یوم کرہ ارض: ماحولیات کے تحفظ کی عالمی کوششیں

آلودگی سے نجات کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال میں اضافہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہم ہر سال 22 اپریل کو "یومِ کرۂ ارض” مناتے ہیں۔ یہ سلسلہ 2009 سے شروع ہوا۔ اس دن کو منانے کے پس پشت اقوامِ متحدہ کا مقصد یہی تھا کہ ہم کرۂ ارض سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو یاد کریں اور اس سے جڑے کسی خاص موضوع پر گفت و شنید ہو۔ سال 2025 کا موضوع "Our Planet, Our Power” قرار پایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ توانائی کے وسائل پر ہمارا بڑھتا ہوا انحصار براہ راست ماحول اور قدرتی وسائل پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم متبادل توانائی کے ذرائع پر سنجیدگی سے غور کریں۔
اقوامِ متحدہ انسانیت کو اس فکر کی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے، کیونکہ سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی دنیا کا بیشتر حصہ کوئلے پر ہی انحصار کرتا ہے۔ ایسا کوئی ملک نہیں جہاں کوئلے کی کھپت میں خاطر خواہ کمی آئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موضوع بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی زیرِ بحث رہتا ہے، کیونکہ کوئلے کے بے تحاشا استعمال سے ماحول اور فضاء میں کاربن کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں دیگر ذرائع مثلاً نیوکلیائی، شمسی، ہوائی اور آبی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
ہمارے ملک میں بجلی کی مجموعی کھپت اس وقت تقریباً 201.445 گیگا واٹ ہے، جس میں سے تقریباً 46 فیصد توانائی متبادل ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔ ہم دنیا میں متبادل توانائی کے تیسرے سب سے بڑے پیدا کنندہ اور صارف بن چکے ہیں۔ اس سے قبل ہمارا مقام پانچواں تھا۔ مستقبل میں امید ہے کہ ہمارا متبادل توانائی پر انحصار سالانہ 5 فیصد کی شرح سے بڑھے گا۔ بائیو انرجی کے شعبے میں بھی یہ شرح 6.5 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔
یاد رہے کہ ہمارے ملک نے ابتدائی ایّام سے ہی شمسی توانائی کے فروغ پر خاصا زور دیا ہے۔ کرناٹک، گجرات، راجستھان، تمل ناڈو اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں نے شمسی توانائی کے میدان میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جس سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس وقت بھارت کی نیوکلیائی توانائی کی صلاحیت 8.818 گیگا واٹ ہے، جب کہ شمسی توانائی 10.257، آبی توانائی 46.9 اور ہوائی توانائی 48.5 گیگا واٹ پر مشتمل ہے۔
گوکہ ہم کوئلہ اور ڈیزل پر اپنا انحصار کم کر رہے ہیں، تاہم یہ اب بھی کافی نہیں۔ حالانکہ ہم نے تمام ذرائع میں اپنی پیداواری صلاحیت کو کافی بڑھایا ہے، لیکن ملک میں کوئلے کی کھپت 824 ٹریلین ٹن سے بڑھ کر 948 ٹریلین ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ گیس کی کھپت 43 فیصد سے 52 فیصد، آبی توانائی 123 سے 162 فیصد، شمسی 37 سے 60 فیصد اور نیوکلیائی توانائی 35 سے 45 فیصد تک بڑھی ہے۔ آج بھی 60 فیصد توانائی کا انحصار کوئلے پر ہے اور یہ شرح مستقبل میں 72 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ہر سال 500 ٹریلین کلو واٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کا مکمل استعمال ابھی نہیں ہو پایا۔
اسی طرح آلودگی بڑھانے والے ایندھن، یعنی ڈیزل پر بھی ہمارا انحصار بتدریج کم ہو رہا ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ وزارتِ پٹرولیم سے وابستہ ادارہ "پلاننگ اینڈ انالیسز سیل” (PPAC) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ڈیزل کی طلب کورونا وبا کے بعد سب سے کم رہی ہے۔ اس دوران صرف 2 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا، جب کہ سابقہ مالی سال میں یہ اضافہ 4.3 فیصد اور 2022-23 میں 12.1 فیصد تھا۔ اس کمی کی بڑی وجوہات میں معاشی سست روی کے ساتھ ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا ہوا استعمال بھی شامل ہے۔
ویسے تو بھارت میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں شروع سے ہی ڈیزل کا غلبہ رہا ہے، لیکن اب پبلک ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کے شعبے میں الیکٹرک گاڑیاں اپنائے جانے کی وجہ سے ڈیزل کی طلب میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ مالی سال 2024-25 میں ڈیزل کی کھپت بڑھ کر 9.14 ملین ٹن رہی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم شرحِ نمو ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈیزل کا استعمال ختم ہو گیا ہے — ملک کی خام تیل کی مجموعی کھپت میں ڈیزل کی شراکت تقریباً 40 فیصد ہے، خاص طور پر ٹرکوں اور زرعی مشینری میں۔
تاہم، شہروں میں تبدیلی تیزی سے آ رہی ہے۔ ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں الیکٹرک بسیں عام ہو گئی ہیں، جبکہ دوسرے درجے کے شہر اور دیہی علاقے بھی آہستہ آہستہ اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ آٹو رکشا، پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلویز میں بھی ڈیزل کا استعمال کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔ آٹوموبائل کمپنیاں بھی ڈیزل کاروں میں سرمایہ کاری کم کر رہی ہیں۔ حکومت نے بھی شفاف ایندھن کے فروغ کے لیے ڈیزل کے کم استعمال کو ترجیح دی ہے۔ اگرچہ زرعی شعبہ کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ڈیزل کا استعمال فوری طور پر ختم ہونا ممکن نہیں، مگر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اس کا کم استعمال ایک مثبت علامت ہے۔
قدرتی گیس بھی متبادل ایندھن کے طور پر ابھر رہی ہے جو کہ تین اہم شعبوں میں استعمال ہو رہی ہے: گھریلو پکوان، CNG اور کیمیائی کھاد (فرٹیلائزر) کی تیاری۔ اندازہ ہے کہ 2030 تک قدرتی گیس پر ہمارا انحصار 60 فیصد تک پہنچ جائے گا، جو ایک بہتر ماحولیاتی مستقبل کی نوید ہے۔ Asian Infrastructure Agency کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ہمیں گھریلو سطح پر توانائی کے معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔
حکومت نے شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے متعدد منصوبے اور سبسیڈی اسکیمیں بھی متعارف کرائی ہیں۔ شمسی اور ہوائی توانائی کے ساتھ ساتھ حکومت نے 2047 تک 9 فیصد توانائی نیوکلیئر ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کے ساتھ حال ہی میں ایک معاہدہ بھی طے پایا ہے، اور 2030 تک 5,00,000 میگا واٹ متبادل ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز کے مطابق، بھارت نے اب تک 67.107 گیگا واٹ توانائی متبادل ذرائع سے حاصل کی ہے، جس میں سے شمسی توانائی 102 گیگا واٹ، ہوائی 48 گیگا واٹ، آبی 46 گیگا واٹ، بایو پاور 16.73 گیگا واٹ، چھوٹے آبی ذرائع 4.94 گیگا واٹ اور نیوکلیئر توانائی 6.78 گیگا واٹ پر مشتمل ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ توانائی کا مسئلہ دو دھاری تلوار کی مانند ہے — اگر نہ ہو تو مسائل، اور اگر بہت ہو تو ماحولیاتی خطرات۔ اس لیے جب ہم متبادل توانائی کے ذرائع پر توجہ دیتے ہیں تو نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کرتے ہیں بلکہ ماحولیات کے تحفظ کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔
***

 

***

 بھارت میں متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، بادی، نیوکلیر اور ہائیڈرو توانائی کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت متبادل توانائی کی پیداوار میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور مستقبل میں ان ذرائع پر انحصار مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ تاہم، ابھی بھی ملک کا زیادہ تر انحصار کوئلے اور ڈیزل پر ہے۔ ڈیزل کی کھپت میں کمی آ رہی ہے، جس کا بڑا سبب الیکٹرک وہیکلز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025