطہ نظر یہ ہے کہ زندگی انسان کی ملکیت نہیں ہے بلکہ اس کے ہاتھوں میں اس کے خالق کی امانت ہے۔ اس لیے اسے اپنی خواہش کے مطابق اپنی زندگی کے معاملہ میں تصرف کرنے کا حق نہیں ہے۔ دوسرے، انسان کی زندگی سے صرف اسی کے حقوق متعلق نہیں ہوتے بلکہ اس کے متعلقین کے حقوق بھی متعلق ہوتے ہیں۔لہٰذا خودکشی چاہے جس جذبہ سے کی جائے، اس میں متعلقین کے حقوق مارے جاتے ہیں۔ تیسرے، اس سے بعض سماجی مفاسد کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ممکن ہے بعض اوقات ورثہ، مورث کو جلد موت کی نیند سلا دینا چاہیں یا ان کی کوشش ہو کہ مریض کے علاج پر زیادہ خرچ کرنے کی نوبت نہ آئے۔ لہٰذا اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو ان کے قتل کے لیے قانونی راستہ کھل جائے گا اور یہ بہت سے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے بہت واضح ہدایات کے ساتھ خودکشی کو، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا: جو شخص اپنے آپ کو دھاردار آلہ سے ہلاک کرلے تو یہ آلہ قیامت کے دن اس کے ہاتھ میں رہے گا جس کو وہ دوزخ میں اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا (بخاری) خود کشی کے حرام ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مہلک ہتھیار ہی کا استعمال کیا جائے، اگر کوئی زہریلی شے اس مقصد کے لیے استعمال کی جائے تو اس کی بھی ممانعت ہے۔ خودکشی تو بہر حال انسانی زندگی کا قتل ہے، اگر خود کشی نہ بھی کرے اور موت کی تمنا کرے تو بھی درست نہیں۔ نبی ﷺ فرمایا : تم میں سے کسی شخص کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے(بخاری) اسی لیے اسلام میں نہ دوسرے کے قتل کی اجازت ہے اور نہ اپنے آپ کے قتل کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے(النساء:30-29) قرآن حکیم نے بے شمار واقعات، تعلیمات اور ہدایات کے ذریعہ اہل اسلام کی رہنمائی کی ہے کہ وہ صبر کا دامن ہر حال میں تھامیں رکھیں، اللہ کے رحیم و کریم ہونے پر یقین رکھیں اور ہمیشہ پرامید رہیں۔ اسی سلسلے میں حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کی بیماری کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت دی گئی کہ چونکہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور وہ ہر بات سے واقف بھی ہے، لہٰذا اگر وہ تمہیں کسی بھی طرح کی آزمائش میں ڈالے تو بے صبری کا اظہار نہ کرو بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے، پامردی کے ساتھ صبر و شکر کا دامن تھامے رہو۔ قرآن ہم کو حضرت ایوبؑ کی حددرجہ تکلیف دہ بیماری کا تذکرہ کرتے ہوئے متوجہ کرتاہے کہ۔۔۔یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کر دیا (الانبیا:84-83) یعنی جن تکلیف دہ حالات سے بھی انسان دنیا میں دوچار ہو اس سے نجات دلانے والا اور تکلیف کو خوشی میں بدلنے والا صرف اس کا رب اعلیٰ ہی ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔ وہ اس کو سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے اور اس کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہے۔لہٰذا اسی سے دعا کی جائے اور اسی پر توکل کیا جائے۔ نتیجہ میں انسان دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی اور سرخ روئی حاصل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ یوتھنیزیا کی شکل میں یا کسی بھی شکل میں ہو۔
***
جن تکلیف دہ حالات سے بھی انسان دنیا میں دوچار ہو اس سے نجات دلانے والا اور تکلیف کو خوشی میں بدلنے والا صرف اس کا رب اعلیٰ ہی ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔ وہ اس کو سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے اور اس کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہے۔لہٰذا اسی سے دعا کی جائے اور اسی پر توکل کیا جائے۔ نتیجہ میں انسان دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی اور سرخ روئی حاصل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ یوتھنیزیا کی شکل میں یا کسی بھی شکل میں ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024