یومِ آزادی کے موقع پر قومی محاسبہ ضروری

مسلمان؛ جدوجہد آزادی کے میر کارواں۔ 77سال بعد بھی قومی ثمرات سے محروم کیوں؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد،حیدرآباد

آزاد بھارت میں ترقی کے لیے مسلمانوں کو بحیثیتِ قوم اپنی منفرد نمائندگی کو مؤثر بنانا ہوگا
ہمارے ملک نے اپنی آزادی کا 76سالہ سفر مختلف نشیب و فراز کوطے کرتے ہوئے پورا کیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بھارتی قوم نے کئی چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنی آزادی اور خود مختاری کو باقی و بر قرار رکھا۔یہ ملک مجاہدین آزادی کی بےمثال قربانیوں کے نتیجہ میں آزاد ہوا ۔ بھارت کو غلامی کے طوق سے نکالنے اور یہاں سے سامراجی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے جو تحریک چلی تھی اس میں سب سے اہم کردار مسلمانوں نے ادا کیا تھا۔ مسلمانوں کے نزدیک بھارت کی آزادی محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھی بلکہ مسلمانوں نے اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے تحریک آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ مسلمان اور غلامی یکجا نہیں ہو سکتے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیا کہ آزادی اور حریت انسانوں کا فطری حق ہے، اسے کوئی طاقت چھین نہیں سکتی۔ انہی اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کافتویٰ دیا۔ جدوجہد آزادی کی دو سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے مختلف ادوار میں انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہوئے انہیں اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بھارت کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور دار ورسن کی منزلوں کو طے کیا۔ انڈومان اور نکوبار کے قید خانے مسلمان اسیروں سےآباد رہے۔ جبر و استبداد کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے مسلم مجاہدین آزادی نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن سامراجی طاقت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ جدوجہد آزادی کی پوری تاریخ مسلمانوں کی ناقابل فراموش قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بنگال میں سراج الدولہ نے اور میسور میں ٹیپو سلطان نے جس بے جگری کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا اس کی ساری تفصیل تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی گئی ہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی میں مسلمان ہی سب سے آگے تھے۔ انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر انگریزی اقتدار کو چیلنج کیا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں یہ عظیم بغاوت ہوئی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ مادرِ ہند کے دوسرے طبقے انگریزوں سے راہ و رسم بڑھا کر ان سے وفاداری کی قسمیں کھا رہے تھے یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے عہدہ اور منصب کو ٹھکرا کر ملک کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ انگریز یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان ہی ان کے اصل دشمن ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا کہ ’ایک انگریز کا یہ شیوہ ہو گیا تھا کہ وہ ہر مسلمان کو غدار اور باغی سمجھتا تھا۔ ہر ایک سے پوچھتا تھا کہ تم ہندو ہو یا مسلمان؟ جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی مار دیتا تھا ‘
یاد رہے کہ بھارت کی آزادی میں مسلمانوں نے میرِ کارواں کا رول ادا کیا۔ ان کی سرکردگی میں آزادی کی تحریک کامیابی کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکی اور یہ ملک دو سو سال کی جاں گسل جدوجہد کے بعد 15؍ ا گست 1947کو آزاد ہوا۔ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے ہی صور پھونکا تھا۔ بعد میں دیگر طبقے بھی تحریک آزادی کے قافلے میں شامل ہوئے۔ مسلمانوں کا آزادی وطن کے لیے جو نمایاں رول رہا اس کا مقابلہ ملک کا کوئی دوسرا طبقہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیپو سلطان کی میدان جنگ میں شہادت کے بعد انگریز جنرل نے کہا تھا کہ ’اب بھارت ہمارا ہے‘ ٹیپو سلطان شہید کا یہ جملہ ضرب المثل بن چکا ہے ’’شیر کی ایک دن کی زند گی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ آزادی کا یہی جذبہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف ڈٹے رہے ۔ ان کی بے مثال قربانیاں رنگ لائیں،ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد یہ ملک آزاد ہوا۔
آزادی کے بعد بھارت کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ مسلمانوں نے جن امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ اس ملک کو اپنا خونِ جگر دے کر آزاد کر ایا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے آزادی کے بعد مسلمانوں کو اس آزاد ملک میں ایک باو قار مقام و مرتبہ ملے گا۔ لیکن آزادی کے ساتھ ہی مسلمانوں کو احساس کم تری میں مبتلا کرنے کی منظم کوششیں ہونے لگیں۔ ملک کی آزادی سے پہلے اس کے بٹوارہ کا ذمہ دار مسلمانوں کو بتا کر یہ کہا جانے لگا کہ تم نے تو ملک کو تقسیم کرکے اپنا حصہ لے لیا۔ اب اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو ہمارے رحم وکرم پر تم کو رہنا ہوگا۔ تقسیمِ ملک کی ذ مہ داری مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال کر ان کو ملک کے قومی ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ آزادی کے 76سال گزر جانے کے بعد بھی اس ملک میں فرقہ پر ست یہ نعرے لگاتے ہیں کہ ’مسلمانوں کے دو ہی استھان ایک پاکستان دوسرا قبرستان‘ مسلمانوں کے خلاف اس جارحانہ رویہ کے نتیجہ میں مسلمان حاشیہ پر لا کر کھڑا کردیے گئے۔ ملک کے تمام طبقے آج ہرقسم کے فائدے اٹھارہے
ہیں لیکن مسلمانوں کو ایک دائمی اور مستقل اقلیت کا احساس دلا کر ان کے جائز حقوق بھی انہیں نہیں دیے جا رہے ہیں۔ ملک کی آبادی کا چودہ فیصد حصہ ہونے کے باوجود زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں ان کے ساتھ انصاف کیا جا رہا ہو۔ اب تو صورت حال اتنی بھیانک ہو چکی ہے کہ سفاکی اور بربریت کا ننگا رقص مسلمانوں کے خلاف رچا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی پاس و لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ جو شر پسند عناصر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی املاک کو تباہ و برباد کرتے ہیں انہیں حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ آج مسلمانوں کے کتنے ہی قاتل نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ انہیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ عدالتوں کی جانب سے ان پر فردِ جرم عائد ہونے کے باوجود ایسے قاتلوں اور زانیوں کو حکومت جیل سے رہا کر دیتی ہے۔ دو سال پہلے عین یوم آزادی کے دن گجرات حکومت نے 2002کے گجرات فسادات کے ملزمین کو جنہیں عدالت نے عمر قید کی سزا دی تھی۔ انہیں عام معافی دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ انسانیت کو شرمسار کردینے والے جرائم میں ملوث مجرمین کو عام معافی دے دینا انصاف کے تقاضوں کے دھجیاں اڑادینے کے مترادف ہے۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں ناانصافی کا یہ سلسلہ جا ری ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گجرات فسادات کے دوران ایک بے گناہ خاتون بلقیس بانو کی گیارہ درندہ صفت عناصر نے اجتماعی عصمت ریزی کی تھی۔ اس خاتون کی چار سالہ لڑکی کوبیدردی کے ساتھ قتل کرنے کے علاوہ اس خاندان کی مزید چار خواتین کی بھی اجتماعی عصمت ریزی کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ جب یہ معاملہ منظر عام پر آیا تو تحقیقات ہوئیں ۔2008 میں عدالت کی جانب سے ان ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی گئیں لیکن افسوس کہ انہیں عام معافی دے کر مظلوموں کے زخموں کو پھر سے ہَرا کر دیا گیا۔ گجرات کی حکومت نے یہ کام ایسے وقت انجام دیا جب کہ ملک کے وزیراعظم دہلی کے لال قلعہ سے یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں خواتین کی عزت و عفت کے تحفظ کے بڑے دعوے کر رہے تھے۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا گیا۔ حالیہ دنوں میں یوپی میں کانوڑ یاترا کے حوالے سے حکومت نے احکام جاری کیے کہ تجارتی اداروں پر مالکین کے نام جلی حروف میں لکھے جائیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کی معیشت کو نقصان پہنچانا تھا۔ عدالت نے بی جے پی حکومت کے اس من مانی حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔
بھارت کی آزادی کے اس 76 سالہ سفر کے دوران مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس اتنا گہرا کر دیا گیا کہ وہ اپنی معاشی، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی ترقی کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل بھی نہ بنا سکے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مسلمانوں کو ہنگامی اور وقتی مسائل میں الجھا کر اس طرح رکھ دیا گیا کہ اس کو حل کرنے میں ہی آزادی کی پون صدی نکل گئی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ جہاں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلا گیا وہیں انہیں معاشی حیثیت سے کمزور کر دیا گیا۔ جہاں جہاں مسلمان معاشی طور پر مضبوط تھے وہاں فسادات کے ذریعہ ان کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ تعلیم کے شعبہ میں انہیں پسماندہ کر کے رکھ دیا گیا۔ بیشتر مسلم بستیوں میں پولیس اسٹیشن تو قائم کیے گئے تاکہ مسلمانوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے لیکن مسلم آبادیوں میں اسکول اور کالج قائم نہیں کیے گئے۔ آزادی کے بعد مسلمان تعلیم میں ملک کے دیگر طبقوں سے کتنے پیچھے ہوگئے اس کا پتہ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پستی کا اثر زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی پڑا۔ تعلیمی نصاب میں ایسی چیزوں کو شامل کر دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے عقیدہ سے ٹکراتی ہیں۔ تعلیم کو زعفرانی رنگ دے دیا گیا۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو چھیننے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو اقتدار کے سرچشموں سے دور کر دیا۔ملک کی بیس کروڑ آبادی کی کوئی مؤثر سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو محض ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔ مسلمان ان پارٹیوں کے پرچم ڈھو کر خوش ہوتے رہے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی آواز صدا بہ صحرا ہو تی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو ان کے دین اور شریعت سے بھی دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ہر تھوڑے دن کے بعد یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ مختلف گوشوں سے ہوتا رہا۔ دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کو نظر انداز کر کے یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے مطالبے کے پس پردہ یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کی شریعت کو ختم کر دیا جائے اور انہیں ہندو تہذیب میں ضم کرلیا جائے ۔گزشتہ دنوں مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں پر قبضہ کے خاطر پارلیمنٹ میں نیا وقف ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ اس نئے قانون وقف کے ذریعہ مسلمان اپنے اسلاف کی جانب سے وقف شدہ جائیدادوں سے محروم ہوجائیں گے۔ ملک میں دس ہزار سے زائد وقف جائیدادیں ہیں۔ یہ جائیدادیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی گئیں ہیں لیکن حکومت ان کو ہڑپنے کی نیت سے نیا وقف ایکٹ لے آئی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے دینی مداراس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی مدارس کو ختم کر دیا گیا۔ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بناکر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو چھینا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ آزادی کے 76سال کے دوران بھارت کے مسلمانوں پر چہار طرفہ یورش ہوتی رہی۔ اس کا ایک سرسری جائزہ لیا گیا۔ ملک کے کسی دوسرے گروہ پر اتنی مصیبتیں آتیں تو وہ اپنا وجود ہی کھو دیتے۔ لیکن لاکھ آزمائشوں کے باوجود اس ملک میں مسلمان دین و شریعت کے ساتھ زندہ ہیں اور وہ ہر طوفانِ بلا خیز کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو بھی اپنا جائزہ لیتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ اس میں ان کی بے حسی یا بے شعوری کا کتنا دخل ہے۔ مسلمانوں نے بھی آزادی کے بعد اپنی منزل کا تعین نہیں کیا اور وہ دوسروں پر انحصار کر تے رہے۔ ایک دور اندیش، مخلص ا ور بے باک مذہبی اور سیاسی قیادت کے بغیر مسلمان اس ملک میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ہر سطح پرذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر منصوبہ بند انداز میں ٹھوس اقدامات کرنا ہوگا ورنہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو مزید آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا۔
***

 

***

 بھارت کی آزادی کے اس 76 سالہ سفر کے دوران مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس اتنا گہرا کر دیا گیا کہ وہ اپنی معاشی، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی ترقی کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل بھی نہ بنا سکے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مسلمانوں کو ہنگامی اور وقتی مسائل میں الجھا کر اس طرح رکھ دیا گیا کہ اس کو حل کرنے میں ہی آزادی کی پون صدی نکل گئی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ جہاں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلا گیا وہیں انہیں معاشی حیثیت سے کمزور کر دیا گیا۔ جہاں جہاں مسلمان معاشی طور پر مضبوط تھے وہاں فسادات کے ذریعہ ان کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ تعلیم کے شعبہ میں انہیں پسماندہ کر کے رکھ دیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024